• 20 جون, 2025

رمضان المبارک کی اہمیت و برکات

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ

(البقرۃ:184)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پرروزے اسی طرح فرض کر دئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔

  • حضرت ابوہریرۃؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے پاس رمضان آیا ہے۔ یہ برکت والا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو تم پر فرض کیا ہے۔ اس میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اور سرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو کوئی اس رات کی خیر سے محروم کر دیا گیا وہ ہر بھلائی سے محروم کر دیا گیا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد دوم صفحہ 11مسند ابی ہریرہ)

  • حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ شعبان کے آخری روز آنحضرت ﷺ نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’اے لوگو! ایک عظیم مہینہ آ گیا ہے ۔ ایک ایسا مہینہ جو بہت مبارک ہے۔ اس میں ایک ایسی رات بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے دنوں میں روزہ کو فرض اور اس کی راتوں کے قیام کو طوعی نیکی قرار دیا ہے۔ اس مہینے میں جس نے عام نیکی کے ذریعہ قرب پانے کی کوشش کی تو اس کی مثال اس شخص کی مانند ہو گی جو دوسرے مہینوں میں کوئی فرض ادا کرتا ہے۔ اور جو کوئی اس مہینے میں ایک فرض ادا کرے گا تو اس کا اجر عام دنوں کی ستر نیکیوں کے برابر ہو گا۔ اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ باہمی ہمدردی اور دلداری کا مہینہ ہے۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں مومن کے رزق میں برکت اور اضافہ کیا جاتا ہے۔ جو شخص اس ماہ میں کسی روزہ دار کی افطاری کرائے اس کے گناہ بخشے جاتے ہیںاور اس کی گردن آگ سے آزاد ہو جاتی ہے اور اسے روزہ دار کی طرح ثواب ملتا ہے۔ اگرچہ روزہ دار کے اجر میں اس سے کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو یہ توفیق کہاں کہ وہ روزہ دار کی افطاری کا حق ادا کر سکے۔ آپ ؐ نے فرمایا یہ اجر تو اس شخص کو بھی ملتا ہے جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا صرف پانی کے ایک گھونٹ سے ہی روزہ کھلواتا ہے۔ البتہ جو شخص روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلائے گا تو اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گاکہ وہ جنت میں جانے تک پیاس محسوس نہیں کرے گا۔
  • یہ رمضان کا مہینہ ایسا بابرکت ہے کہ اس کے ابتداء میں رحمت ہے۔ درمیان میں مغفرت ہے۔ آخر میں آگ سے نجات ہے۔ جو شخص اس ماہ میں غلام یا مزدور کے روزہ دار ہونے کے باعث اس کے کام میں تخفیف کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے کام میں تخفیف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائے گا اور اسے عذاب سے مخلصی بخشے گا۔‘‘

(مشکوٰۃ کتاب الصوم الفصل الثانی صفحہ173-174)

  • حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ماہ رمضان کے استقبال کے لئے یقیناً سارا سال جنت سجائی جاتی ہے اور جب رمضان آتا ہے تو جنت کہتی ہے کہ یا اللہ ! اس مہینے میں اپنے بندوں کو میرے لئے خاص کر دے۔

(بیہقی شعب الایمان)

  • حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان آتا ہے تو آسمان (یعنی جنت) کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔

(بخاری کتاب الصوم باب)

  • حضرت ابوہریرۃؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس وقت ماہ رمضان کی پہلی رات شروع ہوتی ہے شیطان اور سرکش جنّ جکڑ دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اور اس کا کوئی دروازہ مطلقاً نہیں کھولا جاتا ۔ اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ منادی کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ اے خیر کے طالب! نیکی کی طرف متوجہ ہو اور اے برائی کا ارادہ کرنے والے! تُو فوری طور پر بدی سے رُک جا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس ماہ رمضان میں کئی لوگوں کو آگ کے عذاب سے آزاد فرماتا ہے اور ایسا ماہِ رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔

ان احادیث کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں۔
’’اس حدیث سے یہ مراد نہیں کہ رمضان کے مہینے میں دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہو گا جو دوزخی کام کرے اور ہر وہ شخص جس پر رمضان کا مہینہ گزر رہا ہے خواہ مومن ہو یا کافر ہو اس کے لئے جنت کے دروازے کھل جائیں گے اور جہنم کے دروازے بند ہو جائیں گے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ اگر مومن بھی ہو یعنی ظاہری طور پر ایمان لاتا ہو لیکن رمضان کا مہینہ دیکھنے کے بعد اس کے تقاضوں کے خلاف بات کرے اور عمدًا ایسی باتوں کا ارتکاب کرے جو رمضان کے منافی ہیں بلکہ عام دنوں کے بھی منافی ہیں تو ایسے شخص پر تو جہنم کے دروازے زیادہ زور سے کھولے جائیں گے۔ دراصل یہ خوشخبری ہے محض ان مومنوں کے لئے جو حضرت اقد س محمد مصطفیٰ ﷺ کی اطاعت کے دائرے میں رہتے ہیں اور قرآن کی اطاعت کے دائرے میں رہتے ہیں… پس اس پہلو سے دروازے جب کھولے جاتے ہیں تو ان پر کھولے جاتے ہیں جو اللہ اور رسول کی اطاعت میں وقت گزارتے ہیں نہ کہ ان لوگوں کے لئے جن پر یہ مبارک مہینہ طلوع ہوا لیکن اس کی طرف پیٹھ پھیر کر اس کے سارے تقاضوں کو جھٹلا دیا۔ اس کے سارے تقاضوں کو رد کر دیا۔ ایسے لوگوں پر تو جہنم پہلے سے زیادہ بھڑکنے کے احتمالات ہیں بجائے اس کے کہ جہنم کے دروازے بند ہوں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 26جنوری 1996ء)

ایک اور جگہ فرمایا۔
‘‘یہ مراد نہیں ہے کہ بد لوگوں کے شیاطین بھی جکڑے جاتے ہیں ان کو تو اور بھی زیادہ گناہ ہوتا ہے رمضان میں بے حیائیاں کرنے کا۔ اس لئے مراد یہی ہے کہ وہ جو خود خدا کی رضا کی زنجیروں میں اپنے آپ کو جکڑتے ہیں ان کے شیاطین جکڑے جاتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 10دسمبر 1999ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویرِ قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔ کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔ صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے۔ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ256)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓبیان کرتے ہیں۔
’’رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص برکات اور خاص رحمتیں لے کر آتا ہے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کے انعام اور احسان کے دروازے ہر وقت ہی کھلے رہتے ہیں اور انسان جب چاہے ان سے حصہ لے سکتا ہے صرف مانگنے کی دیر ہوتی ہے ورنہ اس کی طرف سے دینے میں دیر نہیں لگتی کیونکہ خداتعالیٰ اپنے بندہ کو کبھی نہیں چھوڑتا۔ ہاں بندہ خداتعالیٰ کو چھوڑ کر بعض دفعہ دوسروں کے دروازہ پر چلا جاتا ہے… سو اس رحیم و کریم ہستی سے تعلق پیدا کرنا کوئی مشکل امر نہیں۔ ہر گھڑی رمضان کی گھڑی ہو سکتی ہے۔

اور ہر لمحہ قبولیت دعا کا لمحہ بن سکتا ہے۔ اگر دیر ہوتی ہے تو بندہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی اس کے احسانات میں سے ہی ہے کہ اُس نے رمضان کا ایک مہینہ مقرر کر دیا تاکہ وہ لوگ جو خود نہیں اٹھ سکتے ان کو ایک نظام کے ماتحت اٹھنے کی عادت ہو جائے اور ان کی غفلتیں اُن کی ہلاکت کا موجب نہ ہوں۔

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 383-382)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’آنحضرت ﷺ نے ایک رمضان سے دوسرے رمضان کے درمیان ہونے والے گناہوں کی معافی کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک ہونے والے چھوٹے گناہوں کو بھی معاف فرما دیتا ہے۔ لیکن یہ واضح ہونا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے گناہوں سے معافی کے جو ذرائع بتائے ہیں وہ آپ ایک ترتیب سے بیان فرما رہے ہیں۔ پہلے نماز، پھر جمعہ، پھر رمضان۔ پس اس ترتیب سے یہ غلط فہمی دُور ہو جانی چاہئے کہ صرف سال کے بعد رمضان کی عبادتیں ہی گناہوں سے معافی کا ذریعہ ہیں۔ بلکہ یہ ترتیب اس طرف توجہ دلا رہی ہے کہ نمازوں کی پانچ وقت روزانہ ادائیگی اپنے حصار میں لئے ہوئے ساتویں دن جمعہ میں داخل کر کے جمعہ کی برکات سے حصہ دلائے گی۔ اور سال بھر کے جمعے رمضان میں داخل کرتے ہوئے رمضان المبارک کے فیض سے فیضیاب کریں گے۔ روزانہ کی پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کریں گی کہ یہ تیرا بندہ تیرے خوف اور تیری محبت کی وجہ سے بڑے گناہوں سے بچتے ہوئے پانچ وقت تیرے حضور حاضر ہوتا رہا۔ ہر جمعہ عرض کرے گا کہ تیرا یہ بندہ سات دن اپنے آپ کو بڑے گناہوں سے بچاتے ہوئے جمعہ کے دن جس میں تیرے پیارے نبی ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اس میں ایک قبولیت دعا کا لمحہ بھی آتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الدعوات حدیث6400) اپنی دعاؤں کی قبولیت کی آرزو لے کر تیرے حضور حاضر ہوتا رہا۔ رمضان کہے گا کہ اے خدا! یہ بندہ رمضان کا حق ادا کرنے کے بعد گناہوں سے بچتے ہوئے اور نیکیاں بجالاتے ہوئے اس رمضان میں اس امید پر داخل ہوا کہ تو اسے بھی اپنی رحمت، بخشش اور آگ سے بچانے کے عشروں سے فیضیاب کرے گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23جون 2017ء)

(ام سبیکہ۔سیرالیون)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 29 ۔اپریل2020ء