• 29 اپریل, 2024

کیا غیر مسلموں کا مکہ مدینہ میں داخلہ منع ہے؟

اسلام آفاقی دین ہے

اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جسے کسی خاص قوم یا خاص عہد تک محدود نہیں کیا گیا۔اسلام کا خدا ’’رَبُّ العٰلَمِین‘‘ ہے اور نبی اکرم ﷺ ’’رَحمَۃً لِّلعٰلَمِین‘‘ ہیں جنہیں سابقہ انبیاء علیہم السلام کے برعکس تمام انسانیت کے لئے اور قیامت تک کے لوگوں کے لئے مبعوث فرمایا گیا۔ قرآن کریم کی یہ آیات اس بات پر شاہد ہیں۔

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ

(الفاتحہ:2)

ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعًا

(الاعراف:159)

ترجمہ: کہہ دو کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ

(الانبیاء:108)

ترجمہ: اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا

(سبا:29)

ترجمہ: اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر بنا کر۔

نبی اکرم ﷺ کے تمام انسانوں کے لئے رسول ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ مکہ مکرمہ میں، جس کا قدیم نام بکہ لے کر اس کی قدامت کو ظاہر کیا گیا ہے، سب سے پہلا جو گھر بنایا گیا تھا یعنی خانہ کعبہ، وہ تمام انسانوں کے لئے بنایا گیا تھا۔

اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّ ہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ

(آل عمران:97)

ترجمہ: یقینًا پہلا گھر جو بنی نوع انسان کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو بکّہ میں ہے۔ وہ مبارک اور باعثِ ہدایت بنایا گیا تمام جہانوں کے لئے۔

اس بات کو واضح طور پر بیان کرنے کے بعد کہ جس طرح نبی اکرم ﷺ تمام انسانوں کے رسول اور تمام عالمین کے لئے رحمت ہیں، اسی طرح یہ گھر تمام انسانوں کے لئے بنایا گیا ہے اور تمام عالمین کے لئے مبارک اور باعثِ ہدایت ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی بیان کردیا گیا کہ انسانوں کے لئے بنائے گئے اس گھر سے انہیں روکنا باعثِ عذاب ہو سکتا ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ الَّذِیۡ جَعَلۡنٰہُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ ۣ الۡعَاکِفُ فِیۡہِ وَ الۡبَادِ ؕ وَ مَنۡ یُّرِدۡ فِیۡہِ بِاِلۡحَادٍۭ بِظُلۡمٍ نُّذِقۡہُ مِنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ

(الحج:26)

یقینًا وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور وہ اللہ کی راہ سے اور اس مسجدِ حرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے سب انسانوں کے فائدہ کے لئے بنایا ہے اس طرح کہ اس میں (خدا کی خاطر) بیٹھ رہنے والے اور بادیہ نشین (سب) برابر ہیں، اور جو بھی ظلم کی راہ سے اس میں کجی پیدا کرنے کی کوشش کرے گا اسے ہم دردناک عذاب چکھائیں گے۔

وَ مَا لَہُمۡ اَلَّا یُعَذِّبَہُمُ اللّٰہُ وَ ہُمۡ یَصُدُّوۡنَ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ

(الانفال:35)

ترجمہ: اور آخر ان میں کیا بات ہے جو اللہ انہیں عذاب نہ دے جبکہ وہ حرمت والی مسجدسے لوگوں کو روکتے ہیں۔

علماء اور سعودی حکومت کا غیر اسلامی طرزِ عمل

ان مندرجہ بالا واضح قرآنی تصریحات کے باوجود غیر مسلموں کا نہ صرف مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ میں بلکہ پورے مکہ اور مدینہ میں داخلہ ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو مسجد الحرام کو عالمین کے لئے مبارک اور باعثِ ہدایت قرار دے رہا ہے لیکن سعودی حکومت اس گھر میں داخل ہونے اور اس سے برکت اور ہدایت حاصل کرنے کی صرف ان لوگوں کو اجازت دیتی ہے جنہیں وہ مسلمان گردانتی ہے۔مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ، جیسا کہ آگے وضاحت کی گئی ہے، قرآن و حدیث میں کسی بھی جگہ غیر مسلموں کو اشارتًا بھی مدینہ منورہ میں داخلہ سے منع نہیں کیا گیا ہے۔لیکن سعودی حکومت ان کو وہاں جانے سے بھی روکتی ہے۔اس پابندی کے حق میں یہ دلائل دئیے جاتے ہیں کہ ہر ملک میں فوجی چھاؤنیاں اور کچھ ممنوعہ علاقے ہوتے ہیں جہاں ہر شہری داخل نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح کسی بھی دوسرے ملک میں جانے کے لئے آپ کو ویزا لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اس ملک کا حق ہے کہ وہ آپ کو ویزا دے یا نہ دے۔ ویزا دینے سے انکار کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔لیکن یہ دلائل دینے والے بھول جاتے ہیں کہ چھاؤنیاں صرف فوجیوں کے لئے ہوتی ہیں جبکہ، جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے، مسجد الحرام تمام الناس کے لئے بنایا گیا اللہ کا گھر ہے۔ مزید یہ کہ سعودی عرب کے حکمران حرمین کے مالک نہیں بلکہ متولی ہیں جنہیں ان میں داخلہ پر پابندی کا کوئی حق حاصل نہیں۔ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ پر بھی مکہ میں داخلہ پر پابندی لگائی گئی تھی جس کا شدید رد عمل پورے عرب میں ہوا کیونکہ سب جانتے تھے کہ قریش کعبہ کے مالک نہیں بلکہ متولی ہیں۔ ان کے ذمہ کعبہ کی دیکھ بھال اور حاجیوں کی خاطر مدارت کرنا ہے لیکن ان کو کعبہ میں داخلہ پر پابندی لگانے کا حق حاصل نہیں۔آج قریش نے مسلمانوں پر پابندی لگائی ہے تو کل یہ کسی اور کو بھی روک سکتے ہیں۔گویا کل تک جو مجاور تھے وہ آج مالک بن بیٹھے ہیں کہ جس کو چاہے کعبہ میں آنے دیں اور جسے چاہیں روک دیں۔چنانچہ مختلف قبائل کے وفود قریش کو سمجھانے گئے لیکن ان پر کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بعد جب نبی اکرم ﷺ فتح مکہ کے لئے تشریف لائے تو وہ تمام قبائل جو جنگ احزاب میں کفار مکہ کے ساتھ مل کرمدینہ پر حملہ کے لئے جمع ہوئے تھے، ، ان میں سے ایک بھی قریش کی مدد کو نہ آیا۔کیونکہ قریش مسلمانوں کو عمرہ سے منع کرنے کے نتیجہ میں پورے عرب کی حمایت سے محروم ہوچکے تھے۔

دوسرا اہم اور یاد رکھنے کے قابل امر یہ ہے کہ دیگر ممالک کے برعکس سعودی حکومت مکہ مدینہ میں داخلہ پرپابندی مروجہ بین الاقوامی ویزا قوانین کی بنیاد پرنہیں بلکہ شرعی قانون پر رکھتی ہے اور دنیا کو یہ باور کراتی ہے کہ غیر مسلموں کے مکہ مدینہ میں داخلہ پر پابندی سعودی حکومت نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے عائد کی ہے جو کہ سورۃ التوبۃ کی مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ میں بیان کیا گیا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَا یَقۡرَبُوا الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ بَعۡدَ عَامِہِمۡ ہٰذَا ۚ وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ عَیۡلَۃً فَسَوۡفَ یُغۡنِیۡکُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖۤ اِنۡ شَآءَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ

(التوبہ:28)

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! مشرکین تو ناپاک ہیں۔ پس وہ اپنے اِس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکیں۔ اور اگر تمہیں غربت کا خوف ہو تو اللہ تمہیں اپنے فضل کے ساتھ مالدار کردے گااگر وہ چاہے۔یقینًا اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔

اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے علماء کا یہ فتویٰ ہے کہ کوئی بھی غیر مسلم مکہ اور مدینہ میں اور خاص طور پر مسجد الحرام یعنی خانہ کعبہ میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ایسا کرتے ہوئے یہ بات مکمل طور پر فراموش کردی گئی کہ یہ استدلال قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات سے متضاد ہے جبکہ قرآن کریم کی رو سے اس میں تضاد ناممکن ہے:

اَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ القُراٰنَ طوَلَو کَانَ مِن عِندِ غَیرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوا فِیہِ اختِلَافًا کَثِیرًا

(النّساء:83)

ترجمہ: پس کیا وہ قرآن پر تدبّر نہیں کرتے؟ حالانکہ اگر وہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت اختلاف پاتے۔

سورۃ التوبہ میں چند اہم غور طلب نکات

سورۃ التوبہ کی مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ اس میں ہرگز کسی غیرمسلم پر یہ پابندی عائد نہیں کی گئی کہ وہ مکہ مدینہ میں عمومًا اور مسجد الحرام میں خصوصًا داخل نہیں ہوسکتا۔اس میں تین اہم نکات ہیں جو غور طلب ہیں:

سب سے پہلا غور طلب نکتہ یہ ہے کہ اس میں صرف مشرکوں کا داخلہ منع کیا گیا ہے اور وہ بھی مکہ مدینہ میں نہیں بلکہ صرف مسجد الحرام میں منع کیا گیا ہے۔

دوسرا اہم غور طلب نکتہ یہ ہے کہ “بعد عامھم ھٰذا” کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکوں کا یہ داخلہ پورے سال کے لئے نہیں بلکہ محض حج کے دنوں میں منع کیا گیا تھاجب دنیا بھر سے مسلمان حج کی ادائیگی کے لئے جمع ہوتے ہیں۔یہ اعلان سن9ہجری میں حج کے موقع پر کیا گیا تھا جب حضرت ابوبکر صدیقؓ کو نبی اکرم ﷺ نے امیر حج بنا کر بھیجا تھا اور ان کے جانے کے بعد جب سورۃ التوبۃ جسے سورۃ البراٗۃ بھی کہتے ہیں، کی آیات نازل ہوئیں تو حضرت علیؓ کو مکہ بھیجا گیا تاکہ وہ اس کا اعلان فرمادیں۔اگر یہ مناہی فوری ہوتی تو کہا جاتا کہ آج ہی سے مشرکوں کا یہاں داخلہ منع ہے۔اس کے برعکس کہا گیا کہ اس سال کے بعد ان کا مسجد الحرام میں داخلہ منع ہے۔یعنی اگلے سال سے جب لوگ حج کرنے آیا کریں گے تو مشرکین ان میں شامل نہیں ہوسکتے۔

تیسرا اہم اور قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ قدیم سے مکہ میں حج کے موقع پر مختلف میلے اور بازار بھی منعقد ہوتے تھے اور مختلف علاقوں سے جمع ہونے والے لوگ طوافِ کعبہ کے ساتھ ساتھ تجارت بھی کیا کرتے تھے، چنانچہ جب مشرکین کو حج کے موقعہ پرمسجد الحرام میں داخلہ سے منع کردیا گیا تو قدرتی طور پر مسلمانوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ ان لوگوں کے نہ آنے کے باعث ان کی تجارتیں متاثر ہوں گی۔ یہ بھی اس بات کاایک بیّن ثبوت ہے کہ حرمِ مکہ میں مشرکین کا داخلہ سال کے بارہ مہینے نہیں بلکہ محض حج کے موقعہ پر بند کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کی اس پریشانی پر انہیں تسلّی دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس بناء پر غربت کا خوف نہ کھاؤ کہ اگر مشرکین نہیں آئیں گے تو تمہیں تجارتوں میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے تمہیں مالدار کردے گا۔یعنی یہی مشرکین مسلمان ہوجائیں گے اور پھر ہر علاقہ سے آئیں گے اور حج کے ساتھ ساتھ تجارتیں بھی بڑھیں گی۔چنانچہ کچھ عرصہ بعد ہی عربوں کی ایک بہت بڑی تعداد مسلمان ہوگئی اور حج کے موقعہ پرپھر اُسی طرح میلے اور بازار سجنےلگے۔

حدیث سے تائید

بخاری کتاب الحج باب لایطُوفُ بالبیتِ عُریانٌ ولا یَحُجُّ مُشرِکٌ میں حضرت ابوہریرۃؓ سے ایک حدیث مروی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:

أنَّ أبا بَکۡرِ الصِّدِیقَ ؓ بَعَثَہُ فِی الحَجَّۃِ الَّتِی أَمَّرَہُ عَلَیۡھَا رَسُوۡلُ اللّٰہِ ﷺ قَبۡلَ حَجَّۃِ الوَدَاعِ، فِی رَھۡطٍ یُؤَذَّنُ فِی النَّاسِ: أن لَا یَحُجَّ بَعۡدَ العَامِ مُشۡرِکٌ وَلَا یَطُوۡفُ بِالبَیۡتِ عُریَانٌ

نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع سے پہلے سال حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو امیر حج بنا کر بھیجا تھا۔ اس سال لوگوں میں یہ اعلان کردیا گیا تھا کہ اس سال کے بعد نہ تو کوئی مشرک حج کرے گا اور نہ ہی کوئی عریاں ہوکر بیت اللہ کا طواف کرے گا۔

اس روایت سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مشرکین کو محض حج کرنے سے اوردورِ جاہلیت کی بیہودہ حرکات سے منع کیا گیا تھا ورنہ ان کا مسجد الحرام میں مطلق داخلہ ممنوع نہ تھا۔ بخاری کتاب التفسیر میں سورۃ التوبۃ کی تفسیر میں بھی اسی مضمون پر مشتمل دو احادیث بیان کی گئی ہیں۔ ایک اورحدیث کے مطابق کسی شخص کو بھی بیت اللہ کے طواف اور وہاں نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا جاسکتا۔

وَعَنۡ جُبَیرِ بنِ مُطعَمٍ ؓ، اَنَّ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: ”یَا بَنِی عَبدٍ مَنَافٍ! لَا تَمۡنَعُوا اَحَدًا طَافَ بِھَذَا البَیۡتِ، وَ صَلّٰی اَیَّۃَ سَاعَۃٍ شَآءَ مِنۡ لَیۡلٍ اَو نَھَارٍ“ رَوَاہُ التِّرمِذِیُّ، وَ اَبُودَاؤُدَ، وَالنِّسَآئیُّ۔

جُبَیر بن مُطعم ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اے بنی عبد مناف! تم کسی شخص کو نہ روکو جو بیتُ اللہ کا طواف اور نماز ادا کرنا چاہے رات دن میں جس وقت بھی چاہے۔‘‘ ترمذی، ابوداؤد، نسائی نے اسے روایت کیا۔

(مشکوٰۃ کتاب الصلاۃ باب اوقات النہی)

مفسرین اور فقہاء کی اس بارے میں آراء

مندرجہ ذیل جلیل القدرمفسرین، علماء و فقہاء کا عقیدہ ہے کہ غیر مسلموں کا مکہ مدینہ میں جانا ممنوع نہیں ہے۔

تفسیر طبری (ابوجعفر محمد بن جریر الطبری)

فلیس لأحد من المشرکین أن یقرب المسجد الحرام بعد عامھم بحالٍ الا صاحب الجزیۃ، أو عبد رجلٍ من المسلمین

مشرکین میں سے جزیہ دینے والے اور مسلمانوں کے غلام کے سوا کوئی مشرک بھی مسجد الحرام میں داخل نہیں ہوسکتا۔

تفسیر الکشّاف (جار اللہ الزمخشری)

فلا یحجوا، ولا یعتمروا، کما کانوا یفعلون فی الجاہلیۃ بعد حج عامھم ھذا

پس اپنے اس سال کے بعدوہ حج نہیں کریں گے اور نہ عمرہ کریں گے جس طرح وہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے۔

تفسیر الکبیر (امام فخرالدین الرازی)

قال الشافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ: الکفار یمنعون من المسجد الحرام خاصۃ، و عند مالک: یمنعون من کل المساجد، و عند أبی حنیفۃ رحمہ اللّٰہ: لا یمنعون من المسجد الحرام ولا من سائر المساجد

شافعی کہتے ہیں کہ کفار کو صرف مسجد الحرام سے منع کیا گیا ہے۔ اور مالک کے نزدیک انہیں تمام مساجد سے منع کیا گیا ہے۔ اور ابو حنیفہ کے نزدیک نہ تو انہیں مسجد الحرام سے منع کیا گیا ہے اور نہ ہی دیگر تمام مساجد سے۔

تفسیر البیضاوی (ناصرالدین البیضاوی)

و قیل المراد بہ النھی عن الحج والعمرۃ لا عن الدخول مطلقًا و الیہ ذھب أبو حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ
اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد صرف حج اور عمرہ سے منع کرنا ہے مطلق داخلہ سے نہیں اور ابو حنیفہؒ کا یہی مذہب ہے۔

تفسیر النّسفی (عبداللہ النسفی)

فلا یحجّوا، ولا یعتمروا، کما کانوا یفعلون فی الجاھلیۃ۔۔۔و یکون المراد من نہی القربان: النھی عن الحجّ والعمرۃ۔ و ھو مذھبنا۔ ولا یمنعون من دخول الحرم والمسجد الحرام و سائر المساجد عندنا۔ و عند الشافعی رحمہ اللّٰہ یمنعون عن المسجد الحرام خاصۃ۔و عند مالک: یمنعون منہ و من غیرہ

پس وہ حج نہیں کریں گے اور نہ ہی عمرہ، جس طرح وہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے۔۔۔اور قریب جانے سے منع کرنے سے مراد حج اور عمرہ سے منع کرناہے اور یہی ہمارا مذہب ہے۔اور ہمارے نزدیک ان کا مسجد الحرام اور دیگر تمام مساجد میں داخل ہونا منع نہیں ہے۔ اور شافعیؒ کے نزدیک صرف مسجد الحرام میں جبکہ مالک کے نزدیک اس میں بھی اور دوسری تمام مساجد میں بھی داخلہ منع ہے۔

تفسیر البحر المحیط (ابو حیّان الاندلسی)

والظاہر أن النہی مختص بالمشرکین و بالمسجد الحرام، و ھذا مذھب أبی حنیفۃ، و اباح دخول الیھود والنصاری المسجد الحرام وغیرہ، و دخول عبدۃ الاوثان فی سائر المساجد، و قال الزمخشری ان معنی قولہ (فلا یقربوا المسجد الحرام) فلا یحجوا ولا یعتمروا، و یدل علیہ قول علیّ حین نادی ببراءۃ ’’لا یحج بعد عامنا ھذا مشرک‘‘

اور ظاہر ہے کہ یہ مناہی صرف مشرکین اور صرف مسجد الحرام تک مختص ہے اور یہ ابوحنیفہؒ کا مذہب ہے جو یہودونصاریٰ کا مسجد الحرام اور دیگر تمام مساجد میں اور بتوں کے پجاریوں کا تمام مساجد میں داخلہ جائز قرار دیتے ہیں۔ زمخشری کہتے ہیں کہ اس آیت کا معنی ہے کہ وہ حج اور عمرہ نہ کریں۔ اور اس پر دلیل علیؓ کا یہ قول ہے ’’اس سال کے بعد یہ مشرک حج نہیں کرے گا۔‘‘

تفسیر جامع البیان (محمد بن عبدالرحمٰن الایجی)

منعوا من دخول الحرم، و قیل منعوا عن الحج و العمرۃ لا عن الدخول مطلقًا (بعد عامھم ھذا)

وہ حرم میں داخلہ سے منع کئے گئے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ حج اور عمرہ سے منع کئے گئے ہیں نہ کہ مطلق داخلہ سے۔

تفسیر الدرِّ منثور (امام جلال الدین السیوطی)

فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا الا ان یکون عبدًا او احدا من اھل الذمۃ

پس وہ اپنے اس سال کے بعد مسجد الحرام کے قریب نہ جائیں سوائے اس کے کہ وہ غلام ہو یا اہل ذمہ میں سے کوئی ایک۔

تفسیر ابن کثیر (حافظ عماد الدین ابن کثیر)

ولا یحج بعد العام مشرک، ولا یطوف بالبیت عریان۔

اور اس سال کے بعد مشرک حج نہیں کریں گے اور نہ ہی عریاں طواف کریں گے۔

تفسیر روح المعانی (شہاب الدین محمود الالوسی)

وبالظاہر أخذ أبوحنیفۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذ صرف المنع عن دخول الحرم الی المنع من الحج والعمرۃ، و یؤیدہ قولہ تعالیٰ (بعد عامھم ھذا) فان تقیید النھی بذلک یدل علی اختصاص النھی عنہ بوقت من أوقات العام أی لا یحجوا ولا یعتمروا بعد حج عامھم ھذا۔۔۔أن الامام الاعظم یقول بالمنع عن الحج و العمرۃ و یحمل النھی علیہ ولا یمنعون من دخول المسجد الحرام و سائر المساجد عندہ۔۔۔یروی انہ لما جاء النہی شق ذلک علی المؤمنین و قالوا: من یأتینا بطعامنا و بالمتاع فأنزل اللّٰہ سبحانہ و ان خفتم عیلۃ فسوف یغنیکم اللّٰہ من فضلہ) أی عطاۂ أو تفضیلہ۔

امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اس آیت میں مشرکین کو حج اور عمرہ سے منع کیا گیا ہے اور اس کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس قول (ان کے اس سال کے بعد) سے ہوتی ہے۔پس اس ممانعت کو سال بہ سال ہونے والے کام سے مقید کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں حج اور عمرہ سے منع کیا گیا ہے۔۔۔امام اعظم کے بقول انہیں حج اور عمرہ سے منع کیا گیا ہے اور مسجد الحرام اور دوسری تمام مساجد میں داخلے سے منع نہیں کیا گیا۔۔۔روایت کیا گیا ہے کہ مشرکوں پر یہ پابندی مسلمانوں پر شاق گزری اور انہوں نے کہا کہ اب ہماری خوراک اور مال و متاع کون لے کر آیا کرے گا تو اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اگر تمہیں غربت کا خوف ہے تو اللہ تعالیٰ جلد اپنے فضل سے تمہیں غنی بنادے گا۔

تفسیر مظہری

’’ائمہ احناف کا مسلک یہ ہے کہ مسجد حرام میں کفار کا داخلہ مطلقًا منع نہیں بلکہ حج اور طواف سے منع کرنا مقصود ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علیؓ کو حج کے موقعہ پر یہ اعلان کرنے کے لئے بھیجا تھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے۔ پس معلوم ہوا کہ اس نہی سے مراد حج و عمرہ سے منع کرنا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک مسجد حرام میں کافر کا داخل ہونا جائز ہے اور دوسری مساجد میں بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔ مفہوم میں مبالغہ پیدا کرنے کے لئے قریب جانے سے بھی منع کیا گیا ہے۔‘‘

تفہیم القرآن (سیّد ابوالاعلیٰ مودودی)

’’امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس سے مراد صرف یہ ہے کہ وہ حج اور عمرہ اور مراسم جاہلیت ادا کرنے لئے حدود حرم میں نہیں جاسکتے۔ امام شافعی کے نزدیک اس حکم کا منشاء یہ ہے کہ وہ مسجدحرام میں جا ہی نہیں سکتے۔ اور امام مالک یہ رائے رکھتے ہیں کہ صرف مسجد حرام ہی نہیں بلکہ کسی بھی مسجد میں ان کا داخل ہونا درست نہیں۔ لیکن یہ آخری رائے درست نہیں ہے کیونکہ نبی ﷺ نے خود مسجد نبوی میں ان لوگوں کو آنے کی اجازت دی تھی۔‘‘

تفسیر تبیان القرآن (علامہ غلام رسول سعیدی، شیخ الحدیث دارالعلوم نعیمیہ کراچی)

’’حماد بن سلمہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عثمان بن ابی العاص سے روایت کیا ہے کہ جب ثقیف کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا تو آپ نے ان کے لئے مسجد میں خیمہ لگوایا۔ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ! یہ تو نجس لوگ ہیں! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کی نجاست زمین پر نہیں لگتی ان کی نجاست ان میں ہی رہتی ہے۔ اور زہری نے سعید بن مسیّب سے روایت کیا ہے کہ ابوسفیان زمانہ کفر میں نبی ﷺ کی مسجد میں داخل ہوتا تھا البتہ ان کا مسجد حرام میں داخل ہونا جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’وہ (غیر ذمی مشرک) مسجد حرام کے قریب نہ ہوں۔ علامہ ابوبکر رازی کہتے ہیں کہ ثقیف کا وفد نبی ﷺ کے پاس (آٹھ ہجری میں) فتح مکہ کے بعد آیا تھا اور یہ آیت نو ہجری میں نازل ہوئی ہے جب حضرت ابوبکر صدیق امیر حج بن کر گئے تھے، نبی ﷺ نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا اور یہ خبر دی کہ کفار کی نجاست ان کو مسجد میں داخل ہونے سے منع نہیں کرتی اور ابوسفیان فتح مکہ سے پہلے صلح کی تجدید کے لئے آئے تھے وہ اس وقت مشرک تھے اور یہ آیت اس کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اس آیت کا تقاضا صرف مسجد حرام کے قریب جانے سے ممانعت ہے اور یہ آیت کفار کو باقی مساجد میں داخل ہونے سے منع نہیں کرتی۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ زید بن یشیع حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کے حکم سے ندا کی کہ حرم میں کوئی مشرک داخل نہیں ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ان الفاظ کے ساتھ روایت صحیح ہو تو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حرم میں کوئی مشرک حج کیلئے داخل نہیں ہوگا۔ کیونکہ حضرت علی سے احادیث میں یہ روایت ہے کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اس حدیث میں حج کے لئے حرم میں دخول سے ممانعت ہے اور شریک سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس سال کے بعد مشرکین مسجد حرام کے قریب نہ جائیں، البتہ کسی ضرورت کی وجہ سے غلام یا باندی مسجد حرام میں داخل ہوسکتی ہے۔‘‘ اس حدیث میں آپ نے ضرورت کی وجہ سے غلام یا باندی کا مسجد حرام میں دخول جائز قرار دیا ہے اور حج کیلئے اجازت نہیں دی، اور یہ اس پر دلیل ہے کہ آزاد ذمی بھی ضرورت کی وجہ سے مسجد حرام میں داخل ہوسکتا ہے، کیونکہ اس مسئلہ میں کسی نے بھی آزاد اور غلام میں فرق نہیں کیا اور حدیث میں غلام اور باندی کا بالخصوص اس لیے ذکر کیا ہے کہ یہ عام طور پر حج کیلئے نہیں جاتے اور امام عبدالرزاق نے سورہ توبہ کی اس آیت کی تفسیر میں یہ روایت ذکر کی ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے تھے البتہ غلام یا کوئی ذمی شخص ہو تو وہ جاسکتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر وھبہ الزحیلی شامی حنفی عالم

’’لأنہ لیس المراد من آیۃ (انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا) النھی عن دخول المسجد الحرام، و انما المراد النھی عن أن یحج المشرکون و یعتمروا کما کانوا یعملون فی الجاہلیۃ۔‘‘

(الفقہ الاسلامی و ادلتہ ۔ جلد۔6 صفحہ534۔ مطبوعہ دارالفکر للطباعۃ والتوزیع والنشر۔بدمشق)

اس آیت سے یہ مراد نہیں ہے کہ مسجد الحرام میں داخلہ منع ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ مشرکین جاہلت کے دور کی طرح حج اور عمرہ نہیں کرسکتے۔

علامہ شبلی نعمانی

’’آج غیر مذہب کا کوئی شخص مکہ معظمہ نہیں جاسکتا اور یہ ایک شرعی مسئلہ خیال کیا جاتا ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں غیر مذاہب والے بے تکلف مکہ معظمہ جاتے تھے اور جب تک چاہتے تھے مقیم رہتے تھے۔ چنانچہ قاضی ابویوسف نے کتاب الخراج میں متعدد واقعات نقل کئے ہیں (کتاب الخراج صفحہ 97-87)۔ آج کل یورپ والے جو اسلام پر تنگ دلی اور وہم پرستی کا الزام لگاتے ہیں۔ اسلام کی تصویر خلفائے راشدین کے حالات کے آئینہ میں نظر آسکتی ہے۔‘‘

(’’الفاروق‘‘ صفحہ 883)

سورۃ التوبۃ کی مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کے مطالعہ اور مفسرین و فقہاء کے حوالہ جات سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ تمام غیر مسلموں کا مسجد الحرام میں مطلق داخلہ ممنوع نہیں ہے بلکہ صرف مشرکین کا اور وہ بھی محض ایامِ حج میں منع ہے اور انہیں جاہلیت کے دور کی حرکات کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مفسرین نے مسلمانوں کے مشرک غلام اور اہل ذمّہ کے استثنیٰ کا بھی ذکر کیا ہے۔یعنی حج کے موقع پر بھی ایک مسلمان کا مشرک غلام یا باندی اور اہل ذمّہ میں شامل مشرک مسجد الحرام میں داخل ہوسکتا ہے۔اہل سنّت کے چار عظیم الشان فقہاءِ کرام میں سے تین ائمہ فقہ حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام الشافعیؒ کے اقوال بھی ان تفاسیر میں نقل کئے گئے ہیں جن میں سے حضرت امام ابوحنیفہؒ تو مکمل طور پر مذکورہ بالا تشریح کی تائید فرماتے ہیں اور مسجد الحرام کے ساتھ ساتھ دیگر تمام مساجد میں بھی مشرکین کے علاوہ یہودونصاریٰ کے داخلہ کو بھی جائز ٹھہراتے ہیں، جبکہ حضرت امام الشافعیؒ مسجد الحرام کے علاوہ دیگر مساجد میں مشرکین کا داخلہ جائز سمجھتے ہیں۔ حضرت امام مالکؒ کا مؤقف اس معاملہ میں بالکل سخت ہے اور وہ مسجد الحرام سمیت کسی بھی مسجد میں مشرکین کا داخلہ جائز نہیں ٹھہراتے۔جیسا کہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے لکھا ہے، حضرت امام مالکؒ کا یہ مؤقف نبی اکرم ﷺ کے عمل کے بھی خلاف ہے کیونکہ سن ۹ ہجری میں اس آیت کے نزول اور حج کے موقعہ پر اس کے اعلان کے بعد سن01 ہجری میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ آیا جسے مسجدِ نبوی میں ٹھہرایا گیا بلکہ انہوں نے وہاں اپنی عبادت بھی کی۔ اگر غیر مسلموں کا کسی بھی مسجد میں داخلہ منع ہوتا تو نبی اکرم ﷺ کس طرح انہیں اپنی مسجد میں ٹھہرنے اور عبادت کرنے کی اجازت دے سکتے تھے؟

مشرکوں کو حج و عمرہ کی اجازت؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی علماء ہندوپاک کے اہلحدیث فرقہ کی ہمنوائی میں سنّی بریلوی فرقہ پر قبر پرستی اور فوت شدہ اولیاء اللہ سے استمداد کا الزام لگاتے ہوئے اسے کھلم کھلا مشرک اور کافرقرار دے چکے ہیں اور اسی طرح یاعلی مدد کہنے اور دیگر عقائد کی بناء پر شیعہ حضرات پر بھی کفروشرک کے فتاویٰ جاری کرچکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سعودی حکومت کی طرف سے سنّی بریلوی اور شیعہ فرقہ پر مکہ مدینہ جانے اور حج و عمرہ کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی۔ ہندوپاک کے اہلحدیث علماء نے بھی سنّی بریلوی اور شیعہ فرقہ کے خلاف کفروشرک کے شدید فتاویٰ جاری کرنے اورمخالفانہ کتابیں لکھنے کے باوجود آج تک سعودی حکومت سے، جن کے وہ نہایت منظورِ نظر اور وظیفہ خوار ہیں، کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ قر آنِ کریم کی اس آیتِ کریمہ کی رو سے سنّی بریلوی اور شیعہ حضرات کا مکہ مدینہ میں داخلہ بند کیا جائے۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف ہندوپاک کے اہلحدیث علماء اور سعودی علماء کے قول و فعل سعودی حکومت اور علماء کے تضاد کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ ان کی طرف سے قرآنِ کریم کے حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی ظاہر کرتا ہے کہ جن فرقوں کو وہ مشرک اور کافر سمجھتے ہیں انہیں مسجد الحرام میں حج اور عمرہ کے موقع پر داخل ہونے سے منع نہیں کرتے۔ یا تو سنّی بریلوی اور شیعہ فرقہ پر مکہ مدینہ داخل ہونے اور حج و عمرہ کرنے پر پابندی لگائی جائے یا ان کے خلاف کفروشرک کے فتاویٰ واپس لئے جائیں اور آئندہ ایسے فتاویٰ جاری کرنے پر پابندی لگائی جائے۔یہ تو اہلحدیث اور سلفی یا وہابی سعودی علماء کا حال ہے۔

لیکن افسوسناک اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ غیر مقلدین اہلحدیث فرقہ کے علاوہ ہندوپاک کے دیوبندی علماء نے،جوفقہ حنفی کے پیروکار اور حضرت امام ابوحنیفہؒ کے مقلد ہونے کے دعویدار ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ مسجدالحرام سمیت تمام مساجدمیں غیر مسلموں کے داخلہ کو یکسر جائز سمجھتے ہیں، نہ صرف یہ کہ غیر مسلموں پرسعودی حکومت کی اس پابندی کے متعلق مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے بلکہ اپنے امام کے برخلاف وہ اس پابندی کے حامی اور مؤید ہیں۔

ان تمام مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پرثابت ہوا کہ تمام عالمین کے لئے باعثِ برکت اور منبعِ رُشد و ہدایت مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں داخلہ کے لئے کسی غیر مسلم پر اسلام نے ہرگز کوئی پابندی عائد نہیں کی اور یہ دونوں مقدس مقامات تمام انسانوں کے لئے کھلے ہونے چاہئیں۔

(انصر رضا۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اپریل 2020