صبح صادق پیارے ابو جان کی آواز کے بعد ان کی چھڑی (لاٹھی) کی زمین پر ٹھک ٹھک کی آواز کسی الارم سے کم نہ تھی یہ آخری الٹی میٹم ہوتا کہ اب نماز کا وقت ہوا چاہتا ہے ۔ ابو جان کے اٹھانے کا یہ اندا ز آج بھی بہت یاد آتا ہے ۔ او ر دل بھر آتا ہے ۔ وہ آج اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کی اللہ اور قرآن پاک سے محبت کے کئی مناظر آنکھوں میں تیرتے رہتے ہیں ۔
آج سے 16سال پہلے پیارے پاکستان کو الوداع کر کے ہزاروں میل دور جب جرمنی کی سر زمین پر قدم رکھا تو سب کچھ نیا اور اجنبی سا لگا۔ اپنا دیس ،اس کے کھانے، اس کا ماحول سب کچھ بےحد یاد آیا تب سمندر پار اپنا دیس ایک سونے کی چڑیا کی طرح بےحد قیمتی لگا غالباً پہلی مرتبہ!
یوں تو جرمنی ایک خوبصورت ملک ہے لیکن پاکستان کا تاروں بھرا آسمان بے حد یاد آیا۔گرمیوں میں زمین (صحن)پر چارپائی کی قطاریں اور آسمان پر ستاروں کے جُھرمٹ جرمنی کے حسین مناظر سے کہیں زیادہ اچھے لگے ۔کیونکہ ان ستاروں کی روشنی تلے میرے پیارے ابو جان بھی تھے ۔ اور پھر جیسے جرمنی کی راتیں ستاروں کے بغیر بےرونق تھیں تو جرمنی کی صبحوں میں بھی نہ ابو جان کی آواز تھی نہ ان کی چھڑی کا آخری الارم تھا۔
سالوں نے باری باری ذمہ داری سنبھالی اور وقت گزرتا گیا اور جرمنی کا ماحول اجنبی نہ رہا لیکن دل والدین کی یاد میں ہمیشہ اداس رہتا۔ یہ اداسی تب دکھ میں بدلی جب میں ابو جان کو آخری سفر پر الوداع کرنے پاکستان نہ جاسکی (اللہ تعالیٰ میرے پیارے ابو جان کو جنت الفردوس میں پیاری سی جگہ عطا فرمائے ۔ آمین) پھر دل کو سمجھایا کہ جب اس کائنات کی سب سے پیاری ہستی حضرت محمد مصطفی ﷺ اپنے پیارے محبوب سے ملنے اس فانی دنیا کو چھوڑ گئے تو پھر باقی سب انسانوں کی کیا حیثیت ہے۔
ابو جان کی چھڑی کی ٹھک ٹھک کی آواز تو ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی لیکن اس کی جگہ صبح کے وقت پرندوں کی چہچاہٹ نے لے لی۔ اور سوچنے پر مجبور کیا کہ خدا نے کتنا پیار نظام بنایا ہے کہ اس کی تخلیق کردہ ہر چیز کوئی نہ کوئی پیغام دے رہی ہے ۔
پرندے انسانوں سے پہلے اپنے تخلیق کردہ کے گن گانے لگتے ہیں اور انسانوں کو اپنی پیاری پیاری چہچاہٹ سے اٹھاتے ہیں کہ اے اشرف المخلوقات اُٹھو ! ہم انسانوں سے کم تر ہیں لیکن اٹھ چکے ہیں اور یہ انکا آخری الارم ہو تا ہے کہ اٹھو نماز کا وقت ہوا چاہتا ہے ۔ اگر غور کریں تو جیسے ہی نماز کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور روشنی ہو جاتی ہے تو پرندوں کی آوازیں بھی کم ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ رزق کی تلاش میں اِدھر اُدھر پرواز کر جاتے ہیں ۔
پوپھٹنے کے وقت سورج بھی اپنی مدہم سی روشنی میں پیغام دیتا ہے کہ اے انسانو اٹھو ! جیسے میں افق پر طلوع ہونے کی تیاری میں ہوں تم بھی نماز کے قیام سے اپنی اور اپنی نسلوں کی قسمتوں کو طلوع کرو آخر سورج بھی الارم دیتا ہوا اپنی روشنی اور حدّت بڑھانے لگتا ہے ۔
اس طرح جہاں بہار کا موسم دنیا کی خوبصورتی اور رنگینیوں کی عکاسی کرتا ہے تو خزاں اس کے پیچھے اپنی بےرونقی سے الارم دیتا ہوا آتا ہے کہ اس دنیا کی رنگینیوں میں ہی نہ کھو جانا ورنہ مجھ جیسی بےرونقی مقدر ہو گی۔
سردیوں کی یخ بستہ ہوائیں جیسے ہر چیز کو منجمد کر دیتی ہیں تو گرمی کی شدت ہر چیز کو پگھلا دیتی ہے یہ گرمی کا الارم ہے کہ میری پگھلانے کی خاصیت کو الارم سمجھو اور اپنے دِلوں کو خدا اور اس کی مخلوق کے لئے نرمی اور رحم سے پُر رکھو۔
اسی طرح بیماری بھی الارم ہے کہ مجھ سے بچنا ہے تو صحت کا خیال صحت میں رکھو۔ غرض جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الیَّلِ وَالنَّھَارِ لَاٰ یٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ
(آل عمران:191)
یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں صاحبِ عقل لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں ۔
قرآن کی ہر بات ہر زمانے کے لئے معنی خیز ہے اور بہت سے پیغامات پوشیدہ ہیں جو انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں ۔
سال کے بارہ مہینے اپنے مختلف رنگ دکھاتے رہتے ہیں لیکن رمضان کا بابرکت مہینہ سارے مہینوں کا الارم ہے اپنے پہلے عشرہ سے رحمتیں نچھاور کرتا ہوا آتا ہے کہ اے مسلمانو!اگر سال بھر کوتاہیوں میں پڑے رہے ہو تو آؤ میرے دِنوں کو اچھے طریق پر بتاؤ اوراپنی پیشانیاں ٹپکتے ہوئے مغفرت کے عشرہ میں اپنے سجدوں کو آنسوؤں سے تر کرو اور اپنے رب کی مغفرت اور رحم طلب کرو۔ اور آخری عشرہ میں جاتے ہوئے پھر پکارتا ہے کہ کوئی ہے جو جہنم کی آگ سے بچنے کے لئے اپنے رب کے حضور آہ و بکا کرے اور اپنی زندگیوں کو سنوارے ۔
جس طرح خدانے کائنات کی ہر چیزکو منظم کیا ایسے ہی انسانوں کو منظم رکھنے کے لئے انبیاء کرام کا سلسلہ قائم کیا ۔ انبیا ء کرام کی لڑی میں ہرنبی نے خود یا اپنے صحیفوں میں یہ پیغام بطور الارم دیا کہ اے لوگو! ایک عظیم نبی آئے گا اور یہ کائنات اس کے ادب میں جھکے گی وہی وجود ہے جو آخری اور مکمل ہے۔ اور یہ وجود ہمارے پیارے ہادی و رہبر آقا ومولا حضرت محمدمصطفی ﷺ ہیں جن پر لاکھوں درود و سلام ۔آپؐ نے سابقہ انبیاء کی امتوں میں موجود افراط وتفریط کو ایک کامل نظام خدا کے حکم سے دیا وہ نظام جو انسان کی طبیعت پر کسی بھی طرح گراں (بھاری) نہیں ۔ نہایت آسان اور فطرت کے نزدیک یہ نظام میانہ روی کا نظام ہے جسے خدانے اسلام کے نام سے پسند کیا ۔
خدا کے پیارے نبی ﷺ نے آخری الارم (تنبیہ )کے طور پر آخری خطبہ حجۃ الوداع دیا جس میں سب انسانوں کو آپس میں رہنے سہنے کی تمام اونچ نیچ کا خلاصہ بتایا اور اللہ کے پیغام کو تمام کیا کہ تمہارے لئے خدا نے دین ِ اسلام پسند کیا ہے ۔
اس طرح آپ ؐنے ایک مسلمان کے دِل میں ایمان کی شمع روشن کردی اور سب سے بڑھ کر آپ کی تعلیم سے انسان اس احساس سے روشناس ہوا کہ سارے نظاموں کی طرح ایک عظیم نظام خدا نے خود انسان کے اندر بھی رکھ دیا ہے کہ جب وہ بھٹکنے لگے تو اس کا ضمیر اسے الارم کے طور پر جگاتا ہے اور انسان کے دل و دماغ میں ایک جنگ برپا ہو جاتی ہے کہ یہ راہ غلط ہے ، یہ راہ غلط ہے۔
بس یہی الارم ہے جو انتہائی ضروری ہے اگر اس کی ٹھک ٹھک پر انسان نہیں جاگتا تو پھر کبھی نہیں جاگتا ۔
(نوشابہ واسع بلوچ ۔ جرمنی)