سورۃ التکویر کی روشنی میں ستاروں اور سیاروں کی چار قسم کی شہادتیں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے لئے ظاہر ہونے والے نشانات کا ایک سلسلہ اجرام فلکی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ نظارے معلوم تاریخ کے مطابق پہلے بھی متعدد انبیاء کے زمانے میں ظاہر ہو چکے ہیں۔ قرآن کریم کی سورۃ التکویر میں جہاں جدید سائنسی علوم کے ظہور اور ایجادات کی پیشگوئیاں ہیں وہیں ان فلکیاتی نشانات کے ظہور کا بھی ذکر ہے ان میں سے دو آیات خاص طور پر اس مضمون سے تعلق رکھتی ہیں فَلَا اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ۔ الْجَوَارِ الْکُنَّسِ۔
(التکویر:16 و 17)
لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس سے پہلی آیات کی پیشگوئیوں پر بھی ایک نظر ڈالیں تاکہ قرآن کریم کا عظیم اعجاز اور اس زمانہ کے متعلق باعظمت بیانات کی ترتیب سامنے رہے اور لطف دوبالا ہو جائے۔ اس سورت کا آغاز بسم اللّٰہ کے بعد وَاِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ سے ہوتا ہے جس کا لفظی معنی ہے جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔
آیت 3 میں ہے وَاِذَا النَّجُوْمُ انْکَدَرَتْ اور جب ستارے ماند پڑ جائیں گے۔ روحانی اصطلاح میں سورج اور ستاروں سے تمثیلی طور پر اسلام اور بزرگان امت محمدیہؐ مراد ہیں یعنی جب اسلام زوال پذیر ہو جائے گا۔ گو اہل اسلام کا روحانی اور اخلاقی زوال ایک عرصے سے جاری تھا لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے نزدیک 1492ء کا سال انسانی تاریخ میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جب اسلام کا مادی زوال بھی اپنی انتہا کو پہنچ گیا یہ وہ سال تھا جس میں سپین کے مسلمانوں کے سیاسی غلبہ کا سورج غروب ہوگیا اور ایسی تاریکی چھوڑ گیا جس نے اسلام کی روشنی کو اگلی دو صدیوں میں بالکل ختم کر کے اسے اندھیروں میں دھکیل دیا۔حضرت خلیفتہ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں۔
1492ء کے سال نے بیک وقت دو دروازے کھولے ایک دروازہ سے دنیا میں عیسائیت کا مستقبل بڑی شان و شوکت سے داخل ہوا اور دوسرے دروازہ سے اسلام کا تابناک ماضی سرنگوں ہو کر رخصت ہوا۔
(الہام،عقل، علم، سچائی صفحہ 518)
حضور ؒنے اپنی اس کتاب میں غیر مسلم مورخین کے کئی ایسے حوالے پیش فرمائے ہیں۔ جو اس بات کی تائید کرتے ہیں۔
(صفحہ 515 تا 518)
سورۃ التکویر کی اگلی آیات کی اکثر تعبیر بھی حضور رحمہ اللہ کی کتاب سے لی گئی ہے۔ آیت 4 وَاِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ یعنی جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔ آیات بالا کے تسلسل میں اس کا مطلب یہ ہے کہ عظیم مادی طاقتیں ابھریں گی جو اپنی سلطنت کو ایک سے دوسرے علاقہ اور ایک برّاعظم سے دوسرے برّاعظم تک وسیع کریں گی۔
آیت 5 وَاِذَاالْعِشَارُ عُطِّلَتْ یعنی 10 ماہ کی گابھن اونٹنیوں کو چھوڑدیا جائے گا۔ یعنی بہتر اور طاقتور ذرائع نقل وحمل بھی ایجاد ہو جائیں گے اور پہاڑوں کی نقل و حرکت یعنی عظیم سیاسی قوتو ں کے پھیلاؤ اور بھاری بھرکم سامانوں کی ترسیل کے لئے ایسے ذرائع لازمی ہیں ورنہ ان کی ہوس اقتدار پوری نہیں ہو سکتی تھی آیت 6 وَاِذَاالْوُحُوْشِ حُشِرَتْ یعنی وحشی اکٹھے کئے جائیں گے۔ اگر اس سے وحشی جانور مراد لئے جائیں تو جدید ذرائع نقل وحمل کے ساتھ اس کا واضح تعلق ہے۔ کیونکہ ان کے بغیر عظیم الجثہ جانوروں کو ایک جگہ اکٹھا کرنا ممکن نہیں
آیت 7 وَاِذَاالْبِحَارُ سُجِّرَتْ میں سمندروں کے پھاڑے جانے کا ذکر ہے۔ لغت میں سُجِّرَتْ کا لفظ تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
1۔سمندر بھر دیئے جائیں گے یعنی کثرت سے سمندروں میں جہازوں کی آمد و رفت ہوگی ۔
2۔سمندر ایک دوسرے سے ملائے جائیں گے نہرسویز 1859ء تا 1969 ءاور نہر پانامہ 1903ء تا 1914ء کی تعمیر سے یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔
3۔ سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی۔ اس میں بحری لڑائیوں میں شدید آتشیں اسلحہ کے استعمال کی پیشگوئی ہے۔
آیت 8 وَاِذَاالْنُفُوْسُ زُوِّجَتْ۔ اس کے بھی بیک وقت تین معنی ہیں جب لوگ باہمی تعلقات کے ذریعہ اکٹھے کر دیئے جائیں گے، جب ساری دنیا کے لوگ ملا دیئے جائیں گے یعنی بین الاقوامی معاہدات اور اقوام متحدہ اور دیگر تنظیموں کے ذریعہ اکٹھے کئے جائیں گے، جب لوگوں کے ملاپ کو تیز رفتار ذرائع نقل وحمل کے باعث آسان کر دیا جائے گا۔ جیسا کہ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔
آیت 9 اور 10 میں لکھا ہے کہ وَاِذَا الْمُؤُوْدَۃُ سُئِلَتْ۔ جب زندہ درگور کی جانے والی پوچھی جائے گی کہ آخر کس گناہ کی پاداش میں قتل کی گئی ہے ۔اس میں قانون کی حکمرانی اور جمہوری نظام کی خبر ہے اور یہ بھی کہ مرد حقوق نسواں کو تخفیف کی نظر سے نہیں دیکھ سکیں گے اور عورتوں کو بے مثال آزادی حاصل ہوگی۔
آیت 11 میں ہے وَاِذَاالصُّحُفُ نُشِرَتْ یعنی جب صحیفے نشر کئے جائیں گے۔ یہ پیشگوئی چھاپہ خانوں اور پریس کی ایجاد پر دلالت کرتی ہے۔ ورنہ قلمی نسخوں کی وسیع پیمانہ پر اشاعت ممکن نہ ہوتی۔
آیت 12 میں ہے وَاِذَاالسَّمَاءُ کُشِطَتْ یعنی جب آسمان کی کھال ادھیڑ دی جائے گی۔ گویا مادہ پرست دنیا خلاکے راز کو معلوم کرنے کے لئے آسمان کی بلندیوں اور دوسرے سیاروں تک جا پہنچے گی۔
آیت 13 وَاِذَاالْجَحِیْمُ سُعِّرَتْ اس میں جہنم کے بھڑکائے جانے کا ذکر ہے یعنی ایسی عظیم جنگیں ہوں گی گویا جہنم کے دروازے کھول دیئے گئے ہوں۔
آیت 14 میں جنت کے قریب کئے جانے کا ذکر ہے یعنی قرب الہٰی کے نئے میدان کھلیں گے اس سے مراد وہ سامان آسائش بھی ہو سکتے ہیں جو مغربی اقوام نے ایجاد کئے ہیں۔ جیسا کہ دجال کے ذکر میں احادیث میں آتا ہے کہ اس کے ساتھ جنت بھی ہوگی اور جہنم بھی ہوگی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں۔
’’فی زمانہ اسباب تَنَعُّم اور مصائب و شدائد دونوں بڑھ گئے ہیں۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد 4ص 335)
آیت 15 میں فرمایا کہ ہر جان معلوم کرلے گی جو وہ لائی ہوگی اس میں اعداد و شمار کے نظام اور ہر چیز کی ڈاکومنٹیشن Documentation یعنی دستاویزی ریکارڈ تیار کئے جانے کا ذکر ہے جو ہر انسان کے شناختی کارڈ اور لمحہ لمحہ کے ریکارڈ سے پورا ہو رہا ہے۔
دکھائیں آسماں نے ساری آیات
یہاں تک تو وہ ساری تبدیلیاں ہیں جو انسانی ہاتھوں سے رونما ہونی تھیں۔ اس کے بعد کی 2 آیات میں ان تبدیلیوں اور نشانات کا ذکر ہے جو آسمان پر محض خدا کے دست قدرت سے ظہورپذیر ہونی تھیں اور ان کے بعداسلام کی رات کے ڈھلنے اور نئی صبح یعنی نشاۃ ثانیہ کے آغاز اور اس کے مقاصد کا ذکر ہے جو آخر سورت تک چلتا ہے۔ یہ مضمون بِالْخُنَّسِ اور الْجَوَارِ الْکُنَّسِ کی قسم کھانے سے شروع ہوتا ہے۔ ان کے بہت سے معنی ہوسکتے ہیں مگر مندرجہ بالا تسلسل میں ان سے مراد اجرام فلکی اور بعض ستارے اور سیارے ہیں جن کا آخری زمانہ میں خصوصی ظہور مقدر تھا اور جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے زور سے دعویٰ فرمایا ہے۔مفردات راغب میں ہے کہ الْخُنَّسِ سے مراد وہ ستارے ہیں جو دن کو نظر نہیں آتے مثلازحل، مشتری اور مریخ۔ القاموس الوحید میں ہے کہ الْکُنَّس کانس کی جمع ہے اور اس کے بنیادی معنی پیچھے رہ جانے اور چُھپ جانے کے ہیں اور خنس سے مراد متحرک اور روشن ستارے ہیں مثلاً مشتری، زہرہ، عطارد۔
الکنس کانس کی جمع ہے اور اس کے بنیادی معنی چھپنے اور ستاروں کے اپنے مقامات پر ٹھہر کر واپس آنے کے ہیں الْجَوَارِ الْکُنَّسِ کے معنی ہیں تمام ستارے یا چلنے والے ستارے یا چھپ جانے والے ستارے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں۔
’’سورج کی روشنی سے ستاروں کا ماند پڑ جانا بھی خُنِّس ہے اور کُنِّس کے معنی ڈوب جانے اور غروب ہو جانے کے ہیں۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد 4 ص 335)
مفسرین نے ان کے معانی عام طور پر ستاروں کے کئے ہیں۔تمام ستارے اور خاص طور پر 5 بڑے ستارے زحل، مشتری، مریخ، عطارد اور زہرہ ۔حضرت علی ؓ سے بھی یہی معنی مروی ہیں ۔الجوار کے معنے چلنے والے کے ہیں یہ ترجمہ بھی ہے کہ طلوع کے وقت انہیں خُنِّس۔ فلک پر موجودگی کے وقت جوار اور غیبوبت کے وقت کُنِّس کہا جاتا ہے۔ پس بِالْخُنَّسِ اور الْجَوَارِ الْکُنَّسِ کو اگر وسیع معنوں میں لیا جائے تو اس سے مراد ستاروں اور سیاروں میں ظاہر ہونے والے نشانات ہیں۔ جن کی قسم کھائی گئی ہے۔
انجیلی پیشگوئیاں
انجیل میں حضرت مسیح ؑنے اپنی آمد ثانی کے فلکیاتی نشانات کا واضح لفظوں میں ذکر فرمایا ہے۔ مسیح کی دوبارہ آمد کے متعلق لکھا ہے کہ آسمان پر بڑی دہشتناک باتیں اور نشانیاں ظاہر ہوں گی …سورج اور چاند اور ستاروں میں نشانات ظاہر ہوں گے…آسمان کی قوتیں ہلائی جائیں گی۔
(لوقا باب 21 آیات 11، 25 اور 26)
جیسے بجلی پورب سے کوند کر پچھم تک جاتی ہے ویسے ہی ابن آدم کا آناہو گا ………اور فوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائیں گی۔
(متی باب 24 آیات 27۔29)
انجیل مرقس میں ہے کہ آسمان کے ستارے گریں گے۔
(باب 13 آیت 25)
عہد نامہ قدیم میں یوئیل نبی کی پیشگوئی ہے میں آسمان میں اور زمین پر عجائبات دکھاؤں گا یعنی خون اور آگ اور دھوئیں کا غبار۔
(یوئیل باب 2 آیت 30)
چار قسم کے نشانات
پس سابقہ پیشگوئیوں کے مطابق قرآن میں بِالْخُنَّسِ اور الْجَوَارِ الْکُنَّسِ کی قسم کھا کر اعلان کیا گیا ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں اجرام فلکی میں بھی نشان ظاہر ہوں گے اس نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نشان ایک نئے زاویئے سے ابھرتا ہے جو کئی شقوں میں منقسم ہے۔
1۔ حضرت مسیح موعودؑ کی پیدائش کے وقت مشتری اور زحل ستاروں کی تاثیرات۔
2۔ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں سورج اور چاند کا غیرمعمولی اجتماع یعنی سورج اور چاند گرہن۔
3۔ حضرت اقدسؑ کی پیدائش کے سال۔دعویٰ کے سال اور مختلف اہم سالوں میں بعض ستاروں کا نایاب طور پر طلوع ہونا جو سائنس کی دنیا میں معمول نہیں ہے۔
4۔ حضورؑ کی زندگی میں ستاروں کا گرنا اور ٹوٹنا۔
آئیے ان چاروں پہلوؤں سے اس عظیم الشان مضمون کو سمجھیں۔
مسیح موعود کی پیدائش اور ستاروں کی تاثیرات
یہ ایک نہایت لطیف مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود ؑنے تحفہ گولڑویہ میں بیان فرمایا ہے اور سورۃ حٰمٓ سجدہ کی آیت 13 وَزَیَّنَاالسَّمَاءِالدُّنْیَابِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًا میں حِفْظًا کے لفظ سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ
’’نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے اسی قسم کا دخل جیسا کہ صحت میں غذا اور دوا کو ہوتا ہے……… یہ چیزیں بجز اذن الہٰی کچھ نہیں کرسکتیں۔ ان کی تاثیرات خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 286)
حضورؑ فرماتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ علمی سلسلہ کو ضائع کرنا نہیں چاہتا اس لیے اس نے آدم کی پیدائش کے وقت ان ستاروں کی تاثیرات سے بھی کام لیا ہے فرمایا۔ جیسا کہ پہلا آدم جمالی اور جلالی رنگ میں مشتری اور زحل کی دونوں تاثیریں لے کر پیدا ہوا۔ اسی طرح وہ آدم جو ہزار ششم کے آخر میں پیدا ہوا وہ بھی یہ دونوں تاثیریں اپنے اندر رکھتا ہے۔
پھر آپ نے خنس اور کنس کا باقاعدہ ذکر کرکے مشتری اور زحل کی تاثیروں کا ذکر کیا ہے فرمایا۔
’’یہ ایک باریک بھید یاد رکھنے کے لائق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث دوم میں تجلی اعظم جو اکمل اور اتم ہے وہ صرف اسم احمد کی تجلی ہے کیونکہ بعث دوم آخر ہزار ششم میں ہے اور ہزار ششم کا تعلق ستارہ مشتری کے ساتھ ہے جو کوکب ششم منجملہ خنس کنس ہے اور اس ستارہ کی یہ تاثیر ہے کہ مامورین کو خونریزی سے منع کرتا اور عقل اور دانش اور مواد استدلال کو بڑھاتا ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 263)
پھرفرماتے ہیں۔
’’اس وقت جلالی تجلی کی تاثیر سیفی نہیں استدلالی ہے وجہ یہ کہ اس وقت مبعوث پر پرتو ستارہ مشتری ہے نہ پر تو مریخ۔ اسی وجہ سے بار بار اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ ہزار ششم فقط اسم احمد کا مظہر اتم ہے جو جمالی تجلی کو چاہتا ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ جلد 17 صفحہ صفحہ253)
کسوف و خسوف کا نشان
دوسرا پہلو حضورؑ کی زندگی میں سورج اور چاند گرہن کا غیر معمولی واقعہ ہے جو ٫1894 میں مقررہ شرائط پر ماہ رمضان میں ظاہر ہوا جس کے لئے آیت قرآنی جُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ (القیامہ:10) نص صریح ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سورہ التکویر کی پہلی آیت وَاِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ سے یہ واقعہ بھی مراد لیا ہے۔ فرماتے ہیں۔
سخت قسم کا خسوف شمس واقع ہونا جس سے تاریکی پھیل جائے جیسا کہ آیت وَاِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ سے ظاہر ہے۔
(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 248)
اس کسوف کی تفصیل دار قطنی کی حدیث میں ہے اور اس کی خبر اس سے پہلے صحف سابقہ اور بزرگان سلف میں بھی ملتی ہے۔ اسلامی کتب کے علاوہ عہد نامہ قدیم میں یوئیل، عاموس، یسعیا،یرمیاہ اورحزقیل انبیاء کی پیشگوئیاں ہیں۔ عہد نامہ جدید میں متی، مرقس، رسولوں کے اعمال اور مکاشفہ یوحنا میں یہ پیش گوئی موجود ہے۔ اس کے علاوہ ہندو اور سکھ مت کی کتب میں بھی یہ پیشگوئیاں موجود ہیں۔
(نشان کسوف و خسوف کی مزید تفصیل کے لئے دیکھیں روزنامہ الفضل آن لائن مورخہ 25 جنوری 2020ء کا شمارہ)
(عبد السمیع خان۔غانا)