(مدنی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 177 آیات ہیں)
ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فریدؓ) ایڈیشن 2003ء
وقت نزول اور سیاق و سباق
اس سورۃ کا نام بجا طور پر النساء یعنی (عورتیں) رکھا گیا ہےکیونکہ یہ بنیادی طور پر عورتوں کے حقوق اور ذمہ داریوں اور معاشرہ میں عورت کے مقام اور رتبہ پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہ سورۃ ہجرتِ مدینہ کے تیسرے سے پانچویں سال کے دوران غزوہ احد کے بعد نازل ہوئی۔ اس سورۃ میں بیواؤں اور یتیموں کے حقوق پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کی تعداد غزوہ احد کے بعد بہت بڑھ گئی تھی۔ مسلمان اور یورپیئن سب علماء اس بارے میں متفق الرائے ہیں۔ معروف جرمن مستشرق نولڈکے کا رجحان اس سورۃ کی بعض آیات کو مکی قرار دینے میں ہے کیونکہ اس کے نزدیک اس سورۃ میں یہود سے دوستانہ تعلیمات کو روا رکھا گیا ہے کیونکہ وہ مکی دور میں مسلمانوں کے خلاف میدان میں نہ اترے تھے۔
وہیری کا خیال ہے کہ آیت 134 میں جو طرزِ تخاطب ’اےلوگو!‘ استعمال ہوا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ آیت ضرور مکی ہے کیونکہ یہ طرز مکی سورتوں میں اپنائی گئی ہے۔ مگر یہ کہنا کہ ایک آیت کے طرز تخاطب کی وجہ سے یہ سورۃ مکی ہو جاتی ہے اگرچہ دیگر قرائن اس کے برعکس ہوں محض ایک دعویٰ ہے۔
در حقیقت مکہ میں ایمان لانے والوں کی تعداد بہت کم تھی اور مسلمان ایک الگ تھلگ اور غیر معمولی گروہ کے طور پر نہ ابھرے تھے اور شریعت کے معدودے چند احکام نازل ہوئے تھے لہٰذا مکہ والوں، مومنوں اور کفار سب کو اکٹھامخاطب کرکے ’اےلوگو!‘ کا طرز تخاطب اپنایا گیا ہے۔ مکی دورمیں مسلمان ایک منظم گروہ کے طور پر نہ ابھرے تھے جو اپنا ایک منفرد تشخص رکھتا ہو جبکہ ہجرت مدینہ کے بعد شرعی احکام نہایت واضح اور کثرت سے نازل ہوئے تو انہیں ’اے مومنو‘ کے الفاظ سے پکارا گیا۔
اس سورۃ کا اپنی سابقہ سورۃ سے نہایت مربوط تعلق یوں بنتا ہے کہ سابقہ سورۃ میں جو اہم ترین موضوع بیان کیا گیا ہے وہ غزوہ احد کے حالات ہیں اور اس سورۃ میں جنگ کے بعد پیدا ہونے والے مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ سورۃ یہودیوں اور مدینہ کے منافقوں کی سازشوں اور فتنہ پردازیوں پر بھی خوب روشنی ڈالتی ہے جو احد کی جنگ کے بعد مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی قوت کو دیکھ کر اسلام کی سرکوبی کے لئے ایک آخری بھرپور کوشش کے منصوبے بنا رہے تھے۔
پھر عیسائیت کے حوالہ سے بھی یہ سورۃ اپنی سابقہ سورۃ کے موضوع کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے عیسائیت کے عقیدہ کفارہ کی تردید کرتی ہے اور اس حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مصلوب نہ ہوئے تھے۔
مضامین کا خلاصہ
سورۃ اٰل عمران کی طرح سورۃ النساء میں بھی عیسائیت کےموضوع کو بیان کیا گیا ہے۔ مگر اس سورۃ میں دونوں مذاہب یعنی اسلام اور عیسائیت کے موازنہ کو تفصیل سے بیان کیاگیاہے اور خاص طور پر آئندہ زمانہ میں عیسائیت کی ترقی اور غلبہ کو بیان کیا گیا ہے۔ جیساکہ آئندہ زمانہ میں عیسائی مصنفوں اور باتیں بنانے والوں کی طرف سے اسلام پر یہ الزام لگایا جانا تھا کہ اسلام میں عورت کا مقام مرد سے بہت کم تر ہے اس لئے یہ سورۃ عورتوں سے متعلق مسائل پر روشنی ڈالتی ہےاور اس بارے میں بھی نہایت روشن دلائل دئے گئے ہیں کہ عورت کی عزت و اکرام قائم کرنے کے حوالہ سے بھی اسلامی تعلیمات عیسائیت سے بالا تر ہیں۔
جیساکہ یتیموں کا معاملہ عورتوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اس سورۃ میں اس پر بھی خاص طور پر توجہ دی گئی ہےجو اپنی ذات میں عورتوں اور یتیموں کے حقوق کے تحفظ کے حوالہ سے پہلی الہامی رہنمائی ہے۔ عورتوں کو نہ صرف ان کے جائز حقوق دئیے گئے ہیں بلکہ خاص طور پر وراثت میں بھی حصہ دیاگیا ہے، حتی کہ انہیں اپنی جائیداد کی خود مختار مالکہ تسلیم کیا گیا ہے۔
دوسرا اہم موضوع جو اس سورۃ میں بیان کیا گیا ہے وہ منافقت ہے جیساکہ آئندہ زمانہ میں عیسائیت کو عالمگیر غلبہ ملنا مقدر تھا اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو عیسائی حکومتوں کے ماتحت رہنا تھا اور ان کی رعایا ہونے کی وجہ سے اور ان عیسائی حکومتوں کے اسلام پر تنقید کی وجہ سے ممکن تھا کہ یہ مسلمان اپنے عقائد میں منافقت کو راہ دے بیٹھیں۔ اسی لئے عورتوں کے ساتھ ساتھ منافقت کو بھی اس سورۃ کا ایک موضوع بنایا گیا ہے۔ اس امر پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ ایک منافق اخلاقی اور روحانی طور پر کس حد تک گراوٹ میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ منافقوں کو تنبیہ کی گئی ہےکہ ذلت اور رسوائی ان کا مقدر ہے کیونکہ وہ اپنے خالق سے زیادہ لوگوں سے ڈرتے ہیں۔
اپنے اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے یہ سورۃ حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب دئیے جانے پر روشنی ڈالتی ہے اور پر زور طریقے سے اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے کا عقیدہ باطل ہےاور بے دلیل ہے۔ دیگرانسانوں کی طرح آپ کی وفات بھی طبعی طریق پر ہوئی اور مصلوب ہونے کے عقیدہ کی تردید تاریخی شواہد سے بھی ہوتی ہے حتی کہ اناجیل بھی اس عقیدہ کی تائید نہیں کرتیں۔
اس سورۃ کا اختتام کلالہ کے متعلق آگاہی پر ہوا ہے جسکا مقصد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے روحانی طور پر لا وارث ہونے کی اطلاع دینا ہے جو اس حوالہ سے کلالہ تھےکہ آپ نے اپنے بعد کوئی روحانی خلیفہ نہ چھوڑا اور بعد ازاں نبوت بنواسرائیل سے بنواسماعیل کو منتقل ہو گئی ۔
(وقار احمد بھٹی)