• 13 مئی, 2025

میری پیاری امی جان مکرمہ انیسہ رشید

میری پیاری امی جان مکرمہ انیسہ رشید یکم، 2 جون 2018ء کی درمیانی رات کو اپنے خالق حقیقی سے جاملیں ۔ اِنَّا للّٰہ و انَّا الیہ راجعون گزشتہ پانچ سال سے خاکسار اپنی والدہ کے پاس تھی اور ان کی خدمت کی توفیق ملی ۔والدہ صاحبہ آخر دم تک تہجد گزار ، صوم و صلوٰۃ کی پابند رہیں ۔اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے دُعا پر کامل یقین تھا۔مجسّم دُعا کا پیکر جماعت کے لئے ، خلیفہ ٔوقت کے لئے ،خاندان ِ مسیح موعود ؑ کے لئے ، اسیران اور شہداء کی فیملیز کے لئے اور اپنی اولاد کے لئے دُعا میں لگی رہتی تھیں ۔ ساری عمر خدمت ِ دین اور خدمت ِ خلق کرتی رہیں۔ نہایت صبر کرنے والی اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزار خاتون تھیں ۔مہمان نوازی آپ کا خاص وصف تھا ۔آپ ہمیشہ عشق الٰہی ،عشق قرآن، عشق رسول ﷺ ،عشق مسیح موعود ؑ اور خلافت احمدیہ کے عشق کا ہی ذکر کرتیں اور یہی عشق نہ صرف ایک عہدیدار کی حیثیت سے اپنے حلقہ کی ممبرات میں پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہیں بلکہ اپنی اولاد میں بھی پیدا کرتی رہیں۔خدمتِ دین کا کوئی بھی شعبہ ہو ہر کام کو نہایت ذمہ داری سے اَنتھک محنت کرکے سر انجام دینے کی کوشش کرتیں اور اپنی اولاد کے لئے بھی ہمیشہ خادمِ دین ہونے کی دُعا کرتیں تھیں ۔

الحمد للہ آج ہم 2بہنیں اور 4بھائی کسی نہ کسی رنگ میں خدمات ِ دینیہ بجالانے کی توفیق پارہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ،خلافتِ احمدیہ کی برکت اور امی جان کی دُعاؤں سے آج الحمد للہ میرے سب سے چھوٹے بھائی راجہ برہان احمد مربی سلسلہ واستاد جامعہ احمدیہ لندن کے طور پر ہم سب بہن بھائیوں میں نمایاں خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔امی جان اکثر یہ مصرعہ پڑھا کرتی تھیں

’’ایں سعادت بزورِ بازو نیست۔‘‘

اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہم اپنی امی جان کی نیکیوں کو ہمیشہ جاری رکھنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت و مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے ۔ آمین ۔

امی جان حضرت مولانا برہان الدین جہلمی ؓ کی پڑنواسی ،حضرت مولانا عبد المغنی صاحبؓ کی نواسی تھیں۔ آپ کے دادا حضرت عبد الحکیمؓ بھی صحابی تھے اور قادیان سے ہجرت کے بعد ان کی وفات بھی اپنے بیٹے کے پاس جہلم میں ہوئی تھی۔ امی جان کو اپنےصحابی نانا جان کی دو سال خدمت کا موقع ملا جس کا آپ اکثر ذکر کیا کرتی تھیں ۔ امّی جان کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی نہایت عاجزی و انکساری سے عبادت کرتے دیکھا ، کامل توکل علی اللہ رکھتی تھیں اور بظاہر کاموں میں مصروف ہوتیں لیکن مجسّم دُعا ہوتیں تھیں۔ اپنے لئے ہمیشہ خاتمہ بالخیر کی دُعا کرتی تھیں اورہم بچوں کو بھی یہی دُعا کرنے کا اکثر کہا کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اُن کی یہ دُعا قبول فرمائی اور اُنہیں ہر قسم کی محتاجی سے بچاتے ہوئے اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لیا۔

امی جان کو میں نے کبھی کسی کے سامنے روتے نہ دیکھا لیکن جب نماز پڑھتی تھیں تو خدا تعالیٰ سے بہت رو رو کر دُعائیں کرتی تھیں۔آخری وقت اذان کی آواز پر فوراً نماز پڑھنا شروع کردیتی تھیں۔نماز کی پابند ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کےلئے بھی عبادت گزار ہونے کی تڑپ تھی۔اپنے گھر میں نماز سنٹر قائم کیا۔قرآن کریم سے خاص عشق تھا، خود پابندی سے تلاوت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں اور جماعت کے کئی بچے اور بچیوں کو قرآن کریم نہ صرف پڑھایا بلکہ ان کی آمین کا خود اپنے گھر میں اہتمام کرکے بچوں کے کھانے، مٹھائی، پھولوں کے ہار، تحائف اور قرآن کریم کا انتظام نہایت خوشی سے کرتی تھیں۔ غیر از جماعت بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھانے کی توفیق ملی۔ اپنے چھوٹے بیٹے کو قرآن کریم حفظ کروانے کی غرض سے ربوہ میں ہی گھر کرائے پر لے کررہیں ۔

امی جان کو صدر لجنہ اماء اللہ حلقہ کھوکھرا پار قیادت 10 کی حیثیت سے 6 سال خدمت کی توفیق ملی۔ خدمتِ دین سے سر شار ہمہ وقت اجلاسات ،درسِ قرآن و دیگر پروگرام کرواتیں۔دورہ جات پیدل ہی کرتیں اورہر ممبر تک خود پہنچ کر جماعتی پیغامات پہنچاتیں اور ممبرات کی تکالیف کو دُور کرنے کی بھر پور کوشش کرتیں۔ حلقہ کی ایک ممبر جن کے خاوند گردوں کی خرابی کے باعث تبدیلی گردہ انڈیا جاکر کروانا چاہتی تھیں ان کی نہ صرف خود مالی معاونت کی بلکہ پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی خدمت میں براہ راست خود خط لکھ کر ا ن کی امداد کی درخواست پیش کی ۔ پیارے آقا نے نہ صرف علا ج کا مکمل انتظام فرمایا بلکہ امی جان کو ایک بہت ہی محبت بھرا خط لکھا۔

مکرمہ محمودہ امتہ السیمع بنت چوہدری شریف احمد وڑائچ مرحوم کے ساتھ امی جان کو ایک لمبا عرصہ لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی کی سطح پر کام کرنے کا موقع ملا اور ایک بہنوں والا تعلق ان کے ساتھ رہا،وہ تحریر کرتی ہیں۔

’’محترمہ انیسہ رشیدبہت ہی شفیق محبت کرنے والی بہن تھیں۔ اپنے حلقہ کھوکھرا پار میں لمبا عرصہ تک صدر رہی ہیں۔خاکسار کے ساتھ انہوں نےخطبہ جمعہ کیسٹ پروگرام اور MTA کا کام کیاہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے خطباتِ جمعہ اور تربیتی کیسٹ اپنے حلقہ کی ہر ممبر تک پہنچا تیں اور سنوا کر باقاعدہ وقت پر ہر ماہ رپورٹ دیتی تھیں۔جب ہر حلقہ میں ہم نے کیسٹ لائبریری قائم کی تواپنے حلقہ کے لئے تمام کیسٹیں خریدیں اوراپنے حلقہ کی غیراز جماعت عورتوں کو بھی سنوا کر قائل کرنے کی بھر پور کوشش کرتیں۔ آپ ڈرتی بالکل نہیں تھیں۔بہت بہادری کے ساتھ تبلیغ کرتی تھیں۔

MTAشروع ہوا تو ممبرز کو کہہ کر گھر گھرمواصلاتی ڈشیں لگوائیں۔ جو خودڈش نہیں لگوا سکتے تھے تو جماعتی طورپر ڈشیں لگوائیں اور پھر خطبہ کی حاضری کی رپورٹ باقاعدگی سے دیتی تھیں۔خلافت کی محبت ممبرز کے دلوں میں پیدا کی۔

خاکسار نے بچوں کے لئے نماز سوال و جواب کی صورت میں لکھی تھی۔ اس کی ریکارڈنگ کے لئے باقاعدہ اپنے چاروں بچوں کو عربی تلفظ قاری صاحب کے ساتھ ٹھیک کروایا ،پوری نماز کا عربی تلفظ اور اردو ٹھیک کروائی اور پھر ریکارڈنگ کے لئے متعدد بار ہمارے گھر اپنے بچوں کو لے کر آتی رہیں ۔ کھوکھرا پار سے ہمارا گھر کافی دور تھا ،لیکن بڑی ہمت سے بس پر اپنے سارے بچوں کو لے کر باقاعدہ پہنچتیں ۔کیسٹ کی مکمل تیار ی میں بہت محنت اور جانفشانی سے کام لیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ سے منظوری کے بعد جب کراچی لجنہ میں اصلاح معاشرہ کمیٹی قائم کی گئی تو خاکسار کو اس کمیٹی کی صدر مقررکیا گیا ،انیسہ رشید نے اپنے حلقہ میں عائلی جھگڑے سلجھانے میں بھی بہت کام کیا ۔دوسرے کے درد کو اپنا درد سمجھتی تھیں۔ اصلاح معاشرہ کمیٹی میں رشتہ ناطہ کا کام بھی ہوتا تھا ۔اس کے لئے بھی ہمیشہ بہت کوشش اور دُعاؤں سے کام کرتی تھیں۔

نومبائعین کا بھی بہت کام کیا ۔ اُن کے گھروں میں بھی آتی جاتی تھیں ،اُنہیں بھی اپنے گھر بلاتی تھیں تاکہ اُن کے ساتھ تعلق مضبوط ہو ،جو نومبائع خواتین حاملہ تھیں اُن کو باقاعدہ ہسپتال لے کر جاتی رہیں، بچے کی پیدائش کے بعد بچہ اور ماں کا بہت خیال رکھتی تھیں ۔ نو مبائعین کو چندہ دینے کی بھی عادت ڈالتیں، پہلے تو کم چندہ لیتی تھیں پھر اُن کو زیادہ قربانی کی عادت پڑ جاتی ۔‘‘

امّی جان احمدی اور غیر از جماعت میں بغیر فرق کئے ان کی مالی امداد کرنے ، تکلیف کے وقت میں فوراً مدد کرنے کے لئے پہنچ جاتی تھیں ۔ اگر کسی کے ہاں عورت کی وفات ہوتی تو اول وقت میں پہنچ کر نہلانے میں مددگار ہوتیں ۔ امّی جان کو ضلع کراچی کی صحت جسمانی کی سیکرٹری کے طورپر بھی خدمت کا موقع ملا ۔ لجنہ اماء اللہ کراچی کی ٹیم کو سپورٹس ریلی میں کئی سال لے کر جاتی رہیں ۔اسی طرح کئی مرتبہ بطور نگران کراچی سے تربیتی کلاس کے لئے بچیوں کو لے کر گئیں ۔ لجنہ اماء اللہ پاکستان کی شوریٰ میں بھی شرکت کا موقع ملا۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی پاکستان سے ہجرت کے بعد جب کیسٹ پر حضور ؒکے خطبات و خطابات سنانے ہوتے تھے تو خود ٹیپ ریکارڈ خرید کر اجلاسات میں سنانے اور پھر گھر گھر جاکر ممبرات کو سنانے کی کوشش کرتیں تا ہرممبر تک خلیفۂ وقت کی آواز پہنچ جائے ۔ہر کام کے آغاز سے قبل دُعا کے لئے خلیفۃ المسیح کی خدمت میں ضرور لکھتیں اور کام کی تکمیل کے بعد بھی رپورٹ متعلقہ شعبے کے ساتھ ساتھ حضور کی خدمت میں بھی ضرور ارسال کرتیں۔

آپ کو آنحضرت ﷺ سے بے انتہا عشق تھا۔ اکثر یہ شعر گنگنایا کرتی تھیں

وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتاہے
تو بھی انساں کہلاتی تھی سب حق تیرے دلواتا تھا
بھیج دُرود اُس محسن پر تو دن میں سو سو بار
پاک محمد مصطفیؐ سب نبیوں کا سردار

جلسہ ہائے سیرت النبیؐ پر آنحضرت ﷺ کی سیرت پر تقریر خود تیار کر کے کرتیں یا دیگر ممبرات سے پڑھواتیں اور اسی طرح نعت ہمیشہ محو ہو کر پڑھا کرتی تھیں اور ممبرات کو بھی نعت سمجھ کر پڑھنے کی طرف توجہ دلاتی تھیں ۔ دُرود شریف کثرت سے پڑھتیں اور اس کی طرف دوسروں کو بھی توجہ دلاتی تھیں اور اس طرف بھی توجہ دلاتیں کہ آج ہم آنحضرت ﷺ کی ذات با بر کت کی وجہ سے ہی یہاں اکٹھی بیٹھی ہوئی ہیں۔

خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خاص عقیدت و محبت تھی یہی وجہ تھی کہ نہ صرف خود بلکہ اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے جاکر ملواتیں اور دُعا کی درخواست کرتی تھیں۔

آپا جان طاہرہ صدیقہ ناصرؔ حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ سے میرے چھوٹے بھائی راجہ برہان احمد کی بعمر 8 سال ملاقات کروائی اور جب جب موقع ملا بار بار بھائی کو لے جا کر دُعا کی درخواست کرتی رہیں۔امی جان کی وفات کے بعد جب خاکسار آپا جان طاہر صدیقہ ناصر ؔ کے پاس گئی اور والدہ صاحبہ کی وفات کا بتایا تو آپا جان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے آج بھی یاد ہے جب آپ کی امّی جان بُرہان کو لے کر آتیں تھیں اور ہاتھ کے اشارے سے بتایا اتنا سا ہوتا تھا بُرھان ۔ پھر فرمایا کہ آج بُرہان جس مقام پر ہے وہ آپ کی امی جان کی وجہ سے ہے ۔ آپ کی امی جان کی محنت اور دُعاؤں کا نتیجہ ہے ۔امّی جان نے خود بھی آپا جان طاہر ہ صدیقہ ناصر ؔصاحبہ سے ترجمۃ القرآن کچھ عرصہ پڑھا اور پھر حضرت چھوٹی آپا جان مریم صدیقہ ( اُمّ متین صاحبہ) سے خصوصی درخواست کرکے ہم دو نوں بہنوں کو ان سے ترجمۃ القرآن پڑھوایا چنانچہ ہم دونوں بہنوں کو ایک پارہ ترجمہ پڑھنے کی توفیق ملی ۔ الحمد للہ

امی جان کی ہی وجہ سے ہم دونوں بہنوں کو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین مبارکہ کی زیارت نصیب ہوئی ۔ ہمیں ربوہ کے تقریباً ہر اہم مقام کی سیر کروائی اور معلومات دیں۔ ربوہ سے امّی جان کو بہت محبت اور خاص لگاؤ تھا یہی محبت انہوں نے اپنی ساری اولاد کے دل میں بھردی ہے ۔
اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے مکرمہ ناصرہ جمیل اہلیہ مولانا جمیل الرحمٰن رفیق تحریر کرتی ہیں ۔

’’میری بھابھی جان محترمہ انیسہ رشید میرے خالہ زاد بھائی محترم راجہ رشید احمد کی اہلیہ اور مکرم راجہ برہان احمد استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ کی والدہ تھیں ۔ موصوفہ کو ربوہ سے بہت پیار تھا۔ کراچی سے ربوہ تک خاصا لمبا سفر ہے مگر اس کے باوجود جلدی جلدی ربوہ آتی رہتی تھیں اور ربوہ آکر بہت خوشی کا اظہار کرتی تھیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی خواتین مبارکہ سے بھی بہت پیار کا تعلق رکھتی تھیں ۔ چھوٹی آپا جان حضرت مریم صدیقہ کے گھر اکثر جایا کرتی تھیں۔ اسی طرح محترمہ آپا طاہرہ صدیقہ ناصر کے ہاں بھی بہت جایا کرتیں۔ دیگر خواتین مبارکہ سے بھی ملاقات کرتی رہتی تھیں۔ جماعتی کاموں میں بھی بہت پیش پیش رہتی تھیں۔اپنے سب بچوں کی بہت اچھی تربیت کی اپنے بیٹے برہان احمد کو وقف کرنے کے علاوہ اپنی بڑی بیٹی انیلہ طاہر کی شادی بھی واقف زندگی سے کی ۔ اُن کے داماد مکرم طاہر محمود مبشر جامعہ احمدیہ یوکے میں بطور استاد خدمات بجالارہے ہیں ۔ جماعت کے واقفین زندگی کی بہت عزت کرتی تھیں ۔‘‘

خلافت سے خاص محبت تھی حضر ت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکی وفات پر ہمارے گھر میں نہایت افسردگی کی فضا تھی اَمّی جان صدر حلقہ تھیں اور تمام ممبرات کو جب یہ اطلاع دی گئی تو وہ باقاعدہ امّی جان سے آکر گلے لگ کر افسوس کرتیں تھیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی پاکستان سے لندن ہجرت کےبعد خلیفۂ وقت سے ملنے کی تڑپ میں بے چین رہتی تھیں اور جب کیسٹ پر خطبہ جمعہ اور خطابات آنے لگے تو بہت اہتمام سے سنتی اور دوسروں کو بھی سناتیں پھر جب ڈش انٹینا کے ذریعہ MTAکی نشریات کا آغاز ہوا تو آپ نے کمیٹی ڈال کر ڈش لی اور سارے حلقے کو حضور انور کےہر پروگرا م کو دکھانے کا خاص اہتمام کرتیں ،خاص طور پر جلسہ سالانہ کے موقع پرہمارے گھر میں بھی جلسہ کا سماں ہوتا ،کھانے کا اہتمام کرتیں اور دیگیں بھی پکواتیں ۔ ممبرات بچوں کو ساتھ لے کر شوق سے آتیں جلسہ کی کارروائی سنتیں اور اپنے گھروں میں کھانا پکانے کی فکر سے بے خبر ہوکر تمام کارروائی میں شامل ہوتیں ۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا درس القرآن شروع ہونے پر باقاعدہ قرآن کریم لے کر بیٹھ جاتیں اور نوٹس لیتی تھیں۔

حلقہ میں خاندان اور ملنے والے تمام بزرگوں سے خاص پیار و محبت اور شفقت کا سُلوک کرتی تھیں۔ ایک بزرگ جوڑاہمارے گھر میں وقت گزارتا اور امّی جان ان کی خدمت کرتی دکھائی دیتی تھیں۔ ایک بزرگ خاتون نے امّی جان کو چند تبرکات اپنی بیٹی سمجھ کر دیئے کہ تم اس کی حفاظت اور قدر کروگی ۔امّی جان کو مسجد مبارک ربوہ میں دوبار اعتکاف بیٹھنے کا موقع ملا اور آپ نے خلافت احمدیہ کے لئے ، تمام بنی نوع انسان کے لئے اوراپنی اولاد در اولاد کے لئے بھر پور دُعائیں کیں جس کا ثمر آ ج ہم سب بہن بھائی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔خاکسار کو یاد ہے کہ بچپن سے لے کرآج تک امی جان کو صبح سویرے صاف ستھرا تیار ،نماز پڑھتے ، تلاوت کرتے ہی دیکھا یہی عادت آخر دم تک رہی۔ جو نہی اذان کی آواز سنتیں نماز شروع کردیتی تھیں۔

مکرم امتیاز حسین شاہد امیر حلقہ ڈرگ روڈ کراچی امی جان کا ذکر خیرکرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔
’’محترمہ انیسہ رشید کا خاندان حلقہ ملیر کالونی کراچی کے پرانے احمدیوں میں سے ایک ہے ۔آپ لجنہ اماء اللہ کی ایک سرگرم خدمت گزار تھیں ۔ حلقہ کی صدر لجنہ بھی رہیں ۔ خاکسار نے انہیں پیدل ہی لجنہ کے گھروں کے دورے کرتے دیکھا حالانکہ حلقہ کے گھر کافی دُور دُور تھے ۔ ہمارے گھر بھی تشریف لاتی تھیں ۔ خاکسار کی والدہ محترمہ کی وفات پر ہمارے ساتھ ربوہ بھی گئیں۔ خاکسار کی اہلیہ محترمہ نے بتایا کہ لجنہ کے اجلاسات محترمہ انیسہ رشید کے گھر پر ہی ہوتے تھے ۔ ہم نے اُنہیں کبھی غصہ میں نہیں دیکھا ۔ ہمیشہ مسکرا کر ملتیں ۔ خوش اخلاقی ان کا خاص وصف تھا۔ان کے ایک قریبی عزیز جماعتی چندہ دینے میں کمزور تھے جب ایک دفعہ محترمہ سے اس سلسلہ میں بات کی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ ان کا چندہ مجھ سے آکر لے جایا کریں اور پھر وہ چندہ ادا کرتی رہیں ۔‘‘

میری یادداشت کے مطابق امّی جان کو تین بار اعصابی تکلیف ہوئی جس کی وجہ سے آپ بیمار ہوگئیں اور اس کا اثر کچھ عرصہ تک رہا لیکن اس عرصہ میں بھی اَمّی جان نماز نہیں چھوڑتی تھیں۔ آپ کے ڈاکٹر بھی یہ دیکھ کر حیران ہوجاتے تھے نماز کا وقت ہوتا تو نماز شروع کردیتی تھیں یہ نہیں دیکھتی تھیں کہ کوئی ملنے آیا ہے یا ڈاکٹر کے آنے کا وقت ہے ۔ وفات سے قبل آخری دنوں میں خاکسار نے اکثر پوچھا کہ آج کل کون سی دُعا پڑھ رہی ہیں تو کہتیں کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھتی رہتی ہوں ۔میں نے بے اختیار کہا کہ امی جان آپ نے تو افضل الذکر پکڑ لیا ہے، اس سےبہتر کوئی نہیں ہے۔کبھی تکلیف کا اظہار نہیں کیا۔ خاکسار نے کبھی پوچھنا کہ کہیں کوئی تکلیف تو نہیں تو ہمیشہ نفی میں جواب دیا ۔ امی جان میں بلا کی قوت برداشت ، حوصلہ اور مضبوط عزم تھا ۔میں گھبرا جاتی تھی لیکن امی جان مجھے حوصلہ دیتیں اور میرے لئے میرے بچوں کے لئے مجسّم دُعا بنی رہتی تھیں۔آپ کی ایک اور پسندیدہ نظم تھی جو آپ اکثر بڑے درد سے پڑھتی تھیں۔

الحمد میں روشنی کے واسطے سامان لائی ہوں
اندھیرا گھر تھا میں شمع ِ ایمان لائی ہوں
خدا جب مجھ سے پوچھے گا کہ دنیا سے کیا لائی ہو
تو کہ دوں گی تیرے دیدار کا ارمان لائی ہوں
میرے ماتھے پہ سجدوں کی نشانی دیکھئے رضواں
میں اپنے جنتی ہونے کے سب سامان لائی ہوں
جو دل مانگیں تو دل حاضر ، جو جاں مانگیں تو جاں حاضر
میں سب سامان لائی ہوں ، میں سب سامان لائی ہوں

امی جان کی 1/3 حصے کی وصیت تھی۔ وفات کے بعد پہلے حلقہ گلشن جامی کراچی میں نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ پھرجنازہ ربوہ لے جایا گیا جہاں مؤرخہ 4 جون 2019ء کو نماز فجر کے بعد مسجد مبارک ربوہ میں محترم سید خالد احمد شاہ ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے نماز جنازہ پڑھائی۔تدفین کے لئے جنازہ نئے بہشتی مقبرہ لے جایا گیا۔ پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مؤرخہ 27جون 2018 بروز بدھ نماز ظہر سے قبل امی جان کی نماز جنازہ غائب مسجد فضل لندن میں ادا فرمائی۔

احباب جماعت سے دُعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ میری والدہ محترمہ کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام اولاد کو آپ کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے آپ کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین


(راحیلہ راشد۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

جامعہ احمدیہ جرمنی میں مقابلہ نظم و مقابلہ اذان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 فروری 2020