آج کل کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا بے چینی اور گھبراہٹ کا شکار ہے ۔ حیات قدسی جو کہ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح حیات پر مشتمل کتاب ہے، اس کے صفحہ 45 پر ایک واقعہ درج ہے۔
آپؓ صاحبِ رؤیا اور کشوف تھے صفحہ 45 پر آپ کا ایک کشف درج ہے جو ایک وبائی بیماری کے متعلق آپ کو دکھایا گیا ہے۔ جس میں وہ وبائی جراثیم خود خواب میں آ کر آپ کو یہ کہتے ہیں کہ جو شخص بھی استغفار اور لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّةَ پڑھے اس کو ہم کچھ نہیں کہتے وہ واقعہ کچھ اس طرح ہے ۔آپؓ لکھتے ہیں کہ
’’گجرات شہر کے قیام کے بعد ایک دفعہ ضلع گوجرانوالہ میں جبکہ میں اپنے سسرال موضع پیر کوٹ میں تھا میری بیوی کے بھائی میاں عبداللہ خان کو ایک طاعون والے گاؤں میں سے گزرنے سے طاعون ہو گئی۔ جب غیر احمدی لوگوں کو معلوم ہوا تو کہنے لگے مرزائی تو کہا کرتے ہیں کہ طاعون کا عذاب مرزا صاحب کی مخالفت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اب بتائیں کہ پہلے ان کے ہی گھر میں طاعون کیوں پھوٹ پڑی؟میں نے جب ان کی ہنسی اور تمسخر کو دیکھا اور شماتت اعداء کا خیال کیا تو بہت دعا کی چنانچہ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے مکان کے صحن میں طاعون کے جراثیم بھرے پڑے ہیں مگر ان کی شکل گجرات والے جراثیم سے مختلف ہے یعنی ان کا رنگ بھورا اور شکل دو نقطوں کی طرح ہے اس وقت مجھے گجرات والے جراثیم کی بات یاد آگئی کہ جو شخص استغفار کرے ہم اسے کچھ نہیں کہتے چنانچہ میں نے ان کے سامنے بھی استغفار پڑھنا شروع کر دیا۔اس پر یہ جراثیم مجھے کہنے لگے کہ ہماری قسم بہت سخت ہے اس لئے ہم سے استغفار کرنے والے بھی نہیں بچ سکتے تب میں نے حیران ہو کر دریافت کیا کہ پھر آپ سے بچنے کی کیا صورت ہے تو انہوں نے کہا ہمیں حکم ہے کہ جو شخص لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّةَاِلَّابِاللّٰہ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ پڑھے اسے ہم کچھ نہ کہیں اس خواب سے بیدار ہو کر صبح میں نے تمام رشتہ داروں اور دیگر احمدیوں کو یہ خواب سنایا اور لَاحَوْلَ پڑھنے کی تلقین کی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی برکت سے میاں عبداللہ خاں صاحب کو بھی شفا دی اور دوسرے احمدیوں کو بھی محفوظ رکھا مگر غیراحمدیوں میں کثیرالتعداد لوگ اس عذاب شدید کا شکار ہو گئے۔‘‘
اب دیکھیں جراثیم خود آ کر کہہ رہے ہیں کہ استغفار اور لَاحَوْلَ سے ہم کچھ نہیں کہتے اصل میں اس کشف کی تائید قران کی آیت سے بھی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ سورۃ الانفال آیت 34 میں فرماتا ہے کہ ترجمہ: اور نہ اللہ ان کو ایسی حالت میں عذاب دے سکتا تھا جبکہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔
اب استغفار ہے کیا چیز؟ استغفار کرتے ہوئے کون سے معنی ذہن میں ہونے چاہئے۔ تو یاد رہے کہ استغفار کی حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں بیان فرمائی ہے کہ
’’استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے۔ یہ لفظ غفر سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں سو اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مستغفر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے لیکن بعد اس کے عام لوگوں کے لئے اس لفظ کے معنی اور بھی وسیع کئے گئے اور یہ بھی مراد لیا گیا کہ خدا گناہ کو جو صادر ہو چکا ہے ڈھانک لے لیکن اصل اور حقیقی معنی یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مستغفر کو جو استغفار کرتا ہے فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے۔‘‘
(حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اپنی تحریروں کی رو سے جلد دوئم صفحہ 688،687)
اس لحاظ سے اس کے دو معنی مدنظر ہوں گے ایک یہ کہ اے اللہ !جوگناہ، غلطی کوتاہی ہم سے سرزد ہوچکی ہے اس کے بداثرات کو دبا دے، ڈھانک دے اور دوسرے اے خدا بشر ہونے کے ناطے جو کمزوریاں اور جو سستیاں ہم سے ہو سکتی ہیں ان کو بھی دبا دےاور ڈھانک دے، وہ کبھی نکلنے نہ پائیں۔ یہ ہے استغفار کی حقیقت اس طرح استغفار کرنا چاہئے نہ کہ جنتر منتر کی طرح منہ سے اَسْتَغفِرُاللّٰہ اَسْتَغفِرُاللّٰہ کہہ دیا جو لوگ استغفار کی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے استغفار کرتے ہیں اور جو معنی اوپر پیش کئے گئے ان کو سامنے رکھتے ہیں اور ایسی توبہ اور استغفار کرتے ہیں ان کے متعلق خدا کیا کہتا ہے وہ بھی سن لیجئے اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ آیت 223 میں فرماتا ہے ترجمہ:اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اب سوچنے کا مقام ہے کہ جن سے محبت ہو کیا انہیں عذاب دیا جاتا ہے؟ نہیں بالکل نہیں بلکہ وہ خدا کے محبوب ہوتے ہیں۔ تو ہمیں بس خدا کا محبوب بننے کی ضرورت ہے صرف اپنے آنسو اس انداز سے خدا کے حضور بہائیں کہ اےاللہ! ہمیں اپنا محبوب بنا دے ہم سے جو سستی ،جو گناہ ہو چکے ہیں ان کے بد اثرات سے ہم کو بچا لے اور آئندہ جو کمزوریاں ،جو سستیاں ایک بشر ہونے کے ناطے ہم سے ہو سکتی ہیں ان کا ظہور نہ ہونے پائے اور پھر لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّةَاِلَّابِاللّٰہ پر دل سے یقین ہوکہ سب کچھ خدا کے اختیار میں ہے ہم تو ایک بے بس عاجز انسان ہیں کوئی چیز کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتی جب تک خدا اس میں برکت نہ ڈالے کیونکہ سارا اختیار ساری قوت خدا کے پاس ہے پھر یہ ساری التجائیں دعائیں صرف لفاظی نہ ہو بلکہ اتنے درد سے خدا سے خدا کو مانگیں کہ آپ کے آنسو بھی ان دعاؤں میں شامل ہوجائیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے
’’کوئی دن ایسا نہ ہو جس دن تم نے خدا تعالیٰ کے حضور رو کر دعا نہ کی ہو‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 195)
یقین مانیں یہ آنسو ہی اصل میں سچی خوشی اور حقیقی سکون دیتے ہیں۔ جس سے دل مطمئن ہو جاتا ہے خدا کی طرف سے ایک سکینت اُترتی ہے۔ ہاں شرط یہ ہے کہ وہ آنسو صرف خدا کے لئے ہوں خدا کی محبت پانے کے لئے ہوں اس کے قریب ہونے کے لئے ہوں اس کی جدائی میں ہوں۔ یاد رکھیں یہ استغفار کوئی معمولی چیز نہیں ہے بعض لوگ اپنی کم علمی یا نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ استغفار تو گنہگاروں کے لئے ہے۔ ایسی سوچ بالکل غلط ہے استغفار کرنا تو پیغمبروں کا شیوہ رہا ہے آنحضرت ﷺ کے متعلق آتا ہے کہ آپ دن میں 70 سے بھی زائد مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے ’’حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ فرماتے تھے کہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے بعض دفعہ میں 70سے بھی زائد مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔‘‘
(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب استغفار النبی فی الیوم والیلۃ حدیث 6307)
حالانکہ آپ ﷺ تو معصوم تھے اور خاتم الانبیاء تھے۔ تو جب نبیوں کا سردار نبی دن میں 70 سے بھی زائد دفعہ استغفار کرتا ہے۔ آپ ﷺ کو اتنی شدت سے استغفار کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی تو پھر ہمارے لئے مسلسل استغفار کرنا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا کتنا ضروری ہو گا۔ 70سے مراد کثرت بھی ہے یعنی کثرت سے نبیوں کا استغفار جو میں نے دوسرے معنی بتائے تھے ان میں آتا ہے نبیوں کوسب سے زیادہ معرفت کا جام دیا جاتا ہے وہ سب سے زیادہ عاجز ہوتے ہیں لہٰذا جانتے ہیں کہ انسان بشر ہے بھول چوک اس کا خاصہ ہے۔ خدا کے فضل سے ہی انسانی کمزوریاں بشری آلائشیں دب سکتی ہیں۔ اسی لئے راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر سجدہ گاہوں کو تَر کر دیتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں اپنے فضل سے بچائے رکھنا۔ پھراپنی پیدائش کے مقصد کو پا لیتے ہیں اور نفس مطمئنہ کو حاصل کر لیتے ہیں یہی نفس مطمئنہ ہم سب کو حاصل کرنا چاہئے۔ ہماری ساری تگ و دو ہمارے مجاہدے، ہماری سعی ،ہمارا رونا ،ہمارا چلانا خدا کے حضور اسی مقصد کے لئے ہو تڑپ تڑپ کر یہیں دعائیں ہوں کہ اے اللہ!نفس مطمئنہ دے دے کیونکہ اسی نفس کے متعلق قران پاک میں بشارت ہے۔ سورہ الفجر آیت 28 تا 31 میں خدا فرماتا ہے:
ترجمہ: اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی طرف لوٹ آ، اس حال میں کہ تو اسے پسند کرنے والا بھی ہے اور اس کا پسندیدہ بھی پھر تیرا رب تجھے کہتا ہے کہ آ میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا اور آ میری جنت میں بھی داخل ہو جا۔
تو اگر یہ کرونا وائرس ہم میں تبدیلی پیدا کرجائے ،ہمیں خدا کے قریب کرجائے ہمیں نفس مطمئنہ میں داخل کرجائے جوانسانیت اس وبائی بیماری سے مررہی ہے۔ اس کا تصورکر کے اگر ہماری سجدہ گاہیں تر ہو جائیں تو پھر یہ عذاب نہیں رہا بلکہ خدا کی رحمت بن گیا جس نے آپ کو خدا کے قریب کر دیا۔ جو تاریکی جو راتیں انسان کو خدا کے قریب کر دیں خدا کا فضل کھینچ لائیں وہ ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہوجاتی ہیں اسی طرف سورہ القدر میں اشارہ ہے اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اور ہم سب کو اپنا قرب دے اور اس وبائی بیماری سے اپنی حفظ و ایمان میں رکھے۔ آمین
(ترصد عنایت مہر۔ہالینڈ)