قرآنِ کریم ایک ایسا آسمانی صحیفہ ہے جو کامل طاقتوں کے مالک خدا نے کامل انسان یعنی محمد مصطفٰی ﷺ پر نازل فرمایا۔ یہ کتاب باوجود مختصر ہونے کے نہایت جامع ہے ۔ روحانی یا جسمانی زندگی کی کوئی ضرورت اس سے باہر نہیں اور کوئی پہلو تشنہ نہیں ۔ گویا کہ یہ ایک کائنات ہے جس میں دنیا وما فیھا کی تمام حقیقتیں موجود ہیں نیز تمام ضرورتوں کے لئے خاطر خواہ سامان بھی اس میں موجود ہے۔
حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے جب اس کے خزانوں کا اندازہ کیا تو بے ساختہ فرمایا
یا الہٰی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے
جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا
حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کا قرآنِ کریم کو عالم قرار دینا ایک بہت بڑی حقیقت کو جامع رنگ میں پیش کرنے کے مترادف ہے آپ علیہ السلام زمانے کے امام ہیں اور قرآنِ کریم پر آپ کے تدبر کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ قادیان سے بٹالہ تک کا 11میل کا بیل گاڑی کا سفر اس کی صرف 7 آیات پر غور کرتے ہوئے گزار دیا۔
کہتے ہیں کہ ہیرے کی قدرایک جوہری کو ہی معلوم ہو سکتی ہے۔ اس لحا ظ سے قرآنِ کریم کے معارف و مطالب اور اس کی وسعتِ گہرائی کا جو اندازہ خود رسولِ پاک ﷺ کو ہوا یا آپ کے بعد آپ کے کامل شاگرد حضرت مسیحِ پاک علیہ السلام پر یہ حقیقت جس رنگ میں آشکار ہوئی کوئی دوسرا شخص اس کوچہ سے واقف نہیں، اس کے حسن و خوبی سے آگاہ نہیں ہو سکتا۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ خيركم من تعلم القراٰن وعلمه تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھتا ہے اور دوسروں کو سیکھاتا ہے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے بھی قرآنِ کریم کی عظمت اور شان کو ظاہر کرتے ہوئے کیا ہی خوبصورت رنگ میں فرمایا ہے ‘‘تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ تم قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ اسی میں تمہاری زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔‘‘
(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد19 صفحہ 18)
قرآنِ کریم وہ پاکیزہ کلام ہے کہ جس کی چند آیات نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ جیسے جابر شخص کے دل میں ایمان کا طوفان برپاکر دیا۔ یہ قرآن کریم کی تعلیم ہی تھی کہ صحابۂ کرام کے دلوں سے ایمان کے سوتے پھوٹ پڑے دراصل یہ ایک حقیقت ہے کہ جس نے بھی اس صحیفہِ قدرت کو اپنے ہاتھ میں لیا ۔ مجد اور بزرگی نے اس کے قدم چُومے اور دل یہ کہنے پر مچل اٹھا۔
کہتے ہیں حسنِ یوسف دلکش بہت تھا لیکن
خوبی و دلبری میں اس سے سوا یہی ہے
قرآنِ کریم ہر درد کی دوا اور ہر مرض کا علاج ہے اس کی تو صرف ایک سورة یعنی سورہ ِفاتحہ میں ایسے حقائق و معارف ہیں کہ عہد نامہ قدیم و جدید کی جملہ کتب اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کی روحانی تاثیرات، اس کی ترتیب، پیشگوئیاں زندگی کے ہر شعبے سے متعلق رہنمائی، تعلق باللہ، اصلاح بین الناس، معاملات، معاشرت، حقوق اللہ اور حقوق العباد کے متعلق جامع تعلیم پر جب نظر پڑتی ہے تو انسان پُکار اٹھتا ہے۔
وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں
ہوگی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں
قرانِ کریم ہدایت و رہنمائی کا وہ چراغ ہے جو ابدالاباد تک روشنی دیتا چلا جائے گا۔ یہ رحمتِ عالم سرورِ کائنات ﷺ کے اخلاق کی ہوبہو تصویر ہے اسی لئے تو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ سے جب آپ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ كان خلقه القرآن يعنی آپ کے اخلاق قرآنِ کریم کی عملی تفسیر تھے ۔ اس ہدایت کے خوشنما پھول دل و دماغ کو معطر کر دیتے ہیں اور انسانی روح وجد میں آکر بےساختہ کہہ اٹھتی ہے
بہارِ جاوداں پیدا ہے اس کی ہر عبارت میں
نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اس سا کوئی بستاں ہے
ایک مومن کی تمام تر خواہشات کا محور قرآن ہی ہوتا ہے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کو الہاماً بتایا گیا کہ الخير كله في القراٰن یعنی تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں ۔ آج جبکہ ہم کرونا وائرس کی وبا کے باعث گھروں میں وقت گزار رہے ہیں تو کیوں نہ ہم زیادہ سے زیادہ وقت اس پاک کلام کی روشنی سے اپنے دلوں کو منور کرنے میں گزاریں ۔ رمضان المبارک جس میں اس الہیٰ نوشتے کا آنحضور ﷺ کےقلبِ مطہر پر نزول کا آغاز ہوا، یہ مہینہ تو خاص طور پر ہمیں اس بار باراور کثرت سے پڑھی جانے والی کتاب کو سیکھنے اور اس کے مطالب جاننے اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اپنے خالق و مالک کی طرف سے نازل ہونے والے اس کلام کے حسنِ ظاہری اور جمالِ باطنی کا ایک بہت ہی خوبصورت نقشہ اپنے فارسی اشعار میں بھی کھینچا ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں
اے کانِ دلربائی دانم کہ از کجائی
تو نورِ آں خدائی کیں خلق آفریدہ
میلم نماند باکس محبوب من توئی بس
زیرا کہ زاں فغاں رس نورت بما رسیدہ
اے کانِ حسن میں جانتا ہوں کہ تو کس سے تعلق رکھتی ہے تو تو اس خدا کا نور ہے جس نے یہ مخلوقات پیدا کی مجھے کسی سے تعلق نہ رہا اب تو ہی میرا محبوب ہے کیونکہ اس خدائے فریادرس کی طرف سے تیرا نور ہم تک پہنچا ہے۔
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ305-304)
(امتہ القیوم انجم۔ کینیڈا)