قرآن کریم اور حضرت مسیح علیہ السلام کی عظمت شان
قرآن ،حضرت مسیح علیہ السلام کی عزت اور مقام عالی کا پوری صداقت کے ساتھ پرچار کرتا ہے
قرآن کریم نے دائمی اور عالمی شریعت ہونے کے ناطے تمام صداقتوں کو اپنے اندرسمیٹا اورہر اَچھائی کو اچھا کہنے کی تعلیم دی ہے۔ لیکن کسی کی بُرائی کے بیان میں احتیاط اختیار کرنے اور دوسروں کے اعتقادات اور احساسات کو ٹھیس نہ پہنچانے کی ہدایت فرمائی ہے۔چنانچہ فرمایا کہ تم اُنہیں جنہیں دوسرے لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، گالیاں نہ دو۔ نہیں تو وہ دُشمن ہو کر جہالت کی وجہ سے اللہ کو گالیاں دیں گے۔
(الانعام:109)
باہمی مفاہمت و مؤانست کے لئے قرآن کریم نے یہ ایک بہترین اُصول بیان فرمایا ہے کہ تم دوسروں کو بُرا بھلا نہ کہو تا تمہیں اُن کی طرف سے بھی دِلآزار باتیں نہ سننی پڑیں۔ اسی اُصول کے پیشِ نظر قرآن کریم نے دوسرے مذاہب خاص طور پر اہلِ کتاب کو متفقّہ اُمور وعقائد میں اتحاد واتفاق کی دعوت دی ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام کی شان کو حق وصداقت کے ساتھ خوب اُجاگر کیا ہے۔عیسائی مذہب زمانہ کے لحاظ سے اسلام کے نزدیک ترین ہے۔اسی لئے قرآن کریم نے اس کا ذکر نہایت عزت وصحت کے ساتھ کیا ہے۔
حضرت مریمؑ ،صدیقہ تھیں
قرآن کریم حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ محترمہ کا ذکر نہایت ادب واحترام سے کرتے ہوئے اُن کی بہت اعلیٰ تربیت کا ذکر کرتا ہے۔ (آلِ عمران:83۔84) اور اُن کی عصمت وعفت اورپاکدامنی کی گواہی دیتا ہے جنہوں نے تقویٰ وطہارت سے زندگی بسر کی۔ (التحریم:13) اور اُنہیں صدیقہ کے خطاب سے نوازا ہے جس کے معنی بہت سچی اور الٰہی صداقتوں کی تصدیق کرنے والی خاتون کے ہیں۔ (المائدہ:76)
حضرت مسیح علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش
قرآن کریم کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مریمؑ کو باکرہ ہونے کی حالت میں کلمۃ اللہ کی بشارت دی جس کا نام خود المسیح عیسیٰ بن مریم رکھا۔ حضرت مریمؑ نے اس پر بہت تعجّب اور حیرانگی کا اظہار کیا کہ میں باکرہ ہوں، مجھے کسی بھی مرد نے چھؤا نہیں، پھر میرے ہاں بچہ کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ اس پر خدائے قادر نے جواب دیا کہ وہ اس بات پر قادر ہے اور امرِ کُن سے ہی وجود میں لا سکتا ہے۔
(اٰلِ عمران:46 تا 48)
پس ہم یقین رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام ،حضرت مریم ؑکے بطن سے معجزانہ طور پر بغیر کسی باپ کے محض الٰہی تصرّف سے پیدا ہوئے تھے۔ قرآن کریم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کو حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے تشبیہ دے کر اچنبھے کی بات کو حل کرتے ہوئے فرمایا : یقیناً عیسیٰ علیہ السلام کا حال اللہ کے نزدیک آدم علیہ السلام کے حال کی طرح ہے جسے اُس نے خشک مٹی سے پیدا کیا ۔پھر اُس کے متعلق کہا کہ تو وجود میں آ جا تو وہ وجود میں آنے لگا۔
(اٰلِ عمران:60)
پھر قرآن کریم نے حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات کو تسلیم کیا ہے جن کی وجہ سے آپ کو اپنے وقت کے لوگوں پر ایک روحانی برتری حاصل تھی۔ جو کہ صرف کھیل تماشا نہیں تھے بلکہ باذنِ الٰہی اپنے اندرحقیقت ،معنویت اور روحانیت لئے ہوئے تھے۔
حضرت مسیح علیہ السلام خدا کے معزّز نبی تھے
قرآن کریم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو دُنیا وآخرت میں صاحبِ منزلت اور خدا کا مقرّب قرار دیا ہے۔(اٰلِ عمران:46) جنہیں وقتِ مقررہ پر مقامِ نبوت ورسالت سے سرفراز کیا گیا۔ (مائدہ:76) جس کا دعویٰ آپ نے علیٰ الاعلان فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں جس نے مجھے نبی بنایا ہے۔(مریم:31) آپ کی پیدائش،وفات اور دوبارہ جی اُٹھنے کے دنوں اور وقتوں کے ساتھ عافیت وسلامتی مقدر کر دی گئی ہے۔ (مریم:34)
مخالفت میں بھی حفاظت
انبیاء سے استہزاء ان کی زندگیوں کا لازمی حصہ اور صداقت کی ایک علامت ہوتا ہے۔ (یٰس:31) چنانچہ یہی کچھ آپ سے بھی وقت کے علماء وفقہاء اور فریسیوں نے کیا اور ہر طرح کی مخالفانہ چالوں کو آزمایا۔ طعن وتشنیع کی اور قاتلانہ منصوبے بنائے۔ ایسے خطرناک اور تکلیف دہ حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو اپنی تائید ونصرت کی تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اگرچہ یہ دُشمن تجھے قتل کرنا چاہتے ہیں مگر یاد رکھ کہ یہ اپنے مکروں کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہیں گے اور مَیں تجھے دُشمنوں کے ہاتھوں سے بچا کر نارمل (Normal) حالات میں طبعی وفات دوں گا۔ اگرچہ یہ دُشمنانِ حق تجھے صلیب پر مار کر لعنتی ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن مَیں تجھے باعزت مقام ومرتبہ دیتے ہوئے تجھے اپنے پاس رفعت وقربت عطا کروں گا۔ اگرچہ یہ لوگ روزِ اول سے اپنے الزاماتِ رذیلہ سے تجھے بدنام کرنا چاہتے ہیں مگر مَیں تجھے اُن کے تمام الزامات سے بَری کروں گا اور مطہّر ٹھہراؤں گا۔ تیرے منکر تجھے اور تیرے پیروکاروں کو تباہ وبرباد کرنا چاہتے ہیں لیکن مَیں تیرے اتباع کا تیرے منکرین پر قیامت تک غلبہ مقدر کر دوں گا ۔ (اٰلِ عمران:56) چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام نے سنتِ انبیاء کے مطابق خدا تعالیٰ کی تائید وپناہ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے اور حق کی منادی کرتے ہوئے کامیاب زندگی گزاری۔ (المومنون:51)
عزت کی موت
آپ کی وفات کے بارے میں یہودیوں نے تو یہ نعرہ لگایا ہی تھا کہ ہم نے مسیح کو قتل کر دیا ہے۔(النساء:158) لیکن افسوس کہ عیسائیوں نے بھی اس بات کو قبول کر لیا کہ مسیح صلیب پر فوت ہو کر ہمارے لئے لعنتی بنا۔ (گلتیوں: باب3 آیت13)
لیکن قرآن کریم نے اس موقع پر بھی اپنی عظمت کی بَرتری کا ثبوت دیا ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام کو لعنتی موت سے مبرّا قرار دیکر اُن کی طبعی باعزت وفات اور خدا کی طرف رفعت کا ذکر کر کے آپ کی شان کو دوبالا کردیا ہے ۔ (آلِ عمران:56) کیونکہ بائبل میں ہی لکھا ہے کہ ’’جسے پھانسی ملتی ہے وہ خدا کی طرف سے ملعون ہے۔‘‘ (استثناء باب:21 آیت:23) پس قرآن کریم نے پُرزور الفاظ میں حضرت مسیح علیہ السلام کی لعنتی موت کی تردید فرمائی ہے۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلّقین کا بھی احترام
قرآن کریم نے تو حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلّقین کا بھی عزت واحترام سے ذکر کیا ہے۔ آپ کے حواریوں کا ذکر کیا تو اُنہیں انصاراللہ (یعنی اللہ کے دین کے مددگار) قرار دیا اور مومنوں کو ہدایت کی کہ وہ بھی اُنہیں کی طرح انصاراللہ بن جائیں۔ (الصف:15) اور آپ کے ماننے والوں کو محبت کے اعتبار سے مومنوں کے قریب ترین قرار دیا۔ (مائدہ: 83)
پس قرآن کریم تو حضرت مسیح علیہ السلام کی عزت اور مقامِ عالی کا پوری صحت وصداقت کے ساتھ پرچار کرتاہے اور قرآنی تعلیم کی روشنی میں ہی کوئی مسلمان اس وقت تک کامل الایمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ تمام انبیاء پر ایمان لانے کی طرح حضرت مسیح علیہ السلام پر بھی ایمان نہ لائے۔
(مظفر احمد درّانی)