ایڈیٹر کے قلم سے
آداب تلاوتِ قرآن
جو قرآن نے خود سکھلائے ہیں۔
1۔ لَايَمَسُّهُ إِلاَّ الْمُطَهَّرُونَ۔ (الواقعہ: 80)
پاک و صاف اور مطہر لوگ ہی اس کو چھوئیں۔ یعنی ظاہری اور جسمانی لحاظ سے قاری کو پاک و صاف ہونا چاہئے۔
وضو کر کے تلاوت کی جائے ۔ پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کر لیا جائے۔
اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۷۸﴾ فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿ۙ۷۹﴾ لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ ﴿ؕ۸۰﴾ تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۸۱﴾(الواقعہ: 81-78)
2۔ تلاوت سے پہلے تعوّذ پڑھ لیا جائے۔
فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاِللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ۔
(النحل : 99)
اے اللہ ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں ہر اس شیطان سے جو رجیم ہے یعنی راندھا ہوا ہے۔
تلاوت قرآن پاک کے آداب اور اس کی برکات
قرآن کریم خوش الحانی سے پڑھنا چاہئے۔
وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً (المزمل:5) قرآن کریم ترتیل سے اور خوش الحانی سے پڑھا جائے۔
احادیث میں بھی اس کی تائید میں ہدایات ملتی ہیں۔
- زَیَّنُوْاالْقُرْآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ۔ تم اپنی آوازوں سے قرآن کریم کو زینت دو۔
- لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ۔ (بخاری) اس شخص کا ہم سے کوئی تعلق نہیں جو قرآن کریم کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا۔
- اپنی عمدہ آوازوں کے ساتھ قرآن مجید پڑھا کرو کیونکہ اچھی اور عمدہ آواز قرآن کریم کو حُسن میں بڑھا دیتی ہے۔
- حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں۔خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنا بھی عبادت ہے۔
(ملفوظات جلد 3 ص 162)
ٹھہر ٹھہر کر اور صحیح تلفظ سے قرآن پڑھا جائے۔
حضرت ام سلمہؓ سے جب آنحضرت ﷺ کی تلاوت کے بارے دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ۔
’’آنحضور ﷺ کی قراءت بالکل واضح ہوتی تھی۔ ہر حرف جدا ہوتا تھا۔‘‘ (ترمذی)
اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ آنحضور ﷺ قرآن مجید جُدا جُدا کر کے پڑھتے تھے یعنی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن پڑھ کر ٹھہر جاتے۔ پھر اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھ کر ٹھہرتے۔
بعض صحابہؓ نے ایک دن میں قرآن ختم کرنے کی خواہش ظاہر فرمائی تو فرمایا:
لَمْ یَفْقَہْ مَنْ قَرَأَالْقُرْآنَ فِی اَقَلِّ مِنْ ثَلَاثٍ۔
(ترمذی)
جس نے تین دن سے کم میں قرآن ختم کیا اس نے قرآن کو سمجھا ہی نہیں ۔
5۔ خشوع و خضوع سے تلاوت کی جائے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔
- إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَاناً وَعَلیٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ۔
(الانفال :3)
مومن صرف وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتاہےتو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ ان کو ایمان میں بڑھا دیتی ہیں۔
- وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ
(الحج:36-35)
عاجزی اختیار کرنے والوں کو بشارت دے دے ان لوگوں کو کہ جب اللہ کا ذکر بلند کیا جاتا ہے تو ان کے دل مرعوب ہو جاتے ہیں۔ مزید دیکھیں سورۃ الزمر: 24
ایک دفعہ آنحضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کس شخص کی آواز ،قراءت اچھی اور خوبصورت ہے تو آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ جب تو اس کو سُنے تو محسوس کرے کہ اس کے دل میں خشیت اللہ اور خوف ہے۔
(مشکوٰۃ باب فضائل القرآن)
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں ۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قرآن شریف غم کی حالت میں نازل ہوا ہے ۔ تم بھی اسے غم کی حالت میں پڑھا کرو ۔
(ملفوظات جلد 3 ص 152)
تلاوت کی اصل غرض
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
قرآن شریف کی اصل غرض اور غایت تقو یٰ کی تعلیم دینا ہے ……… لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں مگر طوطے کی طرح یونہی بغیر سوچے سمجھے چلے جاتے ہیں جیسے ایک پنڈت اپنی پوتھی کو اندھا دھند پڑھتا جاتا ہے ۔ نہ خود سمجھتا ہے اور نہ سننے والوں کو پتا لگتا ہے۔ اسی طرح قرآن شریف کی تلاوت کا طریق صرف یہ رہ گیا ہے کہ دو چار سیپارے پڑھ لئے اور کچھ معلوم نہیں کہ کیا پڑھا ۔ زیادہ سے زیادہ سُر لگا کر پڑھ لیا اور ق اور ع کو پورے طور پر ادا کر دیا ۔ قرآن شریف کو عمدہ طور پر اور خوش الحانی سے پڑھنا بھی ایک اچھی بات ہے مگر قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرے ۔
(ملفوظات جلد اول ص 284)
صبح کے وقت قرآن
وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوداً۔ (بنی اسرائیل : 79)
صبح کے وقت قرآن کریم کی تلاوت کرنا اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول اور پسندیدہ عمل ہے ۔فرمایا: یقیناً فجر کا قرآن اللہ کے حضور پیش ہونے والی چیز ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے توجہ دلائی۔
’’گھروں سے ایسے آوازیں آئیں جیسے قادیان سے آیا کرتی تھیں ۔‘‘
اونچی آواز سے پڑھا تو بالجہر صدقہ دیا۔ دھیمی آواز سے پڑھا تو خفیہ طور پر صدقہ دیا۔
باقاعدگی سے تلاوت
قرآن کی روزانہ باقاعدگی سے تلاوت کی جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
قرآن مجید میں سے جتنا بھی میسر ہو پڑھ لیا کرو مگر اس میں نشاط اور دل کی حاضری ضروری ہے۔
آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں۔
انسان روزانہ پڑھنے کے لئے قرآن کریم کا ایک حصہ مقرر کر لے کہ روز پڑھا کروں گا۔ اس کو روزانہ پڑھا جائے اور اس کو پورا کرنے میں کوتاہی نہ کی جائے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو سب سے زیادہ وہ عبادت پسند ہے جس پر انسان دوام اختیار کرے اور ناغہ نہ ہونے دے۔
پھر فرمایا۔
’’انسان سارے کلام کو پڑھے اور بار بار پڑھے ۔ یہ نہیں کہ کوئی خاص حصہ چن لیا اور اُسے پڑھنا شروع کر دیا ۔دوم۔اس وقت پڑھے جب اس کے دل میں محبت اور اخلاص کا جوش ہو ……وہ صبح اور شام کے وقت تلاوت کے لئے مقرر کر لے ۔ سوم۔ قرآن کریم اس یقین کے ساتھ پڑھا جائے کہ اس کے اندر غیر محدود خزانہ ہے جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اس میں خزانے موجود ہیں وہ اس کے معارف اور علوم کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔‘‘
(ذکر الہٰی)
پڑھنے کا طریق
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ۔
انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے۔ جب اس میں دُعا کا مقام آوے تو دعا کرے اور خود بھی خدا سے وہی چاہے جو اس دعا میں چاہا گیا ہے اور جہاں عذاب کا مقام آوے تو اس سے پناہ مانگے اور ان بد اعمالیوں سے بچے جن کےباعث وہ قوم تباہ ہوئی۔(۔) بہتر طریق یہ ہے کہ ایسے وظائف میں جو وقت اس نے صرف کرنا ہے وہی قرآن شریف کے تدبّر میں لاوے۔ دل کی اگر سختی ہو تو اس کے نرم کرنے کے لئے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی بار بار پڑھے۔ جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمت الہٰی میرے شامل حال ہو۔ قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چنتا ہے۔ پھر آگے چل کر اور قسم کا پھول چنتا ہے۔ پس چاہئے کہ ہر ایک مقام کے مناسب حال فائدہ اٹھاوے۔ اپنی طرف سے الحاق کی کیا ضرورت ہے ۔ ورنہ پھر سوال ہو گا کہ تم نے ایک نئی بات کیوں بڑھائی۔
(الحکم 31 جنوری 1904ء)
حضرت مولانا نورالدین خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں ۔
ہر ایک شخص کا جو قرآن شریف پڑھتا ہے یا سنتا ہے یہ فرض ہے کہ وہ اس رکوع کے آگے نہ چلے جب تک اپنے دل میں یہ فیصلہ نہ کر لے کہ مجھ میں یہ صفات یہ کمالات ہیں یا نہیں ۔اگر ہیں تو وہ مبارک ہیں اگر نہیں تو اس کی فکر کرنی چاہئےاور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگنی چاہئیں کہ وہ ایمان صحیح عطا فرمائے۔
(حقائق الفرقان جلد اول ص 101)
جنت کا ذکر۔ اَللّٰھُمَّ اَدْخِلْنَا فِی رَحْمَتِکَ
عذاب کا ذکر ۔ اَللّٰھُمَّ لَا تُعَذِّبْنَا
کَبِّرْہٗ تَکْبِیْرًا۔ اللّٰہ اکبر۔
سجدہ تلاوت۔ سَجَدَ لَکَ رُوْحِیْ وَ جَنَانِی
خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ
(بخاری کتاب فضائل القرآن)
تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو قرآن کریم سیکھے اور اسے دوسروں کو سکھلائے۔
اِنَّ اَفْضَلَکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ
(بخاری کتاب الفضائل)
جس نے قرآن کا ایک حرف پڑھا تو اس کے لئے ایک نیکی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الف لام میم ایک حرف ہے بلکہ الف بھی ایک حرف ہے اور لام بھی اور میم بھی۔
(ترمذی ابواب فضائل القرآن)
اَلْجَاھِرُ بِالْقُرْآنِ کَالْجَاھِرِ بِالصَّدَقَۃِ وَالْمُسِرُّ بِالْقُرْآنِ کَاالْمُسِرِّ بِالصَّدَقَۃِ۔
(ترمذی ابواب فضائل القرآن)
جس نے قرآن کو اونچی آواز میں پڑھا تو گویا اس نے ظاہری طور پر صدقہ دیا اور جس نے اسے پوشیدہ پڑھا تو گویا اس نے پوشیدہ صدقہ دیا ۔
حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمر ؓ کی مثال
فقہ پڑھتے۔ بالجہر پڑھتے
لَا تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ مَقَابِرَ وَ اِنَّ الْبَیْتَ الَّذِیْ تُقْرَأ الْبَقَرَۃُ فِیْہِ لَا یَدْخُلُہٗ الشَّیْطَانُ۔
(ترمذی ابواب فضائل القرآن)
اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤاور جس گھر میں سورۃ بقرۃ کی تلاوت کی جائے وہاں شیطان داخل نہیں ہوتا ۔
فرمایا: تجھے بشارت ہو کہ سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کی تلاوت کی آخری آیات دو نور ہیں جو تجھ سے پہلے کسی بھی نبی کو نہیں دیئے گئے۔
(کنز العمال)
رات کو آیۃ الکرسی پڑھنے سے صبح تک انسان خدا کی حفاظت میں رہتااور شیطان قریب نہیں آتا ۔
(بخاری)
سورۃ کہف کی پہلی دس اور آخری آیات کے بارے فرمایا: جس نے یاد رکھیں وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔
(مسلم)
(درس القرآن ص 29)
آنحضور ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(حدیث قدسی)
جس کو قرآن کریم نے اور میرے ذکر نے مصروف رکھا اور اس نے سوال نہ کیا تو میں اُسے اُن لوگوں سے زیادہ عطا کروں گا جن کو سوال کرنے پر میں دیتا ہوں۔
(ترمذی)
اَلَّذِی یَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَ ھُوَ مَاھِرٌ بِہٖ مَعَ السَّفَرَۃِالْکِرَامَ الْبَرَرَۃِ وَالَّذِی یَقْرأَہٗ وَ ھُوَ یَشْتَدُّ عَلَیْہِ فَلَہٗ اَجْرَانٍ۔
(سنن ابی داؤدباب فی ثواب قرأۃ القرآن)
یعنی جو شخص قرآن کو اچھی طرح مہارت کے ساتھ پڑھتا ہے وہ بڑی عزت والے فرشتوں اور نبیوں اورعاشق قرآن بزرگ صحابہ کے ساتھ ہو گا اور جو شخص قرآن کو کوشش اور محنت کر کے پڑھتا ہے اسے دوگناثواب ملے گا ۔ ایک تو قرآن پڑھنے کا ثواب اور دوسرا محنت اور مشقت کرنے کا اجر۔
احادیث میں قرآن کریم سیکھنے ، پڑھنے اور تلاوت کرنے والوں کے لئے بہت سے فضائل و برکات کا ذکرملتا ہے۔
ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سے بعض لوگ خدا کے گھر والے ہوتے ہیں ۔
صحابہ نے عرض کی۔ وہ کون ہیں ؟ فرمایا:اَہْلُ الْقُرْآنِ ھُمْ اَھْلُ اللّٰہِ وَ خَاصُّہٗ۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 3 ص 128)
یعنی قرآن کو پڑھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے اللہ کے اہل ہیں ۔گویا اللہ کے گھر کے افراد اور خواص۔
’’جو لوگ قرآن کوعزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے‘‘
قرآن کریم دلوں کی کدورت دُور کرتا ہے
آنحضور ﷺ نے فرمایا: یہ دل اس طرح زنگ آلود ہو جاتے ہیں جس طرح پانی لگنے سے لوہا۔ صحابہؓ نے عرض کی یا رسول اللہ ؐ! اس میں جلا کیسے پیدا ہو ۔ فرمایا: کَثْرَۃُ ذِکْرُ الْمَوْتِ وَ تَلَاوَۃُ الْقُرْآنِ۔
(مشکوٰۃ فضائل القرآن)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ۔
’’قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہےجس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ 4 ص 467)
مَنْ قَرَأ الْقُرْآنَ فَاسْتَظْہَرَہٗ فَاَحَلَّ حَلَالَہٗ وَحَرَّمَ حَرَامَہٗ اَدْخَلَہٗ اللّٰہُ بِہٖ الْجَنَّۃ۔
(ترمذی فضائل القرآن)
جس نے قرآن کریم کی تلاوت کی اور اس پر خوب قادر ہو گیا اور اس نے قرآن کی حلال کردہ چیزوں کو حلال کر دکھایا اور اس کی حرام چیزوں کو حرام یعنی اوامر پر عمل کیا اور نواہی سے رکا۔ اللہ اسے جنت میں داخل کر دے گا ۔ بلکہ اس کی شفاعت سے گھر والوں کو بخش دے گا ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ قرآن شفاعت کرے گا ۔ پڑھنے اور پڑھانے والوں کے لئے شفیع بن کر آئے گا ۔
ایک مومن قرآن پڑھتا ہے۔ لیموں کی طرح۔خوشبو بھی اچھی۔ ذائقہ بھی اچھا۔
ایک مومن قرآن نہیں پڑھتا۔ کھجور کی طرح، خوشبو نہیں مگر ذائقہ اچھا۔
ایک منافق جو قرآن پڑھتا ہے۔ پھول کی طرح خوشبو تو ہے مگر ذائقہ کڑوا اور منافق جو قرآن نہیں پڑھتا، تمےّ کی طرح، خوشبو بھی نہیں ،ذائقہ بھی کڑوا۔
رشک بھری نگاہ
تلاوت کرنے والوں کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے آنحضور ﷺ فرماتے ہیں۔
دو آدمیوں پر رشک کرنا چاہئے ایک وہ جسے خدا قرآن کریم سکھائے اور وہ دن کے اوقات میں بھی اور رات کو بھی اس کی تلاوت کرے یہاں تک کہ اس کا ہمسایہ بھی اس سے متاثر ہو کر کہے کہ اے کاش! مجھے بھی اسی طرح قرآن آتا اور میں بھی ایسے ہی عمل کرتا ۔
(بخاری کتاب الفضائل)
حضرت ابو بکر ؓ تلاوت فرماتے۔ گھر کے افراد جمع ہو جاتے۔ کتنے خوش قسمت گھرانے ہیں جو قرآن کی تلاوت سے گونجتے ہیں اور وہ جو تلاوت کر کے بہترین بن جاتے ہیں ۔
فرمایا: اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیارکہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو ۔
(کشتی نوح)
ہر گھر سے روزانہ تلاوت قرآن کریم ہو ۔ کوئی بچہ نہ ہوجسے تلاوت کی عادت نہ ہو ۔ اس کو کہیں تم ناشتہ چھوڑ دو مگر سکول سے پہلے تلاوت ضرور کرنی ہے۔
(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ 4 جولائی 1997ء)