• 16 مئی, 2025

رسول خدا ﷺ کی مقبول دعائیں

ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کی زندگی کے ہر لمحے میں ہمیں قبولیت دعا کے نظارے نظر آتے ہیں ان خوبصورت واقعات میں سے چند ایک واقعات پیش خدمت ہیں۔

حضرت طفیل بن عمروؓ ایک معزز انسان اور عقلمند شاعر تھے۔ جب وہ مکہ آئے تو قریش کےبعض لوگوں نے ان سے کہا کہ اے طفیلؓ! آپ ہمارے شہر میں آئے ہیں اور اس شخص محمد ﷺ نے عجیب فتنہ برپا کر رکھا ہے۔(نعوذ باللہ۔) اس نے ہماری جماعت کو منتشر کر دیا ہے۔ وہ بڑا جادو بیان ہے۔ باپ بیٹے، بھائی بھائی اور میاں بیوی کے درمیان اس نے جدائی ڈال دی ہے۔ ہمارے ساتھ جو بیت رہی ہے وہی خطرہ ہمیں تمہاری قوم کے بارہ میں بھی ہے۔ پس ہمارا یہ مشورہ ہے کہ نہ تم اس شخص سے بات کرنا اور نہ اس کی کوئی بات سننا۔ طفیلؓ کہتے ہیں کہ کفار مکہ نے اتنی تاکید کی کہ میں نے یہ ارادہ کر لیا کہ میں اس شخص کی بات نہیں سنوں گا اور کوئی بات کروں گا بھی نہیں۔ لیکن مجھے پتہ تھا کہ آپؐ بیت اللہ میں موجود ہیں تو وہاں جاتے ہوئے میں نے اپنے کانوں میں روئی ڈال لی تاکہ غیر ارادی طور پر بھی آنحضرت ﷺ کی آواز میرے کانوں میں نہ پہنچے۔ کہتے ہیں کہ جب میں بیت اللہ میں پہنچا تو رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔مَیں بھی قریب جا کے کھڑا ہو گیا تو کہتے ہیں کہ آپ ؐ کی تلاوت کے چند الفاظ کے سوا مَیں کچھ نہ سن سکا۔مگر جو سنا وہ مجھے اچھا کلام محسوس ہوا۔ میں نے اپنے دل میں کہا ۔ میرا بُرا ہومیں ایک عقلمند شاعر ہوں۔ بُرے بھلے کو خوب جانتا ہوں۔ آخر اس شخص کی بات سننے میں حرج کیا ہے۔ اگر تو اچھی بات ہوگی تو میں اسے قبول کر لوں گا اور بری ہو گی تو چھوڑ دوں گا۔ طفیلؓ کہتے ہیں کہ کچھ دیر انتظار کے بعد جب رسول اللہ ﷺ گھر تشریف لے گئے تو میں آپؐ کے پیچھے ہو لیا۔ جب آپؐ گھر میں داخل ہونے لگے تو میں نے کہا۔ اے محمد ﷺ آپؐ کی قوم نے آپؐ کے بارے میں یہ کہا ہے اور میں اللہ کی قسم دے کے کہتا ہوں کہ مجھے اتنا ڈرایا ہے کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ڈالی ہوئی تھی کہ آپؐ کی بات نہ سن سکوں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے پھر بھی مجھے آپؐ کا کلام سنوا دیا اور جو میں نے سنا ہے وہ بہت عمدہ ہے۔ آپؐ خود مجھے اپنے دعوی کے بارے میں بتائیں۔ کہتے ہیں نبی کریم ﷺ نے مجھے اسلام کے بارے میں بتایا اور قرآن شریف بھی پڑھ کر سنایا۔ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم میں نے اس سے خوبصورت کلام اور اس سے زیادہ صاف اور سیدھی بات کوئی نہیں دیکھی۔ چنانچہ میں نے اسلام قبول کر لیا اور حق کی گواہی دی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبیؐ! میں اپنی قوم کا سردار ہوں اور لوگ میری بات مانتے ہیں۔ میرا ارادہ واپس جا کر اپنی قوم کو اسلام کی طرف بلانے کا ہے۔ آپؐ میرے لئے دعا کریں۔ کہتے ہیں اگلے دن جب میں اپنے قبیلے میں پہنچا تو میرے بوڑھے والد مجھے ملنے آئے تو میں نے انہیں کہا کہ آج سے میرا اور آپ کا تعلق ختم ہے۔ والد نے سبب پوچھا۔ میں نے کہا کہ میں نے تو اسلام قبول کرکے محمد ﷺکی بیعت کر لی ہے۔ والد کہنے لگے کہ اچھا پھر میرا بھی وہی دین ہے جو تمہارا ہے۔ (ان کواپنے بیٹے کی نیکی اور لیاقت پر یقین تھا)۔ پھر میں نے انہیں کہا کہ غسل کرکے اور صاف کپڑے پہن کر آئیں ۔میں آپ کو اسلام کی تعلیم کے بارے میں کچھ بتاتا ہوں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر کہتے ہیں میں نے انہیں اسلام کی تعلیم سے آگاہ کیا۔ پھر کہتے ہیں کہ میری بیوی میرے پاس آئی۔ میں نے اس سے کہا کہ تم مجھ سے جدا رہو، تم سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ اس نے وجہ پوچھی۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اسلام قبول کر چکا ہوں۔ چنانچہ اس نے بھی سنا اور اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے قبیلے دوس کو اسلام کی طرف دعوت دی مگر انہوں نے میری دعوت پر توجہ نہ کی تو میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں مکہ حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے اللہ کے نبیؐ! دوس قبیلے کے لوگ اسلام قبول نہیں کرتے۔ آپؐ ان کے خلاف بددعا کریں۔ نبی کریم ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی اے اللہ! دوس قبیلے کو ہدایت فرما اور اس وقت نبی کریم ﷺ نے حضرت طفیلؓ کو یہ توجہ بھی دلائی کہ آپ واپس جا کر نرمی اور محبت سے پیغام حق پہنچائیں۔ چنانچہ وہ گئے اور آرام سے تبلیغ شروع کر دی۔ لیکن آگے آتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی دعا کس طرح قبول ہوئی، یہ قبیلہ آنحضرت ﷺ کی دعا کے طفیل جنگ احزاب کے بعد اسلام لایا۔ اس کے بعد پھر طفیل بن عمر ؓ مدینہ ہجرت کر آئے اور ان کے ساتھ 70خاندان اور بھی تھے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بھی اس قبیلے کے تھے جو ان 70 خاندانوں کے ساتھ مدینہ میں ہجرت کرآئے تھے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام قصۃ اسلام طفیل بن عمرو الدوسی، صفحہ 278۔277)

حضرت ابو ہریرہ ؓ آنحضرت ؐ کی دعا کے طفیل اپنی والدہ کے قبول اسلام کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ مشرکہ تھیں اور مَیں انہیں دعوت اسلام دیا کرتا تھا۔ جب ایک دن میں نے انہیں پیغام حق پہنچایا تو انہوں نے آنحضرت ؐکے بارے میں بعض ایسی باتیں کیں جو مجھے ناگوار گزریں تو مَیں روتا ہوا آنحضرت ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ مَیں اپنی والدہ کو دعوت اسلام دیا کرتا تھا اور وہ انکار کر دیتی تھیں۔ اور آج جب میں نے انہیں یہ دعوت دی تو انہوں نے آپؐ کے بارہ میں مجھے ایسی باتیں سنائیں جو مجھے ناپسند ہیں۔ آپؐ دعا کریں کہ اللہ ابو ہریرہ ؓ کی والدہ کو ہدایت دے دے۔ تو رسول اللہ ؐنے دعا کی۔

’’اَللّٰہُمَّ اہْدِ أُمِّ أَبِی ہُرَیْرَۃ‘‘ کہ اے اللہ تو ابوہریرہ ؓ کی والدہ کو ہدایت دیدے۔

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کی اس دعا کی وجہ سے خوش خوش گھر کے لئے نکلا اورجب گھر کے دروازہ کے پاس پہنچا تو وہ بند تھا اور میری والدہ نے میرے قدموں کی آہٹ سن کر کہا کہ اے ابو ہریرہؓ! وہیں ٹھہرو۔ اسی اثناء میں مَیں نے پانی گرنے کی آواز سنی۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے غسل کیا، کپڑے بدلے اور دوپٹہ اوڑھ کر دروازہ کھولا اور کہا: اے ابو ہریرہ! اَشْہَدُ اَنْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ

حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں فوراً آنحضرت ﷺ کی خدمت میں خوشی سے روتے ہوئے حاضر ہوا۔ اور عرض کی مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سن لی ہے اور ابو ہریرہؓ کی والدہ کو ہدایت دے دی ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا۔ اچھا ہوا ہے۔ تب میں نے عرض کی یارسول اللہؐ! آپؐ اللہ سے یہ دعا بھی کریں کہ وہ مجھے اور میری ماں کو مؤمنین کا محبوب بنا دے اور وہ ہمیں محبوب ہوں۔ تب آپ ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ! تُو اپنے اس بندہ ابو ہریرہ ؓاور اس کی ماں کو مومنوں کا اور مؤمنین کو ان کا محبوب بنا دے۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ جس مومن نے مجھے دیکھا بھی نہیں۔ بس میرے بارے میں سنا ہے۔ وہ بھی مجھ سے محبت کرتا ہے۔

(صحیح مسلم، کتاب فضائل صحابہ باب من فضائل ابی ہریرہؓ)

ایک تو آپؓ کی والدہ کے قبول اسلام کی صورت میں فوری قبولیت دعا کا اثر اور دوسری دعا اس طرح قبول ہوئی کہ بے شمار احادیث حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں جن کی وجہ سے حضرت ابوہریرہؓ کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے۔ آج تک ایک سچا مسلمان جب بھی کسی روایت کو سنتا ہے جوحضرت ابوہریرہؓ کی طرف سے آتی ہے جو اس کی ہدایت کا باعث بنتی ہے تو حضرت ابوہریرہ ؓ کے لئے دعا بھی نکلتی ہے اور ان کے لئے محبت کے جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ جنہوں نے آخری سالوں میں آنے کے باوجود بے شمار روایات ہم تک پہنچائیں اور اس نیک کام کرنے کے لئے کئی کئی دن فاقے برداشت کئے۔ لیکن آنحضرت ﷺ کے در سے اس لئے نہیں اٹھتے تھے کہ کہیں کوئی بات سننے سے رہ نہ جائے۔ پس یہی لوگ تھے جو اللہ اور رسولؐ کی محبت کی وجہ سے مومنوں کے بھی محبوب بن گئے اور اب رہتی دنیا تک ان شاء اللہ بنتے چلے جائیں گے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کو آنحضرت ﷺ کی مجلس میں ہر وقت موجود رہنے اور آپؐ کی بابرکت باتیں سننے اور انہیں یاد رکھنے کا اس قدر شوق تھا کہ جب آپؓ شروع میں آئے ہیں تو ذہن اتنا تیز نہیں تھا۔ تمام باتیں یاد نہیں رہتی تھیں تو بڑے فکر مند ہوتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایک روز اپنی اس کمزوری کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ خود ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! مجھے بعض باتیں بھول جاتی ہیں ۔آپ ؐ نے فرمایا ۔ابو ہریر ؓ! اپنی چادر پھیلاؤ آپؓ نے چادر پھیلا دی، اس میں حضور ؐ نے اپنے دونوں دستِ مبارک ڈالے اور دعا فرمائی۔ پھر فرمایا یہ چادر اٹھا کر سینہ سے لگا لو۔ کہتے ہیں اس دعا کے بعد بہت ساری باتیں اور حدیثیں میں نے سنیں مگر میں ان میں سے ایک بھی بات نہیں بھولا۔

(ترمذی کتاب المناقب باب مناقب لابی ہریرۃؓ حدیث نمبر3835)

جنگ احزاب میں بڑے بڑے قبائل اکٹھے ہوکر مدینہ پر حملہ آور ہوئے اور مسلمانوں کی اس وقت انتہائی خوف کی حالت تھی۔ اس وقت آپ ؐنے مسلمانوں کو فتح اور کفار کی شکست کے لئے دعا کی۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احزاب کے خلاف یہ دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِھْزِمِ الْاَحْزَابَ اللّٰھُمَّ اھْزِمْھُمْ وَ زَلْزِلْھُمْ۔ اے اللہ جو کتاب کو اتارنے والا ہے اور حساب لینے میں بہت تیز ہے تو گروہوں کو شکست دے، اے اللہ انہیں پسپا کر اور ہلا کررکھ دے۔

(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق و ھی الاحزاب)

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود بیرونی حملہ اور اندرونی منافقت کے اللہ تعالیٰ نے کس طرح مدد فرمائی۔ وہ لوگ جو مدینے کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے آئے تھے کس طرح خائب و خاسر ہو کر واپس چلے گئے۔ منافق قبیلہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے نامراد اور برباد کر دیا۔ اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے کہ بنو نضیر کو ان کی غداری کی وجہ سے جب مدینہ سے جلا وطن کیا گیا تو انہوں نے اسلام کے خلاف سب طاقتوں کو جمع کرکے مدینہ پر حملے کاارادہ کیا اور تقریباً 10 ہزار سے 15 ہزار فوج تیار کرکے مدینہ پر حملہ آور ہوئے اور اس زمانے میں یہ بہت بڑی فوج تھی۔ اس حملے کی خبر پا کر آنحضرتﷺ نے صحابہ ؓسے مشورہ کیا اور حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے کے مطابق مدینہ میں رہ کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ ہوا اور اس کے لئے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے کے مطابق ہی مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی تاکہ کوئی دشمن اندر نہ آ سکے۔ اور غربت کا زمانہ تھا۔ خندق کھودنے کے بعد اندر تو محصور ہو گئے لیکن راشن کی کمی کی وجہ سے اور خوراک کی کمی کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت بہت نازک تھی۔ تو اس عرصہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے کئی نشانات دکھائے اور کئی قبولیت دعا کے واقعات بھی ہوئے، یہ بتانے کے لئے کہ تمہاری دعا قبول ہوئی اور دشمن تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آئندہ بڑی بڑی بادشاہتوں کے زیر نگیں ہونے کی خوشخبریاں بھی آپؐ کو دیں۔ چنانچہ جب آپؐ بھوک سے نڈھال تھے ، صحابہؓ کا بھی یہی حال تھا۔ آپؐ نے اور صحابہؓ نے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے۔ صحابہؓ خندق کھود رہے تھے کہ اس وقت راستہ میں ایک چٹان آ گئی جو ٹوٹ نہیں رہی تھی تو آپؐ نے کدال لے کر وہ چٹان توڑی اور اس توڑنے کے دوران جب آپ ؐ نے تین دفعہ کدال ماری تو وہ چٹان ٹوٹی۔ اور ہر دفعہ جب آپؐ کدال مارتے تھے تو ایک حکومت کے ملنے کا نظارہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو دکھاتا تھا۔ چنانچہ پہلی دفعہ جب آپؐ نے کدال ماری تو کدال مارنے پر آپؐ کو مملکت شام کی چابیاں دی گئیں اور سرخ محلات دکھائے گئے، دوسری دفعہ جب آپؐ نے کدال ماری تو اس پر فارس کی کنجیاں آپؐ کو دی گئیں اور مدائن کے سفید محلات آپ کو دکھائے گئے ۔اور پھر جب تیسری دفعہ آپؐ نے چٹان پر ضرب لگائی تو یمن کی چابیاں آپؐ کو دی گئیں اور صنعاء کے دروازے آپؐ کے لئے کھولے گئے۔ اس وقت آپؐ پر ہنسنے والے ہنستے ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہ صرف اس جنگ جیتنے کی دعا قبول ہوئی ہے بلکہ آئندہ کی حکومتیں ملنے کی بھی میں اطلاع دیتا ہوں۔اس موقع پر آپؐ کی دعا سے خوراک میں برکت پڑنے کا بھی واقعہ ہوا۔ ایک صحابی جابر بن عبداللہؓ نے آپؐ کے چہرے پر نقاہت اور بھوک کے آثار دیکھ کر گھر جا کر اپنی بیوی سے پتہ کیا کہ کھانے کی کوئی چیز ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں کچھ جَو کا آٹا ہے اور ایک چھوٹی بکری ہے۔ انہوں نے بکری ذبح کی اور انہیں کہا کھانا پکاؤمیں آنحضرت ﷺ کو جا کر اطلاع کرتا ہوں۔ تو بیوی نے کہا کہ زیادہ مہمان نہ آ جائیں۔ مجھے ذلیل نہ کروانا۔ آنحضرت ﷺ کو بتا دینا۔ تو جابرؓ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کچھ کھانا ہے۔ آ جائیں، تناول فرمائیں۔ آپ ؐنے پوچھا کتنا ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ ایک چھوٹی سی بکری ہے اور جو کی چند روٹیاں ہیں۔ آپؐ نے فرمایا یہ بہت ہے۔ پھر آپؐ نے آواز دے کر کہا کہ انصاراور مہاجر سارے دعوت پر آ جاؤ۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ میرے ہاتھ پیر پھول گئے، بہت برا حال ہوا لیکن آپؐ نے کہا کہ جاؤ جب تک میں نہ آجاؤں سالن کی ہنڈیا چولہے پر رہنے دینا اور اس کو نہ اتارنا اور نہ روٹی پکانا شروع کرنا۔ پھر آپؐ نے خود آ کر اپنے سامنے روٹی پکوانی شروع کی اورا پنے ہاتھ سے کھانا تقسیم کرنا شروع کیا۔ اور آپؐ کی دعا کی قبولیت کے معجزے سے سب نے سیر ہو کر کھانا کھا لیا۔

(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق و ھی الاحزاب حدیث نمبر 4101)

آپ کی دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں بنو قریظہ کی منافقت اور10 سے15 ہزار فوج کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس طرح فتح عطا فرمائی کہ دشمن کو اپنی پڑ گئی۔ اس کا مختصر قصہ یوں ہے کہ جب محاصرہ لمبا ہو گیا تو رات کے وقت اتنی سخت آندھی آئی کہ جس نے کفار کے بہت بڑے کیمپ میں جوکھلی جگہ پر تھا کھلبلی مچا دی۔ خیمے اکھڑ گئے، قناتوں کے پردے ٹوٹ کر اڑ گئے، ہنڈیاں جو چولہوں پر پڑی ہوئی تھیں الٹ گئیں اور ریت اور کنکر کی بارش نے لوگوں کے کان، ناک، آنکھ اور منہ ہر چیز بند کر دیا۔ وہ آ گیں جو عرب کے دستور کے مطابق قومی نشان کے طور پر جلائی جاتی تھیں، وہ بجھ گئیں۔ یہ دیکھ کروہم پرست کفار کے حوصلے بہت پست ہو گئے اور جو پہلے ہی ایک لمبے محاصرے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو رہے تھے۔ واضح طور پر کوئی چیز سامنے نہیں آ رہی تھی کیونکہ ایک تو لمبا محاصرہ پھر اتنی بڑی فوج، اس کے کھانے پینے اور انتظامات کا سامان ،توان کی بھی کافی بری حالت تھی۔ ان کو اس چیز سے بہت دھکہ لگا۔ چنانچہ ابو سفیان جو اس سارے لشکر کا سپہ سالار تھا، کئی قبیلوں نے مشترکہ طورپر اس کو اپنا سالار بنایا تھا، وہ اپنے لشکر کو لے کر واپس چلا گیا اور ان کے دیکھا دیکھی باقی بھی جانے شروع ہو گئے اور صبح تک یہ میدان بالکل صاف ہو گیا۔ جو مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے آئے تھے، خود ان کو اپنی پڑ گئی اور چلے گئے۔ چنانچہ جب یہ ہو گیا تو حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس کے بعد یہ دعا کرتے تھے اور اس وقت کی کہ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہٗ اَعَزَّ جُنْدَہٗ وَ نَصَرَ عَبْدَہٗ وَ غَلَبَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ فَـلَا شَیْئَ بَعْدَہٗ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو اکیلا ہے اس نے اپنے لشکر کو عزت دی اور اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے ہی احزاب کو مغلوب کیا، اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔

(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق و ھی الاحزاب حدیث نمبر4114)

ایک وقت تھا جب دشمن مکہ میں آپؐ کو ختم کرنے کے درپے تھا۔ اس کے ظلم سے تنگ آ کر آپ ؐ اور مسلمانوں نے مکہ سے ہجرت کی لیکن پھر مدینہ میں بھی دشمن حملہ آور ہوتے رہے۔ جنگ بدر میں یہ لوگ جس طرح حملہ آور ہوئے اس میں بھی آپؐ نے بدر کے دن دعا کی کہ اگر آج مسلمان شکست کھا گئے تو کفار نے ان میں سے پھر کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا اور پھر اے خدا! تیرا نام لیوا دنیا میں کوئی نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کرتے ہوئے تسلی دی کہ فکر نہ کرو، فتح تمہاری ہے اور غلبہ اسلام کا ہے اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالیٰ۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ دشمن نے عبرتناک شکست کھائی۔اوربدر کی جنگ میں دشمن کے سردار واصل جہنم ہوئے۔ پھر اُحد کی جنگ ہوئی اور باوجود دشمن کے حق میں پانسہ پلٹنے کے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بہت بڑے نقصان سے محفوظ رکھا۔ اللہ تعالیٰ تسلی دیتا ہے کہ جب ایک تھے تو اے محمد ﷺ دشمن تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ اے میرے پیارے نبی ؐ میں تو تیری پہلے دن کی دعائیں سن چکا ہوں اور ان کو قبولیت کا درجہ دے چکا ہوں اور تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ دین اب قیامت تک ختم ہونے والا نہیں بلکہ تمام دینوں پر غالب آنا ہے۔ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میرے سامنے گزشتہ امتیں پیش کی گئیں، میں نے دیکھا کہ کسی نبی کے ساتھ ایک گروہ ہے اور کسی کے ساتھ چند افراد ہیں اور کسی نبی کے ساتھ 10 افراد ہیں اور کسی نبی کے ساتھ 5افراد ہیں اور کوئی نبی اکیلا ہی ہے۔ اسی اثناء میں میں نے ایک بڑا گروہ دیکھا، میں نے پوچھا اے جبریلؑ! کیا یہ میری امت ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ آپ افق کی طرف دیکھیں، جب میں نے نظراٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ مسلم کی ایک دوسری روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ مجھے کہا کہ دوسری طرف بھی افق پہ دیکھو، جب ادھر دیکھا تو وہاں بھی لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ تو جبریل ؑنے مجھے بتایا کہ یہ آپ کی امت ہے اور ان میں 70ہزار لوگ ایسے ہیں جو بلا حساب اور بغیر سزا کے جنت میں داخل ہوں گے۔ میں نے پوچھا یہ کیوں؟ تو جبریل ؑنے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دم درود نہیں کرتے اور نہ ہی بدفال لیتے ہیں بلکہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ اس پرعکاشہ بن محصن ؓ کھڑے ہو گئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ایسے لوگوں میں شامل فرمائے۔ نبی کریم ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ تو اسے ان لوگوں میں شامل کر دے۔ اس پر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دے۔ حضور نے فرمایا عکاشہؓ تم پر سبقت اور پہل حاصل کر چکا ہے۔

(بخاری کتاب الرقاق باب یدخل الجنۃ سبعون الفا بغیر حساب حدیث نمبر6541)

پس یہ پیشگوئی ہے جس میں آپؐ کی دعاؤں کی تاقیامت قبولیت کا نظارہ دکھایا گیا ہے۔ آپؐ کو جنگ احزاب میں تو تین بڑی طاقتوں کی کنجیاں دی گئی تھیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے کہ تمام دنیا کی اکثر آبادی آپؐ کی امت میں شامل ہو گی۔ اس میں یہ پیشگوئی بھی ہے کہ آپؐ کی امت میں تاقیامت نیکیوں پر قائم رہنے والے اور صالح عمل کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود رہے گی اور آپؐ کو تسلی دلائی ہے کہ آپؐ کی دعاؤں کا اثر تاقیامت آپؐ کی سچی پیروی کرنے والوں کو پہنچتا رہے گا، آپؐ کی دعاؤں سے وہ حصہ لیتے رہیں گے۔ اور آپؐ نے یہ بھی نصیحت کر دی کہ صرف میری دعا سے ہی نہیں بلکہ نیک اعمال کرکے ان نیک لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کرو جو بغیر حساب جائیں گے۔ تمہارے نیک عمل اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوں اور وہ تمہاری غلطیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے تمہیں جنت میں ڈال دے، کوشش کرو کہ اس کے فضلوں کو جذب کرو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں جتنی دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہو گی اتنی زیادہ اور اتنی جلدی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں سے حصہ لیتے چلے جائیں گے، ان برکات کے وارث بنتے چلے جائیں گے جو آنحضرت ﷺ کی سچی پیروی کرنے والوں کا حصہ ہیں۔اتنی جلدی ہم دشمن اسلام کو خائب و خاسر ہوتا دیکھ لیں گے، اتنی جلدی ہم فرعونوں اور ہامانوں کی تباہی کے نظارے دیکھ لیں گے۔ پس فانی فی اللہ کی دعاؤں سے فیض پانے کے لئے اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق کرتے ہوئے اس کے آگے جھکتے چلے جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(ماخوذ از خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)

(محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 05۔مئی 2020ء