• 11 جولائی, 2025

رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے

امسال بھی ماہ رمضان اپنی تمام تر برکات و فیوض کے جلو میں بڑی آن و شان کے ساتھ جلوہ افروز ہوا ہے، اگرچہ روایتی گہما گہمی اور رونق کچھ پھیکی سی ہے کہ بقول شاعر

بدلہ ہوا ہے آج میرے آنسوؤں کا رنگ

تاہم اس رنگ میں کچھ نئےعکس بھی ہیں، کچھ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کو طفل ساده و حیران کی طرح سے دیکھتے ہوئے ہم لوگ، سُپرپاورز اپنے تمام تر وسائل کے باوجود اپنے لوگوں کو مرتا دیکھ کر بزبان حال ’’ھوالموجود‘‘ کا اعتراف کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ صورت حال ایک لانگ ویک اینڈ کی طرح ہے جس میں سے وہ لطف طبع اور لذت کام و دہن کا ہر رنگ کشید کر لینا چاہتے ہیں اور کچھ لوگوں کے لیے آجکل دنیا کے رنگ نہایت شوخ و شنگ ہیں کیونکہ سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے، سوال کی ذلت اور امداد وصول کرتے ہوئے سیلفی کی رسوائی سے بچتے بچتے اب ہارنے کو تھے لیکن صاحبِ دل اور دردِ دل رکھنے والوں نے محض خدا کی خاطر اپنے دستر خوان وسیع کر لیے ہیں کہ دل بےاختیار یہ کہتا ہے ’’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘‘

اس نیکی کا رنگ آسماں کے نیلے رنگ کی طرح ٹھنڈا، میٹھا اور بےپناہ طمانیت کا حامل ہے۔ سبز اور سفید رنگ تو یوں بھی ہمیں عزیز ہیں کہ سبز رنگ سے پہلا تصور گنبد خانۂ رسول ﷺ کا آتا ہے اور سفید رنگ تو نیکی، طہارت، تقویٰ کارنگ ہے گویا اس کو رنگوں کا مرشد کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا اور آج کل اس رنگ کا تصور جان ہتھیلی پر رکھ کر لوگوں کی خدمت کے لیے ہر لحظہ وقف خدام احمدیت کے ساتھ وابستہ محسوس ہوتا ہے جو

ہمیں کارم، ہمیں بارم، ہمیں رسمم، ہمیں راہم

کی ہمیشہ سے زیادہ عملی تفسیر بنے ہوئے ہیں۔ اور کچھ رنگ جو نہاں خانۂ دل سے نکل کر بھی ہمیں مسکرانے، کبھی زیر لب تبسم، کبھی غیر محسوس سی نمی سے ہمکنار کرتے ہیں، عین ممکن ہے کہ آپ کی یادوں کے شیڈز بہت کچھ راقم الحروف کے مفروضہ رنگوں سے مختلف ہوں لیکن احساس و جذبات کا یہ عالم ہے کہ مدت سے جو فرصت ملنے کی آرزو تھی وہ اس حال میں ملی ہے کہ صرف خود سے ہی ملاقات ہو پائی ہے، اپنے سے گلے کئے ہیں، اپنے آپ کو جھنجھوڑا ہے، اپنے آپ کو گردن سے پکڑ کر اپنا نامۂ اعمال دیکھنے پر مجبور کیا ہے جہاں سیاہی تو بے پناہ ہے لیکن چند اشکِ ندامت بھی لرزتے لیکن چمکتے دکھائی دیتے ہیں اور ہم جیسے بےعمل اسی بات پر خوش ہو کر نہ صرف خود کو معاف کر بیٹھے ہیں بلکہ تاحال محو نالۂ جرسِ کارواں ہیں، نالہ نیم شب میں ابھی بہت سی کسر باقی ہے۔ رنگوں کی اس کہانی کو یہاں سمیٹتے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز رو بہ زوال ہے، ہر رنگ پھیکاپڑنے والا ہے، وقت کے ساتھ کچھ رنگ گہرے ہو جائیں گے جیسے سچی رفاقت کے رنگ، وفا اور احساس کے رنگ، تجربے، مشاہدے اور شعورکے رنگ اور کچھ رنگ اپنی زندگی کھودیں گے جیسے مصنوعی رنگ، تکلفات، کبر و ریاء کے رنگ، اس کھوکھلی انا اور آن بان کے رنگ جس نے سکھ شائد بالکل نہ ہونے کے برابر لیکن دکھ اور آزار بہت دیا، بالکل جھوٹے نگینوں کے اس زیور کی طرح جس کے ملمع سے مکمل باخبر ہوتے ہیں اور کچھ بے آرام سے کہ

غیروں پر کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا

سو ایسے بے بس لمحوں میں کتاب فطرت اپنے لافانی، ابدی اور عالمگیر درس دانش کا ایک باب وا کر کے ایک غیرمتبدل سچ ہمارے کانوں میں رس گھولتے ہوئے یوں انڈیلتی ہے کہ ایک سوال ہمارے سامنے رکھتی کہ صِبۡغَۃَ اللّٰہِ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً (سورة البقره :آیت 139) کہ اللہ کا رنگ ہی سب سے حسین و خوشنما رنگ ہے، ہر نور کا دھارا اسی میں سے پھوٹتا ہے اور ہر رنگ اسی کی ذات لا محدود کے اندر مدغم ہو جائے گا سو خرد کا تقاضا تو یہ ہے اس رنگ کو منتخب کر کے، پکڑ کے دیوانگی کے عالم میں خود کو ہمہ وقت پیا رنگ میں رنگنے کی مالا جپی جائے ، اور

من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی

کے مصداق اپنی ہر خواہش، جذبات، ارمان، تمنا، طلب، آرزو، لگن، چاہت، غرض یہ کہ ہر وہ جذبہ جو سوال اور تقاضا اپنے اندر رکھتا ہے وہ محبوبِ الہٰی کی مرضی سے مشروط ہو جائے تویہ کہتے ہیں پھر کون ہے جو ہمارے رنگ چرا سکے یا مٹا سکے کہ یہی تو جاوداں رنگ ہے یعنی رنگِ تقویٰ۔

رنگِ تقوی سے کوئی رنگت نہیں ہے خوب تر
ہے یہی ایماں کا زیور ہے یہی دیں کا سنگھار

(زاہدہ یاسمین)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر 16، 02۔ مئی 2020ء