• 11 جولائی, 2025

توبہ اور رمضان المبارک

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی ضائع نہیں کرتا ،جبکہ مَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃً خَیْراً یَّرَہُ۔ (الزلزال:8) کے موافق وہ کسی کی ذرہ بھر نیکی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا،تو اتنا بڑا سفر جو اپنے اندر ہجرت کا نمونہ رکھتا ہے۔ اس کا اجر کبھی ضائع ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ صدق اور اخلاص ہو۔ ریا اور دوسرے اغراض شہرت و نمودکے نہ ہوں اور میں جانتا ہوں کہ برو بحر کے شدائد ومصائب کو برداشت کرنا اور ایک موت کو قبول کر لینا بجز صدق کے نہیں ہو سکتا۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ225)

ہجرت ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جانے کو کہتے ہیں۔ لیکن احادیث میں خداتعالیٰ کی طرف ہجرت کرنے کو بھی کہتے ہیں۔ اس سال بھی گزشتہ سال کی طرح نیکیوں کی طرف یعنی دنیاوی خواہشات کو چھوڑ کر خدا کی رضا کی طرف ہجرت کرنے کے طریقے سکھانے والا مہینہ رمضان المبارک ہجری تقویم کے ماہ ہجرت میں آرہا ہے۔ اور اگلے سال بھی اس کا کچھ حصہ اسی مہینہ میں آئے گا۔ اس میں ایسی ہجرت کرنے کی مشق کروائی جاتی ہے جو انسان کو فوزعظیم سے ملا دیتی ہے۔ اصل ہجرت ہے بھی یہی باقی چیزیں تو اس کو سمجھانے کے لئے بطور مثال کے ہیں۔ اس باطنی ہجرت میں انسان شر سے خیر، بدی سے نیکی، برائی سے اچھائی، نفرت سے محبت اور نفاق سے اتفاق کی طرف مسلسل سفر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَ مَنۡ یُّہَاجِرۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ یَجِدۡ فِی الۡاَرۡضِ مُرٰغَمًا کَثِیۡرًا وَّ سَعَۃً ؕ وَ مَنۡ یَّخۡرُجۡ مِنۡۢ بَیۡتِہٖ مُہَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ یُدۡرِکۡہُ الۡمَوۡتُ فَقَدۡ وَقَعَ اَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا (النساء: 101) یعنی اور جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے تو وہ زمین میں (دشمن کو ) نامراد کرنے کے بہت سے مواقع اور فراخی پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلتا ہے پھر اس حالت میں موت آ جاتی ہے۔ تو اس کا اجر اللہ پر فرض ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ اُولٰٓئِکَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (البقرہ:219) یعنی یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) باربار رحم کرنے والا ہے۔

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ۙ اَعۡظَمُ دَرَجَۃً عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ (التوبہ:20) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا وہ اللہ کے نزدیک درجے کے اعتبار سے بہت بڑے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

فَفِرُّوْا اِلَی اللّٰهِ (الذاریات:51) پس تیزی سے اللہ کی طرف دوڑو

ان آیات لقائے باری تعالیٰ کے حصول اور اس کی خاطر سعی کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سعی کے ذرائع بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔

اَلتَّآئِبُوۡنَ الۡعٰبِدُوۡنَ الۡحٰمِدُوۡنَ السَّآئِحُوۡنَ الرّٰکِعُوۡنَ السّٰجِدُوۡنَ الۡاٰمِرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ النَّاہُوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡحٰفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللّٰہِ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (التوبہ:112) یعنی توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، (خدا کی راہ میں) سفر کرنے والے، (لِلّٰہ) رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کا حکم دینے والے، اور بُری باتوں سے روکنے والے، اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے، (سب سچے مومن ہیں) اور تُو مومنوں کو بشارت دے دے۔

آنحضرت ﷺ نے توبہ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ مَنْ ھَجَرَ مَاحَرَّمَ اللّٰه عَلَیْه۔ (سنن ابوداؤد جلد اول کتاب الصلوٰۃ صفحہ 542) یعنی جن باتوں کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ان کو چھوڑ دینا۔ ایک اور موقع پر فرمایا اَنْ تَھْجُرَ مَا کَرِہَ رَبُّکَ ۔(مسند احمد بن حنبل جلد2 صفحہ 160) یعنی تو اس چیز کو چھوڑ دے جو تیرے رب کو ناپسند ہے۔ پھر فرمایا اَلْمُھَاجِرُمَنْ ھَجَرَ السُّوْءَ فَاجْتَنِبَه۔ (مسند احمد بن حنبل جلد2 صفحہ 215) یعنی مہاجر وہ ہے جس نے بُرائیوں سے ہجرت کی اور ان سے مجتنب رہا یعنی توبہ کی۔ پھر فرمایا۔ اَنْ تَھْجُرَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ وَ مَا بَطَنَ۔ (مسند احمدبن حنبل جلد2 صفحہ 226) یعنی تو برائی کے ظاہر اور باطن کو کلیتاً چھوڑ دے۔ یہی وہ ہجرت ہے جو انسان نے کرنی ہے اس ہجرت کا دروازہ توبہ اور رجوع الیٰ اللہ ہے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بہت بدقسمت ہے وہ شخص کہ اسے رمضان کا مہینہ ملا اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ ‘‘ہجرت کبھی ختم نہ ہو گی جب تک کہ توبہ ختم نہ ہو اور یہ نہ ختم ہو گی جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہو‘‘

(سنن ابوداؤد کتاب الجہاد باب الھجرۃ)

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ۔
اور یقینی طور پر نجات کی امید یقین کامل پر اس لئے موقوف ہے کہ مدار نجات کا اس بات پر ہے کہ انسان اپنے مولیٰ کریم کی جانب کو تمام دنیا اور اس کے عیش و عشرت اور اس کے مال و متاع اور اس کے تمام تعلقات پر یہاں تک کہ اپنے نفس پر بھی مقدم سمجھے۔ اور کوئی محبت خدا کی محبت پر غالب ہونے نہ پاوے۔ لیکن انسان پر یہ بلا وارد ہے کہ وہ برخلاف اس طریقہ کے جس پر اس کی نجات موقوف ہے۔

ایسی چیزوں سے دل لگا رہا ہے جن سے دل لگانا خدا سے دل ہٹانے کا مستلزم ہے اور دل بھی ایسا لگایا ہوا ہے کہ یقینی طور پر سمجھ رہا ہے کہ تمام راحت اور آرام میرا انہیں تعلقات میں ہے اور نہ صرف سمجھ رہا ہے بلکہ وہ لذات بہ یقین کامل اس کے لئے مشہود اور محسوس ہیں جن کے وجود میں اس کو ذرا سا شک نہیں۔ پس ظاہر ہے کہ جب تک انسان کو خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی لذت وصال اور اس کی جزا و سزا اور اس کی آلاء نعماء کی نسبت ایسا ہی یقین کامل نہ ہو جیسا اس کو اپنے گھر کی دولت پر اور اپنے صندوق کے گنے ہوئے روپیوں پر اور اپنے ہاتھ کے لگائے ہوئے باغوں پر اور اپنی زر خرید یا موروثی جائداد پر اور اپنی آزمودہ اور چشیدہ لذتوں پر اور اپنے دلآرام دوستوں پر حاصل ہے تب تک خدا کی طرف جوش دلی سے رجوع لانا محال ہے۔

(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1 صفحہ154)

پھر فرماتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے۔ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا اَوۡ یَظۡلِمۡ نَفۡسَہٗ ثُمَّ یَسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا۔(النساء:111) یعنی جس سے کوئی بدعملی ہوجائے یا اپنے نفس پر کسی نوع کا ظلم کرے اور پھر پشیمان ہوکر خدا سے معافی چاہے تو وہ خدا کو غفور و رحیم پائے گا۔‘‘

(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1 صفحہ188)

پھر مایوسی ہونے سے بچانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس طرح نصیحت فرماتے ہیں۔
’’جب کبھی کوئی بشر بروقت صدور لغزش و گناہ بہ ندامت و توبہ خدا کی طرف رجوع کرے تو وہ خدا کے نزدیک اس قابل ہوجاتا ہے کہ رحمت اور مغفرت کے ساتھ خدا اس کی طرف رجوع کرے۔ اور یہ رجوع الٰہی بندہ نادم اور تائب کی طرف ایک یا دو مرتبہ میں محدود نہیں بلکہ یہ خدائے تعالیٰ کی ذات میں خاصہ دائمی ہے اور جب تک کوئی گنہگار توبہ کی حالت میں اس کی طرف رجوع کرتا ہے وہ خاصہ اس کا ضرور اس پر ظاہرہوتا رہتا ہے۔ پس خدا کا قانون قدرت یہ نہیں ہے کہ جو ٹھوکر کھانے والی طبیعتیں ہیں وہ ٹھوکر نہ کھاویں یا جو لوگ قویٰ بہیمیہ یا غضبیہ کے مغلوب ہیں ان کی فطرت بدل جاوے بلکہ اُس کا قانون جو قدیم سے بندھا چلا آتا ہے یہی ہے کہ ناقص لوگ جو بمقتضائے اپنے ذاتی نقصان کے گناہ کریں وہ توبہ اور استغفار کرکے بخشے جائیں۔

(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1 صفحہ188)

ایک اور جگہ بیعت کو توبہ سے جوڑتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’اسی طرح بیعت میں عظیم الشان بات توبہ ہے جس کے معنی رجوع کے ہیں۔ توبہ اس حالت کا نام ہے کہ انسان اپنے معاصی سے جن سے اس کے تعلقات بڑھے ہوئے ہیں اور اس نے اپنا وطن انہیں مقرر کر لیا ہوا ہے گویا کہ گناہ میں اس نے بودو باش مقرر کر لی ہوئی ہے۔ اُس وطن کو چھوڑنا اور رجوع کے معنی پاکیزگی اختیار کرنا۔ اب وطن کو چھوڑنا بڑا گراں گزرتا ہے اور ہزاروں تکلیفیں ہوتی ہیں۔ ایک گھر جب انسان چھوڑتا ہے تو کس قدر اسے تکلیف ہوتی ہے اور وطن کو چھوڑنے میں تو اس کو سب یار دوستوں سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے اور سب چیزوں کو مثل چارپائی، فرش وہمسائے، وہ گلیاں کوچے، بازار سب چھوڑ کر ایک نئے ملک میں جانا پڑتا ہے یعنی اس (سابقہ) وطن میں کبھی نہیں آتا۔ اس کا نام توبہ ہے۔ معصیت کے دوست اور ہوتے ہیں اور تقویٰ کے دوست اور اس تبدیلی کو صوفیاء نے موت کہا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ2)

اس کے حصول کے لئے کوشش اور دعا کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’جب تک انسان مجاہدہ نہ کرے گا، دعا سے کام نہ لے گا وہ غمرہ جو دل پر پڑ جاتا ہے دُور نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ۔ (الرعد:12) یعنی خدا تعالیٰ ہر ایک قسم کی آفت اور بلا کو جو قوم پر آتی ہے دُور نہیں کرتا ہے جب تک خود قوم اس کو دُور کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ہمت نہ کرے۔ شجاعت سے کام نہ لے تو کیونکر تبدیلی ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک لَا تبدیل سنّت ہے جیسے فرمایا۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہ تَبْدِیْلًا۔ پس ہماری جماعت ہو یا کوئی ہو وہ تبدیل اخلاق اسی صورت میں کر سکتے ہیں جب کہ مجاہدہ اور دعا سے کام لیں ورنہ ممکن نہیں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ87)

یعنی انسان کے اخلاق جیسے بھی ہوں اگر اصلاح کرنا چاہے تو اصلاح ہو سکتی ہے لیکن اس کے لئے مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی مجاہدہ کا نام توبہ ہے اور حکماء نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ انسان تبدیلی اخلاق پر قادر ہے۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز رمضان المبارک کے دوران ایک خطبہ جمعہ فرمودہ 9جون 2017ء میں فرماتے ہیں۔

’’پس آجکل اس سستی کے دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سامان مہیا فرمائے ہیں۔ اس ماہ میں اخلاق کی بہتری کی طرف بھی ہر ایک کو توجہ دینی چاہئے اور دوسری کمزوریوں اور گناہوں سے بچنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔………حصول اخلاق کے لئے توبہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’توبہ دراصل حصولِ اخلاق کے لئے بڑی محرّک اور مؤیّد چیز ہے۔‘‘ (اعلیٰ اخلاق حاصل کرنے ہیں تو وہ بھی توبہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ توبہ صرف یہ نہیں کہ گناہوں سے معافی مانگ لی بلکہ اگر اعلیٰ اخلاق پہ چلنا ہے ان کو حاصل کرنا ہے تو اس کے لئے بھی توبہ بڑی ضروری ہے) اور فرمایا کہ ’’اور انسان کو کاملِ بنادیتی ہے۔ یعنی جو شخص اپنے اخلاقِ سیئہ کی تبدیلی چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ سچے دل اور پکے ارادے کے ساتھ توبہ کرے۔ یہ بات بھی یادرکھنی چاہئے کہ توبہ کے تین شرائط ہیں۔ بِدُوں ان کی تکمیل کے سچی توبہ جسے توبۃ النصوح کہتے ہیں حاصل نہیں ہوتی۔ان ہرسہ شرائط میں سے پہلی شرط جسے عربی زبان میں اِقْلاع کہتے ہیں۔ یعنی اُن خیالات فاسدہ کو دور کردیا جاوے جو اِن خصائل ردّیہ کے مُحرک ہیں‘‘۔ (جو رد کرنے کے لائق چیزیں ہیں، عادتیں ہیں، بیہودہ خیالات ہیں، بداخلاقیاں ہیں ان کو دُور کرنے کے لئے پہلی ضروری شرط یہ ہے کہ انہیں کس طرح دُور کرنا ہے) فرمایا ’’اصل بات یہ ہے کہ تصورات کا بڑا بھاری اثرپڑتا ہے‘‘ (اس کی تفصیل بیان فرماتے ہیں کہ انسان جب کسی چیز کا تصور کرتا ہے تو اس کا انسان کی طبیعت پر بہت بڑا اثر پڑتا ہے) ’’کیونکہ حیطۂ عمل میں آنے سے پیشتر ہر ایک فعل ایک تصوّری صورت رکھتا ہے‘‘۔ (کسی بھی کام کو کرنے کے لئے یا کوئی بھی چیز یا خیال جب عمل میں آتا ہے تو اس سے پہلے وہ ایک خیال ہوتا ہے، ایک تصور ہوتا ہے) ’’پس توبہ کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ ان خیالاتِ فاسدہ و تصورات ِبد کو چھوڑ دے۔ مثلاً اگر ایک شخص کسی عورت سے کوئی ناجائز تعلق رکھتا ہو تو اسے توبہ کرنے کے لئے پہلے ضروری ہے کہ اس کی شکل کو بدصورت قرار دے اور اس کی تمام خصائل رذیلہ کو اپنے دل میں مستحضر کرے کیونکہ جیسا مَیں نے ابھی کہاہے تصورات کا اثر بہت زبردست اثر ہے اور‘‘ فرماتے ہیں ’’مَیں نے صوفیوں کے تذکروں میں پڑھا ہے کہ انہوں نے تصور کو یہانتک پہنچایا کہ انسان کو بندر یا خنزیر کی صورت میں دیکھا۔ غرض یہ ہے کہ جیسا کوئی تصور کرتا ہے ویسا ہی رنگ چڑھ جاتا ہے۔ پس جو خیالاتِ بد لذّات کا موجب سمجھے جاتے تھے ان کا قلع قمع کرے۔ یہ پہلی شرط ہے۔‘‘ (تصور میں ان کو گندہ سمجھے)۔

’’دوسری شرط ندم ہے۔ یعنی پشیمانی اور ندامت ظاہر کرنا۔ ہر ایک انسان کا کانشنس اپنے اندر یہ قوت رکھتا ہے کہ وہ اس کو ہر برائی پر متنبہ کرتا ہے‘‘۔ فرمایا ’’مگر بد بخت انسان اس کو معطل چھوڑدیتا ہے۔‘‘ (اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر جو ایک صلاحیت رکھی ہوئی ہے اس سے کام نہیں لیتا) ’’پس گناہ اور بدی کے ارتکاب پرپشیمانی ظاہر کرے اور یہ خیال کرے کہ یہ لذّات عارضی اور چندروزہ ہیں۔‘‘ (یہ دنیا کی لذات جو ہیں بالکل عارضی ہیں۔ چند دنوں کی ہیں) ’’اور پھر یہ بھی سوچے کہ ہر مرتبہ اس لذت اور حظ میں کمی ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ بڑھاپے میں آکر جبکہ قویٰ بیکار اور کمزور ہوجائیں گے آخر ان سب لذّاتِ دنیا کو چھوڑنا ہوگا۔ پس جبکہ خود زندگی ہی میں یہ سب لذّات چھوٹ جانے والی ہیں تو پھر ان کے ارتکاب سے کیا حاصل؟‘‘ فرماتے ہیں ’’بڑا ہی خوش قسمت ہے وہ انسان جو توبہ کی طرف رجوع کرے اور جس میں اوّل اِقلاع کاخیال پیداہو۔ یعنی خیالات فاسدہ و تصورات بیہودہ کو قلع قمع کرے۔ جب یہ نجاست اور ناپاکی نکل جاوے تو پھر نادم ہو اور اپنے کئے پر پشیمان ہو۔

تیسری شرط عزم ہے۔ یعنی آئندہ کے لئے مصممّ ارادہ کر لے کہ پھر ان برائیوں کی طرف رجوع نہ کرے گا اور جب وہ مداومت کرے گا تو خدا تعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق عطاکرے گا۔ یہانتک کہ وہ سیّئات اس سے قطعاً زائل ہوکر اخلاق حسنہ اور افعال حمیدہ اس کی جگہ لے لیں گے اور یہ فتح ہے اخلاق پر‘‘۔ فرمایا کہ ’’اس پر قوت اور طاقت بخشنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے کیونکہ تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے۔ جیسے فرمایا اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا۔ ساری قوتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں اور انسان ضعیف البنیان تو کمزور ہستی ہے۔ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا اس کی حقیقت ہے۔ پس خداتعالیٰ سے قوت پانے کے لئے مندرجہ بالا ہر سہ شرائط کو’’ (یہ جو تینوں شرائط ہیں) ’’کامل کرکے انسان کسل اور سستی کو چھوڑدے اور ہمہ تن مستعد ہوکر خداتعالیٰ سے دعا مانگے۔ اللہ تعالیٰ تبدیل اخلاق کردے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 138 تا 140)

(الفضل انٹرنیشنل 30جون 2017ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی ارشاد پرسب کچھ چھوڑ دیا، سب بھول کر ایک نئی زندگی میں داخل ہو گئے اور پھر کبھی واپسی کا خیال بھی دل میں پیدا نہ ہوا۔ اس عزم اور اس توبہ کے ساتھ رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس ہجرت کے لئے جو ذرائع خدا نے ہمیں میسر کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ رمضان کے روزوں کے ساتھ ساتھ عبادات یعنی نماز باجماعت، ذکر الہٰی، نوافل میں باقاعدگی اور حسن پیدا کریں، قرآن کریم کی تلاوت کریں اور اس کا ترجمہ پڑھیں، احادیث پڑھیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کریں، خلافت سے وابستہ ہوجائیں یعنی دعا کے لئے خط لکھیں، خلیفۃ المسیح کاخطبہ جمعہ باقاعدگی سے سنیں اور دعاؤں کی طرف مسلسل توجہ دیں۔ ان نیکیوں کی طرف متوجہ رہیں یعنی مالی قربانی کریں، رشتہ داروں سے صلہ رحمی کریں، اہل خانہ سے حسن سلوک کریں، لین دین میں معاملہ صاف رکھیں،والدین کی عزت کریں، بچوں کا خیال رکھیں، مخلوق سے ہمدردی کریں، اخلاق حسنہ یعنی سچائی، امانت، دیانت، ایثار، حسن ظنی، شکر، عفو، عدل و احسان، پاک دامنی کی پیروی کریں۔ نیز ان بدیوں یعنی جھوٹ، بخل، بدظنی، حسد، غیبت، خیانت، چوری اور عیب جوئی وغیرہ سے بچتے ر ہیں۔

انسان کی زندگی میں اپنی سمت درست کرنے ، اپنا محاسبہ کرنے اور نئے عہد باندھنے کے لئے رمضان آتاہے۔ نیکی کے سفر کا ارادہ کرنے والےکے لئے پختہ عزم اور عہد باندھنے کے یہ دن ہیں ۔ ہر رمضان میں ایک انسان ایک نیکی اپنانے اور ایک بدی چھوڑنے کا مصمم ارادہ کرے تو بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔

یہ نیکی سے بدی کا سفر آسان نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اَلدُّنْیَا سِجْنٌ لِلْمُؤمِنِ وَ جَنَّةٌ لِلْکَافِرِ یعنی اللہ کی رضا کے سفر کے لئے مومن کو بعض مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیں، عبادات کی حقیقی لذت کے لئے راتوں کو بستر چھوڑنا پڑتا ہے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو خیر آباد کہہ کر اللہ اور اس کے رسول کی خواہشات اور جذبات کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔ اللہ کرے کہ ہم سب خلافت کے وفادار، جاں نثار اور مطیع و فرمانبردار بنیں۔ہمارا خدا ہم سے راضی ہواور حقیقی اور اصلی توبہ کی ہمیں توفیق دے۔ آمین

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں۔
’’یاد رکھو کہ جس خدا نے دنیوی ہجرت کے نتیجے میں اپنے کئے گئے وعدے تمہاری توقعات سے بھی بڑھ کر پورے فرمائے وہ تمہاری روحانی ہجرت کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ تم پر موت نہیں آئے گی جب تک تمہارا دل تسکین سے نہ بھر جائے جب تک وہ سب لذتیں سینکڑوں گنا زیادہ عطا نہ کی جائیں جن لذتوں کو خدا کی خاطر تم نے چھوڑ اہے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 23۔اگست 1996ء)


(محمد رئیس طاہر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر 16، 02۔ مئی 2020ء