12۔اکتوبر 2018ء کی بات ہے خدا کے فضل سے اس عاجز کی لندن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے فیملی ملاقات تھی۔ عرض کیا آج اس عاجز کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لے کر اب تک تمام خلفاء کرام سے ملاقاتیں یاد آرہی ہیں۔ فرمایا ’’تو پھر لکھیں‘‘
حضورانورکےارشاد کی تعمیل میں کچھ یادداشتیں لکھ رہاہوں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓسے ملاقاتیں
ہمارے آباؤاجداد نے خدا کے فضل سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفہ اولؓ کا زمانہ پایا لیکن اس عاجز کی پیدائش بعد کی ہے۔
بچپن میں ہمیں والد صاحب جلسہ سالانہ پر بھیرہ سے ربوہ لے آتے تھے لیکن جب سے ہوش سنبھالا حضرت مصلح موعودؓ صاحبِ فراش تھے اس لئے جماعتی ہدایت کے مطابق ضلع سرگودھا کی جماعتوں کے ساتھ قطار بنا کر حضورؓ کےپاس سےسلام کرکےگزرجاتےتھے۔بہت بچپن میں حضورؓکےبعض خطابات یادداشت میں مدھم طور پر محفوظ ہیں ایک دفعہ کھڑے کر کے جماعت سے کوئی عہد بھی لیا تھا۔
حضورؓ والد صاحب (میاں فضل الرحمٰن بسمل بی اے بی ٹی) کو اچھی طرح پہچانتے اور جانتے تھے۔والد صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں پڑھتے رہے۔انہوں نے 1926ء میں میٹرک کیا تھا ان کی میٹرک کی الوداعی تقریب میں حضورؓ مہمانِ خصوصی تھے اور انہیں تقریب کے گروپ فوٹو میں حضورؓ کے عین قدموں میں بیٹھنے کا موقع ملا تھا۔جلسہ سالانہ ربوہ پر اس طرح ملاقات کے دوران حضورؓ کی نظرِشفقت والد صاحب کے ساتھ ہم 3 بڑےبھائیوں پر بھی پڑتی تھی جو والد صاحب کے ساتھ ہوتے تھے2 بھائی ابھی بہت چھوٹے تھے۔
والد صاحب حضرت مصلح موعودؓ کے بہت بڑےعاشق تھے انہوں نے عاجز کا (مرکب نام) محمود مجیب اصغر رکھا تھا۔ گھر میں اس عاجز کو محمود کے نام سے ہی مخاطب کیا جاتا تھا۔
بعد میں ایک بار اس عاجز کو دل میں خیال آیا کہ اس ماحول میں حضورؓ اس عاجز کو کہاں جانتے اور پہچانتے ہوں گے؟ اللہ کی عجیب شان ہے جلد ہی ایک رات حضرت مصلح موعودؓ خواب میں نظر آئے جیسے سامنے بھی ہیں اور فون پر بھی بات کر رہے ہیں فرمایا “’’میں تمہیں جانتا بھی ہوں اور پہچانتا بھی ہوں تم جب چاہو مجھے فون بھی کر سکتے ہو اور مل بھی سکتے ہو۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒسے ملاقاتیں
حضرت مصلح موعودؓ کا 7 اور 8 نومبر 1965ء کی درمیانی رات وصال ہوااور 8 نومبر 1965ء کو بعد نماز مغرب وعشاء انتخاب خلافت ثالثہ ہوا اور حضرت مرزا ناصر احمدؒ، خلیفۃ المسیح الثالث منتخب ہوئے اس طرح 8 اور 9 نومبر 1965ء کی درمیانی شب حضرت نافلہ موعود خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی خلافت کا آغاز ہوا۔
آپؒ کی خلافت کے دوران بڑی کثرت سے آپؒ سے ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا۔ والد صاحب کے ساتھ بھی اکیلے بھی اور والدہ صاحبہ اور اہل وعیال اور پوری فیملی کے ساتھ بھی۔
آپؒ ہمیشہ مسکراتے ہوئے ملتے تھے اور آپؒ کے چہرے کا نور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ’’عشق الہٰی وسے منہ پر ولیاں ایہہ نشانی‘‘ کا مصداق تھا اور یہی کیفیت آگے تمام مظاہر قدرت ثانیہ میں نظر آئی۔
23 مارچ 1982ء کے روز آپؒ نے قصر ِخلافت کی تعمیر کی نگرانی کرنے والے انجینئرز اور آرکیٹیکٹس کی دعوت کی تھی اس روز آپؒ کے پہلو میں بیٹھ کر کھانا کھانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک بار ہم2 بھائیوں نے اکٹھے ملاقات کی تو آپؒ نے مسکرا کر فرمایا ’’تم اس کے بھائی ہو یا یہ تمہارا بھائی ہے؟‘‘
عجیب محبت کا اظہار تھا ۔ایک بار اس عاجز کے ساتھ والد صاحب اور بڑا بیٹا تھا۔ مسکراتے ہوئے والد صاحب کی طرف اشارہ کر کے اس عاجز کے بارے میں پوچھا ’’یہ آپ کا بیٹا ہے ناں‘‘ اور پھر اس عاجز کے بیٹے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ’’مجیب یہ تمہارا بیٹا ہے ناں‘‘
1974ء کے حالات میں بھی ملاقاتیں کیں۔ سنجیدہ چہروں کے ساتھ ہم اندر جاتے تھے اور مسکراتے ہوئے چہروں سے باہر نکلتے تھے۔
آخری ملاقات 26 مئی 1982ء کو اسلام آباد گیسٹ ہاؤس میں ظہر وعصر کی نماز پر ہوئی۔جب آپؒ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’مجیب تم کہاں تم توباہر گئے ہوئے تھے…‘‘ عرض کیا جس پراجیکٹ پر مسقط بھیجا گیا تھا اس کی Tender Evaluation کر کے پاکستان آگیا ہوں ابھی کنٹریکٹ Award نہیں ہوا۔فرمایا ’’اچھا تمہیں کمپنی نے چھٹی بھجوا دیا ہوگا۔‘‘
اسی شام آپؒ کو مغرب عشاء کی نمازوں کے دوران ہارٹ اٹیک ہوا اور اس کے بعد آپؒ پبلک میں نہیں آئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سےملاقاتیں
10جون 1982ء کو حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے۔ آپؒ کے ساتھ آپؒ کی لندن ہجرت سے پہلے پاکستان میں کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ 10 جون 1982ء کو انتخاب خلافتِ رابعہ کے بعد پہلی بیعت عام میں شامل ہو گیا اور جلد ہی عیدالفطر کےبعد واپس مسقط چلا گیا۔
پھر 1982ء کےجلسہ سالانہ پر پاکستان چھٹی پر آیا تھا اور ترجمانی کی ٹیکنیکل ٹیم کے ساتھ اور غیر ملکی پاکستانیوں کے ساتھ ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا۔
آپؒ کی خلافت کے آغاز پر ہی 29 رمضان 1402ھ (21 جولائی 1982ء) کو آپؒ جب آخری 3 سورتوں کا درس دے کر اور دعا کرواکر مسجد مبارک ربوہ کے محراب سے باہر نکلے تو عاجز کو ہاتھ کے اشارے سے بلوایا اور فرمایا دوسری طرف سےاندر آجائیں اور افطاری میرے ساتھ کریں۔ مکرم چوہدری انورحسین (امیرشیخوپورہ)، مکرم سرور لطیف (جوچوہدری صاحب کے ساتھ تھے)، مکرم ملک نسیم (سویڈن) اور یہ عاجز اس دعوت میں شامل ہوئے تھے۔
صاحبزادہ مرزا لقمان احمد ہمیں Serve کر رہے تھے اور کھانے کے دوران ہی آپؒ ہمارے پاس تشریف لے آئے۔
1983ء میں سال کے وسط میں اللہ تعالیٰ نے والدین، اہلوعیال اور گھر کے دیگر افراد سمیت آپؒ سے ملاقات کا شرف عطا فرمایا۔پھر شوریٰ میں عمان کی نمائندگی کی اور اس کے بعد دسمبر میں جلسہ سالانہ پر آکر ترجمانی کی ٹیم کے ساتھ ڈیوٹی دی اور ملاقات بھی کی۔
1984ء میں آپؒ کی ہجرت سے کچھ پہلے بھی یہ عاجز چھٹی لے کر پاکستان آیا اور شرف ملاقات حاصل کیا لیکن آپؒ کی ہجرت سے کچھ عرصہ قبل مسقط ڈیوٹی پر چلا گیا۔
آپؒ کی خلافت کے شروع میں ہی اس عاجز کو بار بار خواب آتی تھی کہ آپ دو اڑھائی سال ہی ہیں۔سخت پریشان تھا کسی کو بتاتا نہیں تھا آپ کی صحت وسلامتی کے لئے دعائیں کرتا رہتا تھا۔
جب آپؒ کو اضطراری حالات میں لندن ہجرت کرنی پڑی تو پھر سمجھ آئی کہ اللہ تعالیٰ یہ بتا رہا تھا کہ پاکستان میں دو اڑھائی سال ہی ہیں۔
1985ء میں برطانیہ میں باقاعدہ عالمی جلسہ شروع ہوا۔آپؒ کی خواہش پر ترجمانی کی ٹیکنیکل ٹیم خدمت کے لئے ٹلفورڈ (اسلام آباد) حاضر ہوئی۔یہ عاجز بھی عمان سے ویزہ لگوا کر ٹیم میں شامل ہوا اور 2 بار آپؒ کی ملاقات سے مستفید ہوا۔ یہ عاجز کا یوکے میں پہلا وزٹ تھا۔
اس کے بعد 2000ء میں پاکستان سے جلسہ سالانہ لندن پر گیا اور شرف ملاقات حاصل کیا۔آپؒ نے “حیات ناصر”کی تصنیف کا پوچھا۔ یہ کام اس عاجز کو صد سالہ جوبلی منصوبہ کی طرف سے آپؒ کے ہی ارشاد پر ستمبر 1987ء میں سونپا گیا تھا۔عرض کیا پہلی جلد اشاعت والوں نے پریس میں بھیج دی ہے یہ سن کر آپؒ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا ۔پھر فرمایا بیگم صاحبہ نہیں آئیں۔عرض کیا وہ نہیں آئیں ویزہ نہیں تھا۔اس جلسہ پر آپؒ کی صدارت میں عالمی شوریٰ منعقد ہوئی اس عاجز کو سلطنت عمان کی نمائندگی کا موقع ملا۔
2002ء میں جلسہ پر بیگم اور سب سے چھوٹی بیٹی کو لے کر گیا۔بڑا بیٹا پہلے سے وہیں تھا ہم چاروں کی ملاقات ہوئی اس وقت آپؒ بہت علیل تھے علالت میں بھی ملاقاتیں کر رہے تھے، دونوں بچوں کو چاکلیٹس دیں اور غالباً پین بھی۔
ترجمانی کی ٹیم کی طرف سے جلسہ کے دوران سٹیج پر آپؒ کی اقتداء میں نمازیں پڑھیں۔جلسہ کے معاً بعد جو جمعہ آیا اس میں آپؒ کی طبیعت کو مدّنظر رکھتے ہوئے مقامی انتظامیہ نے مسجد فضل لندن میں خطبہ کے لئے محراب میں کرسی رکھ دی تھی اور چھوٹا ڈائس رکھ دیا تھا۔آپؒ نے آتے ہی کرسی اٹھوا دی اورکھڑے ہو کر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔بہت دلیر اور بہادر انسان تھے۔
اگلے سال 19۔اپریل 2003ء کو آپؒ وفات پاگئے۔جلد ہی دنیا بھر میں MTA کے ذریعے آپؒ کی وفات کی خبر پھیل گئی جس کو کان سننے کے لئےاور دل و دماغ قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقاتیں
خلافت کمیٹی کا ممبر ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کو آپ کے انتخاب میں شامل ہونے کے سامان فرما دیئے۔22 ۔اپریل 2003ء کو بعد نماز مغرب و عشاء مسجد فضل لندن میں انتخابِ خلافت کی کارروائی ہوئی۔اس عاجز کو اسی قطار میں جگہ ملی جس میں آپ تشریف فرما تھے۔آپ کے خلیفہ منتخب ہونے کی واضح خوابیں آچکی تھیں اور اللہ تعالیٰ کی غالب تقدیر نے خود آپ کو خلافتِ خامسہ کے روحانی تخت پر متمکن فرمادیا۔
پبلک Announcement سے پہلےانتخاب کمیٹی کے ممبران کی فرداً فرداً حضورانور سے ملاقات ہوئی اس عاجز نے مبارک دی اور کہا اللہ تعالیٰ روح القدس سے آپ کی تائید و نصرت فرمائے 3بار گلے لگایا اور فرماتے رہے میرے لئے بہت دعاکریں۔
پاکستان واپس آنے سے پہلے 25۔اپریل 2003ء کو جمعہ کے بعد محمود ہال میں ایک دفعہ پھر کھڑے کھڑے مصافحہ ہوا عرض کیا باقاعدہ چھٹی لے کر نہیں آیا۔واپس جانے کی اجازت مانگی فرمایا ٹھیک ہے واپس چلےجائیں۔
2003ء میں دوبارہ جلسہ میں شمولیت کے لئے لندن گیا بڑے بیٹے کا نکاح حضورانور کی موجودگی میں مکرم مولانا عطاء المجیب راشد نے مسجد فضل میں پڑھایا۔ دعا کے بعد اس عاجز کی طرف خود آگئے اور مبارک دی۔ چند گھنٹوں بعد ہماری فیملی ملاقات تھی اہلیہ،2بیٹیوں اور بڑے بیٹےکےساتھ حضورانورسےشرفِ ملاقات پایا۔ حضورانور نےجہاں رشتہ ہوا تھا اس خاندان کا تعارف حاصل کیا۔
اس سے اگلے سال 2004ء میں سب سے چھوٹی بیٹی کو لے کر جلسے پر گیا فرمایا ’’آپ ہر سال ہی آجاتے ہیں‘‘
پھر تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال ہی حضورانور کی ملاقات اور جلسہ میں شامل ہونے کے لئے یوکے چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کےخاص فضل سے اور خلافت کی برکت سے ویزے لگ جاتے ہیں۔
یوکے کے علاوہ کئی چکر سویڈن کے لگ ہیں اور اسی طرح کینیڈا، Shengen ویزے پر سپین،جرمنی،سلووینیا، اٹلی، آسٹریا، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، ناروے، ڈنمارک، فن لینڈ اور کئی اور یورپی ممالک دیکھ چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے الہام “وَسِّعْ مَکَانَکَ”کے تحت بہت ملکوں میں جماعت کو پھیلا دیا ہے ان ملکوں میں احمدیہ مساجد اور جماعتوں کو دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہو جاتا ہے۔
2016ء میں آپ سے ایک ملاقات سویڈن میں اپنے چھوٹے بیٹے محمود فاتح احسن کے ساتھ اس وقت ہوئی جب مسجد محمود مالمو (مالموسویڈن کا تیسرا سب سے بڑا شہر) کاحضورانور نے افتتاح فرمایا۔ اس سے قبل جرمنی میں کالسرو میں حضورانور سے ملاقات ہوئی۔
2018ء کے سال پہلے اپریل میں اس عاجز کو IAAAE Symposium UK پر پاکستان کی نمائندگی کے لئے جانا پڑا۔ حضورانوران دنوں سپین کے ذاتی دورے پر گئے ہوئے تھے اس سے اگلے اتوار پوروپین چیپٹر کے چیئرمین اکرم احمدی نے کینیڈا کے چیئرمین کے ساتھ حضورانور سے ملاقات کروائی پھر جلسہ سالانہ پر ملاقات ہوئی۔ تقریباً ہر سال دنیا بھر سے آئے ہوئے IAAAE کے ممبران کو حضورانور کے ساتھ گروپ فوٹو کی سعادت نصیب ہوتی ہے یہ پریکٹس خلافت رابعہ سے جاری ہے۔
اس سال 2019ء میں ہم نے پہلے مرکز جدید اسلام آباد ٹلفورڈ میں 30 جون کو ملاقات کا شرف حاصل کیا۔یو کے سے ایک نواسی کی شادی پر کینیڈا گئے،واپسی پھر یو کے میں ہوئی اور حضورانور نے 3 نومبر کو پھر فیملی ملاقات کا شرف بخشا اور اس طرح اس مبارک سفر سے پاکستان واپسی ہوئی۔
ان ملاقاتوں کے ساتھ جو برکات وابستہ ہیں ان کا کوئی حد و حساب ہی نہیں۔
یہ عاجز جو میٹرک تک صرف بھیرہ سے ربوہ اور ایف ایس سی کے بعد جب انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور داخل ہوا تو پہلی دفعہ لاہور کا سفر کیا۔سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کس شان سے خلیفۂ وقت مقناطیس کی طرح ہر سال یوکے کھینچ لیں گے اور اللہ تعالیٰ اتنے کثرت سے ہوائی جہازوں کے کرایوں اور سفروں کے سامان پیدا فرمادے گا یہ برکات خلافت نہیں تو اور کیا ہے؟
زندگی کی کشتی کئی بار بھنور میں آئی اور بچنے کی کوئی امید نہ تھی لیکن حضورانورکی دعا نے ہر بار بھنور سے نکال لیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’مسلمانوں کو مختلف اغراض کے لئے سفر کرنے پڑتے ہیں کبھی سفر طلب علم ہی کے لئےہوتا ہے اور کبھی سفر ایک رشتہ دار…. کی ملاقات کے لئے…. کبھی سفر عجائباتِ دنیا کے دیکھنے کے لئے بھی ہوتا ہے…. اور کبھی صادقین کی صحبت میں رہنے کی غرض سے جس کی طرف آیت کریمہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِينَ ہدایت فرماتی ہے…. زیارت صالحین کے لئے سفر کرنا قدیم سے سنت سلف صالح چلی آتی ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5ص607)
خدا گواہ ہے کہ ہمیں توان سفروں میں وہ سب کچھ حاصل ہو رہا ہے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔
(انجینئر محمود مجیب اصغر)