• 26 اگست, 2025

Thanks Ahmadiyya, you have given us hijab

اسلام میں پردہ کا حکم ،دنیا بھر کی تمام مسلمان خواتین کے لئے ہے۔ ہر ملک، معاشرہ اور قوم میں پردہ کی مختلف کیفیات رائج ہیں۔ افریقہ میں ایک خاتون کا اپنے آپ کو ڈھانپ لینا ہی پردہ ہے۔ مجھے گزشتہ دنوں حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی نمائندگی میں سیرا لیون میں منعقد ہونے والے 57 ویں جلسہ سالانہ میں شمولیت اور تمام ملک میں منعقد ہونے والی مختلف تقاریب میں حاضر ہونے کی توفیق ملی۔

جلسہ سالانہ پر 24 ہزار 700شاملین میں سے نصف سے کچھ کم خواتین تھیں۔ ان میں اکثریت سفید لباس میں ملبوس، سروں پر حجاب لئے راستوں میں آتی جاتی نظر آئیں۔ کچھ غیر از جماعت خواتین کو بھی انتظامیہ نےمدعو کر رکھا تھا۔ وہ بھی full sleave اور full trouser اور سروں پر حجاب کے ساتھ نظر آئیں۔

اِسی پر بس نہیں۔ مجھے جب ملک بھر کی تقاریب میں جانا ہوا تو ہر تقریب میں خواتین کو اس ملک کے کلچر کے مطابق نہ صرف باپردہ پایا بلکہ mixed gathering والے کلچر میں مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ جگہ بھی مخصوص تھی۔

قارئین الفضل آن لائن کو جان کر یہ خوشی ہوگی کہ احمدیہ مسلم اسکولز میں جماعت احمدیہ نے کچھ عرصہ سے حجاب متعارف کروا دیا ہے احمدیہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والی تمام طالبات خواہ ان کا کسی اسلامی فرقے یا کسی مذہب سےتعلق ہو کے لئے یونیفارم اور حجاب پہننا ضروری ہے۔ ساوتھرن پراونس کے ہیڈ کوارٹر Bo کے احمدیہ سیکنڈری اسکول کا احاطہ میں جہاں جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔ جلسہ کے اختتام سے اگلے ہی روز جب طلبہ و طالبات اسکولز کے لئے آجا رہی تھیں تو اسلامی تعلیم کا ایک حسین منظر پیش کررہی تھیں۔ full sleave شرٹ، full trouser کے پہناوے کے ساتھ سروں پر حجاب تھے۔ جسے ’’ٹیوب حجاب‘‘ کا نام دیاگیا ہے۔ خاکسار اِسی روز سابقہ مربی ہاؤس اور مسجد ناصر دیکھنے گیا جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1988ء میں اپنے تاریخ ساز دورہ کے دوران خطبہ جمعہ ارشاد فرمایاتھا تو اس وقت اسکولزمیں چھٹی ہو چکی تھی ۔سڑکوں پر اسلامی یونیفارم میں ملبوس یہ طالبات واپس جارہی تھیں۔ یہ نظارہ بھی دیدنی اور دلوں کا بھا رہا تھا۔

سیرالیون دورہ کے آخری روز مجھے سیرا لیون میں قائم ہونے والی ابتدائی جماعتوں میں سے ایک جماعت روکوپُر کا وزٹ کروایا گیا۔ جہاں احمدیہ مسلم مسجد کے ساتھ ایک منہدم شدہ گھر بھی ہے۔ جس میں الحاج مولانا نذیر احمد علی مبلغ سلسلہ کی رہائش ہوا کرتی تھی اور خانہ جنگی کے دوران Rabbles نے اِسے توڑپھوڑ دیا تھا۔ اِسی وجہ سے ٹاؤن کی لوکل انتظامیہ کے تعاون سے جماعت احمدیہ نے اس سٹریٹ کو الحاج نذیر احمد سٹریٹ کا نام دے رکھا ہے۔

یہاں جماعت احمدیہ کے 3 اسکولز ہیں۔ احمدیہ مسلم سیکنڈری اسکول کی بلندو بالا عالیشان خوبصورت عمارت کے ساتھ پرائمری اور نرسری اسکولز کی دو الگ الگ عمارتیں ہیں۔ سیکنڈری اسکول کے ارد گرد چار دیواری تھی جس پر گیٹ لگا ہوا تھا۔ جو سیرالیون ماحول اور کلچر میں ایک انوکھی چیز لگ رہی تھی۔ مگر اس مضمون پر لاگو ہو رہی تھی جو خاکسار اس اداریہ میں بیان کر رہا ہے۔ مجھے یہاں طلبہ و طالبات سے خطاب کرنا تھا۔ ہم جب اسکول میں داخل ہوئے تو فضا نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اُٹھی۔ جماعت کا ہر فرد اور ہر طالب علم محبت کے جذبات میں بہہ کر اچھلنے کی کیفیت کے قریب قریب جذباتی ہو رہا تھا۔ حتیٰ کہ جناب پرنسپل اسکولز اس قدر جذباتی ہورہے تھے کہ خود ہی نعرے لگوانے شروع کر دئیے۔ایک ایسی پیاری اور روح کو چھیڑنے والی نعروں کی ایک آواز کانوں کو چھو رہی ہے جسے سُن کرمجھے سیدنا بلالؓ یاد آنے لگے۔ جن سے شین اور راء کا صحیح تلفظ ادانہ ہوتا تھا۔ آج اس موقع پر بھی کچھ ایسی کیفیت سننے کو مل رہی تھی۔نعرہ تکبیر کو ’’نعلا تکبیل‘‘ اور اشھد کی آوازیں ’’اسہد‘‘ میں تبدیل ہو رہی تھیں۔

خاکسار مع مکرم سعید الرحمٰن امیر جماعت احمدیہ اور دیگر افراد جب اسٹیج کی طرف تقریب میں شمولیت کے لئے بڑھ رہے تھے جو بلند برآمدہ میں بنایا گیا تھا تو طلبہ و طالبات کا ایک جم غفیر تھا جو بڑے بڑے قد آور سایہ دار درختوں کےسایہ تلے کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ گو وہ کھڑے ہو کر نعرہ ہائے تکبیر اور دیگر slogans اور نظموں سے ہمار استقبال کر رہے تھے۔ مگر میں تو مسلسل زیر لب اللہ کاشکر ادا کر رہا تھا اور ان طالبات کو جماعت احمدیہ کے متعارف شدہ یونیفارم میں ملبوس دیکھ رہا تھا۔ سر ٹیوب حجاب سے ڈھکے ہوئے تھے۔

خاکسارنے اس موقع پر اپنے خطاب میں حجاب سے سجی ان بچیوں کو سراہنے کے ساتھ ساتھ سورۃ الانبیاء کی آیت 11 لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ کہ ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی جس میں تمہارا تذکرہ ہے کی تلاوت کرکے ان طالبات سے کہا کہ آپ اسلامی لباس میں ملبوس جو نظر آ رہی ہیں دراصل ایسا لباس اور پردہ کرنے والی خواتین کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔

آپ بہت خوش نصیب ہیں جو احمدیہ مسلم اسکول میں زیر تعلیم ہیں جو آپ کو اسلامی تعلیم سے آراستہ کرے۔ آپ جب قرآن کریم کا مطالعہ کریں تو مختلف احکامات الٰہیہ اور اخلاق طیبہ کو سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کیا کریں کہ کیا میں اس قرآن تعلیم پر پورا اُتر رہی ہوں یا اُتر رہا ہوں۔ الغرض اپنےآپ کو قرآن کریم میں تلاش کریں۔ محترم امیر صاحب نے گھروں ،گلی کوچوں میں بھی اسلامی پردہ اپنانے کی طرف توجہ دلائی۔

اس عظیم عالیشان دلوں کو قابو کر لینے والے پروگرام کے بعد وفد کو پرائمری اور نرسری اسکولز کا دورہ کر وایا گیا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ نرسری اور پہلی جماعت کی بعض بچیاں بھی حجاب میں تھیں۔

پرائمری اور نرسری اسکولز کے دورہ کے بعد ہم جب مشن ہاؤس کی طرف جا رہے تھے تو مجھے سڑک پر احمدیہ اسکولز سے مختلف رنگ میں پورے یونیفارم میں ایک طالبہ جاتی نظر آئی تو میں نے امیر صاحب سے اس حوالہ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ہمارے مخالف دوست کے اسکول کی بچی ہے۔ اس مخالف نے جب ہمارے مقابل اسکول کھولا تو ٹاؤن کے باشندوں کے اصرار پر اسے بھی وہی یونیفارم اپنے اسکول کو دینا پڑا جو احمدیہ کا ہے۔ بلکہ مجھے یہ بھی بتلایا گیا کہ بعض کرسچنز اسکولز نے بھی یہ لباس متعارف کروادیا ہے۔ کیونکہ ان اسکولز کو طلبہ نہیں ملتے۔ بچوں کے والدین حجاب اور فُل یونیفارم کی وجہ سے احمدیہ اسکولز کو ترجیح دیتے ہیں جو اب 300 کی تعداد میں ہیں۔ بلکہ میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ احمدیہ مسلم ہسپتالز میں نرسوں کا لباس بھی ایسا ہے جس میں تمام جسم کو ڈھانپا گیا ہے۔

جماعت احمدیہ کا لوگ شکریہ ادا کر تے ہیں اور علیٰ الاعلان اس امر کا اظہارکرتے ہوئے کہتے ہیں

Thanks Ahmadiyya, you have given us uniform and hijab

یہ حجاب متعارف کروانے میں جماعت کو بعض جگہوں پر بہت مخالفت کا سامنا کرنا پڑاہے۔ جماعت کو کہا گیا کہ یہ سیرا لیونین لباس نہیں۔ انہیں سمجھایا گیا کہ کیا ٹائی بھی سیرا لیونین لباس میں آتی ہے۔ یہ بھی تو آپ لوگوں نے عاریتاً یا ادھار لے رکھی ہے۔ ایک عملی جہاد سے گزر کر جماعت کے اسکولز نے یہ پردہ یعنی حجاب اپنایا ہے۔ بلکہ اب تو سیکنڈری اسکولز میں طلبہ میں بھی ٹخنوں تک پینٹ لازم قرار د ے دی گئی ہے۔ جس سے وہ تمام طلبہ اب Gentle men یعنی شریف لگتے ہیں۔

سیرالیون میں حجاب کا بہت ہی پیارا دلچسپ اور دلوں کو اپنی طرف کھینچنے والا منظر دیکھ کر مجھے آنحضور ﷺ کے دور میں ایک حبشی خاتون کا ایمان افروز واقعہ یاد آرہا ہے اس پر اپنےاداریہ کا اختتام کرتا ہوں۔

حضرت عطاء بن ابو رباحؓ کو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھاؤں۔ حضرت عطاءؓ کو نے فرمایا کیوں نہیں ابن عباس؟ آپ نے ایک حبشی عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ حبشی عورت۔ نیز فرمایا اس نے بارگاہ رسالت نبی پاک ﷺ میں حاضر ہو کرعرض کی۔ یا رسول اللہؐ! مرگی کے مرض کی وجہ سے میرا سَتر (Satar) کھل جاتا ہے۔ میرے لئے دعا کیجئے۔آپؐ نے فرمایا۔ چاہو تو صبر کرو تمہارے لئے جنت ہے اور اگر چاہو تو میں اللہ سے تمہارے لئے دُعا کروں کہ وہ تجھے عافیت دے۔ اس حبشی عورت نے عرض کی کہ میں صبر کروں گی پھراس خاتون نے آنحضور ﷺ سے عرض کی کہ دُعا کیجئے بوقت مرگی میرا پردہ نہ کھلا کرے تب آپؐ نے اس خاتون کے لئے دُعا کی۔

پچھلا پڑھیں

اک اسیر راہ مولا آج رخصت ہو گیا

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ