2020ء کا سورج انسانیت کےلئے کرونا وائرس کی صورت میں ایک نیا چیلنج لے کر طلوع ہوا۔ یہ جان لیوا وائرس اب تک 1.5 لاکھ سے زائد انسانی جانیں لے چکا ہے۔ اس نے دنیا کے ہر کونے میں بسنے والےانسانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا واقعی انسان جو اپنے آپ کو بہت عقلمند خیال کرتا ہے۔ اس کی یہ استعداد بھی نہیں کہ ایک مچھر سے بھی چھوٹے وائرس کا مقابلہ کرسکے؟جیسا کہ ہمارے پیارے امام ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10 اپریل 2020 ءمیں اس آیتِ قرآنی کا ذکر فرمایا تھا کہ قَالَ الۡاِنۡسَانُ مَا لَہَا (الزلزال:4) انسان کہے گا کہ اسے کیا ہوگیا ہے؟ درحقیقت ایسی ہی حالت ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہے۔ اور ایسے مشکل وقت میں وہ لوگ جو اپنے خالق کو مکمل طور پر بھول چکے تھےبلکہ اس کی ذات کے ہی منکر تھے وہ بھی ایک خالق کی ضرورت کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ کہ کوئی ایسی اعلیٰ ذات ہو جو معجزے سے اس وباء سے انسانیت کو بچا لے۔ مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جو ابھی تک انسانی حیلوں کو ہی بچاؤ کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں۔
خداتعالیٰ کے فضل سے جماعتِ احمدیہ مسلمہ وہ واحد جماعت ہے۔ جس کو خدا تعالیٰ نے اس خوف کی حالت میں بھی خلیفۃ وقت کی صورت میں امن عطا کیا ہوا ہے۔ خلافت کے حصار میں ہونے کے باعث ہم نہ صرف اس وباء سے بچاؤ کے تمام دنیاوی حل کر رہے ہیں بلکہ روحانی حل بھی کررہے ہیں۔ جو کہ بہر حال حقیقی حل بھی ہے۔ اور ہر فردِ جماعت خلیفۃ وقت کی ہر ہدایت پر دل و جان سے عمل پیرا ہورہا ہے اور نہ صرف دعاؤں کے ذریعہ سے بلکہ خدمتِ انسانی میں بھی بڑھ چڑھ کرعملی حصہ لے رہا ہے۔
اسی ضمن میں، میں ایک احمدی مسلمان کی اطاعتِ خلافت اور اس سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا کچھ عرضِ حال بیان کرنا چاہتی ہوں۔ گزشتہ ماہ نیشنل امیر کی جانب سے ساری جماعت کو یہ ہدایات موصول ہوئیں کہ غیر ضروری طور پر گھروں سے نہ نکلا جائے اور اس وبا سے بچنے کی حتی الوسع کوشش کی جائے۔ اس ہدایت کے سنتے ہی خاکسار نے معمول کی سیر پر جانا چھوڑ دیاحتیٰ کہ اپنے بھائی جن کا گھر کچھ گز کے فاصلہ پر ہے اس حکم کےپیشِ نظر ان کے گھر جانا چھوڑ دیا۔ گو اس بات کا احساس بھی تھا کہ بیماری سے بھی بچنا ہے، لیکن امیر کا حکم اور اطاعت اپنی صحت سے بڑھ کر اہم تھا جو کہ ہر احمدی نے اطاعتِ خلافت سے سیکھا ہے اسی دوران حضورِ انور ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک خطاب جو کہ ہیومینیٹی فرسٹ کے ایک پروگرام کے موقع پر آپ فرما رہے تھے سننے کا موقع ملا۔ جس میں آپ نے فرمایا کہ ہمیں اس بات کا انتظار نہیں کرنا کہ کوئی ہم سے مدد مانگے تو ہم اس کی مدد کریں بلکہ ہمیں آگے بڑھ کر خود انسانیت کی خدمت کرنی ہے۔ یہ خطاب سن کر ہر احمدی کی طرح میرے دل میں بھی خدمتِ خلق کا جزبہ پیدا ہوا اور دعا بھی کی کہ اللہ تعالیٰ کوئی موقع مہیّا کردے۔ ابھی اس بات کو کچھ دن ہی گزرے تھے کہ مقامی لجنہ صدر کی جانب سے یہ پیغام آیا کہ ہیومینیٹی فرسٹ (Humanity First Canada) کو رضاکاروں (volunteers) کی ضرورت ہے۔ خاکسار نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے کسی بھی تردّد کے بغیر اسی لمحہ اپنے آپ کو پیش کردیا۔ اور آج قریباً ایک مہینہ بعد خاکسار نے گھر سے قدم نکالا اور ہیومینیٹی فرسٹ کے دفتر کو روانہ ہوئی۔ وہاں پہنچ کر ہدایات ملنے کے بعد کام شروع کیا اور باقی خدمت گزاروں کےساتھ مل کر ضرورت مند خاندانوں کے لئے ان کی ضرورت کےمطابق راشن بیگ بنائے اور دیگر کام سرانجام دیئے۔ یہ میرا اس نوعیت کا پہلا تجربہ تھا۔جہاں اور بہت سی چیزیں میرے لئے دلچسپی کا باعث تھیں وہاں ایک بات جو میرے مشاہدہ میں آئی وہ اس ادارے میں خدمت سرانجام دینے والے افراد کا بلند اخلاق تھا جس کا مظاہرہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کر رہے تھے اورخصوصاً ان لوگوں سے کر رہے تھے جو راشن لینے آرہے تھے۔ اس کے علاوہ آنے والوں کی ضروریات کا خیال بھی قابلِ دید تھا۔
الغرض یہ موقع میرے لئے ایک لذّت بھرے تجربہ سے کم نہ تھا۔ اور اس سارے وقت میں گو بہت سارے لوگوں سے ہمارا سامنا ہوامگر کسی سے بھی وباء کے لگنے کا چنداں خیال دل میں نہ آیا۔ کیونکہ دل میں ایک تسلیّ تھی کہ خدا کی مخلوق کی خدمت کو گھر سے نکلے ہیں وہی مالک حفاظت بھی کریگا۔ بفضلِ اللہ تعالیٰ گھر پہنچ کر جب سارے دن کے متعلق سوچا تو ذہن میں لجنہ اماءاللہ کا عہد یاد آیا جو ہم ہر جماعتی پروگرام میں دہراتے ہیں کہ“میں اپنی جان، مال، وقت اور اولاد کی قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہوں گی۔‘‘
گویا کہ ایک مہینہ اپنی ہر ضرورت، ہر تعلق کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اس خاکسار اور تمام احباب نے وقت گزارا۔ لیکن جونہی جماعت کی جانب سے آواز پڑی تو سب نے یک زباں ہوکر لبیّک کہا۔یہ سوچے بغیر کہ اس سے کہیں ہماری صحت خراب نہ ہوجائے یاکہیں گھر والے نہ بیمار پڑ جائیں۔ الغرض جماعت سے اور خلیفۃ وقت سے کیا ہوا عہد ہر دوسری فکر اور ذاتی سوچ پر غالب آگیا۔ اور یہ جذبہ محض خدا کے فضل اور خلافتِ احمدیہ و خلیفہ وقت کی محبت اور اطاعت کا ہی ثمر ہے۔جو ہر احمدی کو تمام دنیا پر جہاں ایک امتیاز بخشتا ہے وہیں ہم پر بہت بڑی ذمہ داری بھی ڈالتا ہے۔
پس آج اگر وفا اور عہد نبھانے کی مثال دنیا میں کہیں دیکھنی ہو تو وہ یقیناً اس الہٰی جماعت کے ہر ایک مرد و زن، بچےاور جوان میں نظر آئے گی جو اس بے مثال وفا کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں۔ اور یہ خلافت ہی کی برکتیں ہیں۔ الحمداللہ
اللہ تعالیٰ ہر انسان کو اور ہر احمدی کو خصوصاً اس وائرس سے محفوظ رکھے اور ہمیں بڑھ چڑھ کر دعاؤں پر توجہّ دینے اور اپنے تمام عہدوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔تا ہم ہمیشہ خلافت کی برکات سے حصہّ پاتے رہیں۔ آمین
کڑی اس دھوپ میں سدرہؔ یہ جو ٹھنڈی ہوائیں ہیں
خلافت کی ہی برکت ہے یہ جو ساری عطائیں ہیں
(سدرۃ المنتہیٰ۔کینیڈا)