حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا اقتباس ہے۔
آپ فرماتے ہیں۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بدقسمت ہیں ایک وہ جس نے رمضان پایا پھر رمضان گزر گیا اور اس کے گناہ بخشے نہ گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گزر گئے اور گناہ بخشے نہ گئے۔
یہ جو دوقسم کے انسانوں کا ذکر ہے دراصل یہ اللہ کے تعلق میں لازمًا یہی مضمون ہے جو رمضان کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے یہی مضمون ہے جو رمضان کے حوالے سے سمجھانا بہت ضروری تھا۔ اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو بات بیان فرمائی ہے کہ والدین کو پایا اور گناہ بخشے نہ گئے اسی حالت میں رمضان گزر گیا یہ بہت ہی گہرا نکتہ ہے جس کا قرآنی تعلیم سے تعلق ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے۔
قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًاۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا توکہہ دے کہ آؤ میں تمہیں وہ بات بتاؤںجو خدا تعالیٰ نے حرام کر دی ہے تم پر۔ ایک یہ کہ خدا کا شریک نہیں ٹھہرانا۔ اپنی عبارت کو اسی کے لئے خالص کر لو۔ دوسرا یہ کہ ماں باپ سے لازماً احسان کا سلوک کرنا ہے اور ماں باپ کی نافرمانی کر کے خدا کی ناراضگی نہ کما بیٹھنا۔ تو شرک کا مضمون خدا تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا کہ میرا شرک کرو گے تو یہ بہت ہی بڑا گناہ ہو گا۔ حرام کر دیا ہے تم پر۔ لیکن ماں باپ سے جو احسان کرو گے وہ میرا شریک بنانا نہیں ہے۔ شرک سے نیچے نیچے اگر کسی کی عظمت خدا تعالیٰ نے قائم فرمائی ہے تو وہ ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی ہی نہیں اس سے بڑھ کر ان سے حسن سلوک کرتا ہے۔
پس حضرت رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ رمضان شریف میں دو آدمی بڑے بدقسمت ہیں جو نہ خدا کو پاسکیں نہ ماں باپ کا کچھ کر سکیں رمضان گزر جائے اور ان دو پہلوؤں سے ان کے گناہ نہ بخشے گئے ہوں تو یہ دو الگ الگ چیزیں نہیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط چیزیں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ کا سب سے بڑا احسان ہے اور اس احسان میں اور کوئی شریک نہیں ہے۔ یعنی اس نے آپ کو پیدا کیا اس نے سب کچھ بتایا اور ماں باپ بھی اس میں شریک ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ ماں باپ کو بھی اسی نے بنایا اور ماں باپ کو جو کوئی توفیق بخشی آپ کو پیدا کرنے کی وه اسی نے پیدا کی ہے، اپنے طور پر تو کوئی کسی کو پیدا کر ہی نہیں سکتا اپنے زور سے۔ ایک معمولی سا خون کا لوتھڑا بھی انسان پیدا نہیں کر سکتا اگر خدا تعالیٰ نے اس کو ذرائع نہ بخشے ہوں۔
تو پہلا مضمون یہ ہے کہ الله خالق ہے اس لئے اس کا شریک ٹھہرانے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے۔ اور سب سے بڑا ظلم ہے کہ خدا جس نے سب کچھ بنایا ہو اس کو نظرانداز کر کے نعمتوں کے شکریے دوسروں کی طرف منسوب کر دیئے جائیں۔ پھر اس تخلیق کا اعاده ماں باپ کے ذریعے ہوتا ہے اور پھر ماں باپ کے ساتھ آپ کا وجود بنتا ہے۔ اگر ایک تخلیق کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ احسان کا سلوک کریں گے تو جو عظیم خالق ہے لازماً اس کے لئے بھی دل میں امتنان اور احسان کے جذبات زیادہ زور کے ساتھ پیدا ہوں گے اور پرورش پائیں گے۔ پس یہ دو مضمون جڑے ہوئے ہیں۔
جو ماں باپ کے احسان کا خیال نہیں کرتا اور جواباً ان سے احسان کا سلوک نہیں کرتا اس سے یہ توقع کر لینا کہ وہ اللہ کے احسانات کا خیال کرے گا یہ بالکل دور کی کوڑی ہے۔ پس ماں باپ کا ایک تخلیقی تعلق ہے جسے اس مضمون میں ظاہر فرمایا گیا ہے۔ اور رمضان مبارک میں اللہ تعالیٰ نے رمضان کا مقصد خدا تعالیٰ کو پانا قرار دے دیا ہے اور خدا تعالیٰ کو حاصل کرنا بنیادی مقصد بیان فرمایا ہے۔ پس اس تعلق سے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو سب سے زیادہ قرآن کا عرفان پلائے گئے۔ آپ نے یہ مضمون ہمارے سامنے اکٹھا پیش کیا کہ رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتے وقت ہر قسم کے محسنوں کا احسان اتارنے کی کوشش کرو۔ ماں باپ کا احسان تو تم اتار سکتے ہو ان معنوں میں کہ تم مسلسل ان سے احسان کا سلوک کرتے رہو، عمر بھر کرتے رہو۔ اگر احسان نہ بھی اترے تو کم سے کم تم ظالم اور بے حیا نہیں کھلاؤ گے۔ تمہارے اندر کچھ نہ کچھ یہ طمانیت پیدا ہوگی کہ ہم نے اتنے بڑے محسن اور محسنہ کی کچھ خد مت کر کے تو اپنی طرف سے کوشش کر لی ہے کہ جس حد تک ممکن تھا ہم احسان کا بدلہ اتاریں۔ اللہ تعالیٰ کے احسان کا بدلہ نہیں اتارا جا سکتا اور ایک ہی طریق ہے کہ ہر چیز میں اپنی عبادت کو اسی کے لئے خالص کرلو، اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 17جنوری 1997ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل)