محبتِ الٰہی جس کا دینی معاشرہ میں اکثر ذکر رہتا ہے ایک دو طرفہ عمل کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے نیک بندوں سے محبت ایک لازوال اور غیر منقطع عمل ہے جبکہ ایمان والے بھی ہر آن اللہ ہی کی محبت کا دم بھرتے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا:وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُباً لِّلّٰہِ (البقرہ:166) جبکہ آنحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلاوتِ ایمانی کے حصول کی سب سے پہلی شرط یہ بیان کی کہ اللہ اوراس کے رسول سے محبت دوسری ہر چیز سے بڑھ کر ہو۔
(صحیح بخاری کتاب الایمان باب حلاوۃ الایمان)
محبت انسان کی فطرت میں ہے جب وہ خدا کی یاد میں بہتی ہے تو وہاں سے منور ہو کر لوٹتی ہے۔پھر خدا اور اس کے بندے میں ایک نوری تعلق پیدا ہوتا ہے جو انسان کے ہر قول و فعل کو روشن کر دیتا ہے۔ گو یا انسان خدا نما اور اس کا ہی مظہر ہو جاتا ہے۔
محبتِ الٰہی کی علامت
جب ایک مومن اللہ تعالیٰ سے اور اللہ اپنے بندہ سے محبت کرتا ہے تو کیسے معلوم ہو کہ اسے محبتِ الٰہی حاصل ہے، کیا اس کی کوئی علامت یا نشانی بھی ہے؟ اللہ والوں کو تو اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی کہ ان کی محبتِ الٰہی اور تعلق باللہ کو ماپا جائے۔ لیکن اس سعادت و برکت کے اظہار کے لئے حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جب اللہ کسی بندے کو محبوب رکھتا ہے تو جبریلؑ کو فرماتا ہے کہ میں فلاں بندے کومحبوب جانتا ہوں تو بھی اس کو محبوب جان۔ پھر جبریلؑ آسمان والوں کو پکارتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں انسان کو محبوب رکھتاہے پس تم بھی اس کو محبوب رکھو۔ تو آسمان والے اس کومحبوب جانتے ہیں پھر زمین میں بھی اس کی قبولیت اتار دی جاتی ہے۔‘‘
(صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ)
یوں خدا کا محب و محبوب ظاہر ہو جاتا ہے۔
محبت الٰہی کے حصول کے ذرائع
محبتِ الٰہی کے حصول کے کئی ذرائع ہیں جنہیں انسان اختیار کرکے کامیاب ہو سکتا ہے۔جن پر دوام ضروری ہے۔اور انہیں پر عمل پیرا ہونا محبتِ الٰہی کی علامت بن جایا کرتا ہے۔ان میں سے چند ایک ذیل میں تحریر ہیں۔
1۔حصولِ محبت کے لئے دعا
آنحضرت ﷺ جو دل کی گہرائیوں سے محبتِ الٰہی کے حصول کے طلبگاربلکہ خدا کے محب و محبوب تھے اس غرض کے لئے دعا کیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کو نبی داؤد ؑ کی یہ دعا نہ صرف بہت پسند تھی بلکہ آپ نے اسے اپنی امت کے پڑھنے کے لئے بھی پسند فرمایا۔ یعنی اے میرے اللہ ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں۔ اور ان لوگوں کی محبت جو تجھ سے محبت کرتے ہیں۔ اور اس کام کی محبت جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے میری خدا ! ایسا کر کہ تیری محبت مجھے اپنی جان ، اپنے اہل و عیال اور ٹھنڈے شیریں پانی سے بھی زیادہ پیاری اور اچھی لگے۔
(جامع ترمذی ابواب الدعوات باب دعاء داؤد)
2۔حصولِ محبت کی کوشش
اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ انسان کوشش اور جستجو کرے تب اسی کے فضل اور رہنمائی سے محبتِ الٰہی حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ان کو ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے۔
(العنکبوت:70)
3۔حصولِ محبت میں ابتداء
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے رب کی طرف سے بطور حدیث قدسی بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ جب بندہ ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں۔ جب وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑتے ہوئے جاتا ہوں۔
(صحیح مسلم کتاب الذکر والدعا باب فضل الذکر)
گویا اظہارِ محبت اور اس کے حصول کی کوشش کی ابتداء ہمیشہ انسان کی طرف سے ہونی چاہئے پھر اللہ تعالیٰ اس کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اسے محبت سے بھر دیتا ہے۔
4۔ فرائض و نوافل کی بجا آوری
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ حدیثِ قدسی بیان فرمائی کہ
’’میرا قرب حاصل کرنے کے لئے سب سے محبوب ذریعہ فرائض کی بجا آوری ہے۔ اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعہ میراقرب حاصل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔ اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے۔ اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں۔ اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگتا ہے تومیں اس کو پناہ دیتا ہوں۔‘‘
(صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع)
5۔کامل اطاعتِ رسول ؐ
سیدنا حضرت اقد س مسیح موعودعلیہ السلام بیان فرماتے ہیں۔
’’اسلام کا خدا کسی پر اپنے فیض کادروازہ بند نہیں کرتا بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں سے بلا رہا ہے کہ میری طرف آؤ۔ اورجو لوگ پورے زورسے اس کی طرف دوڑتے ہیں ان کے لئے دروازہ کھولا جاتاہے۔
سو میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی ۔ اورمیرے لئے اس نعمت کا پاناممکن نہ تھا اگر میں سید و مولیٰ فخر الانبیاء اورخیر الوریٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا ۔سو میں نے جو کچھ پایا۔ اس پیروی سے پایا۔اور میں اپنے سچے اورکامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اورنہ معرفت کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے اورمیں اس جگہ یہ بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے کہ سچی اورکامل پیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ سو یاد رہے کہ وہ قلب ِ سلیم ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اوردل ایک ابدی اورلازوال لذت کا طالب ہو جاتا ہے پھر بعد اس کے ایک مصفیٰ اورکامل محبت الٰہی بباعث اس قلب ِسلیم کے حاصل ہوتی ہے اوریہ سب نعمتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں جیساکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتاہے کہ ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے (آل عمران :32) بلکہ یکطرفہ محبت کا دعویٰ بالکل ایک جھوٹ اورلاف و گزاف ہے ۔جب انسان سچے طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کرتاہے توخدا بھی اس سے محبت کرتاہے تب زمین پر اس کے لئے ایک قبولیت پھیلائی جاتی ہے اورہزاروں انسانوں کے دلوں میں ایک سچی محبت اس کی ڈال دی جاتی ہے اورایک قوتِ جذب اس کو عنایت ہوتی ہے اورایک نوراس کو دیا جاتاہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا ہے ۔جب ایک انسان سچے دل سے خدا سے محبت کرتاہے اور تمام دنیا پر اس کو اخیتار کر لیتا ہے اور غیر اللہ کی عظمت اوروجاہت اس کے دل میں باقی نہیں رہتی، بلکہ سب کوایک مرے ہوئے کیڑے سے بھی بدتر سمجھتا ہے۔ تب خدا جو اس کے دل کو دیکھتا ہے ایک بھاری تجلی کے ساتھ اس پر نازل ہوتا ہے۔اورجس طرح ایک صاف آئینہ میں جو آفتاب کے مقابل پر رکھا گیا ہے آفتاب کا عکس ایسے پورے طور پر پڑتاہے کہ مجاز اور استعارہ کے رنگ میں کہہ سکتے ہیں کہ وہی آفتاب جو آسمان پر ہے اس آئینہ میں بھی موجود ہے ایسا ہی خدا ایسے دل پر اُترتا ہے اوراس کے دل کو اپنا عرش بنا لیتاہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد22 ص64 تا 65)
6۔احسان سے کام لینا
دوسروں سے نیکی اورحسنِ سلوک کرنااوراحسان سے کام لینا انسان کو اللہ کا محبوب بنا دیتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ احسان سے کام لو اللہ احسان کرنے والوں سے یقیناََمحبت کرتاہے۔
(البقرہ :196)
7۔سچی توبہ کرنا
سچی توبہ انسان کو دھو دیتی ہے اور وہ نئی روحانی پیدائش کے ساتھ خدا کے حضور حاضر ہوتا ہے۔یہ وہ حالت ہے جو خدا کو بہت پسند ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ اللہ ان سے جو اس کی طرف بار بار رجوع کرتے ہیں اور سچی توبہ کرتے ہیں یقیناًمحبت کرتا ہے۔
(البقرہ:223)
8۔ظاہری و باطنی صفائی کا اہتمام کرنا
اللہ تعالیٰ بہت ہی پاک اور لطیف ذات ہے اس لئے وہ اپنی محبت کا اظہار انہیں لوگوں سے کرتا ہے جو ہر طرح کی صفائی کا خیال رکھتے ہوں۔ جیسا کہ فرمایا کہ وہ ظاہری و باطنی صفائی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
(البقرہ:223)
9 ۔تقویٰ اختیار کرنا
نیکی اور اچھائی کے لئے تقویٰ ایک اہم شرط ہے۔جیسا کہ سیدنا حضرت اقد س مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے
گر یہ جڑ رہی تو سب کچھ رہا ہے
چنانچہ محبت الٰہی کے حصول کے لئے بھی تقویٰ بنیادی شرط ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہاں ہاں جو شخص اپنے عہد کو پورا کرے اور تقویٰ اختیار کرے تو اللہ متقیوں سے یقیناً محبت رکھتا ہے۔
(آلِ عمران : 77)
10۔مصیبت پر صبر کرنا
مومنوں کی زندگی میں مصائب و آلام ان کی ترقیات کے لئے ضروری ہیں۔ پس مصائب پر صبر کرنا بھی محبتِ الٰہی کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے۔چنانچہ اللہ تعالٰ فرماتا ہے کہ نہ تو وہ اس تکلیف کی وجہ سے جو انہیں اللہ کی راہ میں پہنچی تھی سست ہو گئے اور نہ کمزوری دکھائی اور نہ انہوں نے (دشمنوں کے سامنے)تذلل اختیار کیا۔ اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
(آل عمران : 147)
11۔توکل علیٰ اللہ کرنا
انسان کی زندگی میں اونچ نیچ آتے رہتے ہیں۔ہر حال میں اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنا اور اسی پر توکل رکھنا انسان کو خدا کا محبوب بنا دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمایاکہ جب تو کسی بات کا پختہ ارادا کر لے تو اللہ پر توکل کر ۔ اللہ توکل کرنے والوں سے یقیناً محبت کرتاہے۔
( اٰل عمران :160)
12۔انصاف کرنا
انصاف بہت بڑی خوبی ہے۔جس کے نتیجہ میںدنیا میں امن و شانتی پیدا ہوتی ہے۔ اسی لئے انصاف کا قیام محبت الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کر۔ اللہ یقیناً انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
(المآئدہ: 43)
عقیدہ کی تصحیح،نیک صحبت،معرفت،صبر،حسنِ ظن اور دعا
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ
’’سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اول تصحیحِ عقیدہ کرے… مسلمانوں کا وہی خدا ہے جس کوانہوں نے قرآن کے ذریعہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جب تک اس کو شناخت نہ کیا جائے ،خدا کے ساتھ کوئی تعلق اورمحبت پیدا نہیں ہو سکتی نرے دعوے سے کچھ نہیں بنتا۔پس جب عقیدہ کی تصحیح ہو جاوے تو دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ نیک صحبت میں رہ کر اس معرفت کو ترقی دی جاوے اور دعاکے ذریعہ بصیرت مانگی جاو ے جس جس قدر معرفت اور بصیرت بڑھتی جاوے گی اسی قدر محبت میں ترقی ہوتی جائے گی۔ یاد رکھنا چاہئے کہ محبت کے بدوں معرفت بھی ترقی پذیر نہیں ہو سکتی۔ دیکھو انسان ٹین یالوہے کے ساتھ اس قدرمحبت نہیں کرتا جس قدر تانبے کے ساتھ کرتا ہے پھر تانبے کو اس قدر عزیز نہیں رکھتا جتنا چاندی کو رکھتا ہے اور سونے کو اس بھی زیادہ محبوب رکھتا ہے اور ہیرے اوردیگر جواہرات کواور بھی عزیزرکھتاہے اس کی کیاوجہ ہے؟یہی کہ اس کو ایک معرفت ان دھاتوں کی بابت ملتی ہے جواس کی محبت کو بڑھاتی ہے۔ پس اصل بات یہی ہے کہ محبت میں ترقی اور قدر و قیمت میں زیادتی کی وجہ معرفت ہی ہے۔اس سے پیشتر کہ انسان سرور اور لذت کا خواہش مند ہو اس کوضروری ہے کہ وہ معرفت حاصل کرے۔لیکن سب سے ضروری امر جس پر ان سب باتوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ وہ صبر اورحسن ظن ہے جب تک ایک حیران کر دینے والا صبر نہ ہوکچھ بھی نہیں ہوسکتا ۔جب انسان محض حق جوئی کے لیے تھکانہ دینے والے صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سعی اورمجاہد ہ کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے وعدہ کے موافق اس پر ہدایت کی راہ کھول دیتاہے یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر سعی اور مجاہدہ کرتے ہیں آخر ہم ان کی اپنی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ (العنکبوت:70) ان پردروازے کھولے جاتے ہیں یہ سچی بات ہے کہ جو ڈھونڈتے ہیں وہ پاتے ہیں۔کسی نے خوب کہا
اے خواجہ درد نیست وگرنہ طبیب ہست
(ملفوظات جلد اول ص461)
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اپنی محبت ورحمت سے نوازے۔
(مظفر احمد دُرّانی)