قسط نمبر 1۔2
نوٹ: مکرم حافظ مظفر احمد نے قارئین الفضل کی علمی اور دینی استعدادوں کوبڑھانے کے لئے رمضان کی مناسبت سے ’’قرآن کریم کی روحانی ومادی تاثیرات‘‘ 7 قسطوں میں تحریر کی ہیں۔ فجزاہ اللّٰہ خیراً۔ اس اہم مضمون کا آغاز قرآن نمبر سے کیا جارہا ہے۔ پہلی دو اقساط کو یکجاک ردیا گیا ہے۔
(ایڈیٹر)
اللہ تعالیٰ قرآن کی شان وعظمت اور روحانی ومادی قوت تاثیربیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ (الحشر:22) یعنی اگر ہم نے اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اُتارا ہوتا تو تُو ضرور دیکھتا کہ وہ اللہ کے خوف سے عجز اختیار کرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔
تو انسانوں کے دل اس کلام سے کیوں نرم نہیں ہوسکتے۔ قرآن مجید کو تمام بنی نوع انسان کے لئےہدایت کا ذریعہ قرار دیتےہوئے اس کی ایک شرط خدا خوفی بیان فرمائی ہے۔ ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَیبَ فِیْهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِینَ (البقرہ:3) یہ ’’وہ‘‘ کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ہدایت دینے والی ہے متقیوں کو۔
شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ (البقرہ:186) رمضان کا مہىنہ جس مىں قرآن انسانوں کے لئے اىک عظىم ہداىت کے طور پر اُتارا گىا اور اىسے کھلے نشانات کے طور پر جن مىں ہداىت کى تفصىل اور حق و باطل مىں فرق کر دىنے والے اُمور ہىں۔
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ
(یونس: 58)
ترجمہ: اے انسانو! یقیناً تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت کی بات آچکی ہے اسی طرح جو (بیماری) سینوں میں ہے اس کی شفا بھی۔
اسی طرح قرآن کو تمام بنی نوع انسان اور خصوصاً مومنوں کے لئے ہدایت اور شفا قرار دیتے ہوئےفرمایا۔ قُلۡ ہُوَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہُدًی وَّ شِفَآءٌ (حٰم السجدہ: 45) تو کہہ دے کہ وہ تو اُن لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ہیں ہدایت اور شفا ہے۔
پھر یہ بھی واضح فرمایا کہ مومنوں کیلئے تو موجب شفا ہے مگر ظالموں کیلئے نہیں۔ وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَۙ وَ لَا یَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا (بنی اسرائیل:83) اور ہم قرآن میں سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفاء ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور وہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا کسی اور چیز میں نہیں بڑھاتا۔
حضرت امام رازیؒ نے قرآن کے شفا ہونے سے کفر کی بیماری کا دُور ہونا۔نیز جسمانی بیماریوں سے شفا بھی مُراد لی ہے۔
(تفسیر الرازی جلد1 ص 281)
ایمان اور خداترسی سےقرآن کی تلاوت سننے والوں پر اس کے ظاہری اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی یہ تاثیر بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔
اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ٭ۖ تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ ۚ ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُہُمۡ وَ قُلُوۡبُہُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ
(الزمر:24)
اللہ نے بہترین بیان ایک ملتی جلتی (اور) باربار دُہرائی جانے والی کتاب کی صورت میں اُتارا ہے۔ جس سے اُن لوگوں کی جلدیں جو اپنے ربّ کا خوف رکھتے ہیں لرزنے لگتی ہیں پھر اُن کی جلدیں اور اُن کے دل اللہ کے ذکر کی طرف (مائل ہوتے ہوئے) نرم پڑ جاتے ہیں۔یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ اس کے ذریعہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ ٹھہرادے تو اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
تاثیر قرآن اور احادیث نبویہؐ
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ اُنہیں سورہ رحمان کی تلاوت سنائی۔ صحابہ ؓ کمال خاموشی سے سنتےرہےاور محو حیرت ہوگئے۔ رسول کریم ﷺ نے پوری سورت کی تلاوت مکمل کرکے فرمایا کہ مَیں نے ایک قوم جنّ کو جب یہ سورت سنائی تو اُنہوں نے تم سے بھی بہتر نمونہ دکھایا۔ جب بھی مَیں نے فَبِاَیِّ اٰلٓاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ کی آیت پڑھی جس کا مطلب ہے کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کروگے تو وہ لوگ جواب میں کہتے تھے لَا بِشَیٍٔ مِنْ نِعمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ وَلَکَ الْحَمْدُ۔ یعنی اے ہمارے ربّ! ہم تیری نعمتوں میں سے کسی چیز کو جھٹلاتے نہیں او ر سب تعریفیں تیرے لئے ہیں۔
(ترمذی کتاب التفسیر سورہٴ رحمان)
حضرت عبدالرحمنؓ بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص ہمارے ہاں تشریف لائے اُن کی بینائی ختم ہو چکی تھی۔ مَیں نے اُن کو سلام کیا۔اُنہوں نے پوچھا کون ہو؟ مَیں نے بتایا تو فرمایا۔ مرحبا بھتیجے ! مجھے معلوم ہوا کہ تم خوش الحانی سے قرآن پڑھتے ہو۔ مَیں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ یہ قرآن غم کی کیفیت میں اُترا ہے۔ اس لئے جب تم تلاوت کروتو رویا کرو۔کیونکہ اگر تم نہیں روؤ گے تو یہ تمہیں رُلائے گا۔ (یعنی اگر تمہارے اندر تلاوت کے دوران اضطراری کیفیت پیدا نہیں ہوتی تو یہ قابل فکر بات ہے۔)
(ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ باب فی حسن صوت بالقرآن)
احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ پر قرآن سننے کےوقت خشوع وخضوع کی حالت طاری ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ حضرت زیدؓ بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت اُبی بن کعبؓ نے رسول کریم ﷺ کی موجودگی میں صحابہؓ کو قرآن کی تلاوت سنائی تو سب پر رقّت طاری ہوگئی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ رقّت کے وقت دُعا کو غنیمت جانو کیونکہ یہ بھی رحمت ہے۔
(تفسیر قرطبی جلد15 ص250)
اسی طرح حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ رات کونماز میں سورہ کہف کی تلاوت کررہے تھے جبکہ پاس ہی ایک جانب ان کا گھوڑا بندھا تھا جو بِدکنے لگا جب اُنہوں نے سلام پھیرا تو آسمان پر دیکھا کہ ایک سائبان بنا ہوا تھا جس میں چراغ روشن تھے۔ صبح اُنہوں نے اس واقعہ کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ؐ نے فرمایا: یہ ایک (قسم کی) سکینت تھی جوقرآن پاک کی(تلاوت)کی وجہ سے نازل ہورہی تھی۔
(بخاری کتاب فضائل القرآن باب نزول سکینہ)
تلاوت قرآن کے وقت اہل کتاب میں سے بعض یہود اور اکثر نصاریٰ کی بھی ایسی حالت دیکھی جاتی تھی۔فرمایا۔
إِنَّ الَّذِينَ أُوتُواْ الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلأَذْقَانِ سُجَّداً۔ وَّيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَآ إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولاً۔ وَيَخِرُّونَ لِلأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً۔
(بنی اسرائیل:108 تا 110)
ترجمہ: یقیناً وہ لوگ جو اس سے پہلے علم دئیے گئے تھے جب اُن پر اس کی تلاوت کی جاتی تھی تو وہ ٹھوڑیوں کے بَل سجدہ ریز ہوتے ہوئے گِر جاتے تھےاور وہ کہتے تھے ہمارا ربّ پاک ہے یقیناً ہمارے رب کا وعدہ تو بہرحال پورا ہوکر رہنے والا ہے۔ وہ ٹھوڑیوں کے بَل روتے ہوئے گِر جاتے تھے اور یہ اُنہیں انکساری میں بڑھا دیتا تھا۔
حضرت علیؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کی کرامات اور فضائل بیان فرماتے ہوئےسنا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی کتاب قرآن کریم میں تم سے پچھلوں کے متعلق بھی تذکرہ ہے اور تمہارے بعد کا بھی نیز اس میں تمہارے درمیان ہونے والے معاملات کا حکم ہے اور یہ سیدھا سچا فیصلہ ہے۔یہ مذاق نہیں ہے۔ جس نے اُسے حقیر جان کر چھوڑ دیا اللہ تعالیٰ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ پھر جو شخص اس کے علاوہ کسی اور چیز میں ہدایت تلاش کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے گمراہ کر دے گا۔یہ اللہ کی ایک مضبوط رسّی ہے اور یہی ذکرِ حکیم ہے اور یہی صراطِ مستقیم ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے جسے خواہشات نفسانی ٹیڑھا نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس سے زبانیں خلط ملط ہوتی ہیں۔ علماء اس سے سیرنہیں ہو سکتے۔یہ بار بار دُہرانے اور پڑھنے سے پُرانا نہیں ہوتا۔ اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔ اسے سن کر جنّ کہہ اُٹھے کہ ہم نے عجیب قرآن سنا جو ہدایت کی راہ دکھاتا ہے ہم اس پر ایمان لائے۔ جس نے اس کے مطابق بات کی اس نے سچ کہا۔ جس نے اس پر عمل کیا اُس نے اَجر پایا۔ جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اُس نے عدل کیا اور جس نے اس کی طرف لوگوں کو بُلایا اُسے صراطِ مستقیم پر چلا دیا گیا۔
(ترمذی کتاب فضائل القرآن باب فضل القرآن)
حضرت مسیح موعود ؑ قرآنی تاثیرات کے بارہ میں فرماتے ہیں۔
’’قرآن کریم کے کمالات میں تیسرا حصّہ اس کی تاثیرات ہیں۔‘‘
(جنگ ِمقدس، روحانی خزائن جلد6 ص289)
پھران قرآنی تاثیرات کا نمونہ پیش کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ نےفرمایا۔ ’’یہ امر بھی ہریک منصف پر ظاہر ہے کہ وہی جاہل اور وحشی اور یا وہ اور ناپارسا طبع لوگ اسلام میں داخل ہونے اور قرآن کو قبول کرنے کے بعد کیسے ہوگئے اور کیونکر تاثیرات کلام الٰہی اور صحبت نبی معصوم نے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں اُن کے دِلوں کو یکلخت ایسا مبدّل کردیا کہ وہ جہالت کے بعد معارف دینی سے مالا مال ہوگئے اور محبت دُنیا کے بعد الٰہی محبت میں ایسے کھوئے گئے کہ اپنے وطنوں اپنے مالوں اپنے عزیزوں اپنی عزتوں اپنی جان کے آراموں کو اللہ جلّ شانہٗ کے راضی کرنے کے لئے چھوڑ دیا…………خدائے قادرِ مطلق حیّ قیّوم کے پاک کلام کی زبردست اور عجیب تاثیریں تھیں کہ جو ایک گروہِ کثیر کو ہزاروں ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں بلاشبہ یہ قرآنی تاثیریں خارق عادت ہیں کیونکہ کوئی دُنیا میں بطور نظیر نہیں بتلا سکتا کہ کبھی کسی کتاب نے ایسی تاثیر کی۔‘‘
(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 ص78،77حاشیہ)
قرآن شریف کی تاثیرات کی وسعت کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں۔
’’اُس کے نزول کی تاثیرات کا دائرہ مختلف استعدادوں اور مختلف ظروف کے لحاظ سے چھوٹی چھوٹی یا بڑی بڑی شکلوں پر تقسیم ہو جاتا ہے ………… یہ عظیم الشان مرتبہ اور کسی کتاب کو حاصل نہیں۔‘‘
(توضیح مرام، روحانی خزائن جلد3 ص86)
حضرت مسیح موعودؑ نے واضح فرمایا کہ قرآنی تاثیرات کا تعلق محض گزشتہ زمانہ سے نہیں بلکہ آئندہ زمانہ سے بھی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں۔
’’پھر چوتھا معجزہ قرآن شریف کا اس کی روحانی تاثیرات ہیں جو ہمیشہ اس میں محفوظ چلی آتی ہیں یعنی یہ کہ اس کی پیروی کرنے والے قبولیت الہٰی کے مراتب کو پہنچتے ہیں اور مکالماتِ الہٰیہ سے مشرف کئے جاتے ہیں۔خدا ئے تعالیٰ اُن کی دُعاؤں کو سنتا اور اُنہیں محبت اور رحمت کی راہ سے جواب دیتا ہے اور بعض اسرارِ غیبیہ پر نبیوں کی طرح اُن کو مطلع فرماتا ہے اور اپنی تائید اور نصرت کے نشانوں سے دوسری مخلوقات سے اُنہیں ممتاز کرتا ہے۔‘‘
(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، روحانی خزائن جلد4 ص449)
نیز فرمایا:
’’قرآن شریف كے انوار و بركات اور اس كی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں۔ چنانچہ مَیں اس وقت اسی ثبوت كے لئے بھیجا گیا ہوں۔‘‘
(ملفوظات جلد4 ص450)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ قرآن کریم کی تاثیرات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
“عرب جاہل تھے۔ وحشی تھے۔ خدا سے دُورتھے۔ محکوم نہ تھے توحاکم بھی نہ تھے؟ مگر جب اُنہوں نے قرآن کریم کا شفا بخش نسخہ استعمال کیا تو وہی جاہل دُنیا کے استاد اور معلّم بنےوہی وحشی متمدّن دُنیا کے پیش رَو اور تہذیب وشائستگی کے چشمے کہلائے۔ وہ خدا سے دُور کہلانے والے خدا پرست اور خدا میں ہو کر دُنیا پر ظاہر ہوئے۔ وہ جوحکومت کے نام سے بھی ناواقف تھے دُنیا بھر کے مظفرومنصور اور فاتح کہلائے۔ غرض کچھ نہ تھے سب کچھ ہوگئے۔ مگر سوال یہی ہے کیونکر؟ اسی قرآن کریم کی بدولت اسی دستورالعمل کی رہبری سے۔ پس تیرہ سو برس کا ایک مجرّب نسخہ موجود ہےجو اس قوم نے استعمال کیا جس میں کوئی خوبی نہ تھی اور خوبیوں کی وارث اور نیکیوں کی ماں بنی۔‘‘
(حقائق الفرقان، جلد4ص287)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ قرآن کی روحانی تاثیرات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’قرآن کریم میں یہ تاثیر ہے کہ اس کی کوئی سورة بھی آدمی پڑھے۔ اس کے دل میں اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی تاثیرات پیدا ہونے لگیں گی۔ گویا بجائے شکوک پیدا کرنے کے وہ شکوک کو قطع کردیتا ہے اور لوگوں کو ایسے مقامات تک پہنچادیتا ہے کہ وہاں شک باقی ہی نہیں رہتا اور یہ تعلق باللہ کا مقام ہے۔ یہ مقام صرف قرآن کریم کی تلاوت سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسرا کوئی کلام اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور قرآن کریم کی ہر اک سورت ان روحانی تاثیرات میں ایسی بے مثل ہے کہ کوئی اور کلام اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہرسکتا۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد3 ص161)
اسی طرح فرمایا۔ ’’یہ کتاب دلی شبہات کے لئے شفاء ہے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد3 ص93)
حضرت مصلح موعود ؓ قرآنی تاثیرات سے استفادہ کا طریق بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں۔
’’قرآن کامتن پڑھنا بیشک ایک ضروری چیز ہے اور اس کو چھوڑنا نہیں چاہئے ورنہ تحریف پیدا ہوجاتی ہے لیکن ساتھ یہ بھی زور دینا چاہئے تھا کہ اردو جاننے والے اردو میں ترجمہ پڑھا کریں۔ قرآن کی تلاوت کریں۔ ایک رکوع وہ پڑھ لیا پھر یہ ایک رکوع اردو میں پڑھ لیا۔جب تک وہ اردو میں نہیں پڑھتے اُس وقت تک تھوڑی عربی جاننے والا اُس کے مضمون کو کہیں اخذ نہیں کرے گا۔‘‘
(متفرق امور۔انوارالعلوم جلد24 ص195)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سورہ یونس کی آیات 58-59 کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’اس آیت میں قرآن کریم کے متعلق چار باتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن کریم کی تعلیم مَوْعِظَةٌ (نصیحت) ہے اور اللہ تعالیٰ جس رنگ میں جن لوگوں پر اپنا فضل فرماتا ہےاور اُنہیں اپنی خوشنودی کےعطرسے ممسوح کرتا ہے۔ ان کے واقعات ایسے رنگ میں بیان فرماتا ہے جو دِلوں پر اثر کرنے والا اور دِلوں کو نرم کرنے والا ہوتا ہے۔
دوسرے یہ فرمایاکہ یہ کتاب شِفَاءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ ہے۔ جو بیماریاں سینہ ودل سے تعلق رکھتی ہیں اس کتاب میں ان تمام بیماریوں کا علاج پایا جاتاہے اور جو نسخے یہ کتاب تجویز کرتی ہے ان کےاستعمال سے دل اور سینہ کی ہرروحانی بیماری دُور ہوجاتی ہے۔
تیسری بات جو قرآن کریم کے متعلق یہاں بیان فرمائی ہے۔ وہ هُدًى ہے۔ یعنی اس کی تعلیم ہدایت پرمشتمل ہے۔وہ ان راہوں کی نشاندہی کرتا ہے۔جو اس کے قریب تک پہنچانے والی ہیں اور منزل بہ منزل بہترسے بہترہدایت ان کی طاقت واستعداد کے مطابق ان کو عطا فرماتا ہےاورہدایت کرتا چلا جاتاہے حتّٰی کہ بندہ اپنے اچھےانجام کو پہنچ جاتا ہے۔ وہ اپنی جنت اور اپنےربّ کی رضا کو حاصل کرلیتا ہے۔
چوتھی بات قرآن کریم کے متعلق یہاں یہ بتائی گئی ہےکہ ایمان والوں کے لئے یہ رحمت کا موجب ہے یعنی جولوگ بھی قرآن کریم کی بتائی ہوئی ہدایت پر عمل کرتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ جو بڑا احسان کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہےاپنی رحمت کی آغوش میں لے لیتا ہے۔‘‘
(انوارالقرآن جلد2 ص271 تا 272)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں۔
’’خواہ کوئی دہریہ ہویاغیر دہریہ، قرآن کریم کی تلاوت اس کے دل پر گہرا اثر کرتی ہے۔ قرآن کریم میں یہ طاقت ہے کہ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ (الزمر:24) انسان کے اندر ایک قسم کا تزلزل پیدا کردیتی ہےاور وہ خدا کی عظمت کے احساس سے کانپنے لگ جاتا ہے۔‘‘
(خطبات طاہر جلد1 ص316)
پھر فرمایا۔ ’’قرآن کریم ……..کیسی عظیم کتاب ہے جس کی نظرسے کوئی باریک سے باریک روحانی بیماری بھی چُھپی ہوئی نہیں کہ پھران کا علاج بتاتی ہے اور اس کاعلاج صرف اور صرف ایک ہی ہے کہ خدا سے تعلق پیدا کرو …… اللہ سے تعلق ہے جو دراصل آپ کاعلاج ہے۔ اللہ تعالیٰ سے پیار اور ایسا ذاتی اور قطعی تعلق پیدا کیاجائے کہ جس کے مقابل پر دُنیا بالکل حقیر اور بےمعنی اور بےحقیقت نظر آنے لگے۔‘‘
(خطبات طاہر جلد2 ص501)
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہٗ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز فرماتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام ہمیں ایک جگہ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’آپ ؐ کی تاثیرات کا سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ اب تک وہ چلی جاتی ہیں۔ قرآن شریف کی تعلیم میں وہی اثر وہی برکات اب بھی موجود ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد4 صفحہ630)
پس جب خدا بھی وہی قدّوس ہے توجو اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کرے وہ اس سے فیض پاتا ہے۔ اس کے رسول کی تاثیرات بھی قائم ہیں، اس کی کتاب کی تاثیریں بھی قائم ہیں، اِس زمانے میں اُس نے اپنے مسیح و مہدی کی قوت قدسی کے نظارے بھی ہمیں دکھا دئیے اور دکھا رہا ہے۔یہ سب باتیں ہمیں اس قدّوس خدا کی صفت سے فیضیاب بنانے والی ہونی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘
(خطبہ جمعہ مورخہ 20۔اپریل 2007ء)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’فاتحہ میں تمام قرآن شریف کی طرح روحانی مرضوں کی شفا رکھی ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد 1ص406)
پھر فرمایا۔ ’’فاتحہ میں یہ خواص ہیں کہ وہ بڑی بڑی امراض روحانی کے علاج پر مشتمل ہے ………سالک کے دل کو اس کے پڑھنے سے یقینی قوت بڑھتی ہے اور شک اور شبہ اور ضلالت کی بیماری سے شفا حاصل ہوتی ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد1 ص399)
اسی طرح فرمایا۔ ’’قرآن شریف ایسے کمالات عالیہ رکھتا ہے جو اس کی تیز شعاعوں اور شوخ کرنوں کے آگے تمام صحف سابقہ کی چمک کالعدم ہورہی ہے ………کوئی تقریر ایسا قوی اثر کسی دل پر ڈال نہیں سکتی جیسے قوی اور پُربرکت اثر لاکھوں دلوں پر وہ ڈالتا آیا ہے‘‘
(سرمۂ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 ص71)
قرآن کریم کی تاثیر سے ہدایت پانے والے
اب قرآن کریم کی روحانی تاثیرات کے سبب ہدایت پانے والوں کے متعلق بعض حیرت انگیز اور دلنشین واقعات بیان کئے جاتے ہیں۔ جن سےظاہر ہے کہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنکین پیشگوئی کے مطابق (کہ یہ قرآن متقیوں کےلئے ہدایت ہوگا) خدا ترس لوگوں کےلئے قرآن کس طرح ہدایت کا ذریعہ بن گیا۔
سورۃالحاقہ، سورۃ العلق، سورہ طٰہٰ اورسورہ حدید کی آیات کا حضرت عمرؓ پر اثر حضرت عمرؓ کاقبول اسلام بھی کلام پاک کی تلاوت سننے کا نتیجہ تھا۔ اس بارہ میں روایات میں مختلف واقعات ملتے ہیں۔ ایک واقعہ سورۃ الحاقہ کے بارہ میں حضرت عمرؓ خود بیان کرتے ہیں کہ ’’قبولِ اسلام سے پہلے ایک دفعہ مَیں رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں نکلا تو آپؐ بیت اللہ میں سورةالحاقہ کی تلاوت کر رہے تھے ۔مَیں اس کلام کی حسن و خوبی پر متعجب ہوا اور دل میں کہا کہ یہ شخص شاعر نہیں ہوسکتا اسی وقت سے اسلام میرے دل میں گھر کرگیا۔‘‘
(اسد الغابہ جلد2ص197)
دوسرا واقعہ جوحضرت عمرؓ کے قبول اسلام کا فوری سبب بنا وہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ تلوار سونتے ہوئے آنحضور ﷺ کے قتل کے ارادے سے گھر سے نکلے۔ راستے میں ایک شخص نعیم بن عبداللہ النحام سے ملاقات ہوئی جو آپ ہی کے قبیلہ بنی عدی بن کعب سے تعلق رکھتے تھے اور مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ کہاں کا قصدہے؟ حضرت عمرؓ نے کہا مَیں اس فتنہ کا سدّباب کرنے اور بانی اسلام کے قتل کے ارادے سے نکلا ہوں۔ اُنہوں نے کہا پہلے اپنے بہن اور بہنوئی کی تو خبر لو، جو مسلمان ہوچکے ہیں۔ وہ اسی حالت میں سیدھا اپنی بہن فاطمہؓ کے گھر چلے گئے۔ قریب پہنچے تو تلاوت قرآن شریف کی آواز سنائی دی۔ عمرؓ گھر میں داخل ہوتے ہی کہنے لگے جو کلام تم پڑھ رہے تھے پہلے وہ سناؤ۔ جب بہن نے کچھ پس و پیش کی تو وہ حالت جوش وغضب میں اپنے بہنوئی خباب بن الارت سے دست وگریبان ہوگئے۔ بہن چھڑانے کے لئے بیچ میں آ ئیں تو ان کا بھی لحاظ نہ رہا اور اس طرح اپنی بہن اور بہنوئی کو لہو لہان کر بیٹھے اور انہیں کہا اس دین سے واپس لوٹ آؤ۔ حضرت فاطمہؓ بھی آخر حضرت عمرؓ کی بہن تھیں۔ نہایت استقامت سے بولیں یہ نہیں ہوسکتا۔ اے عمر! تم جو چاہو کرگزرو جتنا مرضی ظلم ڈھالو اسلام اب تو میرے دل میں گھر کرچکا ہے۔ حضرت عمرؓ ایک طرف اپنی بہن کی حالت زار دیکھ کرپشیمان تھے دوسری طرف ان کا آہنی عزم اور استقلال دیکھ کر حیران ۔آخر عمرؓ کا دل پسیج گیا۔ کہنے لگےاچھا مجھے کچھ قرآن تو سناؤ۔ اس پرسورہ طٰہٰ یا سورہ حدید کی کچھ آیات آپ کو سنائی گئیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید، عظمت و جبروت اور تسبیح و تحمید پر مشتمل تھیں۔ ان آیات نے حضرت عمرؓ کے دل پر جادو کا سا اثر کیا۔
دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ اپنی بہن کو زدوکوب کرکے خون آلود کر چکے تو رات کے پہلے حصّہ میں بھی انہیں یہ پڑھتے سنا اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق (العلق:2) اور رات کے آخری حصّہ میں بھی۔ علی الصبح وہ تلوار ہاتھ میں لئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں دارِ ارقم میں حاضر ہوگئے۔ جب دروازہ پر دَستک ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عمرؓ کو آنے دو۔ حضرت حمزہؓ کہنے لگے اگر وہ غلط ارادے سے آئے ہیں تو اُنہی کی تلوار سے اُن کا کام تمام کردیا جائے گا حضرت عمرؓ اندر آئے، آنحضرت ﷺنے فرمایا : عمرؓ !کس ارادہ سے آئے ہو؟ عرض کیا اسلام قبول کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ پھر انہوں نے اسی وقت اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی توحید اور آپؐ کی رسالت کی گواہی دی تو آنحضرت ﷺ نے خوشی سے بآوازبلند نعرہ تکبیر بلند کیا۔
(ابن ہشام جلد1 ص344-343۔مجمع الزوائد جلد9 ص62)
یہ پہلا نعرۂ تکبیر تھا جو مکہ میں حضرت عمرؓ کے ہم آواز ہوکر مسلمانوں نے بلند کیا، جس کی آواز بطحاکی پہاڑیوں میں گونجی۔ یہ واقعہ ساتویں سال نبوت کے قریب کا ہے۔
سورۃالذاریات کی آیات کا حضرت عثمانؓ پر اثر
حضرت عثمانؓ نے بھی بعض قرآنی آیات کی تلاوت رسول کریم ﷺ سےسن کر قبولِ اسلام کی سعادت پائی۔آپؓ اپنے قبول اسلام کا واقعہ خود اس طرح بیان کرتے ہیں کہ مکہ میں پہلی دفعہ حضرت عثمانؓ نے اپنی خالہ سُعدی بنت کریز سے سنا کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ وہ اللہ کے پیغام کی طرف بُلاتے ہیں اور اُن کا دین غالب آئے گا۔ حضرت عثمان ؓ کہتے ہیں اس بات نے میرے دل پر گہرا اثر کیا۔ مَیں انہی خیالوں میں تھا کہ حضرت ابوبکرؓ نے ایک دوستانہ مجلس میں پوچھ لیا کن سوچوں میں گم ہو؟ مَیں نے اپنی خالہ کی بات کہہ سنائی اس پر انہیں تبلیغ کا موقع مل گیا۔ کہنے لگے اے عثمانؓ! تم حق وباطل میں فرق کرسکتے ہو اور ان اندھے بہرے گونگے بُتوں کی پرستش کرتے ہو جو نہ فائدہ دے سکتے ہیں نہ نقصان۔ مَیں نے کہا بات تو درست ہے ۔ وہ کہنے لگے ’’پھر تمہاری خالہ نے سچ ہی تو کہا ہے اور اگر تمہیں شوق ہے تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر ان سے کچھ کلام تو سنو۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچادی۔ جلد ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی صورت پیدا کر دی۔
(البدایۃوالنھایۃ جلد7ص223)
حضرت عثمانؓ بیان کرتے ہیں۔مَ یں اپنی دوسری خالہ اروی بنت عبد المطلب کی عیادت کرنے گیا تو وہاں حضورؐ سے ملاقات ہوئی۔ آپؐ نے مجھ پر نگاہ ڈالی۔ اس روز آپؐ کی ایک عجیب شان اورکیفیت تھی۔ مجھے فرمایا: عثمان !تمہیں کیا ہوا ہے؟ مَیں نے کہا مجھے تعجب ہے کہ ہمارے درمیان آپؐ کا ایک مقام ومرتبہ ہے اس کے باوجود آپ پر کیچڑ اُچھالا جاتا اور مخالفت کی جاتی ہے۔ آپؐ نے بڑے جلال سے فرمایا۔ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ۔ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ خدا جانتا ہے۔ یہ سُن کر مَیں کانپ گیا۔ پھر آپؐ نے سورہ ذاریات کی وہ آیات تلاوت کیں جن میں اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت یوں بیان ہے وَ فِی السَّمَآءِ رِزۡقُکُمۡ وَ مَا تُوۡعَدُوۡنَ ۔ فَوَ رَبِّ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثۡلَ مَاۤ اَنَّکُمۡ تَنۡطِقُوۡنَ۔
(الذاریات: 23، 24)
اور آسمانوں میں تمہارا رزق ہے اور وہ بھی ہے جس کا تم وعدہ دئیے جاتے ہو۔ پس آسمان اور زمین کے ربّ کی قسم! یہ یقیناً اسی طرح سچ ہے جیسے تم (آپس میں) باتیں کرتے ہو۔
جب رسول خدا ﷺ وہاں سے نکلے تومَیں بھی آپؐ کے پیچھےہو گیا۔ آپؐ کی نظر پھر مجھ پرپڑی تو فرمایا :عثمان! خدا کی جنت قبول کرو۔ مَیں تمہاری اور تمام مخلوق کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔ حضرت عثمان ؓ نے اُسی وقت کلمہ شہادت پڑھا اور آپؐ کے دستِ مبارک میں ہاتھ دے کر بیعت کرلی۔
(الاستیعاب جلد1 ص573)
سورہ مریم اور سورہ طٰہٰ کی آیات کاشاہِ حبشہ نجاشی پر اثر
شاہِ حبشہ اصحمہ نجاشی نے بھی قرآن پاک کی تلاوت سننے کے بعد قبول اسلام کی توفیق پائی۔ مکیّ دَور میں حبشہ کی طرف مسلمانوں نے ہجرت کی اور کفار نے ان کا تعاقب کرکے نجاشی شاہِ حبشہ کے دربار تک رسائی حاصل کرکے مسلمانوں کو واپس لانے کی کوشش کی تو اس وقت رسول اللہ ﷺ کے چچازاد حضرت جعفر طیار ؓ کی تقریر کے دوران سورہ مریم کی تلاوت کا ان پر بہت اثر ہوا اور انہوں نے مہاجرین حبشہ کو واپس مکہ بھجوانے کی بجائے ان کے ساتھ عدل و انصاف کا سلوک کیا۔ اس کے بعد جب حضور ﷺ کا خط اُنہیں پہنچا تو وہ احتراماً تخت شاہی سے نیچےاُتر آئے اور رسول اللہ ﷺ کا مکتوب گرامی آنکھوں سے لگا کر کہا مَیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ خدا کے رسول ہیں ۔پھر وہ خط ایک ہاتھی دانت کی ڈبیہ میں رکھ کر کہا جب تک یہ ہمارے گھرانے میں رہے گا، اہل حبشہ اس کی حفاظت کی بدولت ہمیشہ خیر و برکت پاتے رہیں گے۔ نجاشی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنے جوابی خط میں اپنے قبول اسلام کی درخواست کرتے ہوئے لکھا کہ (اے اللہ کے رسولؐ!) مَیں آپؐ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفرؓ کے ذریعہ آپؐ کے ہاتھ پر خدا کی خاطر بیعت کرتا ہوں۔
(الوفاء ابن الجوزی جلد1 ص 479،480۔ تاریخ الخمیس جلد2 ص31 بیروت)
روایات میں آتا ہے کہ نجاشی کے سامنے حضرت جعفر ؓنے سورہ مریم کی آیات ذَالِکَ عِیْسی ابْنُ مَرْیمَ (1 تا 35) اور سورۃ طٰہٰ کی آیات ھَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی (1 تا 10) پڑھی تھیں۔
(تفسیر الکشاف جز6 صفحہ 305 سوة المائدة زیر آیت واذا سمعوا ما انزل)
9ھ میں جب حضرت نجاشی ؓ فوت ہوئے تو رسول کریم ﷺ نے اپنے صحابہ ؓسے فرمایا۔ تمہارا ایک نیک بھائی نجاشیؓ حبشہ میں فوت ہو گیا ہے ۔آؤ سب مل کر اس کی نماز جنازہ اداکریں۔
(بخاری ،کتاب فضائل الصحابہ باب موت النجاشی)
یمن کے سردار طفیل بن عمرو پر سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا اثر
طفیل بن عمرو الدوسی کا تعلق یمن کے قبیلہ دوس سے تھا۔آپ ایک شاعر تھے۔انہوں نے سورہ اخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کی تلاوت رسول کریم ﷺ سے سُن کر اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔ وہ زمانہ جاہلیت میں دوس قبیلہ کے سردار تھے طفیل بن عمرو اپنے قبیلہ کے علاقہ تہامہ کو چھوڑ کر مکہ کے لئےروانہ ہوئے۔ اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش کے درمیان حق و باطل کی زبردست کشمکش برپا تھی اور فریقین میں سے ہر ایک اپنے اور اپنی جماعت کے لئے اعوان و انصار فراہم کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حق و انصاف کے ہتھیار سے کام لے کر لوگوں کو رب کی بندگی کی دعوت دے رہے تھے اور کفار قریش ہر قسم کے حربے استعمال کرکے اس دعوت کی مخالفت و مزاحمت میں جتے ہوئے تھے اور لوگوں کو اس سے باز رکھنے کے لیے ایڑی سے چوٹی تک زور لگا رہے تھے۔ مکہ پہنچ کر طفیل نے محسوس کیا کہ وہ بھی اس سے متاثرہوتے جا رہے ہیں۔حالانکہ نہ تو وہ اس مقصد سے مکہ آئے تھے نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کےمابین برپا اس کشمکش کا انہیں وہم و گمان ہی گزرا تھا۔وہ خود بیان کرتے ہیں کہ جب میں مکہ پہنچا تو مجھے دیکھتے ہی سرداران قریش میری طرف لپکے،انہوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ میرا استقبال کیا اور بڑی عزت و تکریم سے نوازا۔ پھر ان کے بڑے بڑے سردار اور سربر آوردہ لوگ میرے گرد جمع ہوکرکہنے لگےطفیل! تم ہمارے شہر میں آئے ہو اور یہ شخص جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے ، اس نے ہمارا سارا معاملہ خراب کر کے رکھ دیا ہے۔ اس نے ہماری جمعیت کو منتشر اور ہماری جماعت کوپراگندہ کردیا ہے۔ ہم لوگوں کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں تم کو اور تمہاری قیادت و سرداری کو بھی وہی خطرہ نہ لاحق ہوجائے جس سے ہم لوگ دوچار ہیں۔ اس لئے تمہارے حق میں یہی بہتر ہے کہ تم نہ تو اس شخص سے کوئی بات کرنا نہ اس کی کوئی بات سننا کیونکہ اس کی باتوں اور زبان میں بلا کی تاثیر ہے۔ یہ شخص اپنی ان باتوں کے ذریعہ باپ بیٹے ، بھائی اور شوہر بیوی میں تفریق کردیتا ہےطفیل کہتے ہیں خدا کی قسم وہ لوگ مسلسل اس شخص کی عجیب و غریب باتیں مجھے سناتے رہے اور اس کے حیرت انگیز کارناموں سے میری اپنی ذات اور میری قوم کے متعلق مجھے خوفزدہ کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے اس بات کا عزم مصمم کرلیا کہ میں نہ اس شخص سے ملوں گا، نہ اس سے کلام کروں گا، نہ اس کی کوئی بات سنوں گا۔ پھر جب میں خانہ کعبہ کے طواف اور اس میں رکھے ہوئے ان بُتوں سے برکت حاصل کرنے کے لئے مسجد حرام میں گیا جن کی ہم تعظیم و توقیر کرتے تھے تو اس خوف سے کہ کہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات میرے کانوں میں نہ پڑجائے میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی۔ مسجد میں داخل ہوا، مَیں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے پاس کھڑے ہوکر نماز پڑھنے میں مشغول پایا۔ ان کا طریقہ عبادت ہمارے طریقہ عبادت سے مختلف تھا۔ وہ منظر مجھے بہت اچھا لگا ۔ ان کی عبادت کا یہ طریق دیکھ کر مَیں فرط مسرت سے جھوم اُٹھا اورایک کشش غیر ارادی طور پر بتدریج مجھےان سے قریب کرتی رہی۔یہاں تک کہ مَیں اُن کے پاس پہنچ گیا۔شاید خدا کو یہی منظور تھا کہ اُن کی زبان سے نکلنے والے کچھ الفاظ میرے کانوں تک پہنچیں۔چنانچہ مَیں نے اُن سے ایک بہترین کلام سنا اور اپنے دل میں کہا طفیل! تمہاری ماں تمہارے سوگ میں بیٹھے۔تم ایک سمجھدار اور صاحب بصیرت شاعر ہو، کسی کلام کا حسن و قبح تم پر مخفی نہیں۔ آخر اس شخص کی باتیں سننے میں حرج کیاہے۔
اگر اس کی باتیں اچھی ہوں گی تو قبول کرلینا،بری ہوں گی تو ردّ کردینا۔ یہ سوچ کر مَیں وہیں رُک گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر اپنے گھر تشریف لےجانے لگے تو مَیں بھی اُن کے پیچھے ہولیا، جونہی وہ گھر میں داخل ہوئے مَیں بھی اندر چلا گیا اور عرض کیا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی قوم کے لوگ مجھے آپ کے دین سے ڈراتے رہے حتیٰ کہ مَیں نے آپ کی باتیں نہ سننے کا پختہ ارادہ کرلیا اور اپنے کان روئی سے بند کرلئے تاکہ آپ کی کوئی بات کہیں میرے کانوں میں نہ پڑجائے۔ لیکن یہ اللہ کی مرضی تھی کہ اس نے مجھے آپؐ کی باتیں سنائیں اور وہ مجھے بہت پسند آئیں۔ آپؐ اپنے دین کے بارہ میں مجھے بتائیے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت میرے سامنے پیش کی اور مجھے سورہ اخلاص اور سورہ فلق پڑھ کر سنائیں (ایک اور روایت میں سورۃ الناس کا بھی ذکر آتا ہے)۔ خدا کی قسم اس سے پہلے مَیں نے اس کلام سے بہتر کوئی کلام سنا تھا، نہ اُن کی باتوں سے بہتر کوئی بات ۔ مَیں نے اُسی وقت اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا اور کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گیا۔
(سیرۃ ابن ھشام جلد1 ص382 تا 384۔السیرة الحلبیة جلد12 ص25۔الخصائص الكبرىٰ جلد1 ص223)
(باقی آئندہ)
قسط نمبر 3۔4
قسط:5
(حافظ مظفر احمد)