• 10 جولائی, 2025

تاریخ چکوال کا ایک ورق عیسائیوں کے جلسہ میں احمدی مبلغین کی فتح

چکوال میں عیسائیوں نے اپنے جلسہ کا انتظام کر کے بذریعہ اشتہار اعلان کیا۔ اس لئے مسلمانوں کی ہر ایک جماعت نے ان کا مقابلہ کرنا اپنا فرض سمجھا۔ اسی طرح جماعت احمدیہ چکوال نے بھی مبلغ طلب کئے۔

عیسائیوں کا جلسہ مورخہ15 تا 18 جون تھا۔ روزانہ ایک مضمون پرایک تقریرتھی۔ ہر تقریر کے بعد ایک گھنٹہ تبادلۂ خیالات کے لئے رکھا گیا تھا۔ ہم نے چکوال امریکن مشن کے انچارج سے اپنے لئے علیحدہ وقت تبادلۂ خیالات کا طلب کیا تھا۔ مگر ان کی طرف سے جواب ملا کہ کسی جماعت کو علیحدہ وقت نہیں دیا جاسکتا۔ اسی ایک گھنٹہ کو تمام سوالات کرنے والوں پر تقسیم کردیا جائے گا۔ اگر اور کوئی سوال کرنے والا نہ ہوا تو تمام وقت جماعت احمدیہ کو دے دیا جائے گا۔

ہمارے مبلغ مولوی عبدالغفور،مولوی فاضل، ملک عبدالرحمن خادم بی۔ اے، مولوی عبدالمنان فاضل پہنچ گئے۔ 15جون کی پہلی تقریر عیسائیوں کی ’’اصلیت بائبل‘‘ پر پادری عبدالحق کی تھی۔ صدر جلسہ پادری ایس ایم پال تھے۔ ہم عیسائیوں کے جلسہ میں گئے اور پریذیڈنٹ جلسہ کو اطلاع دے دی کہ ہم آگئے ہیں۔

تقریر کے بعد سوالات کرنے کا موقع دیا جائے۔ اب عیسائی صاحبان کویہ دیکھ کرکہ سوائے احمدیوں کے کوئی سوال کرنے والا ہی نہیں اورصرف احمدیوں سے تبادلۂ خیالات کرنا پڑے گا۔ ایک گھنٹہ میں ہمارا تانا بانا احمدی مبلغ بکھیر کر رکھ دیں گے سخت گھبرائے۔

آخرتقریر ختم ہونے کے بعد پریذیڈنٹ جلسہ پادری ایس ایم پال نے دریافت کیا کہ کوئی سوال کرنا چاہتا ہے۔

اس کے جواب میں مولوی عبدالغفور کھڑے ہوئے۔ پادری صاحب نے کہا کہ 15منٹ آپ کو سوال کرنے کے ملیں گے۔اور 15منٹ کے بعد کے ہمارے لیکچرار کے ہوں گے۔تقسیم اوقات 5منٹ ہوگا۔ مگر آپ 5منٹ کے اندر صرف ایک سوال کرسکیں گے۔ ایک سے زیادہ سوالات کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہمیں 5منٹ تو منظور ہیں مگر ہم صرف ایک سوال کی قید منظور نہیں کرتے۔ خواہ ہم ایک سوال کریں، خواہ دس یہ ہماری ہمت ہے۔ ہم پانچ منٹ سے زائد وقت نہیں لیں گے۔ پادری صاحب نے کہا ہم ایک سے زیادہ سوال کی اجازت نہیں دے سکتے۔

ملک عبدالرحمان خادم کھڑے ہوئے اور انہوں نے پریذیڈنٹ کو اپنے اشتہار کی طرف توجہ دلائی جس میں پریذیڈنٹ کے اختیارات کی تشریح کی گئی تھی اور بتایا کہ ایک سوال کی قید لگانا آپ کے اختیارات میں داخل نہیں اس لئے آپ اپنے اختیارات سے بڑھ کر ہمارے حق میں ہے بے جا مداخلت کررہے ہیں۔ پادری صاحب نے بجائے اس معقول سوال کا کچھ جواب دینے کے غیرشریفانہ لب ولہجہ سے کہا۔تم کون ہو؟ بیٹھ جاؤ۔ ملک صاحب نے کہا میرے اعتراض کا جواب دو۔پھر پادری صاحب نے کہا ۔میں حکم دیتا ہوں ۔بیٹھ جاؤورنہ میں جلسہ برخاست کرنے کا حکم دیتا ہوں ۔ملک صاحب نے کہا تمہارا جلسہ برخاست ہوا تو کیا اور نہ ہوا تو کیا ۔

جلسہ تو ہمارا ہے اور آدمی ہمارے ہیں اور تم نے ’’دعوتِ عام‘‘ کے عنوان سے اشتہار دےکر ہم لوگوں کو بلایا ہے۔ اب ہمیں وقت دو تا کہ ہم سوالات کریں۔

اس معقول مطالبہ کا کوئی جواب نہ دیا گیا۔اور جلسہ برخاست کرنے کا حکم دے دیا۔ مگر جلسہ میں تو احمدی ہی احمدی تھے۔ جو بغیر اجازت اپنے امیرِجلسہ سے اُٹھنا نہ چاہتے تھے لیکن چونکہ جلسہ کرنے والے بھاگ رہے تھے۔ اور اُن کے فرش بچھے ہوئے تھے۔ اس لئے احمدی بھی اُٹھ کھڑے ہوئےاور پادری صاحبان سے فرداً فرداً اس نازیبا حرکت پر گفتگو شروع ہوگئی۔ دورانِ گفتگو پادری عبدالحق کو ’’فاتح قادیان‘‘ کے ٹائٹل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے دریافت کیا گیا۔ جبکہ تم فاتح قادیان ہوئے تو پھر قادیانی مبلغوں کو دیکھ کر تمہاری روح کیوں فنا ہوتی ہے اور میدان سے کیوں بھاگ کھڑے ہوتے ہو۔ اگر مردِ میدان ہو تو مقابلہ پر ڈٹ جاؤ۔ اس پر عبدالحق مذکور نے ہمارے مبلغین کی شان میں ناشائستہ الفاظ استعمال کئے اور آستین چڑھا کر ملک عبدالرحمٰن خادم کی طرف آگے بڑھاکہ آجاؤ میں تمہیں ٹھیک کروں۔ اس کے علاوہ پادری بوٹامل نے نہایت غیرمہذبانہ فقرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں استعمال کئے جس کا جواب نہ دیا گیا۔ پھر یہ بھی کہا ہم مار مار کر سیدھا کردیں گے۔ ہم نے نرمی کی طرف توجہ دلائی مگر وہ اپنی لاری میں بیٹھ کر رفو چکر ہوگئے۔

دوسرے روز پادری ایس ایم پال کی تقریر نجات پرتھی اور پادری عبدالحق پریذیڈنٹ تھے۔ تقریر کے خاتمہ سے پیشتر ہماری طرف سے ملک عبدالرحمان خادم نے سوالات کے لئے رقعہ لکھ کر دیا۔ فاتح قادیان کی روح خادم قادیان کا رقعہ دیکھتے ہی فنا ہوگئی اور بدحواسی کے عالم میں رقعہ پھاڑ کر نیچے پھینک دیا۔ تقریروں کے خاتمہ پر پادری عبدالحق کھڑے ہوکرعجب بھولے پن سے دریافت فرماتے ہیں۔ ’’کوئی صاحب سوال کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ جب کوئی کھڑا نہ ہوا۔ تو مولوی عبدالغفور نے دریافت فرمایا جو رقعہ آپ کو ملا تھا اس میں کیا لکھا تھا۔ پادری صاحب کہتے ہیں کہ آپ کو اس رقعہ سے کیا غرض۔ مولوی صاحب نے فرمایا۔ اس لئے دریافت کرتے ہیں شاید اس رقعہ میں ہی کسی نے سوال کرنے کی اجازت طلب کی ہو تو پھر اس کو موقع دیا جائے۔ عبدالحق نے کہا ہم نہیں بتاتے کہ وہ رقعہ کیا ہے۔ اس کے بعد ملک صاحب کھڑے ہوگئے کہ میں سوال کرنا چاہتا ہوں۔

پادری مذکور نے ملک صاحب کوکہا کہ آپ کو سوال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ملک صاحب نے کہا۔

تم نے ہماری جماعت کے سیکرٹری کو لکھا تھا کہ کسی خاص شخص کو علیحدہ وقت نہیں دیا جائے گا بلکہ جو چاہے سوال کرسکتا ہے۔اب مجھے کیوں وقت نہیں دیتے۔ پادری نے کہا آپ کو اجازت نہیں دے سکتے۔ اس پر مکرم مولوی عبدالغفور نے فرمایاتو آپ کو آج کے اشتہار میں لکھ دینا تھاکہ سوائے ملک عبدالرحمان کے ہر ایک کو سوال کی اجازت دی جائے گی۔قصہ مختصر پادری صاحبان نے صاف کہہ دیا کہ ہم آپ لوگوں کو ہرگز وقت نہیں دے سکتے اور کھلے طور پر پبلک کے سامنے احمدی مبلغین کے مقابلہ سے عاجزی کا اظہار اور شکست کا اقرار کیا اور ہمارے مبلغ جلسہ گاہ سے اٹھ کر چلے آئے۔

اس کے بعد سیکرٹری انجمن احمدیہ نے عیسائیوں کو مناظرہ کا کھلا چیلنج دیا۔ جس کے جواب میں عیسائیوں نے لکھا کہ ہم مناظرہ کرنے کو تیار ہیں۔ آپ شرائط مناظرہ اور مضمون مناظرہ طے کرنے کیلئے اپنے نمائندے روانہ کریں۔ چنانچہ ہمارے نمائندے مولوی عبدالغفور مولوی فاضل ، ملک عبدالرحمان خادم، خواجہ شمس الدین گئے۔ عیسائیوں کی طرف سے پادری عبدالحق صاحب، پادری ایس ایم پال، پادری A.W. GARDAN اے ڈبلیو گارڈن انچارج امریکن مشن ضلع جہلم تھے۔ گفتگو شروع ہوتے ہی پادری عبدالحق نے کہا۔ ہم ملک عبدالرحمن سے نہ گفتگو کرنے کو تیار ہیں اور نہ مناظرہ طے کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس پر بہت دیر گفتگو ہوتی رہی۔ فاتح قادیان کا دم خادم قادیان کے مقابلہ میں آتے ہوئے فنا ہوتا تھا۔ آخر پادری صاحبان نے کہا کہ جب تک ملک صاحب گفتگو میں شامل ہیں ہم گفتگو کرنے کو تیار نہیں۔

ہمارے نمائندوں نے جب دیکھا کہ یہ جان چھڑانے کے لئے بہانہ بناتے ہیں تو مولوی عبدالغفورنے فرمایا۔ اگر آپ بغیر کسی وجہ کے ملک صاحب کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ہم عبدالحق کو بوجہ اس بدزبانی کے ناپسند کرتے ہیں۔ اس لئے پہلے عبدالحق کو یہاں سے اٹھانا چاہئے۔یہ سن کر عبدالحق فوراً اٹھ کر چلا گیا اور یہ کہتا گیا۔ ہم تو ان سے مناظرہ نہیں کریں گے۔ تم چاہتے ہو تو کرتے پھرو۔ اس کے بعد پادری ایس۔ ایم۔ پال سے مولوی عبدالغفورنے دریافت فرمایا کہ آپ کو تو ملک صاحب پر کوئی اعتراض نہیں۔ پادری صاحب نے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اس لئے مولوی صاحب نے فرمایاتو پھر ملک صاحب بیٹھے رہیں۔ پادری نے کہا چونکہ عبدالحق چلا گیا ہے۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ ملک صاحب بھی باہر چلے جائیں۔ چنانچہ ملک صاحب باہر آکر بیٹھ گئے۔

اس کے بعد جب شرائط طے کرنے کے متعلق گفتگو شروع ہوئی۔ تو پادری گارڈن نے اور پادری پال نے انکار کردیاکہ ہم عبدالحق کے بغیر شرائط طے نہیں کرسکتے۔ جب ہم نے دیکھاکہ یسوعی بھیڑیں احمدی شیروں کے سامنے سےبھاگ رہی ہیں اور کسی طرح قابو نہیں آتیں۔ تو ایک رقعہ لکھ کر اسی موقع پر پادری گارڈن کے حوالے اس مضمون کا کیا گیا اور ہماری طرف سے شرائط مناظرہ طے کرنے کے لئے نمائندے مولوی عبدالغفور مولوی فاضل اور ملک عبدالرحمن خادم ہوں گے اور مناظر بھی ہوں گے۔آپ جواب دیں۔ مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہیں یا نہیں جلد جواب دیں۔

عجب لطیفہ یہ تھا کہ غیر احمدیوں کے پیچھے تو پادری صاحبان موٹر لئے دوڑے پھرتے تھے۔ اور ان کے جلسوں میں دوڑے دوڑے جاتے تھے۔ مگر ہماری طرف سے باوجود دعوت دینے کے آدمی روانہ کرنے کے آنے سے ایسے ڈرتے تھے جیسے تیرسے کوا۔ چونکہ گرمیوں کے دن تھے اس لئے جلسے رات کو ہوتے تھے۔ ہمارے سامنے تو رات کو نہ آنے کا بہانہ پیش کیا جاتا تھا اور غیر احمدیوں کے جلسہ میں 10بجے رات کو جادھمکتے تھے اور باوجود ان کے انکار کے سوالات کرنے کی اجازت مانگتے تھے۔ مگر ہم ہیں کہ ہر تقریر کے بعد اعلان کرتے ہیں کہ عیسائی صاحبان کو اجازت ہے۔ جس قدر وقت چاہیں لے لیں مگر کانوں میں تیل ڈال کر سوجاتے رہے۔ ہماری طرف سے تین لیکچر ہمارے مبلغین کے ہوئے۔ آخری دن جناب مولانا جلال الدین شمس بھی تشریف لے آئے تھے۔

ردّتثلیث پرمولوی عبدالغفور مولوی فاضل، ردِ کفارہ پر ملک عبدالرحمن خادم بی۔اے، مولوی جلال الدین شمس شرک وبدعت کے خلاف، مولوی عبدالمنان مولوی فاضل کی ختم نبوت کی حقیقت پر تقریریں ہوئیں۔

ہمارے مبلغین کی تقریریں بہت پسند کی گئیں اور ہمارے جلسے باوجود غیر احمدیوں کے دن اور رات جلسے ہونے کے خدا وندتعالیٰ کے فضل سے کامیاب رہے اور حاضری کافی ہوتی رہی۔

(اخبار فاروق قادیان مورخہ 28 اگست 1932ء)


(ریاض احمد ملک)

پچھلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ

اگلا پڑھیں

آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیّین ماننا ایمان کا جزو ہے