تاریخ اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ ہجرت مدینہ کے 18 ماہ بعد ماہ شعبان میں تحویلِ قبلہ کے بعد ماہ رمضان کے روزوں کے رکھنے کا حکم نازل ہوا ۔
یآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْ اکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ
(البقرہ: 184)
اے ایمان دارو تم پر روزے فرض کر دئے گئے ہیں………
فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ
(البقرہ: 186)
جو رمضان کا مہینہ پائے اس کو چاہئے کہ وہ اس پورے ماہ کے روزے رکھے۔
رمضان میں غزوہ بدر
اسی سال یعنی ہجرت کے انیسویں مہینے 17 رمضان (جنوری 624ء) غزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کے بھاری اور طاقتور لشکر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کو فتح دی۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
وَلَقَدْ نَصَرَ ُکُم اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃ
(آل عمران :124)
اللہ تعالیٰ بدر کی جنگ میں تمہاری مدد کر چکا ہے جب کہ تم بہت کمزور اور ناتواں تھے۔
بدر کا مقام مدینہ منورہ سے جنوب مغرب کی طرف 155 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اسے ہر طرف سے بلند پہاڑیوں نے گھیرا ہوا ہے اس میں کئی کنویں اور باغات تھے جہاں قافلے عموماً پڑاؤ ڈالتے تھے مکہ سے شام آنے جانے والے تجارتی قافلوں کا یہی راستہ تھا۔
بدر میں بعثتِ مسیح موعودؑ کی پیشگوئی
بدر چودھویں رات کے چاند کو بھی کہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’قرآن کریم ذوالوجوہ ہے سو اس آیت کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان صدیوں کے اختتام پر جن کی گنتی بدر کامل کے دنوں کے مشابہ ہے مسیح موعود ؑکے ظہور سے مومنوں کی مدد کرے گا‘‘
(اعجاز المسیح ،روحانی خزائن جلد18 صفحہ 187۔188 اردو ترجمہ)
رمضان کی برکات
فرمایا:
‘‘خدا تعالیٰ نے دین کا نظام رمضان سے ہی باندھا ہے کیونکہ اس میں قرآن نازل کیا ہے پس جب کہ اس مہینہ کی خصوصیت نظام دین کے ساتھ ثابت ہوئی اور اسی مہینہ میں لیلۃ القدر ہے اور وہ مبدء دین کے انوار کا ہے اور ثابت ہؤا کہ عنایات الہیہ رمضان میں ہی نظام خیر کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور ابتدائے فیضان کا اسی مہینہ میں ہؤا کہ خدا تعالٰی اعانت نظام کے لئے تاریکی کے انتہاء کے وقت صرف رمضان میں ہی توجہ فرماتا ہے اور تو پہچان چکا ہے کہ خسوف اور کسوف جمالی اور جلالی تجلی ہے اور یہ تجلی نشاۃ ثانیہ اور تبدلات روحانیہ کے لئے ہے اور یہ نظام خیر کی بنیاد کے لئے پہلی اینٹ ہے اور نیز مساجد کی تعمیر اور دیر کی خرابی کے لئے اور اس میں آسمانی قوتیں زمینی قوتوں پر غالب آجائیں گی اور مسیحی نور دجالی حیلوں سے بڑھ جائیں گے اور خدا تعالٰی اپنی خلقت کو ایک روشن چراغ دکھائے گا پس وہ فوج در فوج دین الہی میں داخل ہوں گی۔’’
(نور الحق، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 237۔238)
رمضان میں نشان کسوف و خسوف
فرمایا:
‘‘دار قطنی نے امام باقر سے روایت کی ہے کہ ہمارے مہدی کے دو نشان ہیں کہ جب سے کہ زمین و آسمان پیدا کئے گئے ہیں کبھی ظہور میں نہیں آئے یعنی یہ کہ قمر کی پہلی رات میں اس کی 3راتوں میں سے جو خسوف کے لئے مقرر ہیں خسوف ہوگا اور سورج کے3 دنوں میں سے جو اس کے کسوف کے لئے مقرر ہیں بیچ کے دن کسوف ہوگا اور یہ بھی رمضان میں ہوگا۔’’
(نجم الہدٰی ،اردو ترجمہ بحوالہ تفسیر مسیح موعود جلد8 صفحہ 268۔269)
قرآن کریم میں اس نشان کا ذکر
وَخَسَفَ القَمَرُ وُ جُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ
(القیامہ: 9۔ 10)
’’اور چاند اور سورج جمع کئے گئے جیسا کہ قرآن شریف میں ذکر آیا اور دونوں کا رمضان شریف میں کسوف و خسوف ہو گیا جیسے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شق قمر ہؤا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ اردو ترجمہ، روحانی خزائن جلد16 صفحہ 94)
چنانچہ 13 رمضان 1311ھ (21 مارچ 1894ء) خسوف کا نشان اور 28 رمضان 1311ھ (6 اپریل 1894ء) کو کسوف کا نشان ظاہر ہوا جس کی خبر دو مشہور اور مقبول اخبار پانئیر اور سول اینڈ ملٹری گزٹ میں شائع ہوئی۔
اہل اسلام کے لئے مقام شکر
آپؑ نے فرمایا
’’اے اہل اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والو تمہیں معلوم ہو کہ وہ نشان جس کا قرآن کریم میں تم وعدہ دیئے گئے تھے اور رسول اللہ ﷺ سے جو سید الرسل اور اندھیرے کو روشن کرنے والا ہے تمہیں بشارت ملی تھی یعنی رمضان شریف میں آفتاب اور چاند گرہن ہونا وہ رمضان جس میں قرآن نازل ہوا وہ نشان ہمارے ملک میں بفضل اللہ ظاہر ہو گیا اور چاند اور سورج کا گرہن ہوا اور دو نشان ظاہر ہوئے پس خدا تعالٰی کا شکر کرو اور اس کے آگے سجدہ کرتے ہوئے گِرو۔‘‘
(نورالحق الحصہ الثانیہ، روحانی خزائن جلد8 صفحہ 193۔194 )
(انجینئر محمود مجیب اصغر)