تیرہویں صدی ہجری کا زمانہ وہ زمانہ تھا جس میں قرآن مجید عملاً زمین سے اٹھ چکا تھا۔ ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی ایسی تھی جو قرآن کریم پڑھنا ہی نہیں جانتی تھی۔ قرآن مجید غلافوں میں بند کر کے طاقچوں کی زینت بنا دیا گیا تھا۔ جو قرآن پڑھتے تھے ان میں سے اکثریت کا حدیثِ نبوی کے مطابق یہ حال تھا کہ وہ ان کے حلق سے نیچے ہی نہیں اُترتا تھا اور ان کی زندگیوں میں قرآنی تعلیم کا کوئی اِظہار نہیں ہوتا تھا۔ بہت سی اعتقادی اور علمی و عَملی خرابیاں مسلمانوں میں پیدا ہو چکی تھیں۔ اور لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہٗ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہٗ کا مضمون ان پر صادق آتا تھا۔ علماء کی حالت اَور بھی ناگفتہ بہ تھی۔ قرآنی آیات کی منسوخی کا باطل عقیدہ ان میں رائج تھا۔ 1سے لے کر 700 سو تک آیات منسوخ قرار دے دی گئی تھیں۔ بدقسمتی سے آج بھی ایسے علماء پائے جاتے ہیں جو اس عقیدہ پر نہ صرف قائم ہیں بلکہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس کا پر چار کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ عقیدہ تو ہین قرآن کے مترادف ہے۔ قرآن مجید میں مذکور انبیاء علیہم السلام کے واقعات کو محض قصّوں اور کہانیوں کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ ایک طبقہ ایسا تھا جو احادیث کو اور روایات کو قرآن پر مقدم رکھتا تھا۔ بعض مسلمانوں نے حال کے جدید علوم اور فلسفہ اور سائنس سے ڈر کر قرآنی آیات کو تاویلات کے شکنجے پر چڑھا دیا تھا اور اس میں اس حد تک دور نکل گئے کہ اﷲ تعالیٰ کی وحی و الہام، استجابتِ دعا، نزولِ ملائکہ اور اخبارِ غیبیہ وغیرہ اہم امور کا انکار کر دیا۔
غرض یہ وہ زمانہ تھا جب ایمان ثریا پر اُٹھ گیا تھا اور قرآن آسمان پر اٹھایا جا چکا تھا اور اب وہ وقت آچکا تھا کہ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ میں مذکور پیشگوئی اور آنحضرت ﷺ کی تصریح کے مطابق وہ رجلِ فارس مبعوث ہو جو قرآن کو آسمان سے واپس لائے اور ایمان کو پھر سے دلوں میں قائم کرے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ صرف رسمی اور ظاہری طور پر قرآن شریف یا اس کے تراجم کو پھیلانا ہی خدمت قرآن ہے مگر حضرت مسیح موعودؑنے فرمایا۔
’’صرف رسمی اور ظاہری طور پر قرآن شریف کے تراجم پھیلانا یا فقط کتبِ دینیہ اور احادیثِ نبویہ کو اردو یا فارسی میں ترجمہ کر کے رواج دینا یا بدعات سے بھرے ہوئے خشک طریقے، جیسے زمانۂ حال کے اکثر مشائخ کا دستور ہو رہا ہے سکھلانا ،یہ امور ایسے نہیں ہیں جن کو کامل اور واقعی طور پر تجدید دین کہا جائے بلکہ مؤخر الذکر طریق تو شیطانی راہوں کی تجدید ہے اور دین کا رہزن۔ قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کو دنیا میں پھیلانا بےشک عمدہ طریق ہے مگر رسمی طور پر اور تکلّف اور فکر اور خوض سے یہ کام کرنا اور اپنا نفس واقعی طور پر حدیث اور قرآن کا مورد نہ ہونا ایسی ظاہری اور بے مغز خدمتیں ہر ایک با علم آدمی کر سکتا ہے اور ہمیشہ جاری ہیں۔ ان کو مجدّدیت سے کچھ علاقہ نہیں۔ یہ تمام امور خدا تعالیٰ کے نزدیک فقط استخوان فروشی ہے اس سے بڑھ کر نہیں۔‘‘
(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ6۔7حاشیہ)
حضرت اقدس مسیح موعود ؑنے خدمت قرآن کی جو راہیں اپنے قول اور فعل سے روشن فرمائی تھیں۔آ پؑ کے بعدآپؑ کے مقدس خلفاء کرامؓ نے ان تمام نورانی راہوں پر بڑے عزم اور استقلال کے ساتھ قدم آگے بڑھایا اور آپؑ کی قائم کردہ بنیادوں پر ایک عالیشان عمارت کھڑی کردی۔ حقیقت یہ ہے کہ خلفائے مسیح موعودؑ نے اپنے آقا حضرت اقدس مسیح موعودؑکی نمائندگی میں تمام عالم میں قرآنی تعلیمات کی حقّانیت کے اثبات اور قرآنی علوم و معارف اور حقائق و دقائق کی تعلیم و تدریس اور ترویج و اشاعت اور قرآن مجید کی عزت و عظمت کے اظہار اور اس کے عملی نمونوں کے قیام و استحکام کے لئے جس محنت اور جانفشانی سے اپنے جگر خون کئے اور حضرت مسیح موعودؑ کی جاری فرمودہ عظیم مہمات کو نہایت کامیابی و کامرانی سے آگے بڑھایااس کا ذکر اس مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں۔ یہ حکایت بہت طویل، لذت بھری اور حددرجہ ایمان افروز ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی مقدس خلافت کی آسمانی رہنمائی اور قیادت میں خدا تعالیٰ کے پاک کلام قرآن مجید و فرقان حمید کے مختلف زبانوں میں تراجم اور ان کی اشاعت کے حوالہ سے قارئین کی خدمت میں مختصراً کچھ کوائف پیش کرنے سے قبل یہ بیان کرنا مناسب معلوم ہوتاہے کہ احمدیہ مسلم جماعت و ہ منفرد جماعت ہے جس نے خلافتِ حقّہ اسلامیہ احمدیہ کی بابرکت قیادت اور مقدس رہنمائی میں باقاعدہ ایک منظّم پروگرام کے تحت دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور اس سلسلہ میں اٹھنے والے تمام اخراجات افراد جماعتِ احمدیہ اپنے امام کی تحریک پر خود برداشت کرتے ہیں۔
جماعت احمدیہ کو خدمت قرآن کی اس توفیق اور سعادت کا ملنا خود قرآن مجید میں مذکور پیش خبریوں اور پیشگوئیوں کے عین مطابق ہے اور اس کے ساتھ الٰہی نصرت و تائید اور کامیابی کے عظیم الشان وعدے ہیں۔خدا تعالیٰ نے یہ خدمت اور یہ سعادت پہلے سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق ،آپ کے عظیم روحانی فرزند اور غلام، جَرِیُ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَاءِ حضرت مسیح موعود ؑ اور وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4) کی مصداق آپؑ کو عطا ہونے والی جماعت کے لئے مقدر فرما رکھی تھی ۔سو ضرور تھا کہ ایسا ہوتا اور ایساہی ہوا۔ اور یہ وہ خاص امتیاز ہے جو کسی اور مسلمان فرد،ادارے، تنظیم ،فرقے یا جماعت کو حاصل نہیں ۔
اس بات کے ثبوت میں اور اس کی کسی قدر وضاحت کے لئے بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے بہت سے ارشادات میں سے صرف چند ایک ذیل میں ہدیۂ قارئین ہیں جن میں آپؑ نے قرآن مجید کی روشنی میں یہ ثابت فرمایا ہے کہ مختلف زبانوں میں قرآن مجید ،فرقان حمید کے تراجم اور تعلیمات قرآنیہ کی اشاعت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں اور اسی کے ہاتھوں سے مقدر تھی ،جس کا آنا ظلّی اور بروزی طور پر گویا خود آنحضرت ﷺ کا آنا تھا ۔اور یہ سب خدمتیں،یہ سب کامیابیاں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ ہی کا سلسلہ اور آپؐ ہی کی روحانی توجہات کا فیض ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے اغراض میں سے ایک تکمیل دین بھی تھی جس کے لئے فرمایا گیا تھا اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ (المائدہ:4) اب اس تکمیل میں دو خوبیاں تھیں۔ ایک تکمیل ہدایت اور دوسری تکمیل اشاعت ہدایت۔
تکمیلِ ہدایت کا زمانہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا پہلا زمانہ تھا اور تکمیلِ اشاعت ہدایت کا زمانہ آ پؐ کا دوسرا زمانہ ہے جبکہ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کا وقت آنے والا ہے اور وہ وقت اب ہے ۔یعنی میرا زمانہ یعنی مسیح موعود کا زمانہ۔‘‘
(الحکم جلد 6نمبر 43مورخہ 30نومبر 1902ء)
اسی طر ح فرمایا ۔
’’اِتمام نعمت کی صورتیں دراصل دو ہیں۔ اوّل تکمیل ہدایت۔ دوم تکمیلِ اشاعتِ ہدایت۔اب تم غور کر کے دیکھو تکمیلِ ہدایت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کامل طور پر ہو چکی لیکن اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا تھا کہ تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کا زمانہ دوسرا ہو جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم بروزی رنگ میں ظہور فرما ویں اور وہ زمانہ مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّینِ کُلِّہٖ (الصف:10) اس شان میں فرمایا گیاہے۔ تمام مفسّرین نے بالاتفاق اس امر کو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ آیت مسیح موعود ؑ کے زمانہ سے متعلق ہے۔
درحقیقت اظہار دین اُسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ کُل مذاہب میدان میں نکل آویں اور اشاعت مذہب کے ہر قسم کے مفید ذریعے پیدا ہو جائیں اور وہ زمانہ خدا کے فضل سے آگیا ہے۔چنانچہ اس وقت پریس کی طاقت سے کتابوں کی اشاعت اور طبع میں جو جو سہولتیں میسّر آئی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں … جس قدر آئے دن نئی ایجادیں ہوتی جاتی ہیں اُسی قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعود ؑکے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہار دین کی صورتیں نکلتی آتی ہیں۔
اس لئے یہ وقت وہی وقت ہے جس کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ لِیُظْھِرَہٗ علَی الدِّینِ کُلِّہٖ کہہ کر فرمائی تھی۔ یہ وہی زمانہ ہے جو اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ کی شان کو بلند کرنے والا اور تکمیل اشاعت ہدایت کی صورت میں دوبارہ اتمام نعمت کا زمانہ ہے۔ اور پھر یہ وہی وقت اور جمعہ ہے جس میں وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے۔‘‘
(الحکم جلد 6نمبر 18مورخہ 17 مئی 1902ء صفحہ 5۔6)
حضورعلیہ السلام نے اپنی تصنیف ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ میں اس امر کو بہت تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں۔
’’ضرور تھا کہ جیسا کہ تکمیلِ ہدایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ہوئی ایسا ہی تکمیلِ اشاعتِ ہدایت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہو۔ کیونکہ یہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبی کام تھے۔ لیکن سنّت اللہ کے لحاظ سے اس قدر خُلود آپ ﷺ کے لئے غیر ممکن تھا کہ آپ ﷺ اُس آخری زمانہ کو پاتے اور نیز ایسا خُلود شرک کے پھیلنے کا ایک ذریعہ تھا۔اس لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خدمت منصبی کو ایک ایسے اُمّتی کے ہاتھ سے پورا کیا کہ جو اپنی خُو اور روحانیت کے رُو سے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کا ایک ٹکڑا تھا یا یُوں کہو کہ وہی تھا اور آسمان پر ظلّی طور پر آپ ﷺ کے نام کا شریک تھا۔… چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے اور آپ ﷺ کی شریعت تمام دنیا کے لئے عام تھی اور آپ ﷺ کی نسبت فرمایا گیا تھا وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ(الاحزاب:41) اور نیز آپ ﷺ کو یہ خطاب عطا ہوا تھا یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا (الاعراف: 159) سو اگر چہ آنحضرت ﷺ کے عہدِ حیات میں وہ تمام متفرق ہدایتیں جو حضرت آدم ؑسے حضرت عیسیٰؑ تک تھیں قرآن شریف میں جمع کی گئیں لیکن مضمون آیت یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں عملی طور پر پورا نہیں ہو سکا کیونکہ کامل اشاعت اس پر موقوف تھی کہ تمام ممالک مختلفہ یعنی ایشیا اور یورپ اور افریقہ اور امریکہ اور آبادیِ دنیا کے انتہائی گوشوں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی تبلیغ قرآن ہو جاتی اور یہ اُس وقت غیر ممکن تھا بلکہ اُس وقت تک تو دنیا کی کئی آبادیوں کا ابھی پتہ بھی نہیں لگا تھا اور دور دراز سفروں کے ذرائع ایسے مشکل تھے کہ گویا معدوم تھے۔ بلکہ… 1257 ہجری تک بھی اشاعت کے وسائل کاملہ گویا کالعد م تھے اور اس زمانہ تک امریکہ کُل اور یورپ کا اکثر حصہ قرآنی تبلیغ اور اس کے دلائل سے بے نصیب رہا ہوا تھا…۔
غرض آیتِ موصوفہ بالا میں جو فرمایا گیا تھا کہ اے زمین کے باشندو! مَیں تم سب کی طرف رسول ہوں عملی طور پر اس آیت کے مطابق تمام دنیاکو ان دنوں سے پہلے ہرگز تبلیغ نہیں ہو سکی اور نہ اتمام حجت ہوا کیونکہ وسائلِ اشاعت موجود نہیں تھے۔ اور نیز زبانوں کی اجنبیت سخت روک تھی۔ اور نیز یہ کہ دلائل حقّانیت اسلام کی واقفیت اس پر موقوف تھی کہ اسلامی ہدایتیں غیر زبانوں میں ترجمہ ہوں اور یا وہ لوگ خود اسلام کی زبان سے واقفیت پیدا کر لیں۔ اور یہ دونوں امر اُس وقت غیر ممکن تھے۔ لیکن قرآن شریف کا یہ فرمانا کہ وَمَنْ بَلَغَیہ امید دلاتا تھا کہ ابھی اَور بہت سے لوگ ہیں جو ابھی تبلیغ قرآنی اُن تک نہیں پہنچی۔ ایسا ہی آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ:4) اس بات کو ظاہر کر رہی تھی کہ گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہدایت کا ذخیرہ کامل ہو گیا مگر ابھی اشاعت ناقص ہے اور اس آیت میں جو مِنْھُمْ کا لفظ ہے وہ ظاہر کر رہا تھا کہ ایک شخص اس زمانہ میں جو تکمیل اشاعت کے لئے موزون ہے مبعوث ہوگا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں ہوگا اور اس کے دوست مخلص صحابہ کے رنگ میں ہوں گے‘‘
(تحفہ گولڑویہ ،روحانی خزائن جلدنمبر 17صفحہ 261-258)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش تھی کہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں میں اسلام کی اشاعت کے لئے قرآن کریم کی ایک تفسیر بھی تیار کر کے اور انگریزی میں ترجمہ کرا کے بھیجی جائے اور فرمایا کہ
’’مَیں اس بات کو صاف صاف بیان کرنے سے رَہ نہیں سکتا کہ یہ میرا کام ہے۔ دوسرے سے ہرگز ایسا نہیں ہوگا جیسا مجھ سے یا جیسا اُس سے جو میری شاخ ہے اور مجھ ہی میں داخل ہے‘‘
(ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد 3صفحہ 518)
چنانچہ جماعت احمدیہ کی 130سالہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کا وہ مبارک کام جس کا آغاز حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقدّس ہاتھوں سے ہوا تھا وہ الٰہی وعدوں کے مطابق آپؑ کے بعد ظاہر ہونے والی قدرت ثانیہ یعنی خلافت حقّہ اسلامیہ احمدیہ کے ذریعہ نہایت کامیابی اور کامرانی کے ساتھ مسلسل وسعت پذیر ہے ۔ اور جیساکہ قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ میں بشارت دی گئی تھی خلافت حقّہ اسلامیہ احمدیہ سے وابستہ افراد جماعت احمدیہ اس سلسلہ میں اپنے ا مام کے تابع تمام ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے دامے،درمے ،سخنے ہر قسم کی قربانیاں پیش کرتے ہوئے نہایت محنت اور اخلاص اور جانفشانی کے ساتھ مصروف جہاد ہیں۔
دورِ خلافتِ اُولیٰ
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کی ہدایت پر انگریزی ترجمہ قرآن کریم کا کام مولوی محمد علی کے سپرد کیا گیا اور اس کے لئے انہیں تمام ممکنہ ضروری سہولیات فراہم کی گئیں اور زرِ کثیر خرچ کیا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ خود بنفس نفیس انگریزی ترجمہ قرآن کے نوٹس سنتے اور حقائق و معارف قرآن بیان فرماتے۔ آپؓ کی دلی خواہش تھی کہ انگریزی ترجمہ قرآن جلد شائع ہو۔ ترجمہ کے نوٹ آخری مراحل پر تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کی وفات ہوگئی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ خلیفۃ المسیح منتخب ہوئے تو مولوی محمد علی اور ان کے رفقاء نے آپؓ کی خلافت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ بعد میں وہ قادیان کو چھوڑ کر لاہور منتقل ہو گئے اور ترجمہ قرآن کا وہ مسودہ جو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکی زیر ہدایت و نگرانی تیار ہوا تھا وہ بھی ساتھ لےگئے۔
دورِخلافتِ ثانیہ
اس کے بعدحضرت مصلح موعودؓنے اس طرف توجہ فرمائی ۔ آپ ؓ نے 1915ء میں ایک پارہ کی تفسیر خود لکھی اور وہ اردو اور انگریزی میں طبع بھی ہوئی۔ اور فرمایا کہ مَیں ایک نمونہ قائم کر رہا ہوں۔ جماعت کے علماء کا کام ہے کہ وہ اسی طرز پر اس کو آگے بڑھائیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مولوی شیر علی ؓ،حضرت خان بہادر ابو الہاشم خان ؓ اور حضرت ملک غلام فرید ؓ کو یہ ذمہ داری سونپی اور ان کی مجموعی کوششوں سے ایک مکمل اور مستند انگریزی ترجمہ اور پھر اس کی تفسیر بھی شائع ہوئی۔ قرآن مجید کی انگریزی تفسیر قریباً3 ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہے جو عجیب و غریب قرآنی معارف کا حسین و دلفریب مرقع ہے۔ اس کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کا دیباچہ بھی ہے۔ یورپ اور امریکہ کے چوٹی کے اہل علم نے اس کو سراہا۔ اسی طرح مسلمان مشاہیرنے بھی اس کی تعریف کی۔
ایک مستشرق رچرڈ بیل نے اسے قرآنی تعلیمات کو ایک ایسی شکل میں پیش کرنے کی کوشش قرار دیا جو موجودہ زمانہ کی ضروریات کے مناسب حال روحانی زندگی اور تبلیغی جدوجہد کی آئینہ دار ہے اور مجموعی لحاظ سے روشن خیالی اور ترقی پسندی پر دلالت کرتی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے 1944ء میں مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت سے متعلق خصوصی تحریک فرمائی۔ چنانچہ آپؓ نے 20اکتوبر1944ء کو دنیا کی 8 مشہور زبانوں انگریزی ، روسی، جرمن، فرانسیسی، اطالوی، ڈچ، ہسپانوی اور پرتگیزی زبان میں قرآن مجید کے تراجم کی عظیم الشان تحریک فرمائی اور پھر اپنے عہد خلافت میں اس کی تکمیل کے لئے کامیاب جدوجہد فرمائی۔
جیسا کہ قرآن مجید میں وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کے الفاظ میں پیشگوئی تھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کے دوست مخلص صحابہؓ کے رنگ میں ہوں گے، جماعت احمدیہ کے افراد مردو زن نے اس تحریک پر جس شان کے ساتھ اور والہانہ طور پر لبّیک کہا وہ غیر معمولی ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کے اندازہ کے مطابق ان تراجم اور ان کی چھپوائی کے لئے 1لاکھ 94ہزار روپے کی ضرورت تھی جس کا آپؓ نے جماعت سے مطالبہ کیا ۔لیکن مسیح پاکؑ اور خلافت حقّہ کی فدائی جماعت نے 2 لاکھ 60 ہزار روپے کے وعدے قلیل عرصہ میں پیش کر دئیے اور پھر ان کا اکثر حصہ وصول ہو گیا اور 2 سال کے عرصہ میں مذکورہ بالا ساتوں زبانوں میں تراجم مکمل ہوگئے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:
’’قرآن کے سات مختلف زبانوں میں جو تراجم ہو رہے تھے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہوگئے ہیں اور ان کی ایک اور نقل بینک میں محفوظ کر لی گئی ہے۔ صرف اس بات کا انتظار ہے کہ ہمارے مبلغین ان زبانوں کو سیکھ کر ان پر نظر ثانی کر لیں تا غلطی کا امکان نہ رہے‘‘
(الفضل 28دسمبر 1946ء)
الغرض حضرت مسیح موعود ؑ کے مقدس خلفاء کی نگرانی میں اور ان کی تحریکات کے مطابق مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور ان کی اشاعت کا مبارک سلسلہ مسلسل آگے بڑھتا رہا۔
خلافتِ ثانیہ کے عہد میں اردو ،ڈچ ،سواحیلی، جرمن اور انگریزی۔ کُل پانچ زبانوں میں مکمل قرآن کریم کے تراجم طبع ہوئے۔ جبکہ ڈینش میں پہلے سات پاروں کا ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹس اوریوگنڈا کی زبان لوگنڈا میں پہلے پانچ پاروں کا ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹس اور مینڈے زبان میں پہلے پارہ کا ترجمہ شائع ہوا۔
دورِخلافتِ ثالثہ
خلافت ثالثہ کے دور میں یہ سلسلہ آگے بڑھا اور ڈینش، اسپرانٹو، انڈونیشین اور یوروبا چارمزید زبانوں میں مکمل قرآن کریم کے تراجم طبع ہوئے۔ اسی طرح انگریزی میں تفسیرالقرآن کا ایک جلد میں خلاصہ پہلی بار شائع ہوا۔نیز سویڈش اور فجین زبان میں جزوی طورپر بعض پاروں کا ترجمہ طبع ہوا ۔
دورِخلافتِ رابعہ
خلافت رابعہ کے پہلے دو سالوں (1982ء۔1983ء) میں گورمکھی اور لوگنڈا زبان میں مکمل قرآن کریم کے تراجم طبع ہوئے۔
1984ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے ظالمانہ آرڈیننس 20 کی وجہ سے پاکستان سے ہجرت کرنا پڑی اس وقت تک گیارہ زبانوں میں مکمل قرآن کریم کے تراجم شائع ہو چکے تھے۔
1989ء کا سال جماعت کی تاسیس پر سو سال مکمل ہونے کے لحاظ سے صد سالہ جوبلی کا سال تھا اور جماعتی تاریخ میں یہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے شایان شان دیگر پروگراموں کی طرح مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت کا منصوبہ بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے اپریل 1984ء میں پاکستان سے ہجرت کے بعد سے جولائی 1989ء تک کے ہجر ت کے پانچ سالوں میں حسب ذیل 16نئی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم طبع ہوئے۔
1۔ فرنچ 2۔اٹالین 3۔ فجین 4 ۔ہندی
5۔ رشین 6۔پرتگیزی 7۔سویڈش 8۔ کورین
9۔ کیکویو 10۔سپینش 11۔جاپانی 12۔ملائی
13 ۔فارسی 14۔ سندھی 15۔ بنگلہ 16۔اُڑیہ
اٹالین، ملائی (Malay) اور فارسی ترجمہ سے متعلق طباعت پر معلوم ہوا کہ جلدی میں ان میں بعض غلطیاں رہ گئی ہیں چنانچہ ان تراجم کی سرکولیشن روک دی گئی اور از سر نو ان پر کام شروع کیا گیا۔فارسی ترجمہ ریویژن کے بعد شائع ہو چکا ہے ۔باقی پر ابھی کام جاری ہے۔
1989ء میں کئی تراجم طباعت کے مختلف مراحل میں تھے اور جلسہ سالانہ یو۔ کے تک شائع نہیں ہو سکے تھے۔چنانچہ اگست 1989ء سے جولائی 1990ء تک کے صرف ایک سال کے عرصہ میں حسب ذیل 15مزید نئی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کرنے کی سعادت جماعت کو حاصل ہوئی۔
1۔البانین 2۔مینڈے 3۔گریک 4۔تامل 5۔ویتنامی 6۔گجراتی 7۔ٹرکش 8۔ طوالوئن 9۔چینی 10۔پشتو 11۔پولش 12۔چیک 13۔سرائیکی 14۔پنجابی 15۔اِگبو
اس طرح 1984ء میں جماعت کے زیر انتظام مختلف زبانوں میں شائع کر دہ تراجم قرآن کریم کی جو تعداد صرف گیارہ تھی وہ جولائی 1990ء تک 42میں تبدیل ہو چکی تھی۔چھ سال کے قلیل عرصہ میں 31 نئے تراجم کے ساتھ یہ قریباًچار گنا اضافہ تھا اور ابھی کئی تراجم تکمیل کے بعد طباعت کے مختلف مراحل میں سے گزر رہے تھے۔
چنانچہ 1994ء تک جماعت احمدیہ کوآٹھ مزید زبانوںبلغارین، ملیالم، منی پوری، سندھی، تیگالاگ، تیلگو، ہاؤسا، مراٹھی کے اضافہ کے ساتھ مجموعی طور پر 50زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی طباعت کی سعادت حاصل ہو چکی تھی۔
اس کے بعد نارویجین، کشمیری، سنڈانیز، نیپالی، جُولا اور کیکامبا میں تراجم قرآن شائع ہوئے اور یوں 1982ء سے لے کر 2003ء تک صرف خلافتِ رابعہ 21 سالہ عہد سعادت میں47 زبانوں میں مکمل قرآن مجید کے تراجم طبع ہوئے۔ جبکہ اس کے علاوہ تھائی، میانمار اور جاوانیز زبانوں میں پہلے دس پاروں کا ترجمہ شائع ہوا۔
دورِخلافتِ خامسہ
خلافتِ خامسہ کے بابرکت دَور میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نئے تراجم قرآن کریم کی تیاری اور ان کی اشاعت کا یہ کام بلندی کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔
چنانچہ 2003ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ کے منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد سے اب تک درج ذیل 19زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم طبع ہو چکے ہیں۔
قتلان، کریول (ماریشس)، کناڈا، اُزبک، فُولا، میڈنکا، وولف، مورے(بورکینا فاسو)، بوسنین، مالاگاسی ، تھائی (اس کے پہلے دس پاروں کا ترجمہ 1999ء اور پارہ نمبر 11 تا 20 کا ترجمہ 2006ء میں شائع ہوا،جبکہ مکمل ترجمہ قرآنِ کریم جون 2008ءمیں طبع ہوا)،قرغز، اسانٹی چوئی، ماؤرے (نیوزی لینڈ)، میانمار(اس کے پہلے دس پاروں کا ترجمہ 2003ء اور پارہ نمبر 11 تا 20 کا ترجمہ 2012ء میں شائع ہوا ،جبکہ مکمل ترجمہ قرآنِ کریم جولائی 2015ءمیں طبع ہوا)، کیریول(گیمبیا)، یاؤ(تنزانیہ)، سنہالہ (سری لنکا)، ڈوگری ۔
اس کے علاوہ کئی تراجم قرآن مجیدکے نئے ایڈیشن بہتر کمپوزنگ اور تراجم کی ریویژن اور ان میں تشریحی نوٹس کے اضافوں کے ساتھ بھی شائع ہوئے ۔اور اشاعت قرآن کریم کا یہ سلسلہ خلافت حقہ کی برکت سے مسلسل ترقی پذیر ہے ۔اَللّٰھُمَّ زِدْ وَ بَارِکْ۔
ساری دنیا میں خلافت احمدیہ سے وابستہ جماعت احمدیہ وہ واحد جماعت ہے جسے تن تنہا اتنی بہت سی زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت کی توفیق حاصل ہوئی ہے۔
امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے مقدس خلفائے کرام اور آپؑ کے سچے متبعین ہی وہ ’’سَفَرَۃٍ کِرَامٍ بَرَرَۃٍ‘‘ ہیں جن کے ہاتھوں میں خدا تعالیٰ نے دنیا بھر میں قرآن کی سچی خدمت اور اس کی عظمت کے اظہار کا علَم تھمایا ہے۔ جو کسی تلوار اور نیزہ سے نہیں، کسی بندوق یا توپ یا بم کے زور سے نہیں بلکہ قرآن کا حربہ ہاتھ میں لے کر، اس کے نُور کو اپنے سینوں میں بسا کر، حجت اور بُرہان اور زمینی و آسمانی نشانات اور الہٰی نصرت و تائیدات کے ساتھ ساری دنیا میں جہاد کبیر میں مصروف ہیں۔ اور صرف اپنے قول سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے قرآنی تعلیمات کی حقّانیت اور قرآنی برکات و تاثیرات کے تازہ بتازہ اور شیریں و خوشبودار ثمرات کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے اس کتاب کے زندہ کتاب ہونے اور اس کی عظمتوں پر گواہ ہیں۔
(مولانا نصیر احمد قمر۔لندن)