کوئی کاری گری کر دے
کل کا ہونا ابھی کر دے
تو جو چاہے تو اے قادر
کھوٹی قسمت کھری کر دے
تیری نظرِکرم پیارے
چور کو بھی ولی کر دے
آج بیمار ہے امت
رحم کر دے بھلی کر دے
خشک ہے دید کا آنگن
آنکھ میں اب نمی کر دے
ہاتھ اُوپر کا ہو میرا
ایسا مجھ کو سخی کر دے
بےنیازی ہو دنیا سے
یوں بھی مجھ کو غنی کر دے
تیرے بس میں ہے انہونی
ختم اب بےبسی کر دے
ہے کڑی دھوپ کا موسم
چھاؤں ٹھنڈی گھنی کر دے
تیری رحمت کا اک چھینٹا
خشک ٹہنی ہری کر دے
میرے گلشن پہ اے مالک
رحمتوں کی جھڑی کر دے
شجرِ طیب کی ہر ٹہنی
پھول کر دے کلی کر دے
میرے آباء کی اے مولیٰ
جاری مجھ سے لڑی کر دے
ہم فقیروں کی کٹیا میں
آ کے جشنِ خوشی کر دے
تیرے در پہ جو لے جائے
راہ مجھ پہ کھلی کر دے
مجھ ظفرؔ کی دعا مانگی
مستجیبا! سنی کر دے
(مبارک احمد ظفر۔ لندن)