آنحضور ﷺ نے اپنے اعلیٰ نمونہ اور اسؤہ حسنہ کی برکتوں سے دنیا کو مالا مال کر دیا۔ ہر گروہ اور طبقہ کے انسانوں کے لئے آپؐ رحمت کا بادل بن کر برستے رہے۔ طبقۂ نسواں پر بھی آپؐ نے بے انتہا کرم فرمائے۔ اس کی عزت و احترام کو قائم فرمایا۔ اس کے حقوق مقرر کئے اس سے روا رکھے جانے والے مظالم اور ناانصافیوں کا قلع قمع فرمایا۔ آپؐ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی کامل کتاب اور آخری شریعت قرآن مجید میں تفصیل کے ساتھ عورتوں اور بیویوں کی تکریم اور ان کے حقوق کا ذکر ہے۔ اس مضمون میں قرآن کریم اور اسوۂ رسول ﷺ کی روشنی میں بیویوں سے حسن سلوک سے متعلق اسلام کی تعلیم اختصار سے پیش کی جا رہی ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ عورتوں کے جذبات کا خیال رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ فرمایا۔
ترجمہ:اور اللہ نے تمہارے لئے تم میں سے (یعنی تمہارے ہی جیسے جذبات رکھنے والی) بیویاں بنائی ہیں (سورۃ النحل آیت:73) تفسیر صغیر میں اس آیت کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں کہ
’’قرآن کریم میں ہے مِّنْ أَنفُسِكُمْ اور اقرب الموارد اور شرح مائۃ عامل میں لکھا ہے کہ من کے معنی بعض کے بھی ہوتے ہیں۔ اس کی رو سے اس آیت کے یہ معنے بنیں گے کہ تمہاری بیویاں ان ماں باپ کی بیٹیاں ہیں جو تمہاری طرح کے ہیں۔ اس لئے ان کے جذبات بھی وہی ہیں جو تمہارے ہیں‘‘
(تفسیر صغیر صفحہ340)
پھر بیویوں سے حسن سلوک کی تعلیم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
ترجمہ:اور ان سے اچھا سلوک کرو (النساء:20) پھر اس کے ساتھ ہی ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے اللہ تعالیٰ خاوندوں کو یاد دلاتا ہے کہ
اگر تم انہیں ناپسند کرو تو (یاد رکھو کہ یہ) بالکل ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت (سا) بہتری (کاسامان) پیدا کر دے۔
(النساء آیت:20)
پھر میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمہارے لئے ایک (قسم کا) لباس ہیں اور تم ان کے لئے ایک (قسم کا) لباس ہو۔
(البقرہ آیت:188)
تفسیر صغیر کے حاشیہ میں درج ہے کہ
لباس سے یہ مراد ہے کہ خاوند کی وجہ سے لوگ عورت پر الزام لگانے سے ڈرتے ہیں اور عورت کی وجہ سے خاوند پر الزام لگانے سے ڈرتے ہیں۔ پس وہ ایک دوسرے کا لباس ہیں یعنی ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘
(تفسیر صغیر حاشیہ بر صفحہ 40)
لباس کے جس قدر بھی مقاصد اور فوائد ہیں ان سب پر غور کیجئے انسان لباس کے فوائد اور برکات کا قائل ہو جاتا ہے پس میاں بیوی ہر دو کو اپنے اپنے لباس کی قدر کرنی چاہئے اور اسے ہر قسم کے نقصان اور میل کچیل سے بچاتے ہوئے لباس تقویٰ بنا کر اپنے خالق کی رضا اور محبت حاصل کرنی چاہئے۔ پس معاہدہ نکاح کے بعد اس نعمت خداوندی کی ہرطرح سے قدر کرتے ہوئے اپنے رب کریم کا شکر بجا لانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور جس طرح ان (عورتوں) پر کچھ ذمہ داریاں ہیں(ویسے ہی) مطابق دستور انہیں بھی (کچھ حقوق) حاصل ہیں۔
(البقرہ: 229)
تفسیر صغیرمیں حاشیہ پر مندرجہ ذیل نوٹ ہے۔
عورتوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ تمہارے حقوق کی حفاظت ہم نے کر دی ہے اور جس طرح مردوں کو تم پر بعض حق دئیے ہیں تم کو بھی ان پر بعض حق دئیے ہیں۔
(تفسیر صغیر صفحہ 55)
عورتوں کے وراثتی اور دیگر بہت سے حقوق کو جس احسن اور کامل طور پر دین حق نے بیان کیا ہے ان کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ بیویوں سے حسن سلوک کے بارے میں اب حضرت بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ پیش کیا جاتا ہے۔
آنحضور ﷺ فرماتے ہیں کہ
’’ایمان کے لحاظ سے کامل مومن اور اخلاق کے اعتبار سے ان میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو ان میں سے اپنے اہل و عیال پر سب سے زیادہ مہربان اور مشفق ہے۔‘‘ (جامع ترمذی) میاں بیوی کی رفاقت زندگی بھر کے لئے ہوتی ہے اور اس میں ضروری نہیں کہ اپنے ساتھی اور رفیق کی تمام ادائیں اور سب عادات ہمیشہ پسند آئیں یا ایک دوسرے کی منشاء کے مطابق ہوں۔ طبائع کا فرق اور فاصلہ درگزر، بلند حوصلہ اور شیریں نصیحت اور عمدہ نمونہ سے آہستہ آہستہ دور کیا جا سکتا ہے اور جو خوبیاں پسندیدہ ہیں ان کی خاطر دوسری ناپسندیدہ باتوں سے اغماض و چشم پوشی کرتے ہوئے دعاؤں اور عمدہ نصیحت کے طریق سے کام لینا چاہئے۔ رسول کریم ﷺ کی یہ نصیحت اور ارشاد حرز جان بنانے کی سعادت حاصل کرلی جائے تو میاں بیوی کی زندگی بہت خوشگوار ہو سکتی ہے۔
آپؐ فرماتے ہیں کہ
’’کوئی صاحب ایمان مرد، صاحب ایمان عورت سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی ایک خُو اُسے ناپسند ہے تو اس کی دوسری خُو یا وصف اسے پسند بھی تو ہے۔‘‘
(صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سب سے اچھے وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں سب سے اچھے ہیں۔
(جامع ترمذی)
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا
تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی بچوں) سے سب سے بہتر سلوک کرنے والا ہے اور میں تم سب سے زیادہ اپنے اہل سے اچھا سلوک کرتا ہوں۔
(ابو داؤد)
بخاری شریف کی اور ایک اور حدیث میں جو حضرت ابوہریرہؓ سے ہی مروی ہے حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ
جو شخص اللہ پر اور آخری دن (قیامت) پر ایمان لاتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کو ایذا ء نہ پہنچائے اور میں تمہیں بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کرتا ہوں کیونکہ عورتیں ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہیں اور پسلی کا زیادہ ٹیڑھا حصہ ہی زیادہ اونچا ہوتا ہے اور اگر تم پسلی کو بالکل سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اسی حالت میں چھوڑ دو گے تو اس کی طبعی کجی قائم رہے گی۔ پس میری نصیحت مانو اور عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کے طریق پر گزارہ کرنے کی کوشش کرو۔
حضرت مصلح موعودؓفرماتے ہیں کہ
’’رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اے لوگو! عورتوں سے زیادہ سختی کا معاملہ نہ کیا کرو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ اگر تم زیادہ زور دو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی سیدھی نہیں ہو سکے گی…… رسول کریم ﷺ نے عورت کے ساتھ انسان کے تعلق کی مثال بیان فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ تم عورت سے تعلق رکھتے وقت پسلی کی مثال کو اپنے سامنے رکھا کرو پسلی اگر ایک طرف پوری طرح جھکی ہوئی ہوتی ہے اور اس کا رخ انسانی قلب کی طرف ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ جسم میں ایک علیحدہ وجود بھی نظر آتی ہے گویا ایک ہی وقت میں دونوں باتیں اس میں دکھائی دیتی ہیں وہ جسم کے ساتھ بھی پیوست ہوتی ہے اور اس کا ہر حصہ علیحدہ علیحدہ بھی نظر آتا ہے۔ پس درحقیقت اس مثال میں رسول کریم ﷺ نے مرد اور عورت کے تعلقات کا ذکر کیا ہے اور عورت کو پسلی سے مشابہ قرار دے کر اس سے حسن سلوک کرنے کی طرف نہایت لطیف پیرایہ میں اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ غور کرکے دیکھ لو دنیا میں جس قدر رشتے پائے جاتے ہیں ان میں سے صرف عورت کا ہی ایک ایسا رشتہ ہے کہ ایک طرف تووہ اپنے خاوند کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتی ہے اور دوسری طرف اگر اسے الگ کرو تو وہ الگ بھی ہو جاتی ہے۔ ماں بیٹی کا رشتہ کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتا۔ باپ بیٹے کا رشتہ کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتا بھائی بھائی کا رشتہ کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتا لیکن خاوند اور بیوی کا رشتہ ایسا ہے کہ وقت آنے پر وہ ٹوٹ بھی سکتا ہے…… پس اس حدیث میں رسول کریم ﷺ نے اس امرکی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ خاوند اور بیوی کے تعلقات جہاں بے انتہا محبت پر مبنی ہوتے ہیں وہاں یہ تعلق ایسا نازک بھی ہے کہ بعض اوقات آپس میں نفرت بھی پیدا ہوجایا کرتی ہے اس لئے عورتوں پر زیادہ سختی نہ کیاکرو۔ بے شک عورت کی اصلاح کی کوشش کرو لیکن ایسا نہ ہو کہ تمہاری سختی کی وجہ سے عورت کا دل تمہاری طرف سے پھر جائے اور وہی جو تم پر جان دیتی تھی تمہیں چھوڑنے پر آمادہ ہو جائے۔‘‘
(اسوۂ حسنہ، تقریر جلسہ سالانہ 1943ء بمقام قادیان صفحہ 120 تا 122)
بیویوں کے بارے میں آنحضور ﷺ کی ایک اور ہدایت یہ ہے کہ ان کی غذا اور لباس کا بھی خاص طور سے خیال رکھا جائے چنانچہ حضرت حکیم بن معاویہ قشیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے؟ فرمایا کہ جب تم کھاؤ تو اسے کھلاؤ اور جب تم پہنو تو اسے پہناؤ اور اس کے منہ پر نہ مارو اور اس کو بدزیب نہ بناؤ اور اس کو الگ نہ چھوڑو مگر گھر ہی میں (یعنی کسی بات پر سبق سکھانے کے لئے) گھر میں ہی الگ کرو گھر سے باہر نہ نکالو۔
(ابو داؤد۔ مشکوٰۃ)
بیویوں کے مابین عدل کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان عدل نہ کرے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں اٹھے گا کہ اس کے جسم کا ایک دھڑ الگ ہو گیا ہوگا۔‘‘
(مشکوٰۃ بروایت حضرت ابو ہریرہ ؓ)
اس بارے میں آنحضور ﷺ کا نمونہ نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا۔ آپ روزانہ ’’بعد عصر ہر ایک بیوی کے پاس اس کے مکان پر تشریف لے جاتے اور ان کی ضروریات معلوم کرتے پھر بعد نماز مغرب سب سے ایک مختصر ملاقات فرماتے اور شب کو مساویانہ طور پر باری بار ی ہر ایک گھر میں استراحت فرمایا کرتے تھے۔ ہر بیوی کا مکان الگ تھا اور سب مکان باہم پیوست تھے۔ فتح خیبر کے بعد حضورؐ نے ہر ایک بیوی کے لئے اسّی وسق کھجور اور بیس وسق جو سالانہ مقرر کر دئیے تھے۔ دودھ کے لئے ہر بیوی کو ایک ایک دودھ دینے والی اونٹنی ملا کرتی تھی۔‘‘
’’حضر میں سب بیویوں کے ہاں روزانہ قیام کی باری مقرر تھی مگر سفر میں روانگی کے وقت قرعہ اندازی کی جاتی اور جس بیوی کا نام نکلتا۔ حضورؐ اس کو سفر میں ساتھ لے جاتے۔‘‘
ایک روز حضور اکرم ﷺ کے گھر میں فاقہ تھا اتفاق سے ایک عجمی ہمسائے نے آپؐ کی دعوت کی رسول اللہؐ نے فرمایا عائشہ بھی ساتھ ہوں گی؟
میزبان ہمسائے نے کہا کہ ’’نہیں‘‘ کیونکہ اس نے ایک ہی آدمی کے لئے دعوت کا سامان کیا تھا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ اگر عائشہ کی دعوت نہیں تو پھر میں بھی قبول نہیں کرتا۔
ایک دفعہ رسول اکرم ﷺ کی زوجہ ام حبیبہ ؓ بنت ابو سفیان سے ان کے بھائی معاویہ ملنے آئے ان دونوں بہن بھائیوں کا آپس میں بہت پیار تھا۔ وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ رسول اکرم ﷺ نے ام حبیبہ ؓ کو مخاطب کرکے فرمایا۔
ام حبیبہ ؓ کیا معاویہ تمہیں بہت پیارا ہے؟
ام حبیبہ ؓ نے جواب میں کہا۔
ہاں! بھائی مجھے بہت پیارا ہے۔
یہ سن کر رسول اکرم ﷺ نے فرمایا۔
اگر یہ تمہیں بہت پیارا ہے تو مجھے بھی بہت پیارا ہے۔
بیویوں کی دلجوئی اور بیویوں کے قریبی رشتہ داروں سے بھی حسن سلوک سے پیش آنے کی یہ کیا ہی حسین اور دلکش مثال ہے۔
رسول اللہؐ کا حضرت عائشہؓ کو حبشیوں کے کرتب اور تماشے دکھانا اور ایک دوڑ میں حضرت عائشہ کا مقابلہ کرنا وغیرہ واقعات بتاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گھر کے ماحول کو ہلکا پھلکا رکھتے۔ ہر جائز طریقہ سے اپنی بیویوں کی دلداری و دلجوئی کا خیال رکھتے اور ان سے ہنستے مسکراتے ایام زندگی گزارتے۔ ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کسی برتن میں پانی پیا تو رسول اللہ ؐ نے اسی برتن میں اسی جگہ منہ لگا کر پانی پیا جہاں حضرت عائشہ ؓ نے منہ لگا کر پانی پیا تھا۔
ایک دفعہ حضرت صفیہ ؓ رو رہی تھی رسول اللہؐ نے دریافت فرمایا:۔
کیوں روتی ہو؟ حضرت صفیہ ؓنے جواب دیا۔ حفصہ ؓ نے مجھے طعن دیا ہے کہ تو یہودن ہے۔ ہم رسول اللہؐ کی صرف بیویاں ہی نہیں بلکہ آپ ؐ کی برادری سے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ؐ نے فرمایا۔
واہ! یہ رونے کی کون سی بات ہے تم نے کیوں نہ یہ جواب دیا کہ میرا باپ ہارونؑ ہے اور میرا چچا موسیٰ ؑ ہے اور میرا شوہر محمدﷺ ہے۔ پھر مجھ سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے۔
اس بات سے حضرت صفیہؓ کا دل خوش ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی رسول اللہؐ نے حضرت حفصہ ؓ کو بھی دلآزاری والی باتیں کرنے سے منع فرمایا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے محبوب رسول کریم ﷺ کی ایسی سچی اور حقیقی محبت عطا فرمائے کہ ہم اپنے ہرفعل و عمل میں اور بیویوں سے سلوک کرنے میں آپؐ کے پاک نمونہ اور آپ کی اعلیٰ تعلیم پر چلنے والے ہوں تاکہ ہمارا اور ہماری بیویوں کا خالق و مالک ہم سے راضی ہو جائے۔ آمین
(نذیر احمد خادم)