• 12 مئی, 2025

حضرت قاضی سید غلام شاہ آف بھیرہ کے دو نامور فرزند صحابہؓ

صحابی حضرت مسیح موعودؑ

حضرت قاضی غلام شاہ بھیرہ کے سادات خاندان میں سے تھے اور احمدیہ جماعت کے ابتدائی خاندانوں میں اس خاندان کا شمار ہوتا ہے۔ آپ کے دو بیٹے یعنی حضرت قاضی سید امیر حسین اور خان بہادر حضرت قاضی سید غلام حسین بھی صحابہ مسیح موعودؑ میں سے تھے۔ حضرت قاضی سید غلام شاہ نے سو سال عمر پائی اور 1909ء میں فوت ہوئے بھیرہ میں ان کے آبائی خاندان کے قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے قادیان میں حضرت قاضی سید غلام شاہ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ ذیل میں آپ کے دونوں بیٹوں (جو صحابہ مسیح موعودؑ تھے) کا ذکر کرنا مقصود ہے۔

1۔حضرت قاضی سید امیر حسین فاضل

آپ صحابہ مسیح موعودؓ میں معروف اور کبار صحابہؓ میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کا ذکر کئی مقامات پر خود حضرت مسیح موعودؓ نے فرمایا ہے۔ آپ 313 صحابہ میں سے تھے (انجام آتھم میں 313 صحابہ کی فہرست میں نمبر 90 پر آپ کا نام ہے) 1892ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں جو لوگ شامل ہوئے ان کے نام حضرت مسیح موعودؑ نے آئینہ کمالات اسلام میں درج فرمائے ہیں۔ چنانچہ نمبر 6 پر آپ کا نام لکھا ہوا ہے۔ سید قاضی امیر حسین پروفیسر عربی مدرسہ امرتسر بھیرہ ضلع شاہ پور آپ اوائل میں ہی بھیرہ سے دینی تعلیم کے حصول کے لئے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور چلے گئے تھے اور فارغ التحصیل ہو کر امرتسر میں عربی کے پروفیسر لگ گئے تھے۔ 1891ء میں آپ نے بیعت کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سے آپ کا بڑا قریبی تعلق تھا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کی والدہ کے کفن دفن کا کام بھی آپ نے سرانجام دیا تھا۔

آپ جلد ہی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت پر لگ گئے اور مدرسہ احمدیہ قادیان کے قیام پر غالباً آپ ہی ہیڈماسٹر مقرر ہوئے۔ آپ کے شاگردوں میں بڑے چوٹی کے علماء خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس اور خالد احمدیت محترم مولانا ابوالعطاء جالندھری جیسی شخصیات شامل ہیں۔ مولانا ابوالعطاء نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اپنے بعض ذاتی واقعات ’’الفرقان‘‘ رسالہ میں بھی شائع کئے ہیں جن میں حضرت قاضی سید امیر حسین شاہ اور ان کی بھیرہ کی زبان کی بعض اصطلاحوں کا ذکر ہے۔

حضرت خلیفہ اوّلؓ نے حقائق الفرقان جلد دوم میں سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 2 کی تفسیر میں آپ کا ذکر بھی فرمایا ہے۔

فرمایا: ’’ہمارے قاضی صاحب (قاضی امیر حسین مرتب) اس کے معنے کیا کرتے تھے کہ یہ ہجرت کا بیان ہے۔‘‘
بھیرہ کی تاریخ احمدیت مؤلفہ فضل الرحمن بسمل غفاری کے مطابق آپ کی پیدائش 1864ء کی ہے بیعت 1891ء اور وفات 1930ء کی ہے۔ آپ کے بھائی خان صاحب قاضی سید غلام حسین شاہ اپنی سوانح عمری میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

ہمارے یہ بھائی دین کے بہت بڑے عالم تھے اور حضرت مسیح موعودؓ کے خاص رفیق تھے۔ 1930ء میں قریباً 90 سال کی عمر میں قادیان میں ہی فوت ہو کر مقبرہ بہشتی کے قطعہ خاص صحابہ میں مدفون ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں ہوں ان پر اور ان کی آل اولاد پر۔

2۔خان صاحب حضرت قاضی سید غلام حسین شاہ

قاضی سید غلام حسین شاہ صاحب حضرت سید غلام شاہ کے بچوں میں حضرت مسیح موعودؓ کی پہلے بیعت کرنے والے تھے آپ اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں۔

ان ایام میں قادیان میں لنگر خانہ سے کھانا کھانے والے درجن بھر آدمی ہوتے تھے۔ حضرت صاحبؑ سے مل کر کھانا تناول فرمایا کرتے تھے۔ ایک دن ظہر کی نماز کے بعد حضرت حکیم فضل الدین نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی اور میری طرف اشارہ کیا کہ شاہ صاحب بیعت کرنا چاہتے ہیں حضورؑ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ یہ ابھی بچے ہیں اور ہم بچوں کی بیعت نہیں لیا کرتے۔ چند روز کے بعد جب حضرت حکیم صاحب نے دوبارہ بیعت کے واسطے عرض کی تو حضورؑ نے منظور فرما لیا اور میرا دایاں ہاتھ اپنے دائیں دست مبارک میں ہتھیلی سے ہتھیلی ملا کر مصافحہ کی طرح پکڑ کر فرمایا ’’کہو میں احمد کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں جن میں کہ میں مبتلا تھا (اپنا اسم مبارک احمد فرمایا غلام احمد نہیں فرمایا)‘‘
’’اس دن میں اکیلا ہی بیعت کرنے والا تھا اور یہ 1897ء کا آغاز تھا۔ ازاں بعد ایک دوست نے میرا نام پتہ رجسٹر کرلیا اور مجھے دس شرائط بیعت جو کہ مطبوعہ تھیں دے دی گئیں۔‘‘

آپ کی سوانح عمری بڑی ایمان افروز ہے آپ کو اپنی ویٹرنری ڈاکٹری کی تعلیم کے دوران بڑی مخالفت اور غیرمعمولی تعصب کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کے ساتھ بڑے صبر اور استقلال سے تعلیم کو مکمل کیا اور اگرچہ تعصب کی وجہ سے آپ کے پروفیسر Internal Exam میں ہمیشہ صفر نمبر ہی دیتے رہے لیکن خدا کی قدرت جب External Exam ہوا تو انتہائی مخالفت اور تعصب کے باوجود آپ اللہ کے فضل سے معجزانہ طور پر اول آگئے اور آپ کو کئی میڈل اور نقد انعام ملے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں۔ قادیان جا کر ان انعامات کو میں نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں پیش کیا اور کچھ نقدی بھی نذر کی۔ انعامات کی کامیابی کو دیکھ کر حضورؑ بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔

(سوانح عمری ص55)

آپ کثیر الاولاد تھے اور معلوم ہوتا ہے آپ کی نسل زیادہ تر امریکہ میں آباد ہے۔ ایک بیٹا ڈاکٹر سید رفیق احمد شاہ بخاری لاہور میں تھے۔

حضرت قاضی سید غلام حسین سروس کے دوران افریقہ اور پاک و ہند میں کئی جگہوں پر متعین رہے اور آپ کو سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ مقدور بھر خدمت دین کی بھی توفیق ملتی رہی۔ جب ہمارے والد صاحب 1951ءمیں بھلوال میں گورنمنٹ ڈسٹرکٹ بورڈ ہائی سکول میں انگلش ٹیچر تھے تو اس وقت حضرت خان صاحب ہی بھلوال جماعت کے صدر تھے اور ان کا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ساتھ اس زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ بھی ہے۔ والد صاحب لکھتے ہیں:

تقریر سن کر میں نے سید غلام حسین شاہ کو رپورٹ سنائی۔ ان کے پاس اتفاق سے تحفہ قیصریہ میز پر رکھی تھی۔ کتاب اٹھا کر فرمانے لگے میں ابھی عطاء اللہ شاہ بخاری سے مطالبہ کرتا ہوں کہ یہ الفاظ اس کتاب میں سے دکھا دے۔ میں بھی ہمراہ گیا۔ عطاء اللہ صاحب اپنی قیام گاہ سے چل کر واپسی کے لئے اڈہ پر چلے گئے تھے۔ ہم بھی وہاں پہنچے وہ بس میں سوار تھے۔ شاہ صاحب نے عطاء اللہ صاحب سے کہا کہ ’’دیکھو میں بخاری سید ہوں اور احمدی ہوں آپ احمدیت انگریز کا خود کاشتہ پودا‘‘ اس کتاب سے دکھا دیں تو ہم احمدیت کو چھوڑ دیں گے۔ عطاء اللہ شاہ اُٹھ کر ان سے لپٹ گئے اور کہا تم میرے بخاری سید بھائی ہو۔ وہ باتیں سٹیج کی تھیں۔

آپ نے 75 سال عمر پائی اور 15 ؍اکتوبر 1955ء میں فوت ہو کر بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ صحابہ مسیح موعودؑ میں دفن ہوئے۔

(قطعہ نمبر7 لائن 19 قبر 4)

اللہ تعالیٰ آپ کے درجات اپنے قرب میں بڑھاتا رہے۔

(انجینئر محمود مجیب اصغر)

پچھلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جنوری 2020