• 24 جون, 2025

قرآن کریم کی روحانی اور مادی تاثیرات

قسط نمبر 3۔4

تسلسل کیلئے دیکھئے 30۔اپریل 2020ء

مشہور شاعر قیس بن الحظیم

قیس بن الحظیم انصاری اوس قبیلہ کے مشہور شاعر تھے۔ ان کاقبول اسلام بھی قرآن سننے کے نتیجہ میں تھا۔جب ان کو آنحضرت ﷺ کی بعثت کا علم ہوا تو مکہ آئے۔اس پر آنحضرت ﷺ نے اُنہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن کریم کی آیات سنائیں اور وہ اسلام لے آئے۔آپ نےواپس جاکر اپنے قبیلہ میں اس کا تذکرہ کیا کہ میں نے ایسا عجیب کلام سنا ہےجو پہلے کبھی نہیں سنا۔

(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃجلد5ص557)

قرآن کریم سن کر اسلام قبول کرنا

اسعدؓبن زرارہ بنوخزرج کے خاندان نجار سے تھے۔ ان کا قبول اسلام بھی رسول اللہ ﷺ سے قرآن شریف کی تلاوت سننے کے بعد ہوا۔ اس زمانے میں مدینہ کے مختلف قبائل میں باہم آویزش تھی۔ جنگ کی تیار ی ہورہی تھی۔ اسعد ؓ اپنے ساتھی ذکوان کے ساتھ مکہ میں اپنے ایک دوست سردار عتبہ بن ربیعہ کے ہاں امداد کے طالب ہوکر گئے،وہیں اُنہیں حضور ﷺ کے دعوے کی تفصیل کا علم ہوا۔ وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضورﷺ نے خود ان کو اسلام کا پیغام سمجھایا اور قرآن شریف کی تلاوت سنائی۔ وہ طبعاً پہلے ہی توحید کی طر ف راغب تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی مؤثر دعوت الیٰ اللہ سے وہ اسلام قبول کرکے واپس مدینہ لوٹے۔ روایات میں ہے کہ مدینہ میں اُنہوں نے خاموشی سے اسلام کا پیغام پہنچانا شروع کیا اسی کے نتیجہ میں چھ افراد پر مشتمل وفد نے حج کے موقع پر اُن کے ساتھ پہلی دفعہ عقبہ مقام پر حضور ؐسے ملاقات کی۔ حضرت اسعدؓ بیعت عقبہ ثانیہ میں بھی شامل تھے اور بنو نجّار کے نقیب (سردار) کے طور پر ان کو خدمت کی سعادت ملی۔

(سیرۃ ابن ھشام جلد1ص435)

قیس بن عاصمؓ کاسورۂ رحمان سن کر اسلام قبول کرنا

سردار ِقریش اور شاعرقیس بن عاصمؓ سن 9ہجری میں وفد تمیم کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا کہ جو وحی آپؐ پر نازل ہوئی ہے۔ اُس میں سے کچھ سنائیں نبی کریم ﷺ نے سورة الرحمان سنائی وہ کہنے لگا دوبارہ سنائیں۔ آپؐ نے پھر سنائی اُس نے تیسری بار پھر یہی سورت سنانے کی درخواست کی تو آپؐ نے پھر سنائی جس پر وہ کہہ اُٹھا خدا کی قسم اس کلام میں ایک روانی اور شیرینی ہے اگراس کلام کا نچلا حصہ زرخیز ہے تو اُوپر کا حصہ پھلدار ہے۔ اور یہ انسانی کلام نہیں ہوسکتا۔ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کوئی معبود نہیں اور آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔

(تفسیر قرطبی سورة الرحمان جلد17ص 151)

جبیر بن مطعم ؓ کا سورۂ طور سن کر قبول اسلام

مکہ کے مشرک سردارجبیربن مطعم بدر کے اسیران کو چھڑانے کیلئے مدینہ آئے۔ وہ مسجدنبویؐ میں داخل ہوئے تو آنحضورﷺ نماز مغرب پڑھا تے ہوئے سورۃ الطور کی تلاوت فرما رہے تھے۔جب انہوں نے یہ آیات سنیں اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ مَّا لَہٗ مِنۡ دَافِعٍ (الطور:9،8) کہ تیرے ربّ کا عذاب واقع ہونیوالا ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا۔ تو آپ کو محسوس ہوا کہ جیسے ان کادل پھٹ گیا ہو۔ قرآنی تاثیر اپنا کام کرچکی ہے۔اگرچہ اُنہیں اس موقع پر تو اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل نہ ہوئی تاہم پانچ سال بعدجنگ خیبر یا فتح مکہ کے سال آپ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔

(مسند احمد جلد4 ص83۔الاستیعاب جلد1 ص69)

ایک دوسری روایت کے مطابق امام قرطبی لکھتے ہیں کہ سورہ طور کی یہ آیات سُن کر اُنہیں ایسا لگا کہ جیسے اُن کا دِل پھٹ گیا ہواور عذاب کے نازل ہونے کے خوف سے اسی وقت اسلام لے آئے۔

(تفسیر قرطبی جلد17 ص62)

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت جبیر بن مطعمؓ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے نبی کریمؐ کو نماز مغرب میں سورۃ الطور تلاوت کرتے سنا۔ جب آپؐ اس آیت پر پہنچے اَمۡ خُلِقُوۡا مِنۡ غَیۡرِ شَیۡءٍ اَمۡ ہُمُ الۡخٰلِقُوۡنَ اَمۡ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۚ بَلۡ لَّا یُوۡقِنُوۡنَ اَمْ عِنۡدَہُمۡ خَزَآئِنُ رَبِّکَ اَمۡ ہُمُ الۡمُصَۜیۡطِرُوۡنَ (36 تا 38) یعنی کیا وہ بغیر کسی چیز کے (خودبخود) پیدا کردئیے گئے یا وہی خالق ہیں؟ کیا اُنہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ وہ (کسی صورت) یقین نہیں لائیں گے۔کیا اُن کے پاس تیرے ربّ کے خزانے ہیں یاوہ (اُن پر) داروغے ہیں؟ حضرت جبیر ؓ کہتے ہیں اُس وقت ایسے معلوم ہوا جیسے اُن کادل پرواز کرجائیگا۔

(بخاری کتاب التفسیر سورۃ الطور)

سورہ العنکبوت کی آیت کا ایک یہودی پراثر

ابو الخیر نامی ایک یہودی طبیب تھا جو پارسا طبع اور راستباز انسان تھا۔وہ خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک جانتا تھا۔ ایک دفعہ بازار میں چلا جاتاتھاکہ مسلمانوں کے ایک مدرسہ سے اُسےتلاوتِ کلام پاک کی آواز آئی کہ کوئی قاری قرآن شریف کی یہ آیت تلاوت کر رہا تھاکہ الٓـمّٓ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ (العنکبوت:2۔3) میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ کیا لوگ یہ گمان کر بیٹھے ہیں کہ یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لے آئے وہ چھوڑ دئیے جائیں گے اور آزمائے نہیں جائیں گے؟

اِس آیت نے ابو الخیر پراتنا اثر کیا کہ اُس کا دل گداز ہوگیا اور وہ مسجد کی دیوار کے ساتھ کھڑا ہوکر زاروقطار روتارہا۔ پھر آگے روانہ ہوگیا۔ رات کو حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی۔آپؐ نے فرمایا۔

یَااَبَاالْخَیْراَعْجَبَنِی اَنَّ مَثَلُکَ مَعَ کَمَالِ فَضْلکَ یَنْکُرُ بِنَبُوَّتِی۔ یعنی اے ابو الخیرمجھے تعجب ہےکہ تیرے جیسا انسان باوجود اپنے کمال فضل اور بزرگی کے میری نبوت سے انکار کرے۔ صبح ہوتے ہی ابو الخیر نے اپنے اسلام کا اعلان کر دیا۔

(تتمة صوان الحكمة جلد1ص3)

سورۂ رحمان اور جنّوں کے وفدکا قبول اسلام

حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ انہیں سورہ رحمان کی تلاوت سنائی۔ صحابہ محوحیرت ہوکر خاموشی سے سنتے رہے۔ رسول کریم ﷺ نے سورت کی تلاوت مکمل ہونے پر اس سکوت کو توڑتے ہوئے فرمایا کہ میں نے ایک قوم جنّ کو جب یہ سورت سنائی تو اُنہوں نے تم سے بھی بہتر نمونہ دکھایاتھا۔ جب بھی میں نے فَبِاَیِّ اٰلٓاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ کی آیت پڑھی جس کا مطلب ہے کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کروگے تو وہ قوم جواب میں کہتی تھی۔ لَا بِشَیٍٔ مِنْ نِعمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ وَلَکَ الْحَمْدُ۔ یعنی اے ہمارے رب ہم تیری نعمتوں میں سے کسی چیز کو جھٹلاتے نہیں اور سب تعریفیں تیرے لئے ہیں۔

(ترمذی کتاب التفسیر سورہٴ رحمان)

یہ علاقہ نصیبین کا وہی یہودی وفد ہے جس کاسورۂ جنّ میں ان الفاظ میں بھی ذکر ہے قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الرُّشۡدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ؕ وَ لَنۡ نُّشۡرِکَ بِرَبِّنَاۤ اَحَدًا وَّ اَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّ لَا وَلَدًا (الجن:2 تا 4) یعنی تو کہہ دے میری طرف وحی کیا گیا ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن کو) توجہ سے سنا تو انہوں نے کہا یقیناً ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔ جو بھلائی کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ پس ہم اس پر ایمان لے آئےاور ہم ہرگز کسی کو اپنے رب کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔ اور (کہا) کہ یقیناً! ہمارے رب کی شان بلند ہے۔اس نے نہ کوئی بیوی اپنائی اور نہ کوئی لڑکا۔

سورۃالصافات کی آیات اور کندہ قبیلہ

کندہ یمن کے ایک قبیلے کا نام ہے 80 گھڑسواروں کا وفد اپنے سرداراشعث بن قیس کے ساتھ سنہ10ہجری میں بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا۔ اس وفد نے کوئی نشانِ صداقت طلب کیا۔ آپؐ نے قرآن شریف کے اعجازی کلام کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے فرمایا۔ لَا یأْتِیْهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یدَیْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ (مستدرک حاکم جلد2 ص479) یعنی یہ ایسا کلام ہے جس پر کبھی بھی باطل اثر انداز نہیں ہوسکتانہ آگے سے نہ پیچھے سے۔پھر آپ نے سورہٴ صٰفّٰت کی ابتدائی چھ آیات کی خوش الحانی سے تلاوت کی۔ وَالصّٰٓفّٰتِ صَفًّافَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا فَالتّٰلِیٰتِ ذِکْرًااِنَّ اِلٰھَکُمْ لَوَاحِدٌ۔رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَابَیْنَھُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ (الصّٰفّٰت:1 تا 6) ترجمہ: قطار درقطار صف بندی کرنے والی (فوجوں) کی قسم پھر اُن کی جو للکارتے ہوئے ڈپٹنے والیاں ہیں۔ پھر ذکربلند کرنے والیوں کی۔ یقیناً تمہارا معبود ایک ہی ہے۔آسمانوں کا بھی ربّ ہے اور زمین کا بھی اور اس کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے اور تمام مشرقوں کا ربّ ہے۔

یہاں تک تلاوت کر کے حضور ﷺ رُک گئے اورآپؐ کی آواز بھراکر گلوگیر ہوگئی تھی۔ آپ ساکت و صامت اور بے حس و حرکت بیٹھے تھے ۔ آنکھوں سے رواں آنسو ٹپ ٹپ ریش مبارک پر گر رہے تھے۔ کندہ قبیلہ کے لوگ یہ عجیب ماجرا دیکھ کر حیران ہورہے تھے۔ کہنے لگے کیا آپ اپنے بھیجنے والے کے خوف سے روتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں اسی کا خوف مجھے رُلاتا ہے جس نے مجھے صراطِ مستقیم پر مبعوث فرمایاہے۔مجھے تلوار کی دھار کی طرح اُس راہ پر سیدھا چلنا ہے اگر ذرا بھی مَیں نے اس سے انحراف کیا تو ہلاک ہوجاؤں گا۔

(السیرة الحلبیہ جلد3 ص92 بیروت)

کندہ قبیلہ کا یہ وفد آنحضرت ﷺ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے بعد اسلام لے آیا۔ چنانچہ اس قبیلہ کے سردار اشعث بن قیس کا رشتہ آنحضرت ﷺ نے ام فروہ بنت حضرت ابوبکرؓ سے فرمادیا۔

(أسد الغابۃ جلد1 ص61)

وفد حبشہ کی مدینہ آمد اور تلاوتِ رسولؐ سننا

حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کے ساتھ حبشہ سے کچھ ملّاح بھی آئے تھے۔ جب رسول کریم ﷺ نے اُنہیں قرآن کریم کی تلاوت سنائی تو وہ ایمان لے آئے اور اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ تم واپس اپنے ملک جاکر اپنے اس دین اسلام سے لوٹ تو نہیں جاؤگے؟ انہوں نے کہا۔ ہم اپنے دین سے ہرگز نہیں لوٹیں گے۔ اس واقعہ کا ذکر سورۃ المائدہ کی اس آیت میں ہے۔ وَ اِذَا سَمِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَی الرَّسُوۡلِ تَرٰۤی اَعۡیُنَہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ مِمَّا عَرَفُوۡا مِنَ الۡحَقِّ ۚ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاکۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰہِدِیۡنَ (المائدہ:84) اور جب وہ اُسے سنتے ہیں جو اس رسول کی طرف اُتارا گیا تو تُو دیکھے گا کہ اُن کی آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں اس کی وجہ سے جو اُنہوں نے حق کو پہچان لیا۔وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب!ہم ایمان لائے پس ہمیں گواہی دینے والوں میں تحریر کرلے۔

(المعجم الكبیر جلد12 ص55)

دوسری روایت میں ہے کہ صرف عیسائیوں نے اسلام قبول کرلیا اور بہت روئے یہاں تک کہ خشوع کی وجہ سے آنسوؤں سے ان کی داڑھیاں تر ہوگئیں۔چنانچہ واپس جاکر اُنہوں نے نجاشی کو سارا ماجرا سنایا۔

(تفسیر ابن كثیر جلد3 ص166)

قرآن کریم کی تاثیر کا دلوں پر اثر

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں۔
قرآن کریم میں یہ تاثیر ہے کہ اس کی کوئی سورة بھی آدمی پڑھے۔ اس کے دل میں اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی تاثیرات پیدا ہونے لگیں گی۔

(تفسیر کبیر جلد3 ص161)

اس سلسلہ میں قرآن شریف کی بعض سورتوں اور آیات کےمتعلق احادیث نبویؐ میں مذکورہ واقعات کا ذکر کیا جاتا ہے۔

سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی آخری آیات کااثر

حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جبریل ؑ نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف فرماتھے کہ اُوپر سے ایک آواز سنائی دی۔ آپؐ نے سر اٹھایا تو جبریلؑ نے کہا یہ آسمان کا دروازہ ہےجو صرف آج کے دن کھلا ہے اور اس سے پہلے کبھی کھولا نہیں گیا۔چپھر اس سے ایک فرشتہ اُترا تو جبریل ؑ نے کہا یہ فرشتہ بھی روئے زمین پر آج ہی اُترا ہے اور آج سے قبل کبھی نہیں اُترا۔ اس فرشتہ نے سلام کیا اور کہا (اےمحمدؐ!) آپؐ کو دو نوروں کی بشارت ہو جو صرف آپؐ کو عطا ہوئے اور آپؐ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے۔ وہ سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری آیات ہیں۔ آپؐ ان میں سے ایک حرف بھی پڑھیں گے تو آپؐ کو وہ نور عطا ہوگا۔

(بخاری ،کتاب صلاۃ المسافرین باب فضل الفاتحہ)

بسم اللہ کا اثر

رسول کریم ﷺ نے فرمایاکہ ہر اہم امر جو بسم اللہ کے بغیر شروع کیا جائے وہ بے برکت ہوتا ہے۔

(کنزالعمال جلد1 ص555)

رسول کریمﷺ کا صبر وحوصلہ اپنی مثال آپ ہے۔احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ تمام لوگوں سے بڑھ کر بہادر تھے اور دلیر تھے۔ (مسلم کتاب الفضائل باب فی شجاعۃ النبیؐ) مگر قرآن سن کر آپؐ کی خشیئت کا بھی یہ عالم ہوتا تھا کہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ مجھے ایک رات گزارنے کا موقع ملا۔آپؐ نے بسم اللہ کی تلاوت شروع کی اور رو پڑے یہاں تک کہ روتے روتے گر گئے۔پھر بیس مرتبہ بسم اللہ پڑھی ہر دفعہ آپؐ روتے روتے گر پڑتے۔ آخر میں مجھے فرمانے لگے وہ شخص کتنا نامراد ہے جس پر رحمٰن اور رحیم خدا بھی رحم نہ کرے۔

(الوفاء لابن الجوزی جلد1 ص373)

صحابۂ رسول ﷺ اور سماعِ قرآن

صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین بڑے دلیر بہادراور دل گردے والے صحابہ تھے۔جن کے متعلق قرآن کریم نےبھی گواہی دی ہے اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا (الفتح:30) یعنی آنحضرت ﷺ کے صحابہ ؓ کفار کے مقابل پر بہت سخت ہىں لیکن آپس مىں بے انتہا رحم کرنے والے ہیں اورتُو انہىں رکوع اور سجودمیں(خشوع وخضوع کی حالت میں روتے ہوئے) دىکھے گا وہ اللہ ہى سے فضل اور رضا چاہتے ہىں۔

ان کے بارہ میں بکثرت یہ واقعات ملتے ہیں کہ قرآن سُن کر اُن پر خشیئت اور رقّت کا عجب عالم ہوتا تھا۔
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عروۃ بن زبیرؓ نے اپنی دادی حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ سے پوچھا کہ صحابۂ رسولؐ جب قرآن کریم کی آیات کی تلاوت سنتے تھے تو اُن کے تاثرات کیا ہوتے تھے؟ اس پر حضرت اسماءؓ نے بتا یا کہ اُن کی حالت بالکل ویسی ہی ہوتی تھے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اُن کی کیفیت کا ذکر کیا ہےکہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے اور ان کے جسم کانپ اٹھتے تھے۔

(تفسیر قرطبی جلد15 ص249)

حضرت ابوبکرؓ

جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کے دائیں بائیں لڑنے والے بہادر حضرت ابوبکرؓ کا تلاوت قرآن کے وقت یہ حال ہوتا تھاکہ صبح کے وقت قرآن شریف کی تلاوت بڑے دردوسوز اور خوش الحانی سے کرتے۔ اس تلاوت کا اتنا گہرا اثر تھا کہ بوڑھے بچے سب جمع ہوجاتے۔قریش نے جب اس پُر تاثیر کلام کا اثر ہوتے دیکھا توایک رئیس ابن الدغنہ کے ذریعہ انہیں تلاوت سےروکنا چاہا۔جس نے آپؓ کو پناہ دے رکھی تھی۔

(بخاری کتاب المناقب باب ہجرۃ النبی)

سورہ الطور کی تاثیر اور حضرت عمرؓ

حضرت عمرؓ جیسے جابر انسان جن کے رعب سے قیصروکسریٰ بھی کانپتے تھے۔ ان کے متعلق روایت ہے کہ آپؓ ایک روزمدینہ میں کسی شخص کے گھر کے باہر سے گزرے تو اندر سے سورۃ الطور کی یہ آیات سنائی دیں اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ مَّا لَہٗ مِنۡ دَافِعٍ (الطور:9،8) یعنی ىقىناً تىرے رب کا عذاب واقع ہو کر رہنے والا ہے۔کوئى اُسے ٹالنے والا نہىں۔ اس پر آپ نے فرمایا خدا کی قسم یہ سچ ہے۔آپؓ اپنےگدھے سے نیچے اُترےاور دیوار کا سہارا لیکر کچھ وقت وہیں ٹھہرے رہے۔ پھر آپؓ اپنے گھر تشریف لے آئے۔ (آپؓ پر ان آیات کا ایسا گہرا اثر ہوا کہ) ایک ماہ تک اپنے گھر میں رہے۔ لوگ آپؓ سے ملنے آپ کے گھر آتے تھے۔لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ آپ کو کیا ہوا ہے۔

(تفسیر ابن کثیر جلد7ص430)

حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف

اسلامی غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صف ِ اوّل کے مجاہد اور بہادر غازی حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف کے متعلق حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے تلاوت کے دوران خشوع قلب میں ان سے زیادہ بڑھ کر کسی کو نہیں پایا۔

(تاریخ دمشق جلد30 ص280)

سورۂ حدید کی آیت کی تاثیر اور حضرت ابن عمرؓ

حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے یہ آیت پڑھی اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ (الحدید:17) کیا اُن لوگوں کیلئے جو ایمان لائے وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر اور اس حق (کے رعب) سے جو اترا ہے ان کے دل پھٹ کرگرجائیں۔ تو رو پڑے اور اتنا روئے کہ بے اختیار ہوگئے۔

(حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء جلد1ص305)

مشہور شاعر لبید کی فصاحت ِ قرآنی پر عملی شہادت

ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو موسیٰ الاشعریؓ کو خط لکھا کہ تمام شعراء کو اکٹھا کرو تا معلوم ہو کہ کیا ابھی بھی اُن کے کلام میں فصاحت وبلاغت موجود ہے۔اس پر جب انہوں نے مشہور قادرالکلام عرب شاعر لبیدسے شعر سنانے کی خواہش کی تو اُنہوں نے قرآن کریم کی عظمت کے آگے سرِ خم تسلیم کرتے ہوئے یہ جواب دیا کہ مَیں نے کلام اللہ کی یہ آیت سُن کر شعرکہنے چھوڑ دیئے۔ الٓمٓ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ فِیْہ۔ (البقرہ:2) کہ مىں اللہ سب سے زىادہ جاننےوالا ہوں۔ ىہ ’’وہ‘‘ کتاب ہے اس مىں کوئى شک نہىں۔

(تفسیر قرطبی جز 15 ص54)

سورۃ البقرہ اورسورۃالمومن کی آیات کی تاثیر

تابعی سعدبن جبیر ؒ (المتوفی :95ھ) کے متعلق آتا ہے کہ رمضان میں امامت کرتے ہوئے انہوں نے نماز پڑھائی تو سورۃ البقرہ اور سورۃالمومن کی ان آیات کو بارہا مرتبہ پڑھااور رات بھر روتے رہے یہاں تک کہ آنکھیں کمزور ہو گئیں ۔ سورۃ البقرہ کی آیت یہ ہے۔ وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ إِلٰی اللّٰهِ ثُمَّ تُوَفَّی كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ (البقرہ:282) اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤگے۔ پھر ہرجان کو جو اس نے کمایا پورا پورا دیا جائے گا اوروہ ظلم نہیں کئے جائیں گے۔

اورسورۃ المومن کی آیات یہ ہیں۔ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ۔اِذِ الۡاَغۡلٰلُ فِیۡۤ اَعۡنَاقِہِمۡ وَ السَّلٰسِلُ ؕ یُسۡحَبُوۡنَ۔فِی الۡحَمِیۡمِ ۬ۙثُمَّ فِی النَّارِ یُسۡجَرُوۡنَ (المومن:71 تا 73) تو وہ عنقرىب جان لىں گے۔جب طوق اُن کى گردنوں مىں ہوں گے اور زنجىرىں بھى (جن سے) وہ گھسىٹے جائىں گے۔ کھولتے ہوئے پانى مىں بعد ازاں وہ آگ مىں جھونک دىئے جائىں گے۔

(مختصر قیام اللیل جلد1ص215)

سورۃ البقرہ کی آیت 285 کا اثر

مجاہد بیان کرتے ہیں کہ مَیں نےحضرت ابن عباسؓ کو بتایا کہ مَیں حضرت ابن عمرؓ کے پاس تھا۔آپؓ جب سورۃ البقرہ کی یہ آیت تلاوت کرتے تو رو پڑتے۔ لِلّٰهِ ما فِی السَّمٰوٰاتِ وَمَا فِی الأَرْضِؕ وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِی اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ یُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ (البقرہ:285) اللہ ہی کا ہے جو آسمانوں میں ہےاور جو زمین میں ہے اور خواہ تم اُسے ظاہر کرو جو تمہارے دلوں میں ہے یا اُسے چھپاؤ،اللہ اُس کے بارہ میں تمہارا محاسبہ کرے گا۔

اس پرحضرت ابن عباس ؓ نےتائید کرتےہوئے کہا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تھی تو صحابہ کرامؓ پر شدید غم کی حالت طاری ہوگئی تھی۔

(مسند احمد بن حنبل جلد5 ص194)

سورۃ البقرہ ،الاعراف،یونس اور الرعد کے حروف مقطعات اور یہود مدینہ کا مرعوب ہونا۔ایک دفعہ یہودی رئیس ابویاسربن اخطب رسول کریم ﷺ کے پاس سے گزرا۔ آپ ﷺ اس وقت سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات الٓمٓ ۔ذَالِكَ الْكِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِیْنَ تلاوت فرمارہے تھے۔ ابو یاسر نے یہ سُن کر اپنے بھائی سردارِیہود حُییّ بن اخطب کے پاس آکر بتایا کہ مَیں نے آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے۔ اس پر حُییّ نے پوچھا کیا تم نے خود سنا ہے؟ اُس نے کہا ہاں مَیں نے خود سنا ہے۔ حُییّ اسی وقت اپنے پاس موجود چند یہود علماء کو لے کر محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپؐ سے کہنے لگا اے محمد! ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم پر جو کتاب نازل ہوئی ہے اس میں آپ الٓمٓ ۔ذَالِكَ الْكِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِیْنَ پڑھتے ہو۔ آپؐ نے اثبات میں جواب دیا۔ حُییّ نے کہا کیا جبریلؑ یہ آیات آپؐ کے پاس لائے ہیں؟آنحضور ﷺ نے فرمایا ہاں۔ یہودیوں نے کہا آپؐ سے پہلے جس قدر نبی گزرے ہیں ان سب کی سلطنت اور اُمّت کا زمانہ بیان کیا گیا تھا مگر آپؐ کا دورِ سلطنت ہم کو معلوم نہیں۔

پھرحُییّ یہود کی طرف متوجہ ہو کر ان حروف مقطعات کے حروف ابجدکے اعداد شمار کرتے ہوئے کہنے لگا سنو ! الف کا عدد ہوا ایک، لام کے تیس، میم کے چالیس۔ کل اکہتر ہوئے۔ کیا تم اس نبی کی تابعداری کرنا چاہتے ہو جس کے ملک اور اُمت کی مدت کل اکہتر سال ہو؟

پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا ایسی کوئی اور آیت بھی ہے ؟ آپؐ نے فرمایا ہاں الٓمٓصٓ۔ حُییّ کہنے لگا یہ اور بھاری ہے۔ الف کا ایک، لام کے تیس، میم کے چالیس، صاد کے نوے یہ سب ایک سو اکسٹھ سال ہوئے۔

پھر آنحضور ﷺ سے مخاطب ہوکر کہا اور بھی کوئی ایسی آیت ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ ’’الٓرٰ‘‘ حُییّ کہنے لگا یہ اور بھی بھاری ہے۔ الف کا ایک، لام کے تیس اور رے کے دو سو۔ یہ دو سو اکتیس برس ہوئے۔

حُییّ نے پھر استفسار کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی ایسی آیت ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’الٓمٓرٰ‘‘ ۔حُییّ نے کہایہ تو اس سےبھی بھاری ہے الف کا ایک، لام کے تیس، میم کے چالیس، رے کے دو سو، سب مل کردو سو اکہتر ہوگئے۔
پھر حُییّ کہنے لگا اے محمد (ﷺ)! آپؐ کے معاملہ کا ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ ان میں سے آپؐ کی مدت کون سی ہے؟ ابو یاسر نے اپنے بھائی سے اور دوسرے علماء یہود سے کہا اٹھو۔ کیا معلوم کہ ان سب حروف کامجموعہ ملا کر آنحضرت ﷺ کی سلطنت ہو۔ جو سب مل کر سات سو چونتیس سال ہے۔ یہ معاملہ اب مشتبہ ہوگیا ہے۔

(تفسیر ابن کثیر جلد1 ص161 زیر تفسیر سورۃ البقرہ)

سورۃالنساء کا اثر

حضرت عبداللہؓ بن مسعود بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا تلاوت سناؤ۔ مَیں نے عرض کی کیا مَیں آپؐ کو تلاوت سناؤں جبکہ قرآن آپؐ پر نازل ہوا۔آپؐ نے فرمایا مجھے پسند ہے کہ مَیں کسی دوسرے سے تلاوت سنوں۔پھر مَیں نے سورۃالنساء کی تلاوت سنائی جب مَیں اس آیت پر پہنچا فَكَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِیْدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلٰی هٰؤُلَآءِ شَهِیْدًا (النساء:42) پس کیا حال ہوگا جب ہم ہر ایک امت سے ایک گواہ لے آئیں گےاور ہم تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے۔

تو آپؐ نے فرمایا ٹھہرجاؤ! مَیں نے دیکھا تو آپؐ کی آنکھیں اشک بار تھیں۔

(بخاری کتاب فضائل القرآن باب قولہ المقرئ للقاری حسبک)

دوسری روایت میں یہ ذکر بھی ہے کہ آپؐ نے فرمایا۔اے میرے ربّ! یہ گواہی میں ان لوگوں پر تودوں گا جن کے درمیان موجود ہوں۔مگر ان کی گواہی کیسے دوں گا جن کو مَیں نے دیکھا نہیں۔

(شعب الایمان جلد2 ص362)

سورہ المائدہ کی آیت 119

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول کریم ﷺ نے ہمیں نماز عشاء پڑھائی۔ مَیں رکوع میں جانےسے پہلے آیا اور پیچھے کھڑا ہونے لگا تو آنحضرت ﷺ نے مجھےکھینچ کر اپنے دائیں کھڑا کیا۔ پھر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ آئے اور پیچھے کھڑے ہونے لگے تو آنحضرت ﷺ نے اُنہیں پکڑکر اپنے بائیں جانب کھڑا کیا۔ پھر آپؐ نے اسی ایک آیت کی تلاوت کرتے کرتےصبح کردی۔ اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ (المائدہ:119)(کہ اےاللہ!) اگر تو اُنہیں عذاب دے تو آخر یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں معاف کردے تو یقیناً تُو کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد5 ص170)

سورۃالانعام کی آیت 28

تابعی ھارون بن رباب الاسیدی کے متعلق آتا ہے کہ ایک رات وہ تہجد کیلئے کھڑے ہوئے اور سورہ الانعام کی اس آیت کی باربار تلاوت کرتےرہے اور روتے روتے صبح کردی ۔یَا لَیتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآیَاتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (الانعام:28) اے کاش! ایسا ہوتا کہ ہم واپس لوٹا دئیے جاتے، پھر ہم اپنے ربّ کی آیات کی تکذیب نہ کرتے اور ہم مومنوں میں سے ہوجاتے۔

(مختصر قیام اللیل جلد1ص215)

سورہ الاعراف کی آیت 165

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ جیسےجری اوربہادر نوجوان جب سورہ الاعراف کی اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے تو رو پڑتے۔وہ آیت یہ ہے۔ وَ اِذْ قَالَتۡ اُمَّۃٌ مِّنۡہُمۡ لِمَ تَعِظُوۡنَ قَوۡمَۨا ۙ اللّٰہُ مُہۡلِکُہُمۡ اَوۡ مُعَذِّبُہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ قَالُوۡا مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ (الاعراف:165) یعنی اور(یادکرو) جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا تم کیوں ایسی قوم کو نصیحت کرتے ہو جسے اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا شدید عذاب دینے والا ہے۔انہوں نے کہا تمہارے ربّ کے حضور اعتذار کے طور پر(ہم ایسا کرتے ہیں)اور اس غرض سے کہ شاید وہ تقویٰ اختیار کریں۔

حضرت ابن عباس ؓفرمایا کرتے تھے کہ یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو بُرائی سے روکنے کی بجائے خاموش رہنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ہم بھی کئی ناپسندیدہ اشیاء دیکھ کر خاموش رہتے ہیں اور کچھ کہتے نہیں۔ (گویا یہ بھی مقام خوف ہے)

(تفسیر ابن کثیر جلد7ص282)

سورہ یوسف کی آیت 87

حضرت شدادؓ بن الھاد کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) مَیں نمازفجرمیں آخری صفوں میں کھڑا تھا کہ مجھے حضرت عمرؓ جیسےجری انسان کی روتے ہوئےہچکی کی آواز سنائی دی اس وقت آپؓ سورہ یوسف کی یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے۔ اِنَّمَا أَشْكُوْ بَثِّی وَحُزْنِی إِلٰی اللّٰهِ (یوسف:87) یعنی مَیں تو اپنے رنج واَلم کی صرف اللہ کے حضور فریاد کرتا ہوں۔

(شعب الایمان جلد2 ص363)

دواعرابیوں کی گواہی

ایک مرتبہ ایک اعرابی نے کسی سے سورۃ الحجر کی یہ آیت سنی فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ (الحجر:95) یعنی (اےنبیؐ!) خوب کھول کربیان کر۔ وہ بدّو فوراً سربسجود ہو گیا ۔ کہنے لگا مَیں اس کلام کی فصاحت و بلاغت سے متاثر ہو کر سجدہ ریز ہوا ہوں۔

ایک اور اعرابی کا واقعہ ہےجس نے سورہ یوسف کی یہ آیت سنی فَلَمَّا اسْتَيْئَسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِيّاً۔ (یوسف:81) پس جب وہ (بردرانِ یوسف) اس(بھائی) سے مایوس ہوگئے تومخفی مشورہ کے لئے علیحدہ ہوئے۔ وہ اعرابی کہنے لگا مَیں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی مخلوق اس جیسا کلام کرنے پر قادر نہیں ۔(سوائے عالم الغیب خدا کے کہ صرف وہی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے)

سورہ النحل کی آیت کا ایک مشرک پر اثر

مکہ کا ایک قریشی سردار ولید بن مغیرہ بڑا فصیح و بلیغ انسان تھا۔ ایک مرتبہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کچھ قرآن سنانے کی درخواست کی۔ آپؐ نےاس آیت کی تلاوت فرمائی اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآءِذِی الۡقُرۡبٰی (النحل:91) کہ یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے۔

ولید اس درجہ متاثر ہوا کہ اس کی دوبارہ تلاوت کی درخواست کی۔ آپؐ نے دوسری بار تلاوت سنائی تو کہنے لگا۔ خدا کی قسم اس کلام میں کچھ اور ہی شیرینی اور عجب تازگی ہے ۔ اس نخل کا اعلیٰ حصہ ثمردار ہے اور اس کا زیریں حصہ خوب سیراب ہے اور یہ غالب آنیوالا کلام ہے مغلوب ہونیوالا نہیں۔

جب ابوجہل کو ولید کے آیات قرآنی سے متاثر ہونے کا علم ہوا تو فوراً اس کے پاس پہنچا اور ماجرا پوچھا۔ ولید نے کہا۔ شاعری مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا، مگر یہ شعر نہیں ہے اور ہم کاہنوں سے بھی ناواقف نہیں۔مگر یہ کہاوت بھی نہیں۔ نہ ہی یہ کذب ہے کیونکہ اس شخص نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس پر ابو جہل نے اصرار کیا کہ تم اس کی نسبت کوئی ایسی بات ضرور کہو کہ قریش آپؐ سے متنفر رہیں۔ تب اس نے کہا یہ تو سحر اور جادو ہے جو ایک شخص کو اس کے اہل و عیال سے جدا کر دیتا ہے۔

(دلائل النبوۃ للبیھقی جلد2 ص75)

سورہ الکھف کی بعض آیات کا اثر

حضرت ابو موسیٰ ؓ اشعری کے متعلق روایت ہے کہ جب وہ سورۃ الکھف کی اس آیت کریمہ کی تلاوت کرتے تو رو پڑتے۔

أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِی وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ (الکہف:51) تو کیا تم اس (شیطان) اور اس کے چیلوں کو میرے سوا دوست پکڑ بیٹھوگے جبکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟

(شعب الایمان جلد2 ص365)

حماد بیان کرتے ہیں کہ ثابت بن اسلم البنانی رات کی نماز میں جب سورۃ الکھف کی اس آیت کی تلاوت کرتے تو باربار اُسے دُہراتے اورساتھ روتے جاتے۔

أَكَفَرْتَ بِالَّذِى خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ (الکہف:38) کیا تو اس ذات کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا۔

(شعب الایمان جلد2ص365)

(باقی آئندہ)

قسط نمبر 1۔2

قسط:5

(حافظ مظفر احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر 16، 02۔ مئی 2020ء