• 11 جولائی, 2025

تعارف سورۃ آل عمران

(مدنی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 201 آیات ہیں)
ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فریدؓ ) ایڈیشن 2003ء

سابقہ سورۃ سے تعلق

اس سورۃ کا اپنے سے پہلی سورۃ (البقرۃ) سے اس قدر گہرا اور مضبوط تعلق ہے کہ ان دونوں کو الظاہرون یعنی دو بہت زیادہ چمکدار کہا جاتا ہے۔ جہاں سورۃالبقرۃ یہودیوں کے باطل عقائد اور رسومات پر روشنی ڈالتی ہےجن کا تعلق موسوی سلسلہ سے ہے وہاں اس سورۃ میں عیسائیت کے باطل عقائد اور اصولوں کا ذکر ہے یہی اس سورۃ کا مرکزی خیال ہے۔

اس سورۃ کا نام اٰل عمران ہے یعنی عمران کا خاندان عِمران یا عَمران حضرت موسیٰ اور ہارون کے والد تھے ۔ انہی (حضرت موسیٰ اور ہارون) کے خاندان سے حضرت مریم کا تعلق تھا جو حضرت عیسی کی والدہ تھیں۔ جن کے حالات زندگی اور مشن کا تذکرہ اس سورۃ میں کیا گیا ہے۔ سورۃ آل عمران کے مضامین کا سورۃ البقرہ کے مضامین سے اتنا گہرا تعلق ہے کہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ سورۃ اپنی سابقہ سورۃ کے معاً بعد نازل ہوئی ہو۔ غزوہ احد کے تفصیلی حالات کے تذکرہ سے اس سورۃ کے نزول کا سال 3 ہجری معلوم ہوتا ہے۔

سورۃ اٰل عمران کا سورۃ البقرہ سے تعلق دو طرفہ ہے اول تو اس سورۃ کے مضامین کا سورۃ البقرہ کے مضامین سے بہت گہرا تعلق ہے۔ دوسرا سورۃ البقرہ کے آخری حصہ کا سورۃ آل عمران کے ابتدائی حصے سےبہت مضبوط تعلق ہے۔ دراصل قرآن کریم کے مضامین کا تسلسل دو طرح کا ہے ایک تو جو مضمون کسی سورۃ کے آخر میں بیان ہو اُسی کا تسلسل اگلی سورۃ میں پایا جاتا ہے دوسرا پہلی سورۃ کے جملہ مضامین کا اعادہ اگلی سورۃ میں ہوتا ہے یہی دو طرفہ تعلق سورۃ البقرہ اور اٰل عمران میں پایا جاتا ہے۔

اجمالاً سورۃ اٰل عمران کے مضامین کا سورۃ البقرہ سے تعلق اس تفصیل پر مبنی ہے کہ کن وجوہات کی بنیاد پر نبوت موسوی سلسلہ سے اسلام کو منتقل ہوئی۔ سورۃ البقرہ کا مرکزی مضمون یہودیوں کی اخلاقی گراوٹ ہے جو قدرے تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ جبکہ سورۃ البقرہ میں عیسائیت پر بہت کم روشنی ڈالی گئی ہے کیونکہ اس سورۃ کا مرکزی خیال سلسلہ موسوی ہے ۔

سورۃ البقرہ میں یہودیوں کے عقائد کا تفصیلی بطلان کا ذکر کرنا مگرعیسائیت کا تفصیلی ذکر نہ ہونا اس غلط فہمی میں مبتلا کر سکتا تھا کہ اگرچہ یہودیت اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکی ہے مگر عیسائیت حق پر قائم ہے اس لئے بظاہر ایک نئے مذہب یعنی یعنی اسلام کو متعارف کروانے کی کوئی ضرورت نہ ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے عیسائی عقائد کا بودہ پَن اس سورۃ میں بیان کیا گیا ہے۔

سورۃ آل عمران کا عنوان

احادیث میں اس سورۃ کے متعدد اسماء مذکور ہیں جن میں الظھراء (روشن)، الامن (سلامتی)، الکنز (خزانہ)، المعینۃُ (مددگار)، المجادلہ (التجاء)، الاستغفار (بخشش طلب کرنا) اورالطیبہ (پاک) شامل ہیں۔

جیسا کہ سورۃ میں عیسائیت کے عقائد کا بطلان مقصود ہے ، بجا طور پر اس کے آغاز میں ہی عیسائیت کی اخلاقی گراوٹ اور اپنا مقام کھو دینے کا ذکر ہے۔ جس کے بعد ایک نئے اور بہتر سلسلہ (اسلام) کو متعارف کروایا گیا ہے۔ دوسری طرف خود عیسائیت کا اپنا حال اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ نئی شریعت کو متعارف کروایا جائے نتیجتاً صفات باری تعالیٰ الحیّی القیّوم کو اس سورۃ کے آغاز میں رکھ کر عیسائیت کے عقائد کا بطلان کیا گیا ہے ۔

ان دونوں سورتوں کے درمیان تعلق کا جو دوسرا پہلو ہے یعنی سورۃ البقرہ کا آخری حصہ اور سورۃ اٰل عمران کا ابتدائی حصہ وہ بھی خوب عیاں ہے جیسا کہ سورۃ البقرہ کے آخر میں قومی ترقی اور مسلمانوں کی اصلاح اور اسلام کی دشمنوں پر فتح کیلئے دعا ہے اور صفات باری تعالیٰ جیسے الحیّی القیّوم کو سورۃ اٰل عمران کے ابتدا میں رکھا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کو یہ باور کروایا جاسکے کہ خدا تعالیٰ الحیّی القیّوم ہوتے ہوئے ہمیشہ ان کی مدد کو آئے گا اور اس کی طاقت میں کمی اور تنزّلی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

مضامین سورۃ آل عمران

اس سورۃ کا آغاز سابقہ سورۃ کے حروف مقطعات کی طرح الٓمٓ (میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں) سے ہوا ہے جس کا مقصد اللہ تعالی کی صفت علیم کی طرف توجہ دلانا ہے۔ مزید صفات الحیّی القیّوم کا بیان اس امر کے ثبوت کے طور پر ہے کہ صفت علیم ان صفات کے ذریعہ ثابت ہے جیسا کہ خدا کا الحیّی القیّوم ہونا اس کے علیم ہونے کے ثبوت کے طور پر ہے کیونکہ موت اور تنزل علم میں کمی کا باعث ہوتے ہیں۔

اس سورۃ میں بتایا گیا ہے کہ یہود اور عیسائی سیدھے راستے سے بھٹک گئے ہیں لہٰذا الہٰی عذاب ان کی پکڑ کرےگا ان کا تورات یا بائیبل کا پیرو ہونا انہیں خدا کے عذاب سے نہیں بچا سکے گا۔ یہ کتب کیونکہ انسانی خرد برد کا شکار ہو چکی ہیں اسلئے انسانی ضروریات کی متحمل نہیں ہیں۔

بعد ازاں اس سورۃ میں مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی شمار میں برتری، اسی طرح دنیاوی ترقی کی وجہ سے ہرگز کسی شک میں مبتلا نہ ہوں کیونکہ یہ دونوں (جنگ کی صورت میں )ان پر برتری نہیں پا سکیں گے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے پہلے ہی ان کو نہایت مضبوط حریفوں پرغلبہ عطا کیا ہے جن میں قریش اور دیگر عرب کے کفار قبیلے شامل ہیں ۔ یہی سلوک آئندہ بھی روا رکھا جائے گا۔ نیز یہ بھی کہ ملکی ترقی محض دنیاوی ترقی سے وابستہ نہیں ہے بلکہ بنیادی طور پر اس کا تعلق قومی اخلاقیات سے ہے اور آخر کار کامیابی مسلمانوں کو ہی نصیب ہوگی اگرچہ دنیاوی ترقی میں وہ پیچھے ہیں کیونکہ ان کے پاس اخلاقی اور روحانی اقدار کی بہتات ہے اور وہ ایک سچے مذہب کے پیرو ہیں۔

پھر یہ سورۃ اسلام کے دشمنوں کو یہ باور کرواتی ہے کہ مسلمانوں پر ان کی قومی ترقی اور اقدار میں ظاہری برتری کا خیال بودا ہے۔ مزید ان کو بتایا گیا ہے کہ غلط عقائد اور بداعمال کی وجہ سے وہ جزا سزا کے فطرتی قانون کو نظر انداز کر رہے ہیں حالانکہ اس سے چھٹکارا آسان نہیں ہے۔ پھر اس مضمون کی راہ استوار کی گئی ہے کہ مسلمانوں کی ترقی اور کامیابی اس میں مضمر نہیں ہے کہ وہ دوسری قوموں کے طرزعمل کی تقلید کریں اوربلکہ انہیں سختی سے اسلام اور اسوہ رسول ﷺ پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ اس کے بعدعیسائیت کے ابتداء کی تفصیل بیان کی گئی ہے کہ جس کی تردید اس سورۃ کا مرکزی خیال ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب کویہ توجہ دلائی گئی ہے کہ مسلمان بھی ان کی طرح توحید پر قائم ہیں پھر وہ اپنی تمام تر قوت اور صلاحیتیں ان کے ساتھ لڑائی پر کیوں خرچ کر رہے ہیں جبکہ دونوں کو مل کر کفار کو توحید کی تبلیغ کرنی چاہئے جسے وہ دونوں مانتے ہیں اور دیگر عقائد میں اختلاف کی مناسب حد بندی ہونی چاہئے۔

ھرعیسائیوں کو مخاطب کر کے یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ اب انہیں یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ خدا کے مقرب ہیں۔نیز وہ اس کی محبت اور فضلوں کے وارث نہیں بن سکتے اگر وہ اس نئے دین (اسلام) کی مخالفت کریں گے۔ ان سے پوچھا گیا ہے کہ آخر کیونکر وہ اس بات پر ایمان لانے کے بعد کہ دین وقتاً فوقتاً خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے ، اس قانون کی تردید کرسکتے ہیں؟

پھر اہل کتاب سے مزید پوچھا گیا ہے کہ جن امور کی بابت وہ مسلمانوں سے جھگڑا کرتے ہیں وہ بےوزن ہیں کیونکہ ان امور میں سے بعض ان کے آباؤ اجداد کے نزدیک بھی جائز اور درست تھے۔

پھر اس مضمون کی وضاحت کی گئی ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک مساوی اور یکساں مقام رکھتے ہیں۔ جب خانہ کعبہ کی بنیادیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رکھیں تو پھر بنی اسرائیلیوں کا محض غیر ضروری اختلافات کی بنیاد پر مسلمانوں سے جھگڑے کا کیا حق ہے ۔پھر مسلمانوں کو یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ اہل کتاب ان کی مخالفت میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اگر انہیں کوئی موقع ملا تو وہ ضرور انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ مگر مسلمان گمراہ نہ ہوں گے کیونکہ وہ خدا کے فضل کے متحمل ہیں۔ انہیں (مسلمانوں کو) اہل کتاب کی طرف سے سخت مخالفت اور ظلم اور تعدی کا سامنا ہوگا جسے انہیں صبروتحمل کے ساتھ برداشت کرنا چاہئے اور خدا سے تعلق مضبوط کرنے کی کوشش میں لگے رہنا چاہئے اور آپس میں اتحاد اور اتفاق پیدا کر کے عیسائیوں کی طرف سے ہونے والے حملوں کے دفاع کی تیاری کرنی چاہئے۔ اس وقت کے آنے سے پہلے ان کو زیادہ سے زیادہ تبلیغ کے ذریعہ مسلمانوں کی تعدادبڑھانے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ پھر مسلمانوں کو اس فریب سے ہوشیار کیا گیا ہے کہ عیسائیوں کے ساتھ لڑائی کی صورت میں یہودی مسلمانوں کی مدد کریں گے۔ درحقیقت یہودی مسلمانوں کوخوفزدہ کرنے اوردبانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ یہودیوں کے متعلق متنبہ کرنے کے باوجود اس سورۃ میں اہل کتاب کی بعض اچھائیوں کو نظر انداز نہیں کیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سب اہل کتاب برے نہ ہیں۔ ان کے درمیان بھی کچھ اچھے لوگ موجود ہیں اس لئے اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو ہی غم پہنچے گا۔ ایسے ہی لوگوں سے مسلمانوں کو دوستانہ تعلق رکھنے سے منع کیا گیا ہے تاکہ ان کے مکروہ ارادوں سے بچا جا سکے۔

پھر غزوہ بدر کے بارے میں تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ نہایت کمزوری کے حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ا ن کو مشرکین مکہ پر ایک نہایت واضح فتح نصیب کی ہے اور یہی معاملہ اہل کتاب کے ساتھ مقابلہ پر بھی ہو گا۔ خدا کا رحم اور فضل ان کے مقابل پر بھی مسلمانوں کے شامل حال رہے گا۔ (بدر سے مراد چودھویں صدی بھی ہے جب اسلام نہایت کمزوری کی حالت میں ہوگا اور ایسی ہی عظیم الشان فتح تائید الہٰی سے دوبارہ نصیب ہوگی ۔ یہ پیشگوئی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ پوری ہوئی ۔از قلم مترجم)

اہل کتاب اپنی طاقت اور مادی ترقی کے لئے سود پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن سودی کاروبار ،اخلاقیات پر برا اثر ڈالتا ہے۔ سود لینے کی وجہ سے وہ خدا کے رسولوں کی مخالفت کرتے ہیں اور کفارہ کے عقیدے اور توبہ قبول نہ کرنے کے عقیدے کی وجہ سے خدا کو بھی اپنے جیسا ظالم قرار دیتے ہیں۔پھر مسلمانوں پر یہ فرض کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مناسب حال قربانیاں پیش کریں اور اپنی طاقت کے مطابق ظاہری سامان مہیاکریں۔ اور اپنی زندگی کے مشن (غلبہ اسلام) کو خدا پر چھوڑ دیں۔

بعد ازاں اس سورۃ میں نہایت ہی اہم اصول پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ آنحضورﷺ محض ایک رسول ہیں اگر آپ وفات پاجائیں یا شہید ہوں (گو الہٰی وعدوں کے مطابق شہیدہونا ممکن نہیں ) تومسلمانوں کو دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئےاور اسلام کے متعلق کسی شک و شبہ میں نہیں پڑنا چاہئے۔کیونکہ اسلام اپنی کامیابی اور ترقی کے لئےکسی فرد واحد پر انحصار نہیں کرتا خواہ وہ کیسا ہی بلند مرتبہ کیوں نہ ہو۔ایک اور ضابطہ اخلاق جس کی طرف مسلمانوں کے نگرانوں کو توجہ دلائی گئی یہ ہے کہ ان کو عام مسلمانوں سے پہلے سے زیادہ نرمی کا سلوک کرناچاہئےاور ان کے جذبات احترام کرنا چاہئے تاکہ دشمنوں کو ان کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور اختلاف پیدا کرنے کا موقع نہ مل سکے۔

مزید یہ حکم دیا گیا ہے کہ ایسے (اہم) مواقع پر جملہ امور باہمی رائے (شوریٰ) سے طےکئے جائیں۔ پھر مسلمانوں کو یہ باور کروایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم پیغمبر ان میں بھیج کر ان پر احسان عظیم کیا ہے۔اُنہیں آپ ﷺکی پیروی کرنی چاہئے اور امن کے راستوں میں روکیں ڈالنے والوں سے دور ہٹ جانا چاہئے۔یہ سورۃ اس اصول کو بھی بیان کرتی ہے کہ خدا کے راستہ میں شہید ہونے والے کو خاص عزت و احترام سے نوازا جائے۔انہوں نے اپنی موت کے ذریعہ ہمیشہ کی زندگی حاصل کر لی ہے۔ اور پیچھے رہ جانےوالوں کا حوصلہ بڑھایا ہے۔

ایک دفعہ پھر اہل کتاب کا ذکر کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ایسی اخلاقی گراوٹ میں مبتلا ہیں کہ ایک طرف وہ خد اکے (چنیدہ قوم) کہلائےجانے کا دعوی کرتے ہیں اوردوسری طرف اس کی راہ میں مال خرچ کرنے سے کتراتے ہیں۔ مسلمانوں کو اس سے ایک سبق حاصل کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔ ان کی اس اخلاقی گراوٹ کو مزیدیوں بیان کیا گیا ہے کہ وہ دعوی کرتے ہیں کہ انہیں ایک ایسے پیغمبر کی بیعت کا حکم دیا گیا ہےجو ان سے ایک بہت بڑی قربانی کا مطالبہ کرے۔یہ سورۃ بتاتی ہے کہ ان کے درمیان ایسے رسول بھیجے گئے مگر انہوں نے ان پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔

بعدازاں مسلمانوں کو قربانی کےلئے ابھارا گیا ہے۔یہ کہتے ہوئے کہ یہ نہایت احمقانہ خیال ہوگا کہ وہ قومی ترقی کے لئے قربانی کرنے سے پیچھے ہٹیں۔پھر انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کے ایمان کا ایک سخت امتحان ہوگا اور ان کو یہ گمان نہیں کرنا چایئے کہ وہ خون اور آگ سے گزرے بغیر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگلی چند آیات میں مومنوں کی کچھ خاص صفات اور خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے اور انہیں کچھ دعائیں سکھائی گئی ہیں جو قومی ترقی اور کامیابی کے لئے ضروری ہیں۔ اس سورۃ کا اختتام ایسے ضابطہ اخلاق پر کیا گیا ہے جب پر عمل پیرا ہو کر مسلمان اس زندگی میں بھی کامیاب و کامران اور غالب ہو سکتے ہیں اور آخرت میں بھی اللہ کی رضا پاسکتے ہیں۔


(وقار احمد بھٹی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 30 ۔اپریل2020ء