• 11 جولائی, 2025

میری پیاری بہن آپا صفیہ

میری آپاکو اس دنیاسے گزرے چند ماہ ہوئے ہیں۔ ان کی یاد تو ہمارے دلوں میں ساری عمر ہی رہے گی۔ ان کا ہم سب کے ساتھ پیار اورہمدردی ہم کبھی بھی بھلا نہیں سکتے۔ وہ ایک فرشتہ صفت انسان تھیں۔ ان کے احسانات کا کوئی شمار نہیں ہوسکتا۔ اس پیاری آپا نے نہ صرف اپنے اکیلے بھائی کے ساتھ ہی وہ سلوک نہیں کیا جو شاید میرے والدین بھی نہ کر سکتے ہوں گے بلکہ ساری فیملی اورغیروں کے ساتھ بھی آپا جان کا سلوک بے لوث تھا۔

آپا جان قادیان میں 1939ء میں پیدا ہوئیں۔ آپ خاکسار کی سب سے بڑی بہن تھیں۔ مارچ 2019ء میں آپ اپنی پیاری اور اکلوتی بیٹی کے ساتھ پاکستان ربوہ گئیں اور اسی دوران ربوہ میں خداتعالیٰ کو پیاری ہوگئیں۔

اِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن

پاکستان جانے سے قبل آپ نے مجھے کہا کہ حسن! تم ابھی میرے ساتھ نہ جاؤ، جب میں پاکستان جاکر تمہیں بلاؤں تو آجانا۔ خدا کا کرناایسا کہ وہی ہوا جس بات کا مجھ سے کہہ کر گئی تھیں۔ ربوہ میں آپ کی وفات پر آپ کی بیٹی نے مجھے فون پر اپنی والدہ ماجدہ کی وفات کا بتایا اور کہا کہ ماموں جان آپ فوراً ربوہ آجائیں تاکہ آپ بھی نماز جنازہ میں شرکت کرسکیں۔لہٰذا اسی وقت میری ٹکٹ آپا کے نواسے عدیل نے بُک کروائی اور اگلے ہی روز مَیں عدیل اور اس کے والد مقصود صاحب کے ساتھ ربوہ چلا گیا اور مسجدمبارک میں اپنی پیاری بہن کا جنازہ پڑھا۔ خدا تعالیٰ کا فضل ہوا کہ مجھے صرف ایک ہی دن میں فلائٹ بھی مل گئی۔ گویا میری پیاری بہن کا کہنا کہ حسن جب میں کہوں تو آجانا بعینہٖ اسی طرح ہی ہوا۔ پھر خداتعالیٰ کے فضل سے جنازہ مسجد مبارک ربوہ ہوا جس میں کثیر تعداد میں احباب نے شرکت کی اوران کی مغفرت کی دعا کی۔ پھر انہیں ربوہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔اللہ تعالیٰ آپا کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے اور ان کی بیٹی شیلا مقصود، نواسے عدیل اورہم سب بھائی بہنوں کو صبرِ جمیل عطافرمائے۔ آمین

آپا جان ہنسلو میں مقیم تھیں۔ مَیں ملنے جاتا تو وہ اپنے بچپن کی باتیں بتایا کرتیں کہ قادیان میں جب حالات کافی خراب ہوتے تھے تو میں گھر کے کپڑے ڈھاب (تالاب جو قادیان کے قریب ہوا کرتا تھا) میں دھویا کرتی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد جب ربوہ آگئے تو وہاں کچے گھر ہوا کرتے تھے اور گھر کے سارے کام مجھے ہی کرنے پڑتے تھے۔ (کیونکہ میرے والد صاحب مرحوم مغفور قادیان میں ہی فوت ہوگئے تھے جبکہ خاکسار صرف چند مہینے کا تھا اورمیری والد ہ اپنی جوانی میں ہی بیوہ ہونے کے بعد زیادہ وقت بیمار ہی رہا کرتی تھیں)حقیقت یہی ہے کہ اس دوران میری پیاری ہمدرد آپا جان نے ہی ہمیں پالااور جب آپا جان کی شادی ہمارے کزن سید صادق نور مرحوم سے ہوئی توآپ کراچی چلی گئیں۔ وہاں جاکر بھی ان کو ہروقت ہماراہی خیال رہتا ۔آپ خط وکتابت سے حال احوال پوچھتیں اور جہاں تک ممکن ہوتا ہماری مالی مدد کرتیں۔ آپا جان شادی سے قبل ہمارے پیار ے ناناجان حضرت سید احمد نور کابلی رضی اللہ تعالیٰ (صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کا بھی ہر طرح سے خیال رکھا کرتیں جو کافی عمر رسیدہ ہوگئے تھے۔ نیز ہماری امی جان کا بھی خیال رکھتیں اورہمیں بھی ہمیشہ نصیحت کرتیں کہ امی جان کو کبھی کوئی غم نہ دینا اوران کی ہر دم خدمت ہی کرتے رہنا۔ کراچی سے مجھے پیغام بھیجا کرتیں کہ اپنی پڑھائی کا خیال رکھنا اور اگر کسی قسم کی مالی ضرورت ہوتو مجھے خط لکھ کر بتادیا کرنا۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ عموماً میرے مطالبے سے قبل ہی مجھے رقم بھیج دیا کرتی تھیں۔

جب آپ اپنے شوہر کے ہمراہ لندن آگئیں تو یہاں برٹش ایئر ویز میں کافی عرصہ کام کیا۔آپ عموماً پاکستان ربوہ آجایا کرتی تھیں۔ آپ کو ہر ضرورت مند کی ضرورت پورا کرنے کا بہت شوق تھا۔ میری ایک بہن جو کہ ربوہ میں رہتی ہیں،اُن کی توآپا جان نے ہر طرح سے مدد کی نیز ان کے بچوں کا خیال رکھا۔ جرمنی میں میرا بھانجا طارق شبیر رہا کرتا تھا اُس کی بھی مدد کیا کرتیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب اُسے جرمنی سے نکلنا پڑا اور وہ ساؤتھ افریقہ چلا گیا۔ اس کی مدد کے لئے اور اُسے واپس لانے کے لئے آپا ساؤتھ افریقہ بھی چلی گئیں۔ پھر آپا نے میری ہمشیرہ جو ربوہ میں رہتی ہیں کی بیٹیوں کے رشتوں کے لئے بھی بہت کوششیں کیں۔ اوران کے رشتے بھی کروائے۔نیز ساری عمر ان کی مالی مد د بھی کرتی رہیں۔

اسی طرح میری ایک اور بہن سیدہ عزیزہ نور اہلیہ سید بشارت نور مرحوم بھی آپا کے ساتھ اپنی بھانجیوں کی مالی مدد کرتی تھیں۔ میری ایک بھانجی جس کی شادی انگلینڈ میں ہوئی تھی اور جب کسی وجہ سے یہ رشتہ توڑنا پڑاتو میری پیاری بہن خود ٹرین کے ذریعہ لمبا سفر کرکے اسے ملنے جاتی اورپھر وہا ں کئی چکر لگا کر وہاں سے اُسے لائی اوراچھا سا رشتہ ڈھونڈ کر دوبارہ شادی کرائی۔ اس طرح میری پیاری آپا جان نے ہر ایک کی ہر طرح سے مدد کی۔آج اُن کی کمی ہمارے خاندان میں ہر ایک نے محسوس کی ہے۔

آپا جب برٹش ایئر ویز میں کام کرتی تھی تو اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جن میں آپا اکبری مرحومہ، آپا شمسہ مرحومہ کے ساتھ بہت سے ممالک کی سیریں بھی کرتی رہیں۔ یورپ کے تقریباً تمام ممالک کے علاوہ چین اور افریقہ کے ممالک کی سیر بھی کی۔

چین میں بعض دفعہ لوگ آپ کو چینی سمجھ کر لوگ چینی زبان میں بات کرنی شروع کردیتے۔ دراصل ہمارے آباؤ اجداد افغانستان سے ہیں اوران کی شکلیں بھی بعض علاقوں کے چینیوں سے ملتی جُلتی ہیں۔ میری بہن اور اُن کے شوہر کو بھی دنیا کی سیرکا بڑا شوق تھا۔اسی طرح میرے بھائی سیدصادق نور صاحب بھی ایسا ہی شوق رکھتے تھے۔ دونوں ہمیشہ اکٹھے ہی جایا کرتے تھے۔ان دونوں کو برٹش ائیرویز کی ٹکٹیں مل جاتی تھیں اس سے انہوں نے دنیا کی خوب سیریں کیں اور دنیا دیکھی۔ مجھے بھی ہمیشہ کہا کرتیں کہ حسن تم بھی دنیا دیکھودنیا بہت حسین ہے تو میں کہا کرتا کہ آپا آپ کو تو فری ٹکٹ مل جاتی ہے مجھے نہیں ملتی۔ تو مجھے کہتیں کہ فکر نہ کرو میں جو ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میری پیاری بہن کی میں جتنی بھی صفات بیان کروں کم ہیں۔

جب میں ربوہ میں ہوتا تھا، چھوٹا سا تھا تو میری آپا جان اپنی ایک سال کی بیٹی کے ساتھ لندن سے ربوہ تک بذریعہ ٹرین سفر کرتے ہوئے مجھے اورامی جان مرحومہ کو ملنے آئیں۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے راستے کی مشکلات کے بارہ میں بتایا اور کہا کہ اُن کو تو راستہ میں بعض ممالک میں قیدیوں کی طرح روکے رکھا گیا اور بڑی مشکلوں کے ساتھ وہ ربوہ تک آئی تھیں۔ اُن کے اس جرأت مندانہ سفر کی دوسرے سننے والے بھی تعریف کرتے اور حیرت کا اظہار کرتے۔

میری آپا یہ نصائح کیا کرتی تھیں کہ دنیا میں ہمیشہ چوکنّا ہوکر نکلنا چاہئے۔ جب کبھی میں نے عمرہ پر سعودی عرب جانے کا پروگرام بنایا تو آپا ہمیشہ مجھے کہاکرتیں کہ تمہیں دنیا میں چلنابھی نہیں آتا، دنیا بہت چالاک اورہوشیار ہے۔ وہ ہمیشہ کہا کرتیں کہ جب بھی جاؤ اکیلے کبھی نہ جاؤ اور کسی اچھے اور ہمدرد شخص کے ساتھ جاؤ۔مَیں نے آپا کی نصیحت پر عمل کیا اور یہ بھی محسوس کیا ہے کہ اردو محاورہ ’’ایک اکیلا اور دو گیارہ‘‘ بالکل ٹھیک ہے۔

آپا جان کو جماعت کی خدمت کا بڑا شوق تھا۔وہ ہرسال جلسہ سالانہ یوکے پر اپنی بیماری کے باوجود تینوں دن خدمت کرتیں۔وہ اپنا بستر بھی ادھر ہی لے جاتیں اور دن رات وہیں دوسری کارکنات کے ساتھ مل کر بڑی لگن کے ساتھ کام کرتیں۔ بلکہ اپنی وفات سے قبل بیماری کے دنوں میں بھی جلسہ سالانہ کے ایام میں جلسہ گاہ میں اپنا بستر بچھا کر رہا کرتیں۔ ہم ان کو کافی سمجھاتے کہ آپا آپ کی صحت ٹھیک نہیں ہے اب آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ مگر پھربھی وہ تینوں دن جلسہ گاہ میں ہی اپنی سہیلیوں کے ساتھ کام کرنے میں ہی گزارتیں۔ جب بھی جلسہ سالانہ کے ایام قریب آتے آپ اپنا بوریا بستر تیار کرنا شروع کردیا کرتیں۔

آپا جان ہر ایک کی مدد اور ہر طرح سے رہنمائی کیا کرتی تھیں۔ حافظہ بہت اچھاتھا۔ اپنے بزرگوں کا شجرہ نسب اور ان کے حالات کا علم تھا۔لہٰذا میں نے جب اپنی کتاب ”افغانستا ن اور شہداءِ احمدیت کی خونچکاں داستان“ لکھی تو کئی باتیں آپ سے معلوم کرکے کتاب میں لکھیں۔ اللہ تعالیٰ میری ہمشیرہ آپا جان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں ان کی خوبیوں کو سداقائم رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔

جب خاکسار نے ربوہ کے ٹی آئی کالج سے بی اے کی ڈگری لی تو آپا نے لندن کے وانڈزورتھ کالج میں بزنس سٹڈیز میں میرے داخلے کا انتظام کیا اور پھر ہوائی جہاز کی ٹکٹ بھی بھیجی۔ مجھے لندن آنے میں تأمل تھا کیونکہ میری بیماری بوڑھی والدہ کی دیکھ بھال کرنے والا وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس پر آپا کے کہنے پر میری دوسری ہمشیرہ امی جان کی دیکھ بھال کے لئے سرگودھا سے ربوہ منتقل ہوگئیں۔ لندن پہنچنے پر آپا جان نے مجھے اپنے گھر میں رکھا اور مزید تعلیم دلوائی۔ پھر آپ نے اپنے گھر میں ہی میری شادی کے انتظامات بھی کئے۔ آپ بہت ہی ہمدرد اورنیک سیرت عورت تھیں۔آپ نے صرف اپنی فیملی کی مدد ہی نہیں کی بلکہ غیروں کی مدد کرنا بھی ان کی عادت تھی اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کیا کرتی تھیں۔ ربوہ میں کئی ایسی بیوہ خواتین ہیں جن کی وفات سے پہلے تک مدد کرتی رہیں۔ بعض کا ہمیں بعد میں علم ہورہا ہے۔ ان کی نیکیاں تو اتنی ہیں کہ جن کا شمار کرنا میرے لئے خاصہ مشکل ہے۔اللہ تعالیٰ آپا جان مرحومہ کو اُن کی نیکیوں کے بدلہ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی بیٹی کو بھی اپنی والدہ ماجدہ کی نیکیوں کو سدا جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


(سید حسن احمد۔لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 29 ۔اپریل2020ء