آج کل جہاں کروناوائرس کی وبا ایک عالمگیر وبا کی شکل اختیار کرکے دنیا کے ہر ملک اور خطے میں اپنے پنجے گاڑ چکی ہے اور اس کے ہولناک نتائج سے جانوں کے ضیاع اور معیشت کی تباہی سے ساری دنیا پریشان ہے اور عالمی ادارہ صحت بار بار اس کی ہولناکیوں سے باخبر کرکے حکومتوں سے مناسب اقدامات کی اپیل کر رہا ہے اور ظاہری لحاظ سےاس کا واحد حل اجتماعات سے اجتناب، میل جول میں کمی، Isolation اور مناسب سماجی فاصلہ قرار دیا جارہا ہے اور متعلقہ حکومتیں اس سے متعلق اقدامات اٹھا رہی ہیں تاکہ اس مہلک وبا کے خطرات سے محفوظ رہا جاسکے وہاں بعض حلقوں بالخصوص چند مذہبی گروہوں کی طرف سے نہ صرف غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے بلکہ اپنے متعلقین کو اس بات پر اکسایا جارہا ہے کہ وہ ایسے حکومتی اقدامات کو خاطر میں نہ لائیں اور اپنے اجتماعات اور مذہبی اجتماعی رسومات کو جاری رکھیں اور اس طرح یہ لوگ نہ صرف اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال رہے ہیں بلکہ دوسرے لوگوں کے لئے بھی شدید خطرے کا موجب بن رہے ہیں چنانچہ جنوبی کوریا کا ایک مخصوص معبد، ایران کی زیارت گاہیں، ملائیشیا میں ایک مخصوص مذہبی جماعت کی کانفرنس جس میں کئی ممالک کے وفود شامل تھے ،پاکستان میں رائیونڈ کا تبلیغی اجتماع اور بعداز اجتماع بھی اپنی معمول کی اجتماعی سرگرمیوں کا تسلسل اور پھر ہندوستان میں باوجود سارے ملک میں لاک ڈاؤن کے حکومتی اعلان کے دہلی کی ایک معروف درگاہ پر ایک مذہبی گروہ کے ہزاروں افراد کا غیرقانونی اجتماع اور پھر وہاں سے نکل کر سارے ملک میں پھیل کر عوام الناس میں اس وبا کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن جانا اس جہالت اور شدت پسندی کی چند مثالیں ہیں ایسے واقعات کو اگرچہ بعض حلقوں کی جانب سے بنیاد پرستی کانام دیا جارہا ہے لیکن درحقیقت کم از کم مسلمانوں کی حد تک اسے شدت پسندی اور جہالت کا نام تودیاجاسکتا ہے بنیاد پرستی نہیں کہا جاسکتا بلکہ ایسا عمل کلیۃ بے بنیاد پرستی ہے کیونکہ یہ طرزعمل اسلام کی بنیادی تعلیمات اور احکامات کے سراسر منافی ہے اسلام نے تمام ان معاملات میں جو شریعت کے کسی صریح حکم کے خلاف نہ ہوں حکام وقت اور اولوالامر کی اطاعت فرض قرار دی ہے پس کسی بھی شخص کا انفرادی یا اجتماعی عمل جو حکومت وقت کی ہدایات کے منافی ہو غیر اسلامی اور قابل مؤاخذہ وقابل نفرین ہے مزید برآں یہ کہ اسباب اور احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا اسلام کی بنیادی تعلیم ہے اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنے سے پہلوتہی کو خودکشی کے مترادف قرادیا گیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
یٰاَیُّھَاالّذِینَ اٰمَنُوا خُذُواحِذرَکُم
ترجمہ: اے ایماندارو! تم اپنے بچاؤ کے سامان رکھا کرو ۔
(النساء : 72)
ایک دوسرے مقام پر فرمایا۔
وَاَعِدُّوا لَھُم مَّااستَطَعتُم
(الانفال: 61)
اور تم ان (دشمنوں) کے لئے جہاں تک ممکن ہو کچھ قوت جمع کرکے تیاری رکھو ۔
پس احتیاط اور تدبیر اختیار کرنا اور حسب مقدرت اسباب کا اختیار کرنا نہ صرف ضروری بلکہ ایک مومن کا فریضہ ہے اس مضمون کو قرآن کریم کے ایک اور مقام پر یوں واضح کیا گیا ہے
لَاتُلقُوابِاَیدِکُم اِلَی التَّھلُکَۃِ
(البقرہ: 196)
کہ تم اپنے تئیں اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مت ڈالو۔
بیماریوں کے علاج کے حوالہ سے حدیث میں آتا ہے کہ کچھ اعرابی لوگ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور استفسار کیا کہ اگر وہ بیماری میں علاج نہ کروائیں تو کیا اس کا گناہ ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تدَاوُوا عِبَادَاللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سُبحَانَہ لَم یَضَع داءَ اِلَّا وَضَعَ مَعَہُ شِفَاءَ یعنی اے اللہ کے بندو تم علاج کیا کرو کیوں کہ اللہ سبحانہ نے جو بیماری بھی پیدا کی ہے اس کے ساتھ اس کی شفاء کے سامان بھی پیدا فرمائے ہیں۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الطب)
ایک دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔
عَن اَبِی خزَامَۃَ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ اَرَئَیتَ اَدوِیۃَ نَتَدَاوی بِھَا وَ رُقی نَستَرقِی بِھَا وَ تَقی نَتَّقِیھا ھَل تَرُدّ مِن قَدرِاللّٰہِ شیئاَ قَالَ ھِیَ مِن قَدرِاللّٰہ
حضرت ابو خزامۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ جن دواؤں سے ہم علاج کرتے ہیں اور جو دم وغیرہ کرتے ہیں نیز وہ احتیاطی اور حفاظتی تدابیر جو ہم اختیار کرتے ہیں کیا یہ اللہ کی تقدیر کو ٹلا دیتی ہیں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ چیزیں تو خود اللہ کی تقدیر ہیں۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الطب)
پھر وبائی امراض سے محفوظ رہنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے ایک نہایت پرحکمت نصیحت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمائی۔
غُطُّواالاِنَاءَ وَاَوکُواالسِّقَاءَ فَاِنَّ فِی السَّنَۃِ لَیلَۃَ یَنزِلُ فِیھَا وَبَاءُ لَایَمُرُّ بِاِنَاءِ لَیسَ عَلَیہِ غِطَاءُ اَو سِقَاءِ لَیسَ عَلَیہِ وِکَاءُ اِلّا نَزَلَ فِیہِ مِن ذٰلِکَ الوَبَاءِ
ترجمہ: برتنوں کو ڈھانپ کر رکھا کرو اور مشکیزوں کے منہ بند کردیا کرو کیوں کہ سال میں ایک رات ایسی آتی ہے (ایک روایت میں ہے کہ ایک دن ایسا آتا ہے) جس میں وبا نازل ہوتی ہے (غالبا اس سے مراد ہے کہ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے اور کسی بھی وقت ایسا ہوسکتا ہے۔ ناقل) اور وہ وبا کھلے ہوئے برتن یا مشکیزے میں سرایت کرجاتی ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الاشربہ)
دیکھئے کتنا پر حکمت کلام ہے کہ آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے جب بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کا کوئی تصور بھی موجود نہ تھا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت حکیمانہ انداز میں اس طرف توجہ دلائی۔
موجودہ کرونا وائرس کی وبا کے حوالہ سے بعض نام نہاد علماء کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ یہ تو تقدیر الہٰی ہے جسے اس کا شکار ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا اور جسے بچنا ہے وہ بچ کررہے گا کسی احتیاطی تدبیر کی ضرورت نہیں ان کا جواب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں وضاحت سے موجود ہے جو اوپر بیان ہوچکی ہے کہ اگر بیماری تقدیر الٰہی میں سے ہے تو اس بیماری کا علاج بھی خدا کی ہی تقدیر کا حصہ ہے اس امر کی مزید وضاحت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ جب آپؓ شام کے سفر پر روانہ ہوئے اور مقام سرغ پر پہنچ کر آپؓ کو معلوم ہوا کہ شام میں طاعون کی وبا پھیل چکی ہے اور آپؓ کبار صحابؓہ کے مشورہ سے واپس لوٹنے لگے تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے کہنے پر کہ اَتَفِرُّ مِن قَدرِاللّٰہِ کہ کیا آپ اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کررہے ہیں تو حضرت عمرؓ نے فرمایا اَوَ غَیرُکَ قَالَھَا اے ابو عبیدہ! کاش یہ بات تیرے علاوہ کسی اورنےکہی ہوتی اور پھر فرمایا نَفِرُّ مِن قَدرِاللّٰہِ اِلیٰ قَدرِاللّٰہ کہ ہم اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔
(صحیح مسلم کتاب السلام)
بعض حلقوں کی طرف سے متعدی اور وبائی امراض کے حوالہ سے کہا جاتا ہے کہ اسلام میں متعدی بیماری کاتصور موجود نہیں اور یہ کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لَا عَدوٰی فرماکر چھوت چھات کی بیماریوں اور متعدی امراض کے تصور کی نفی فرمائی ہے سو واضح ہو کہ اگرچہ یہ الفاظ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی ہیں لیکن ان الفاظ سے مطلق نفی مراد نہیں لی جاسکتی ورنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں تضاد پیدا ہوگا جو قطعاً ممکن نہیں اور خود وہ حدیث جس میں لاعدوٰی کے الفاظ آئے ہیں اسی میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک کوڑھی سے اس طرح دور بھاگ جاؤ جس طرح شیر کے خوف سے اس سے دور بھاگتے ہو چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ
(بخاری کتاب الطب باب الجذام)
دراصل آنحضور ﷺ نے متعدی امراض کی مطلقاً نفی نہیں فرمائی بلکہ یہ الفاظ فرما کر درج ذیل دو امور کی طرف توجہ دلائی ہے۔
کوئی بیماری بھی خواہ وہ متعدی ہو یا غیر متعدی امرو اذن الٰہی کے بغیر کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتی بلکہ عالم کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ارادہ الہٰی سے ہوتا ہے اور اسباب کا پیدا کرنا اور بوقت ضرورت انسان کو ان سے کام لینے کی توفیق مل جانا بھی امر الٰہی کے بغیر نہیں ہوسکتا اور اس طرح شرک سے دوری اور رجوع الیٰ اللہ کی طرف توجہ دلائی ہے اور ایسے لوگوں کا رد فرمایا ہے جو ایسی بیماریوں کو خدا کی قدرت سے بالا تصور کرتے ہیں جس طرح ہندو چیچک کی بیماری کو ’’ماتا‘‘ کہہ کر خدائی کے مقام پر لا بٹھاتے ہیں۔
اس طرف بھی توجہ دلائی کہ متعدی بیماری کا خوف کہیں انسان کو ہمدردی خلائق سے نہ روک دے اور ایسا نہ ہو کہ ایسی بیماریوں میں مبتلا لوگوں سے کہیں حقارت آمیز سلوک نہ ہونے لگ جائے چنانچہ تلقین فرمائی گئی کہ ان بیماریوں سے بچاؤ کے لئے پوری احتیاط بھی کرو اور ہرممکن تدبیر کو بھی اختیار کرو لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمدردی خلائق کا عملی جذبہ بھی قائم رہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’اگرچہ سوائے اذن الٰہی کے کچھ نہیں ہوتا مگر تاہم احتیاط کرنی ضروری ہے کیونکہ اس کے لئے بھی حکم ہی ہے احادیث میں جو متعدی امراض کے ایک دوسرے سے لگ جانے کی نفی ہے اس کے بھی یہی معنی ہیں ورنہ کیسے ہوسکتا ہے کہ امورمشہودہ اور محسوسہ کا انکار کیا جاوے اس سے کوئی یہ نہ دھوکہ کھاوے کہ ہمارا اعتقاد قال اللہ وقال الرسول کے برخلاف ہے ہرگز نہیں بلکہ ہم تو قرآن شریف کی اس آیت پر عمل کرتے ہیں وَلَاتَرکَنُوااِلَی الّذِینَ ظَلَمُوافَتَمَسَّکُمُ النَّار (ھود:114) رعایت اسباب کرنی قدیم سنت انبیاء کی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 635)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔
’’یہ خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ پر توکل بھی کوئی چیز ہے یہ مت سمجھو کہ تم نری پرہیزوں سے بچ سکتے ہو جبتک خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق نہ ہو اور انسان اپنے آپ کو کارآمد انسان نہ بنا لے اس وقت تک اللہ تعالیٰ اس کی کچھ پروا نہیں کرتا خواہ وہ ہزار بھاگتا پھرے کیا وہ لوگ جو طاعون میں مبتلا ہوتے ہیں وہ پرہیز نہیں کرتے ….پرہیز کرو جہاں تک مناسب ہے لیکن اس پرہیز سے باہمی اخوت اور ہمدردی نہ اٹھ جاوے اور اس کے ساتھ ہی خداتعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیداکرو یادرکھوکہ مردہ کی تجہیزوتکفین میں مدددینا اور اپنے بھائی کی ہمدردی کرنا صدقات خیرات کی طرح ہی ہے یہ بھی ایک قسم کی خیرات ہے اور یہ حق حق العباد کا ہے جوفرض ہے …..زندگی سے اس قدر پیار نہ کرو کہ ایمان ہی جاتا رہے حقوق اخوت کو کبھی نہ چھوڑو وہ لوگ بھی تو گذرے ہیں جو دین کے لئے شہید ہوئے ہیں کیا تم میں سے کوئی اس بات پر راضی ہے کہ وہ بیمار ہو اور کوئی اس کو پانی تک نہ دینے جاوے خوفناک وہ بات ہوتی ہے جو تجربہ سے صحیح ثابت ہو بعض ملاں ایسے ہیں جنہوں نے صدہا طاعون سے مرے ہوئے مردوں کو غسل دیا ہے اور انہیں کچھ نہیں ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے فرمایا ہے کہ یہ غلط ہے کہ ایک کی بیماری دوسرے کو لگ جاتی ہے وبائی ایام میں اتنا لحاظ کرے کہ ابتدائی حالت ہوتووہاں سے نکل جاوے لیکن زور وشور ہوتو مت بھاگے۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 270۔271)
کرونا وائرس کی موجودہ وبا میں ماہرین صحت کی طرف سے احتیاطی تدابیر کے طور پر جو بہترین علاج بتایا جارہا ہے وہ یہی ہے کہ لوگ حتّی المقدور اپنے اپنے مقامات تک محدود رہیں جسے کورنٹین Quarantine کہا جاتا ہے وبا کی صورت میں کورنٹین کے اس تصور کے بھی حقیقی مصور ہمارے سیدومولا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں چنانچہ طاعون کی وبا کی صورت میں آپﷺ نے تلقین فرمائی۔
’’اِذَا سَمِعتُم بِہِ بِاَرضِ فَلَا تُقَدّمُوا اِلَیہِ وَاِذَا وَقَعَ بِاَرضِ وَاَنتُم بِھَا فَلَا تَخرُجُوا فِرَارَا مِنہُ‘‘
(صحیح مسلم کتاب السلام)
یعنی جب تمہیں یہ خبر پہنچے کہ کسی علاقہ میں طاعون پھیل گئی ہے تو اس علاقہ میں مت جاؤ اور اگر اس علاقہ میں جہاں تم موجود ہو وہ (طاعون) پھیل جائے تو اس علاقہ سے مت نکلو ۔
کسی متعدی بیماری کے شکار مریض کے کسی اجتماعی مجلس میں نہ آنے کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی تلقین بھی فرمائی چنانچہ روایت ہے کہ ثقیف کے کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکر بیعت کی غرض سے آئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا کہ ان کے ساتھ ایک مجذوم شخص بھی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باہر ہی پیغام بھجوادیا ’’اَنَّا قَد بَایَعنَاکَ فَارجِع‘‘ کہ ہم تیری بیعت لے چکے ہیں پس تو واپس چلا جا۔
(صحیح مسلم کتاب السلام باب اجتناب المجذوم ونحوہ)
موجودہ وبا میں سماجی فاصلوں (Social Distancing) کو خاص اہمیت دی جارہی ہے اور اس حوالہ سے ایک سے دو میٹر کا باہمی فاصلہ ضروری قرار دیا جارہا ہے لیکن یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ کسی متعدی بیماری کی صورت میں سماجی فاصلہ کے اس نظریہ کا خالق بھی کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے آقاو مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔چنانچہ ’’الدّلابی‘‘ نے اپنی کتاب ’’الذریۃ الطاھرۃ‘‘ میں درج ذیل روایت بیان کی ہے
’’عَن حُسَینِ ابنِ عَلِیِّ وَعَبدِاللہِ ابنِ عَبَّاسِ اَنّ۔ رّسُولَ اللہِ صلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ لَاتُدِیمُوا النَّظرَ اِلَی المُجَذَّمِینَ وَمَن کَلَّمَھُم مِنکُم فَلیَکُن بَینَہُ وَ بَینَہُ قِیدَ رُمحِ‘‘
(الذُّرِّیَۃ الطَّاھِرَۃ روایت نمبر 160)
ترجمہ :حضرت حسین بن علی اور حضرت عبداللہ بن وباس رضی اللہ عنھم سے روایت ہے کہ آنحضور صلّی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ تم مجذوموں کی طرف نظریں گاڑ کر نہ دیکھا کرو اور اگر تم میں سے کوئی شخص ان سے ہمکلام ہو تو دونوں کے درمیان ایک نیزہ کے برابر (تقریبا دو میٹر) کا فاصلہ ہو۔
مندرجہ بالا احکام قرآنی اور ارشادات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روزروشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ اسباب اور تدابیر کا اختیار کرنا نہ صرف ضروری بلکہ عین اسلام ہے اس شرط کے ساتھ کہ انسان محض اپنی تدبیر پر ہی قانع نہ ہوجائے بلکہ اسباب کے اختیار کرنے کے ساتھ اس کا کامل بھروسہ اور توکل اللہ تعالیٰ پر ہو اور رجوع الی اللہ اس کا خاصہ ہو کہ مسبب الاسباب فقط اللہ ہی کی ذات ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’چاہئے کہ تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہوجاؤ تاکہ کسی وبا کو یا آفت کو تم پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہوسکے کیونکہ کوئی بات اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر زمین پر ہو نہیں سکتی۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 175)
اسی طرح فرماتے ہیں ۔
’’خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے ویرانہ کو آبادی اور آبادی کو ویرانہ بنا دیتا ہے شہر بابل کے ساتھ کیا کیا ؟ جس جگہ انسان کا منصوبہ تھا کہ آبادی ہو وہاں مشیئت ایزدی سے ویرانہ بن گیا اور الّووں کا مسکن ہوگیا اور جس جگہ انسان چاہتا تھا کہ ویرانہ ہو وہ دنیا بھر کے لوگوں کا مرجع ہوگیا پس خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالی کو چھوڑ کر دوا اور تدبیر پر بھروسہ کرنا حماقت ہے اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی پیدا کرلو کہ معلوم ہو کہ گویا نئی زندگی ہے استغفار کی کثرت کرو۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 173)
(محمد عثمان شاہد)