• 27 اپریل, 2024

رؤیت ہلال

فقہی مسائل

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہ پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اِس کے روزے رکھے۔

(البقرۃ:186)

قمری مہینہ کی گنتی اور اس کے آغاز اور اختتام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں۔

الشَّہْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَیْلَۃً، فَلاَ تَصُومُوا حَتَّی تَرَوْہُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوا العِدَّۃَ ثَلاَثِینَ

(صحیح البخاری کتاب الصوم بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اِذَا رَأَیْتُمُ الہِلاَلَ فَصُومُوا، وَإِذَارَأَیْتُمُوہُ فَأَفْطِرُوا)

مہینہ انتیس راتوں کا ہوتا ہے، جب تک چاند نہ دیکھو، روزے نہ رکھو اور اگر تم پر (چاندکی رؤیت) مشتبہ ہو جائے تو تیس کی گنتی پوری کرو۔

حضرت کریب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

’’امّ فضل بنت حارث نے انہیں امیر معاویہ ؓ کے پاس شام بھیجا۔ وہ کہتے ہیں میں شام آیا اور ان کا کام مکمل کیا۔میں شام میں ہی تھا کہ رمضان کا چاند طلوع ہوگیا۔ میں نے چاندجمعہ کے دن دیکھا، پھر مہینہ کے آخر میں مدینہ آ گیا۔

حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے (حال احوال) پوچھا پھر نئے چاند کا ذکر کیا اور کہا کہ تم نے نیا چاند کب دیکھا؟ میں نے کہا ہم نے اسے جمعہ کی رات دیکھا۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا تم نے خود اسے دیکھا؟ میں نے کہا ہاں اور دوسرے لوگوں نے بھی اسے دیکھا اور انہوں نے روزہ رکھا اور امیر معاویہ ؓ نے بھی روزہ رکھا۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا ہم نے اسے ہفتہ کی رات دیکھا ہم روزے رکھتے رہیں گے یہاں تک کہ تیس پورے کرلیں یا ہم اسے (چاندکو) دیکھ لیں۔ میں نے کہا کیا آپ ؓکے لئے امیر معاویہ ؓ کی رؤیت اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں تو انہوں نے کہا نہیں، ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی حکم دیا تھا۔‘‘ (یعنی ہم اپنے افق پر نظر آنے والے چاند کی رؤیت کا خیال رکھیں گے۔)

(صحیح مسلم کتاب الصیام باب بیان أَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتَہُمْ)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

’’فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہٗ جس پر یہ مہینہ طلوع ہوگا اسی کو روزے رکھنے ہیں۔ دیکھا دیکھی سنی سنائی بات پر روزے نہیں رکھنے۔ اور یہاں ’’من‘‘ میں صرف ایک فرد واحد مراد نہیں ہے۔ بلکہ وہ قوم ہے جس کا افق ایک ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اس کا طریق یہ جاری فرمایا کہ اگر ایک ہی افق کے لوگ کسی موسم کی خرابی کی وجہ سے اکثر نہ دیکھ سکتے ہوں تو ان میں دو قابل اعتماد یا چار قابل اعتماد، کچھ قابل اعتماد لوگ اٹھ کھڑے ہوں اور وہ کہیں، گواہی دیں کہ ہم نے دیکھا ہے۔ تواگر افق مشترک ہے تو سب کا ہی رمضان شروع ہو جائے گا۔ اور اگر افق مشترک ہے تو سب ہی کی عید ہو جائے گی۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل یکم نومبر تا 7نومبر 2002ء)

مشینی ذرائع سے چاند دیکھنا

آج کل چاند جدید سائنسی آلات کی مدد سے بھی دیکھا جاسکتا ہے بلکہ ایسے ذرائع بھی دریافت ہوگئے ہیں جن کی مدد سے چاند کی عمر کا حساب لگایا جاتا ہے لہٰذا ایک ماہ قبل ہی بتایا جاسکتا ہے کہ آیا چاند 29 دن کا ہوگا یا 30 دن کا۔

اس بابت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

’’کیا مشینی ذرائع سے چاند کا علم پانا مَنْ شَھِدَ مِنْکُمْ کے تابع ہوگا یا نہیں ہو گا؟ اگر ہوتو پھر دیکھنا متروک ہے۔ اوریہ بھی ہو سکتاہے کہ مشینوں کے ذریعہ چاند دکھائی دے جاتا ہولیکن نظر سے نہ دکھائی دیتا ہو۔ تو کیا قرآن کریم کا پہلا عمل یعنی پہلے دور کا عمل اس مشینی عمل کے مقابل پر رد ہو جائے گا؟ یا پہلے دور کا عمل جاری رہے گا اور مشینی دور کا عمل متروک سمجھا جائے گا؟یہ بحث ہے جو بہت سے لوگوں کو الجھن میں مبتلا رکھتی ہے۔ حالانکہ اس میں ایک ادنیٰ ذرہ برابر بھی کوئی الجھن نہیں۔ الجھن لوگوں کی نا فہمی اور ناسمجھی میں ہے۔ ورنہ امر واقعہ یہ ہے کہ نئے دور میں مشینوں کے حوالے سے یا برقیاتی آلوں کے حوالے سے اگر آپ چاند کے طلوع کا علم حاصل کریں تو وہ ’’مَنْ شَھِدَ‘‘ کے تابع رہتا ہے اور جہاں ’’مَنْ شَھِدَ‘‘ سے ہٹتا ہے وہاں اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔ وہاں بے اعتبار ہو جائے گا۔ جو لوگ نہیں سمجھتے وہ ٹھوکر کھاتے ہیں اورپھر آپس میں خوب ان کی لڑائیاں ہوتی ہیں۔

اس لئے میں آپ کو سمجھا رہا ہوں، آگے عید بھی آئے گی یہ بحثیں چلیں گی، بچوں کی سکول میں بھی دوسرے بچوں سے گفتگو ہوگی، کالجوں میں یہ معاملہ زیر بحث آجائے گا، بزنس، کاموں پر زیر بحث آئے گا، اس لئے سب احمدیوں کو اچھی طرح ہر ملک کے احمدی جو یہ خطبہ سن رہے ہوں ان کو اچھی طرح یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے۔

چاند جو طلوع ہوتا ہے وہ جب زمین کے کنارے سے اوپر آتا ہے تو اگرچہ سائنسی لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ زمین کے افق سے چاند ذرا سا اوپر آچکا ہے۔ لیکن وہ چاند لازم نہیں کہ نظر سے دیکھا جا سکتا ہو۔ ا س لئے سائنسدانوں نے بھی ان چیزوں کو تقسیم کر رکھا ہے۔ اگر آپ اچھی طرح ان سے جستجو کر کے بات پوچھیں تو وہ آپ کو بالکل صحیح جواب دیں گے کہ دیکھو یہ تو ہم یقینی طور پر معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ چاند کس دن کتنے بجے طلوع ہوگا۔ یعنی سورج غروب ہوتے ہی اوپر ہو چکا ہوگا ،لیکن اس کا مطلب یہ نہ سمجھ لو کہ اگر موسم بالکل صاف ہو اور کوئی بھی رستے میں دھند نہ ہو تب بھی تم اس کو اپنی آنکھ سے دیکھ سکتے ہو کیونکہ چاند کو طلوع ہونے کے بیس منٹ یا کچھ اوپر مزید چاہئے۔ اور ایک خاص زاویے سے اوپر ہونا چاہئے۔ اگر وہاں تک پہنچے تو پھر آنکھ دیکھ سکتی ہے ورنہ نہیں دیکھ سکتی۔ اس لئے ہوسکتاہے کہ جیسا کہ پچھلے سال مولویوں نے یہاں کیا کہ observatory سے یہ تو پوچھ لیا کہ چاند کب نکلے گا اور انہوں نے وہی سائنسی جواب دیا کہ فلاں دن یہ اتنے بجے طلوع ہو جائے گا اور سورج ڈوبنے کے معاً بعد کا وقت تھا۔ تو مولویوں نے فتویٰ دے دیا کہ اس دن شروع ہو جائے گا، رمضان یا عید جو بھی تھی۔ اور بعض دوسرے جو ان میں سے سمجھ دارتھے ،تعلیم یافتہ مسلما ن یہاں موجود ہیں، احمدی نہیں ہیں مگر وہ ان باتوں پر غور کرتے ہیں انہوں نے انکار کر دیا انہوں نے کہا کہ ہم تو ایسی عید نہیں کریں گے یا ایسا رمضان نہیں شروع کریں گے اور وہ سچے تھے۔کیونکہ اگر وہ مولوی صاحبان ان لیبارٹریز سے یا جو ان کے مراکز ہیں،آسمانی سیاروں وغیرہ کے، ان سے پوچھتے تو وہ صاف بتا دیتے کہ نکلے گا تو سہی لیکن تم اس کی شہادت نہیں دے سکتے تم اپنی آنکھ سے اس کو کبھی بھی دیکھ نہیں سکتے۔ کیونکہ جتنا وہ نکل کے اونچا جاتا ہے اس طلوع سے کوئی آنکھ بھی اس کو اس لئے نہیں دیکھ سکتی کہ وہ زمین کے بہت قریب ہوتا ہے اور زمین کے قریب کی فضا اس کی شعاعوں کو نظروںتک پہنچنے سے پہلے پہلے جذب کر چکی ہوتی ہے۔اس لئے عین نشانہ پر پتہ ہو،کہ وہاں چاند طلوع ہو رہا ہے آپ نظر جما کر دیکھیں آپ کو ایک ذرہ بھی کچھ دکھائی نہیں دے گا۔تو شَھِدَ کا مضمون اس پر صادق نہیں آئے گا۔

شَھِدَ کا مطلب ہے جو گواہ بن جائے ،جو دیکھ لے، جو پالے، مگر سائنسدان ہی یہ بھی آپ کو بتاتے ہیں اور قطعیت سے بتاتے ہیں کہ اگر اتنے منٹ سے اوپر چاند ہو چکا ہو یعنی سورج ڈوبنے کے بعد مثلاً پندرہ منٹ کی بجائے بیس منٹ رہے تو پہلے پندرہ منٹ میں اگر دکھائی نہیں دے سکتا تو آخری پانچ منٹ میں دکھائی دے سکتا ہے۔ یا اس کا زاویہ اتنا ہو کہ وہ زمین کے ایسے افق سے اونچا ہو چکا ہو جو افق چاند اور ہماری راہ میں حائل رہتا ہے ۔ اس سے جب اونچا ہو گا تو لازماً دیکھ سکتے ہو ۔پھر بادل ہوں تو الگ مسئلہ ہے ، لیکن اگر بادل نہ ہوں تو لازماً ننگی آنکھ سے دیکھ سکتے ہو۔ تو پھر شَھِدَ مِنْکُمْ کا حکم صادق آگیا کیونکہ شَھِدَ میں ساری قوم کا دیکھنا تو فرض تھا ہی نہیں۔ کچھ بھی دیکھ سکتے ہوں لیکن اس طرح دیکھ سکتے ہوں جیسے انسان کی توفیق ہے کہ ننگی آنکھ سے دیکھ سکے وہ فتویٰ لازماً ساری قوم پر صادق آئے گا ۔اور وہ لوگ جن کا افق ایک ہے وہ سائنسی ذرائع سے معلوم کر کے پہلے سے فیصلہ کرسکتے ہیں۔ تو اس لئے وہ جھگڑے کہ اب اکٹھی کیسے عید کی جائے یا اکھٹا رمضان کیسے شروع کیا جائے، یہ جھگڑے تو اس دور میں ختم ہو چکے ہیں اور اگر ہیں تو ان لوگوں نے پیدا کئے ہیں جو بےوجہ ناسمجھی سے اختلاف کرتے ہیں ۔ پس یہ جو نظارے یہاں دکھائی دیتے ہیں کہ ایک ہی ملک میں ایک عید آج ہو رہی ہے، ایک کل ہو رہی ہے، ایک پرسوں ہو گی یہ قرآن کریم کے بیان کا ابہام ہرگز نہیں ہے۔ قرآن کریم کابیان بیِّنات میں سے صاف کھلا کھلا ہے۔ اگر اس پر چلیں تو یہ ناممکن ہے کہ یہ اختلاف ہوں یا ننگی آنکھ سے چاند نظر آئے گا یا آلات کے ذریعہ آئے گا اور دونوں ایک دوسرے پر بالکل چسپاں ہوں گے اور ان کے درمیان کوئی بھی اختلاف نہیں ہو گا ۔سائنسی فتویٰ بعینہ وہی ہوگا جن شرائط کے ساتھ میں بیان کر رہا ہوں جو ننگی آنکھ سے دیکھنے کا فتویٰ ہے۔ تو اس لئے یہ دور ایسا ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ کے قائم کردہ قوانین کو خدانے خود ہی بندوں کے لئے مسخرفرما رکھا ہے اور نئی نئی باتیں جو ہمارے علم میں آرہی ہیں ان کو خدمت دین میں استعمال کرنا چاہئے۔

پس جماعت احمدیہ کی طرف سے جو کیلنڈر شائع ہوتے ہیں اور ابھی بھی یہاں ہو چکے ہیں یا ہر ملک میں ہوتے ہیں ان کی گواہی قطعی ہے کیونکہ ہم کبھی بھی ایسی گواہی کو قبول نہیں کرتے جہاں ننگی آنکھ سے چاند کا دیکھنا ممکن نہ ہو۔ جہاں یقینی ہو کہ اگر موسم صاف ہے تو چاند ضرور دکھائی دے گا وہاں قبول کیا جاتا ہے اور مہینوں کے جو دوسرے دن ہیں یا اس کا شروع اور آغاز، دوسرے مہینوں سے تعلقات، وہ ہمیشہ ٹھیک بیٹھتے ہیں اگر غلطی ہو تو بعض دفعہ عجیب سی غلطی بن جاتی ہے۔ بعض مہینے اس کے اٹھائیس دن کے رہ جاتے ہیں۔ اور اٹھائیس دن کا مہینہ ہو ہی نہیں سکتا چاند کا۔ یہ کوئی فروری تو نہیں جو اٹھائیس دن کا آئے، چاند کا توہر مہینہ 29 کا ہو گا یا 30کا۔پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کا جو فیصلہ ہے وہ قطعی اور درست ہے۔ اور قرآن کریم کے عین مطابق ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل یکم تا 7نومبر 2002ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

’’اِن ملکوں میں جو مغربی ممالک ہیں، یورپین ممالک ہیں نہ ہی حکومت کی طرف سے کسی رؤیت ہلال کا انتظام ہے اور نہ ہی اس کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس لئے ہم چاندنظر آنے کے واضح امکان کو سامنے رکھتے ہوئے روزے شروع کرتے ہیں اور عید کرتے ہیں۔ ہاں اگر ہمارا اندازہ غلط ہو اور چاند پہلے نظر آجائے تو پھر عاقل بالغ گواہوں کی گواہی کے ساتھ، مومنوں کی گواہی کے ساتھ کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے پہلے بھی رمضان شروع کیا جاسکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ جو ایک چارٹ بن گیا ہے اس کے مطابق ہی رمضان شروع ہو۔ لیکن واضح طور پر چاندنظر آنا چاہئے۔ اس کی رؤیت ضروری ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ ہم ضرور غیر احمدی مسلمانوں کے اعلان پر بغیر چاند دیکھے روزے شروع کر دیں اور عید کر لیں یہ چیز غلط ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو اپنی ایک کتاب سرمہ چشم آریہ میں بھی بیان فرمایا۔ حساب کتاب کو یا اندازے کو ردّ نہیں فرمایا۔ یہ بھی ایک سائنسی علم ہے لیکن رؤیت کی فوقیت بیان فرمائی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’خدائے تعالیٰ نے احکام دین سہل و آسان کرنے کی غرض سے عوام الناس کو صاف اور سیدھا راہ بتلایا ہے اور ناحق کی دقّتوں اور پیچیدہ باتوں میں نہیں ڈالا۔ مثلاً روزہ رکھنے کے لئے یہ حکم نہیں دیا کہ تم جب تک قواعد ظنّیہ نجوم کے رو سے یہ معلوم نہ کرو کہ چاند 29 کا ہو گا یا 30 کا۔ تب تک رؤیت کا ہرگز اعتبار نہ کرو۔ (یعنی جو قواعد سائنسدانوں کی طرف سے اندازے کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ جو فلکیات کا یا ستاروں کا علم رکھتے ہیں انہوں نے جو قواعد بنائے ہیں ضروری نہیں کہ ان قواعد کی پابندی کی جائے اور اگر ان کے اندازے یہ کہتے ہیں کہ چاند 29 کا ہو گا یا 30 کا تو اس کے مطابق عمل کرو اور چاند کو دیکھنے کی کوشش نہ کرو۔ رؤیت کا ہرگز اعتبار نہ کرو یہ غلط ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تک یہ نہیں ہو تا رؤیت کا ہرگز اعتبار نہ کرو) اور آنکھیں بند رکھو کیونکہ ظاہر ہے کہ خواہنخواہ اعمال دقیقہ نجوم کو عوام الناس کے گلے کا ہار بنانا یہ ناحق کا حرج اور تکلیف مالا یطاق ہے۔ (بلاوجہ اسی بات پہ عمل کرنا کہ کیونکہ ہمیں اندازے یہ بتا رہے ہیں اس لئے اس کے علاوہ ہم اور کچھ نہیں کریں گے یہ بلا وجہ کی ایک تکلیف ہے۔) فرمایا کہ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے حسابوں کے لگانے میں بہت سی غلطیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔ سو یہ بڑی سیدھی بات (ہے) اور عوام کے مناسب حال ہے کہ وہ لوگ محتاج منجم و ہیئت دان نہ رہیں (یعنی صرف ستاروں اور اجرام فلکی کا علم رکھنے والوں کے محتاج نہ رہیں) اور چاند کے معلوم کرنے میں کہ کس تاریخ نکلتا ہے اپنی رؤیت پر مدار رکھیں۔ صرف علمی طور پر اتنا سمجھ رکھیں کہ تیس کے عدد سے تجاوز نہ کریں۔ (چاند کو دیکھنا ضروری ہے۔ اگر دیکھنے کی کوشش کی جائے اور نظر نہ آئے تو پھر جو حساب کتاب ہے اس پہ بھی انحصار کیا جا سکتا ہے اور اس بات پہ بھی انحصار ہو کہ 30 دن سے زیادہ اوپر نہ جائیں۔ اور فرمایا کہ (اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقت میں عندالعقل رؤیت کو قیاسات ریاضیہ پر فوقیت ہے۔) عقل بھی یہ کہتی ہے کہ جو آنکھوں سے دیکھنا ہے اس کو صرف حسابی اندازے جو ہیں ان اندازوں پر بہرحال فوقیت ہے۔) فرمایا کہ آخر حکمائے یورپ نے بھی جب رؤیت کو زیادہ تر معتبر سمجھا تو اس نیک خیال کی وجہ سے بتائید قوت باصرہ طرح طرح کے آلات دوربینی و خوردبینی ایجاد کئے۔

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 193-192)

جو یورپ کے پڑھے لکھے لوگ ہیں، عقلمند لوگ ہیں، سائنسدان ہیں انہوں نے اس بات کو معتبر سمجھتے ہوئے کہ دیکھنا جو ہے وہ بہرحال زیادہ اعلیٰ چیز ہے، اس خیال کی وجہ سے اپنے آلات بنائے ہیں۔ دُوربینیں بنائی ہیں جن کے ذریعہ سے وہ اجرام فلکی کو دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا بعض دفعہ حساب میں غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا اور اگر غلطی ہو جائے مثلاً اگر چاند ایک دن پہلے نظر آنا ثابت ہو جائے تو پھر کیا کیا جائے کیونکہ اس کا مطلب ہے ایک روزہ چھوٹ گیا۔ ہم نے ایک دن بعد شروع کیا اور چاند اس سے پہلے نظر آ گیا اور ثابت بھی ہو گیا کہ نظر آگیا تھا۔ اس بارے میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سوال پیش ہوا۔ سیالکوٹ سے ایک دوست نے دریافت کیا کہ یہاں چاند منگل کی شام کو نہیں دیکھا گیا بلکہ بدھ کو دیکھا گیا ہے جبکہ رمضان بدھ کو شروع ہو چکا تھا۔ عام طور پر اس علاقے میں ہر جگہ اس واسطے پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا۔ اس نے پوچھا کہ روزہ تو بدھ کو رکھا جانا چاہئے تھا۔ ہمارے ہاں پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا۔ اب کیا کرنا چاہئے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کے عوض میں ماہ رمضان کے بعد ایک روزہ رکھنا چاہئے۔(ملفوظات جلد 9 صفحہ 437۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ جو روزہ چھوٹ گیا وہ رمضان کے بعد پورا کرو۔‘‘

(خطبہ جمعہ 3جون 2016ء)


پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

افریقہ کورونا وائرس ڈائری نمبر 5، 21 ۔اپریل 2020