• 8 جون, 2025

قرآن کریم کا مختصر اجمالی تعارف

اللہ تعالیٰ بنی نو ع انسان کی ہدایت کے لئے دُنیا میں مختلف شریعتیں اُتارتا رہا ہے۔چنانچہ آخری الٰہی شریعت جو کامل ہدایت کے ساتھ نازل ہوئی وہ قرآن کریم ہے۔قرآن کریم کے معارف ہر عقل اور ہر طبقہ اور زمانہ کے لئے ہیں ۔یہ تمام قوموں کی رہنمائی اور تمام دُنیا کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لئے کئی اسباب پیدا کئے جس کی وجہ سے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔جیسے قرآ ن کریم کے نزول کے ساتھ ہی اس کو تحریر میں لانا، پھر ہزاروں صحابہؓ کا ساتھ ساتھ حفظ کرتے چلے جانا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے کہ دُنیا میں لاکھوں مسلمان ایسے مِل جائیں گے جن کو قرآن مجید حفظ ہے۔دُنیا میں کہیں بھی بائبل کا حافظ نہیں ملے گا۔چنانچہ اگر دُنیا سے بائبل ختم ہوجائے تو اُس کو دوبارہ لکھنے والا کوئی نہ ملے گا۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے کہ اگر پوری دُنیا میں قرآن کریم ناپید ہوجائے تو تین دنوں میں اس کو دوبارہ لکھا جاسکتا ہے۔ پھر قرآن کریم کی معنوی حفاظت کے لئے بھی ہر دَور میں اللہ تعالیٰ کے مجدّدین آتے رہے ہیں ،جنہوں نے اس کی معنوی حفاظت کی اور جب بھی اس پر حاشیہ چڑھنے لگے تو انہوں نے اللہ سے ہدایت حاصل کر کے مسلمانوں کو صحیح تعلیمات دیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ جو اُس نے قرآن کریم میں کیا تھا ۔ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَاالذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُونَ (الحجر:10) کو سچ کر دکھایا۔

خاکسار اس مضمون میں قرآن کریم کااجمالاً تعارف کروائے گا۔

قرآن کریم کے نام

قرآن کریم کے بہت سے ذاتی اور صفاتی نام ہیں۔

ذاتی نام

قرآن (ق:1)، فرقان (الفرقان:2) ،التنزیل (الشعراء: 193-194) الذکر (الحجر:10) ، الکتاب (الدخان:4-3)

صفاتی نام

نور (النساء:175) ، شفاء (بنی اسرائیل :83) ، ھدیً (فصلت:45) ، موعظہ (یونس:58) ، رحمۃ (الاسراء:83) ، عزیز (حم السجدہ :42) ، مبارک (الانعام:101)، الحکیم (یس:3)، بیان (آل عمران:139)، الروح (الشورٰی:53)، بصائر (الانعام:105)، العظیم (الحجر:88)،کلام اللہ (التوبہ :7) اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ہیں۔

قرآن کریم کے نزول کی تاریخ اور تقسیم قرآن

قرآن کریم رمضان کے مہینہ میں نازل ہونا شروع ہوا۔تاریخ طبری کی جلد دوم میں اس پر مختلف روایا ت آئی ہیں جس میں ذکر ہے کہ پیر کے دن رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوناشروع ہوا اور تاریخ کے بارہ میں تین روایات کا ذکر ہے کہ بعض کے نزدیک 17رمضان تھا ، بعض کے نزدیک 18رمضان تھا اور بعض کے نزدیک 24رمضان تھا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں

’’جہاں تک معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے چوبیسویں رمضان کو وہ جو دُنیا کو چھوڑ کرعلیحدگی میں چلا گیا تھا اُسے اُس کے پیدا کرنے والے اُس کی تربیت کرنے والے اُس کو تعلیم دینے والے اور اُس سے محبت کرنے والے خدا نے حکم دیا کہ جاؤ اور جاکر دُنیا کو ہدایت کا راستہ دکھاؤ‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2ص392)

قرآن کریم کی تقسیم کئی طرح سے کی گئی ہے تاکہ قاری اپنی سہولت کے ساتھ اس کو پڑھ سکے۔قرآن کریم 30سپاروں میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ قاری اسے آسانی سے ایک مہینہ میں دور مکمل کرسکے۔ ایک پارہ پھر آگے رُبع اور نصف میں تقسیم کیا گیا ہے۔ چنانچہ ہر پارہ میں دو نصف اور چار رُبع ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں 114سورتیں پائی جاتی ہیں۔قرآن کریم کی سُورتوں کے نام بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ ہی رکھے گئے ۔چنانچہ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ ’’میرا اپنا یقین یہی ہے کہ سُورتوں کے نام بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے رکھے گئے ہیں‘‘

(تفسیر کبیر جلد اول ص 50)

اس کے علاوہ اس کی سات منازل ہیں یعنی ہر منزل ایک دن پڑھ کر سات دنوں میں قرآن مجید ختم کیا جا سکتا ہے۔پہلی منزل سورہ فاتحہ سے سورہ نساء تک، دوسری منزل سورہ مائدہ سے سورہ توبہ تک،تیسری منزل سورہ یونس سے سورۃ النحل تک،چوتھی منزل سورہ بنی اسرائیل سے سورہ فرقان تک ،پانچویں منزل سورہ شعراء سے سورہ یٰس تک،چھٹی منزل سورۃ الصّٰفٰت سے سورہ حجرات تک اور ساتویں منزل سورہ ق سے سورۃ الناس تک ہے۔

(اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد16ص337)

قرآن کریم میں 558 رکوع ہیں۔ آیات کے بارہ میں اختلاف ہے۔ چنانچہ جماعتی چھَپے ہوئے قرآن کے مطابق 6348 آیات ہیں اور الفاظ 86430 ہیں ۔ آیات میں فرق کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ غیر احمدیوں کے نزدیک بسم اللہ ہر سورت کا حصہ نہیں ہے ۔اس کے علاوہ ایک وجہ حضرت مصلح موعود ؓ نے بھی بیان فرمائی ہے۔

’’سورتوں کے شروع میں جو رکوعوں کی یا آیتوں کی تعداد دیجاتی ہے۔اُس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ رکوع رسول کریم ﷺ نے بنائے ہیں ۔ یا یہ کہ آیتوں کی تعداد آپؐ نے بتائی ہے۔رکوع بہت بعد میں بنائے گئے ہیں اور آیات کی گنتی کے متعلق بھی اختلاف ہے اور اس کی بنیاد نحوی قواعد پر ہے۔کسی شخص نے کسی مقام پر مضمون کو مکمل قرار دے لیا ہے اور کسی نے کسی جگہ پر اور اس کی وجہ سے آیتوں کی تعداد میں آئمہ میں اختلاف ہوگیا ہے ۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد3 ص2)

عام طور پرہر قرآن کریم میں ان سورتوں کے ناموں کی لسٹ مل جاتی ہے۔ اس جگہ صرف ان سورتوں کا ذکر کیا جائے گا جن کے کئی نام احادیث میں آئے ہیں۔

ایک سے زائد سورتوں کے نام

سورۃ الفاتحہ
سورۃ الصلوۃ،سورۃ الحمد،ام القرآن،القرآن العظیم،السبع المثانی، الشفاء،ام الکتاب،الرقیۃ،سورۃ الکن

(تفسیر کبیر جلد اول ص3،2)

سورہ البقرہ

سنام القرآن،الزھراء

(مسلم کتاب صلوۃ المسافرین باب فضل قراءۃ القرآن و سورۃ البقرہ)

سورہ آل عمران

الزھراء،الامان،الکنز،المجادلۃ،الطیبہ،المعینہ

(مسلم کتاب صلوۃ المسافرین باب فضل قراءۃ القرآن و سورۃ البقرہ)

سورہ توبہ

سورہ براءۃ،سورۃ الفاضحۃ ،سورۃ المبعثرۃ،البحوث

(تفسیر الجامع لاحکام القرآن لامام قرطبی)

سورہ بنی اسرائیل

الاسراء (ترجمہ قرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

سورۃ الفاطر

سورۃ الملائکۃ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ ،اتقان)

سورہ مومن

غافر (تفسیر جلالین)

سورہ محمد

سورہ قتال (Five volume commentary)

سورہ حٰم سجدہ

سورہ فصلت (Five volume commentary)

سورۃ حشر

سورہ بنی نضیر (تفسیر ابن کثیر،بیان القران جلد دوم)

سورہ قلم

سورہ ن (بیان القران جلد دوم)

سورۃ الدھر

سورۃ الانسان (Five volume commentary)

سورہ عبس

الصاخۃ سفرۃ (بیان القران جلد دوم)

سورۃ اللہب

سورۃ المسد (تفسیر الجامع لاحکام القرآن لامام قرطبی)

سورہ قریش

سورہ لایلٰف (تفسیر کبیر جلد 10)

سورۃ الکافرون

سورہ مقشقشۃ

(تفسیر کبیر جلد 10ص388۔بیان القران جلد دوم)

سورۃ اخلاص
سورۃتفرید، سورۃالتجرید، سورۃالتوحید، سورۃالنجاۃ، سورۃالولایۃ، سورۃالمعرفۃ، سورۃالمعوذۃ، سورۃالصمد، سورۃالاساس، سورۃالمانعہ، سورۃالمحضر، سورۃالبراءۃ، سورۃالنور، سورۃالامان، سورۃالجمال، سورۃالمقشقشۃ، سورۃ المذکرہ، سورۃ المنفرۃ

(تفسیر کبیر جلد 10)

نزول کے حساب سے پہلی 5 سورتیں

سورہ علق، سورہ قلم، سورہ مزمل، سورہ مدّثر، سورہ لہب

(تفسیر کبیر جلد 10ص496)

قرآن کریم کی نزول کے لحاظ سے پہلی اور آخری آیت

ابتدائی آیات
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ۔خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ……

(العلق: 3،2)

آخری آیت
اَلْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکُمْ نِعْمَتی……

(المائدہ: 4)

مکی اور مدنی سورتوں کی تعداد

مکی سورتیں 86ہیں اور مدنی سورتیں28 ہیں۔

قرآن کریم میں استعمال ہونے والے مقطعات

الم (اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ) سورہ بقرہ
المص (اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ صَادِقُ الْقَوْل) سورۃ الاعراف
الر (اَنَا اللّٰہُ اَرٰی) سورہ ھود
کھیعص (اَنْتَ کَافٍ وَ ھَادٍ یَا عَالِم یَا صَادِق) سورہ مریم
طٰہٰ (طَیِّبٌ ۔ ہَادِیٌ) سورہ طہٰ
طسم (طَیِّبٌ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ) سورۃالشعراء
طس (طَیِّبٌ ۔سَمِیْعٌ) سورۃ النمل
یس (یَا سَیِّد) سورہ یٰس
ص (صادق القول) سورہ ص
حم (حَمِیْدٌ ۔مَجِیْدٌ) سورۃ المومن
حم عسق (حَمِیْدٌ۔مَجِیْدٌ۔عَلِیْمٌ۔سَمِیْعٌ۔قَدِیْرٌ)
سورۃالشوریٰ
ق (قَدِیْرٌ) سورہ ق
ن (ن یعنی دوات) سورۃ القلم
ان میں سے بعض مقطعات کئی سورتوں میں بار بار استعمال ہوئے ہیں۔

قرآن کریم کی جمع و تدوین

نبی کریم ﷺ نے خود الہام الہٰی کے ماتحت قرآن کریم کو جمع کیا اور وحی الہٰی کے مطابق ترتیب دے کر او رلکھوا کر محفوظ کیا۔رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مندرجہ ذیل چیزوں پر قرآن کریم لکھا جاتا تھا۔

پتھروں کی چوڑی اور پتلی سلوں پر، اُونٹوں کے مونڈھوں کی چوڑی گول ہڈیوں پر،چمڑے کے کافی باریک پارچوں پر، بانس کے ٹکڑوں پر، درخت کے چوڑے اور صاف پتوں پر ،کھجور کی شاخوں کی چوڑی جڑوں اور کھجور کے جڑے ہوئے پتوں کو کھول کر اُن کی اندرونی جانب اوربعض جگہ کاغذ پر بھی کتابت کا ذکر ملتا ہے۔

حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں حضرت زید بن ثابتؓ سے جو کاتب وحی تھے اس لکھے ہوئے قرآن کریم کی جز بندی کرواکر صحیفہ کی شکل میں محفوظ کیا۔ بالآخر حضرت عثمان ؓ نے اپنے دَور خلافت میں اسی صحیفۂ الہٰی کی حجازی عربی میں چند نقلیں کروا کر ایک ایک کاپی اسلامی ممالک میں بھجو ائی اور اس طرح قرآن کریم کو دُنیا میں پھیلایا۔

قرآن کریم کے ابتدائی کاتبین وحی

زید بن ثابت ؓ، ابی بن کعبؓ، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح، زبیر بن العوامؓ، خالد بن سعید بن العاصؓ، ابان بن سعید بن العاصؓ، حنظلہ بن الربیع الاسدیؓ، معیقیب بن ابی فاطمہؓ، عبداللہ بن ارقم الزہریؓ، شرجیل بن حسنہ ؓ، عبداللہ بن رواحہؓ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمر ؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علی ؓ ۔

(دیباچہ تفسیر القرآن ص408،407)

قرآن کریم پر اعراب

قرآن کریم پر ابتداء سے اعراب نہیں تھے بلکہ یہ بعد میں لگائے گئے ہیں کیونکہ ابتداء میں اسلام صرف عرب تک محدود تھا چنانچہ جب اسلام عجمیوں تک پہنچا تو ان کے لئے پڑھنے میں مشکل پیش آئی اور بعض دفعہ وہ غلط بھی آیت پڑھ جاتے تھے چنانچہ ان کی آسانی کے لئے اعراب لگائے گئے اور علم نحو کی بھی بنیاد پڑی۔ اس کی تاریخ کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ

’’ایک دفعہ ابو الاسود اپنے گھر گئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی بیٹی قرآن کریم کی آیت اِنَّ اللّٰہ بَرِیٌٔ مِّنَ المُشرِکِینَ وَرَ سُولُہٗ کو اِنَّ اللّٰہَ بَرِیٌٔ مِّنَ المُشرِکِینَ وَرَسُولِہٖ پڑھ رہی ہے۔ آیت کے معنی تو یہ ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول دونوں ہی مشرکوں سے بیزار ہیں مگر رَسُوْلُہٗ کی بجائے رَسُوْلِہٖ پڑھنے سے آیت کے یہ معنے بن جاتے ہیں کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے اور اپنے رسول سے بھی گویا پیش کی جگہ زیر پڑھنے سے آیت کے کچھ کے کچھ معنے ہوگئے۔ وہ گھبرائے ہوئے حضرت علی ؓ کے پاس گئے اور اُن سے کہا ہمارے ملک میں اب بہت سے عجمی لوگ آگئے ہیں اور ہماری بیٹیاں بھی اُن سے بیاہی گئی ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہماری زبان خراب ہوگئی ہے۔ مَیں ابھی اپنے گھر گیا تھا تو مَیں نے اپنی بیٹی کو …………پڑھتے سنا۔ اگر اسی طرح غلطیاں شروع ہوگئیں تو طوفان برپا ہو جا ئیگا۔ اس کے انسداد کے لئے ہمیں عربی زبان کے متعلق قواعد مدوّن کرنے چاہئیں تاکہ لوگ اس قسم کی غلطیوں کے مرتکب نہ ہوں۔ حضرت علی ؓ اس وقت گھوڑے پر سوار ہوکر کہیں باہر تشریف لے جارہے تھے ۔آپؓ نے فرمایا: ٹھیک ہے ۔چنانچہ اسی وقت آپؓ نے بعض قواعد بتلائے اور پھر فرمایا: اُنْحُ نَحْوَہٗ وَنَحْوَہ ٗ اس بنیاد پر اَور بھی قواعد بنالو۔ چنانچہ اسی بناء پر اس کو علمِ نحو کہا جاتا ہے۔پس قرآن کریم کی صحت کے لئے علمِ صرف اور نحو ایجاد ہوئے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 9ص 272)

قرآن کریم 7 قرآت میں نازل ہوا ہے

احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کریم 7 قراء توں میں نازل ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’عرب کے مختلف قبائل میں لب ولہجہ کا اختلاف پایا جاتا تھا جس کی وجہ سے بعض لوگ بعض حروف کو پوری طرح ادا نہیں کرسکتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے مختلف قراء توں میں قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت دیکر اُن تمام اختلافات کو مٹا دیا۔ اس طرح قرآن کریم ایک عالمگیر کتاب بن گئی جس کو مختلف لہجہ رکھنے والے عرب بھی آسانی سے پڑھ سکتے تھے اور وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ کتاب ہماری زبان میں ہی نازل ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فَاقْرَؤُا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ یعنی جو طریق تم پر آسان ہو اس کے مطابق پڑھو …………قراء توں کا تعلق صرف تلفظ کے ساتھ ہے معانی کے ساتھ نہیں اور اگر کسی جگہ تلفظ سے کوئی وسعت بھی پیدا ہوتی ہے تو اصل معنوں میں فرق نہیں پڑتا ۔اصل حکم وہی رہتا ہے جو قرآن کریم دینا چاہتا ہے‘‘

(تفسیر کبیر جلد 6ص415)

قرآن کریم کے 7 بطن

قرآن کریم ہر زمانہ کے لئےاپنے مطالب کھولتا چلا جاتا ہے اور یہی سب سے بڑا قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ یہ ہر طبقہ اور ہر زمانہ کی ضروریات پوری کرتا ہے جس کے بارہ میں رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایا کہ قرآن کے سات بطن ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔

قرآن کریم کے سات بطن سے مُراد سات عظیم الشان ذہنی اور عقلی اور علمی تغیّرات ہوسکتے ہیں اور اس میں بتایا گیا ہے کہ ہر ایسے تغیّر میں قرآن کریم قائم رہے گااور کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ ہمارے زمانہ کی ضروریات کو قرآن پورا نہیں کرتا ………… قرآن کے سات بطن ہیں اس سے ضروری نہیں کہ یہی مُراد ہو کہ سات ہی بطن ہیں بلکہ ہوسکتا ہے کہ دس ،بیس ،پچاس، سو، ہزاردو ہزار بطن ہوں۔ کیونکہ عربی زبان میں سات کا عدد کثرت پر دلالت کرتا ہے چنانچہ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ کے معنے یہی ہیں کہ خداتعالیٰ نے انسانی ترقیات کے لئے ہزاروں بلندیاں پیدا کی ہیں۔ غرض فرمایا کہ قرآن کریم کو ہم نے ایسا بنایا ہے کہ یہ ہر زمانہ کے لئے کافی ہوگا۔ اس میں ہر زمانہ کے خیالات پر بحث موجود ہوگی۔ اگر اس زمانہ کے لوگوں کے خیالات غالب ہوں گے تو ان کی تردید کی جائے گی اور اگر صحیح ہوں گے تو تائید کی جائے گی۔

(تفسیر کبیر جلد7 ص666)

پھر مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے کئی بطن ہیں ۔ایک بطن تو قرآن کریم کا یہ ہے کہ کسی آیت کے معنے کرتے وقت اُس کے سیاق وسباق کی تمام آیات کو دیکھا جاتا ہے اور اس کے معنے سیاق وسباق کی آیات کو مدّنظر رکھ کرکئے جاتے ہیں۔ کیونکہ اگر سیاق و سباق کو مدّنظر نہ رکھا جائے تو معنوں میں غلطی کا امکان ہوتا ہے۔پھر ایک بطن یہ ہے کہ کسی آیت کے معنے کرتے وقت اس کے کچھ آگے آنے والی آیتوں اور کچھ پیچھے آنیوالی آیتوں کو دیکھا جاتا ہے اور اُن کے معنوں میں تطابق کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ پھر ایک بطن یہ ہے کہ جس آیت کے معنے مطلوب ہوں اس ساری سورۃ کو دیکھا جائے پھر ایک بطن یہ ہے کہ کئی سورتوں کو ملا کر اخذ کئے جاتے ہیں ۔پھر ایک بطن یہ ہے کہ سارے قرآن مجید کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے۔اسی طرح اور بھی بعض بطن ہیں …………بعض دفعہ ایک مضمون کا تعلق ابتدائی سورتوں کے ساتھ ہوتا ہے اور بعض دفعہ بعد والی سورتوں کے ساتھ پھر ایک معنے کسی آیت کے منفرداً ہوتے ہیں اور ایک معنے دوسری آیتوں سے ساتھ ملا کر کئے جاتے ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 7ص292، 293)

قرآن کریم میں ذکر کئے گئے انبیاء کے نام

حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ، حضرت اسحاق ؑ، حضرت یعقوبؑ، حضرت نوح ؑ، حضرت داودؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت ایوبؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت موسیؑ، حضرت ہارونؑ، حضرت زکریا ؑ، حضرت یحیٰؑ، حضرت الیاس ؑ، حضرت الیسعؑ، حضرت یونسؑ، حضرت لوط ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ، حضرت آدمؑ، حضرت صالح ؑ، حضرت ھودؑ، حضرت شعیبؑ، حضرت ادریسؑ، حضرت ذالکفلؑ، حضرت محمد ﷺ

قرآن کریم میں وہ سورتیں جو انبیاء کے نام پرآئی ہیں

سورہ یونس ،سورہ ہود،سوہ یوسف،سورہ ابراہیم ،سورہ محمدؐ،سورہ نوح
قرآن کریم میں 4 دفعہ رسول اللہ ﷺ کا نام آیا ہے
آل عمران:145،سورۃ الاحزاب:41 ،سورہ محمد: 3،سورۃ الفتح :30

قرآن کریم میں تباہ شدہ اقوام کا ذکر

قوم نوح (حضور نوح کی قوم) قوم عاد (حضرت ھودؑ کی قوم)
قوم ثمود، قوم اصحاب الحجر (حضرت صالحؑ کی قوم)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’عاد ایک بہت بڑی قوم تھی جو تمام شمالی اور جنوبی عرب پر قابض تھی ۔ قرآن کریم نے عاد کا زمانہ قوم نوح ؑ کے بعد بتایا ہے (اعراف ع9)…مگر اُس قوم نے بھی جب ھودؑ کامقابلہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اُسے تباہ کردیا ۔یہی حال ثمود کا ہوا جس نے قوم عاد کی جگہ لی تھی ۔اس قوم کا مرکز ی مقام حجر تھا جو مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان تھا………اصحاب الرس کے بارہ میں مفسرین میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے ۔لیکن اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم ثمود کے بعد ہوئی ہے کیونکہ وَقُرُوْنًام بَیْنَ ذَالِکَ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ترتیب مدّنظر ہے اور بحر ِمحیط نے بھی اسی کی تائید کی ہے ۔کیونکہ اُس میں حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول لکھا ہے کہ یہ قوم ثمود کا حصہ تھی (تفسیر بحر ِمحیط جلد 6 ص 498) اور چونکہ ثمود عاد کا آخری حصہ تھے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم ثمود کی قائم مقام تھی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6ص502,501)

قوم سباء (یمن میں قوم)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ’’سبا ایک شخص کا نام تھا اس کے دس بیٹے تھے۔ اسی کے نام پر ایک شہر تھا یمن میں‘‘

(حقائق الفرقان جلد سوم ص432)

قوم لوط (حضرت لوط ؑ کی قوم)

اصحاب الرس (قوم ثمود کی بچی ہوئی قوم جو حضرت صالح ؑ کے ساتھ آگئی اور ان میں بت پرستی شروع ہوگئی)

قوم مدین (حضرت شعیب ؑ کی قوم جو شہر کے حصہ میں رہتی تھی)

اصحاب الایکۃ (حضرت شعیب کی قوم کا حصہ جو جنگل میں رہتا ہے)

قوم تبع (یمن میں رہنے والی قوم جو اصل میں قوم سبا کے جد ّامجد تھے۔ تبع وہاں کے بادشاہوں کا لقب تھا جیسے ایران کے بادشاہوں کا لقب کسریٰ تھا)

قوم الیاس

حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ ’’الیاس کی جمع الیاسین بھی ہوتی ہے اور یہودی اور اسلامی لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ الیاس تین ہیں۔ ایک الیاس ؑ جو حضرت موسیٰ ؑسے پہلے گزرے تھےاور ایک یحی ؑ جن کا نام پیشگوئی میں الیاس آیا تھا اور حضرت مسیح ؑ نے بھی ان کو الیاس قرار دیا ہے اور ایک آخری زمانہ میں آنے والا جو مسیح موعودؑ سے پہلے اسی طرح ظاہر ہونا تھا جس طرح مسیح ناصری ؑ کے لئے یحیٰ ؑتھے۔ یہ الیاس حضرت سید احمد بریلوی تھے جن کی قبر اس وقت بالا کوٹ ضلع ہزارہ میں ہے۔‘‘

(تفسیر صغیر ص745)

قوم ابراہیم، بنی ا سرائیل

اصحاب الفیل (یمن کے لوگ جو ابرہہ کی سرکردگی میں خانہ کعبہ پر حملہ کرنے آئے تھے)
قوم فرعون (حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل پر ظلم ڈھانے والی قوم) دیگر اقوام کا ذکر
عرب، رومی قوم ،قریش ، یاجوج ماجوج ،قوم یونس ، اصحاب الاخدود ، عیسائیت، یہود، اصحاب الکہف، اصحاب الرقیم، مہاجرین، انصار، کفار، مومنین، اہل یثرب

قرآن میں مختلف شخصیات کا ذکر

طالوت، جالوت، سامری، عمران، ہاروت و ماروت ،لقمان، مریمؑ، زیدبن حارث، ذولقرنین، خضر، ہامان، آزر، قارون، فرعون، ابولہب، فرعون، شیطان

قرآن میں شہروں اور جگہوں کا ذکر

مدینہ، مکہ،مسجد حرام،مسجد اقصیٰ،مسجد ضرار،مشعر الحرام،مصر،طور سیناء ، عرفات،یثرب

قرآن میں مندرجہ ذیل جانوروں کا ذکر ہے

سلویٰ یعنی تیتر(البقرہ:58)، بعوض یعنی مچھر (البقرہ :27 )،ذباب یعنی مکھی (حج:74)،النحل یعنی شہد کی مکھی(النحل:69)،عنکبوت یعنی مکڑی (عنکبوت :42)،جراد یعنی ٹِڈی دل(الاعراف:134)،فیل یعنی ہاتھی (الفیل:2)،غراب یعنی کوّا (المائدہ :32)، ابابیل یعنی پرندے (الفیل:2)، نمل یعنی چیونٹی (النمل:19)، فراش یعنی ٹڈیاں (القارعہ :5)، قمل یعنی جوئیں(الاعراف:134)، الضفادع یعنی مینڈک (الاعراف:134)، قردۃ یعنی بندر(البقرہ :66)،البغال یعنی خچر(النحل :9)،غنم یعنی بکریاں (الانعام:147)، نعجۃ یعنی دُنبی (ص:24) ذئب یعنی بھیڑ(یوسف :15)،بعیر،جمل یعنی اُونٹ (یوسف66،الاعراف41) قسورۃ یعنی شیرببر(المدثر:52) ،خیل ، جیاد،صافنۃ یعنی گھوڑے (النحل :9، ص:52) ،بقرۃ یعنی گائے (البقرہ :71)، عجل یعنی بچھڑا (ھود:70)،حیۃ یعنی سانپ (سورۃ طہ :21)، ثعبان یعنی اژدھا (الاعراف:108)، حمار،حمیریعنی گدھا (النحل:9،البقرہ :260) ،خنزیریعنی سؤر (البقرہ :174) کلب یعنی کتا (الاعراف:177)، نون،حوت یعنی مچھلی (الانبیاء :88، الکہف:64)

قرآن کریم میں پھلوں اور سبزیوں کا ذکر

النخل،جنیا یعنی کھجور(المائدہ :142)،الزیتون یعنی زیتون (المائدہ :142)
الرمان یعنی انار (المائدہ :142)،الاعناب یعنی انگور (الرعد:5) طلح یعنی کیلے (الواقعہ :30)،التین یعنی انجیر (التین :2)،بقل یعنی ترکاری (البقرہ :62) قثاء یعنی ککڑی (البقرہ :62)، یعنی گندم (البقرہ :62)،بصل یعنی پیاز (البقرہ :62)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’قرآن جواہرات کی تھیلی ہے اور لوگ اس سے بے خبر ہیں‘‘

(ملفوظات جلد اول ص542)

‘‘قرآن کی وہ اعلیٰ شان ہے کہ ہر ایک شان سے بلند ہے ۔وہ حَکم ہے یعنی فیصلہ کرنے والا اور وہ مُہیمن ہے یعنی تمام ہدایتوں کا مجموعہ ہے۔ اس نے تمام دلیلیں جمع کردیں اور دُشمنوں کی جمعیت کو تِتّر بِتّر کردیا اور وہ ایسی کتاب ہے کہ اس میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور اس میں آئندہ اور گزشتہ کی خبریں موجود ہیں اور باطل کو اس کی طرف راہ نہیں ہے ،نہ آگے سے نہ پیچھے سے اور وہ خداتعالیٰ کا نور ہے‘‘

(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد16 ص103)

پھر فرمایا: ’’قرآن شریف ایسا معجزہ ہے کہ نہ وہ اول مثل ہوا اور نہ آخر کبھی ہوگا۔ اس کے فیوض وبرکات کا در ہمیشہ جاری ہے اور وہ ہر زمانہ میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا آنحضرت ﷺ کے وقت تھا۔علاوہ اس کے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر شخص کا کلام اس کی ہمت کے موافق ہوتا ہے جس قدر اس کی ہمت اور عزم اور مقاصد عالی ہوں گے اسی پایہ کا وہ کلام ہوگا۔وحی الٰہی میں بھی یہی رنگ ہوتا ہے۔جس شخص کی طرف اس کی وحی آتی ہے جس قدر ہمت بلند رکھنے والا وہ ہوگا اسی پایہ کا کلام اُسے ملے گا۔ آنحضرت ﷺ کی ہمت و استعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت وسیع تھا اس لئے آپ ﷺ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پایہ اور رتبہ کا ہے کہ دوسرا کوئی شخص اس ہمت اور حو صلہ کا کبھی پیدانہ ہوگا۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم ص40)


(مبارک احمد منیر۔ برکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 30 ۔اپریل2020ء