جدھر بھی دیکھو اس کا پرتَو نظر آتا ہے
اک ذرا سوچ تیرا گیان کدھر جاتا ہے
تیرے تغافل نے تجھے مار دیا اے شخص
ورنہ اس کے جلوے پر وقت ٹھہر جاتا ہے
تجھے فتور کہ تیرا علم سب سے بالا ہے
وہاں یہ عالم ہے کہ عالم بھی ڈر جاتا ہے
تجھے یہ ناز کہ تیرا علم ہی سمندر ہے
وہاں ایک قطرے میں سمندر سکڑ جاتا ہے
کبھی تو سوچ کہ تو اتنا بے بس کیوں ہے
تو کیوں ظلمت و آفات میں گِھر جاتا ہے
تیری یہ بے حسی اور تکبر تجھے لے ڈوبا
ورنہ فریاد پر شیرِ مادر بھی اتر آتا ہے
اب جو روتے ہو کہ ہر کام بگڑ جاتا ہے
کرو اگر حمد تو ہر کام سنور جاتا ہے
روئے پہلے جو وہ قہر سے بچ جاتا ہے
نہ روئے پہلے جو وہ قہر سے مر جاتا ہے
ابھی بھی وقت ہے مانگ لو اسے، اس سے
محض ہو فضل تو وہ دل میں اتر آتا ہے
(کاشف ریحان خالد۔ بیلجیئم)