• 29 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ کا خلاصہ – 8 مئی 2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یو کے

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 8 مئی 2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یو کے

بدری صحابی حضرت خباب بن الارتؓ کا ذکرخیر اور آپؓ نےجو دینِ حق کی خاطر شدید جسمانی تکالیف اور اذیّتیں اُٹھائیں

رسول کریم ﷺ پر ایمان لا کر جن لوگوں نے سب سے زیادہ تکلیفیں اُٹھائیں وہ غلام ہی تھےجن میں خبابؓ بن الارت بھی ایک غلام تھے

ایک مرتبہ آپؓ کو گرم زمین پر لٹایاگیایہاں تک کہ کمر تپش کی وجہ سے سفید ہوگئی اور اس طرح کی کئی تکالیف آپؓ کو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے برداشت کرنی پڑیں

حضرت علیؓ نے کہا اللہ خباب پر رحم کرے، وہ اپنی خوشی سے اسلام لائے اور اُنہوں نے اطاعت کرتے ہوئے ہجرت کی اور ایک مجاہد کے طور پر زندگی گزاری اور جسمانی طور پر وہ آزمائے گئے اور جو شخص نیک کام کرے اللہ اُس کا اجر ضائع نہیں کرتا

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح ا لخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےمورخہ 8مئی 2020ء کو مسجد مبارک ، اسلام آباد ٹلفورڈ یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو کہ مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ ایم ٹی اےانٹرنیشنل پر براہ راست نشر کیا گیا ۔حضور انور نے فرمایا : آج مَیں ایک بدری صحابی حضرت خباب بن الارت ؓ کا ذکر کروں گا۔ حضرت خبابؓ کا تعلق قبیلہ بنو سعد بن زید سے تھا۔ ان کے والد کا نام ارت بن جندلہ تھا ،ان کی کنیت ابوعبداللہ اور بعض کے نزدیک ابو محمد اور ابویح بھی تھی۔ زمانہ جاہلیت میں غلام بنا کر مکہ میں یہ بھیج دئیے گئے۔ یہ عتبہ بن غزوان کے غلام تھے۔ بعض کے نزدیک امّ عمارخزاعیہ کےغلام تھے۔ بنو زہرہ کے حلیف ہوئے۔ اوّل اسلام لانے والے اصحابؓ میں یہ چھٹے نمبر پر تھے اور اُن اوّلین میں سے ہیں جنہوں نے اپنا اسلام ظاہر کر کے اس کی پاداش میں سخت مصائب برداشت کئے۔ حضرت خبابؓ رسول اللہ ﷺ کے دارِ اَرقم میں تشریف لانے اور اس میں دعوت دینے سے پہلے اسلام لائے تھے۔ سب سے پہلے جن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسلام ظاہر کیا وہ یہ ہیں۔حضرت ابوبکرؓ، حضرت خبابؓ، حضرت صہیبؓ، حضرت بلالؓ، حضرت عمارؓ اور حضرت سمیہؓ والدہ حضرت عمارؓ۔ تاریخ اس پر شاہد ہےکہ آنحضرت ﷺ خود بھی مشرکین مکہ کے ہاتھوں مظالم سے محفوظ نہ رہے اور نہ ہی حضرت ابوبکرؓ محفوظ رہے۔ اُنہیں بھی طرح طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ۔ باقی لوگوں کو لوہے کی زرہیں پہنائی گئیں اور اُنہیں سورج کی شدید دُھوپ میں جُھلسایا گیا اور جس قدر اللہ نے چاہا اُنہوں نے لوہے اور سورج کی حرارت کو برداشت کیا۔ حضرت خبابؓ نے بہت صبر کیا اور کفّار کے مطالبے یعنی اسلام سے انکار کو منظور نہیں کیا تو اُن لوگوں نے ان کی پیٹھ پر گرم گرم پتھر رکھے یہاں تک کہ ان کی پیٹھ سے گوشت جاتا رہا۔ حضور انور نےحضرت خبابؓ کا ایک واقعہ جو حضرت عمر ؓکے اسلام قبول کرنے کے وقت پیش آیا اس کا تفصیلی ذکر فرمایا۔

حضور انور نےفرمایا: حضرت خبابؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ ایک درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے اور آپؐ نے اپنا ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھا ہوا تھا۔ مَیں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپؐ ہمارے لئے دُعا نہیں کریں گے اس قوم کے خلاف جن کی نسبت ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمیں ہمارے دین سے نہ پھیر دیں تو آپؐ نے مجھ سے اپنا چہرہ تین مرتبہ پھیرا چہرہ پرے کر لیا اور جب بھی مَیں آپؐ سے یہ عرض کرتا تو آپؐ اپنا منہ موڑ لیتے۔ تیسری دفعہ آپؐ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: اے لوگو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صبر کرو۔ خدا کی قسم تم سے پہلے خدا کے ایسے مؤمن بندے گزرے ہیں جن کے سر پر آرا رکھ دیا جاتا اور اُنہیں دو ٹکڑے کر دیا جاتا مگر وہ اپنے دین سے پیچھے نہ ہٹے۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ،اللہ تمہاری راہیں کھولنے والا اور تمہارے کام بنانے والا ہے۔

حضرت خبابؓ کہتے ہیں کہ مَیں لوہار تھا اور عاص بن وائل کے ذمہ میرا قرض تھا ۔مَیں اس کے پاس تقاضا کرنے آیا تو اُس نے مجھ سے کہا کہ مَیں ہرگز ادا نہیں کروں گا تمہارا قرض جب تک تم محمد کا انکار نہ کرو۔ اس بات کا اعلان نہ کرو کہ مَیں آنحضرت ﷺ کی بیعت سے باہر آتا ہوں۔ جب تک تم محمد کا انکار نہ کرو گے مَیں نہیں ادا کروں گا تو حضرت خبابؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے اُس سے کہا کہ مَیں آپ ﷺ کا ہرگز انکار نہیں کروں گا یہاں تک کہ تو مرے اور پھر زندہ کیا جائے یعنی ناممکن ہے کہ مَیں انکار کروں۔ اس نے بھی کہہ دیا مَیں نے تو نہیں دینا۔ حضرت خبابؓ کہتے ہیں کہ اسی کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں کہ اَفَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ کَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَ قَالَ لَاُوۡتَیَنَّ مَالًا وَّ وَلَدًا …………(مریم:78 تا 81)

حضور انور نےفرمایا: حضرت خبابؓ لوہار تھے اور تلواریں بنایا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ اُن سے بہت اُلفت رکھتے تھے اور اُن کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے۔اُن کی مالکہ کو اس کی خبر ملی کہ آنحضرت ﷺ حضرت خبابؓ کے پاس آتے ہیں تو وہ گرم گرم لوہا حضرت خبابؓ کے سر پر رکھنے لگی۔ حضرت خبابؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپؐ نے فرمایا: اللہ! خباب کی مدد کر، دُعا کی آپؐ نے۔ پس نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کی مالکہ جو تھی امّ انمار، اُس کے سر میں کوئی بیماری پیدا ہو گئی اور وہ کتّوں کی طرح آوازیں نکالتی تھی، اُس سے کہا گیا کہ تُو داغ لگوا لے یعنی گرم لوہا لگوا اپنے سر پہ۔ چنانچہ مجبور ہوئی تو حضرت خبابؓ کے ذریعہ سے پھر وہ اپنے سر پہ گرم لوہا لگواتی تھی۔ابولیلی قندی سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت خبابؓ حضرت عمر ؓکے پاس آئے حضرت عمر ؓنے اُن کو کہا کہ قریب آ جاؤ کیونکہ سوائے عمار بن یاسر کے اس مجلس کا تم سے زیادہ مستحق کوئی نہیں۔ حضرت خبابؓ اپنی پیٹھ کے وہ نشانات دِکھانے لگے جو مشرکین کے تکلیف دینے سے پڑ گئے تھے۔ ایک اور جگہ کمر کے زخم دکھانے کے بارے میں اس طرح روایت آتی ہے ۔شعبی سے روایت ہے کہ حضرت خبابؓ حضرت عمر بن خطابؓ کے پاس آئے ،اُنہوں نے حضرت خبابؓ کو اپنی نشست گاہ پر بٹھایا اور فرمایا: سطح زمین پر کوئی شخص اس مجلس کا ان سے زیادہ مستحق نہیں سوائے ایک شخص کے۔ حضرت خبابؓ نے کہا اے امیر المؤمنین! وہ کون ہے تو حضرت عمر ؓنے فرمایا : وہ بلالؓ ہے۔ حضرت خبابؓ نے حضرت عمر ؓسے کہا کہ اے امیر المؤمنین! وہ مجھ سے زیادہ مستحق نہیں ہے کیونکہ بلالؓ جب مشرکوں کے ہاتھ میں تھے تو اُن کا کوئی نہ کوئی مددگار تھا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اُن کو بچا لیا کرتا تھا مگر میرے لئے کوئی نہ تھا جو میری حفاظت کرتا۔ حضرت خبابؓ کہتے ہیں کہ ایک روز میری یہ حال تھی مَیں نے اپنے آپ کو اس حالت میں دیکھا کہ لوگوں نے مجھے پکڑ لیا، آگ جلائی میرے لئے پھر لوگوں نے مجھے اُس میں پھینک دیا اور اُس کے بعد ایک آدمی نے اپنا پاؤں میرے سینے پر رکھ دیا تو میری کمر ہی تھی جس نے مجھے گرم زمین سے بچایا یا کہا کہ میری کمر ہی تھی جس نے زمین کو ٹھنڈا کیا۔ پھر اُنہوں نے اپنی پیٹھ پر سے کپڑا ہٹایا تو وہ برص کی طرح سفید تھی۔

حضرت مصلح موعود ؓ حضرت خبابؓ کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ یاد رکھنا چاہئے کہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لا کر جن لوگوں نے سب سے زیادہ تکلیفیں اُٹھائیں وہ غلام ہی تھے۔ چنانچہ خباب بن الارت ایک غلام تھے جو لوہار کا کام کرتے تھے وہ نہایت ابتدائی ایّام میں آپؐ پر ایمان لے آئے۔ لوگ اُنہیں سخت تکالیف دیتے تھے حتیٰ کہ اُنہی کی بھٹی کے کوئلے نکال کر اُن پر اُنہیں لٹا دیتے تھے اور اُوپر سے چھاتی پر پتھر رکھتے تھے تا کہ آپ کمر نہ ہلا سکیں ۔ اُن کی مزدوری کا روپیہ جن لوگوں کے ذمّہ تھا وہ روپیہ ادا کرنے سے منکر ہو گئے مگر باوجود ان مالی اور جانی نقصانوں کے آپؓ ایک منٹ کے لئے متذبّذب نہ ہوئے اور ایمان پر ثابت قدم رہے۔ آپؓ کی بیٹھ کے نشان آخر عمر تک قائم رہے چنانچہ حضرت عمر ؓ کی حکومت کے ایّام میں اُنہوں نے اپنے گزشتہ مصائب کا ذکر کیا تو اُنہوں نے اُن سے پیٹھ دِکھانے کو کہا۔ جب اُنہوں نے پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھایا تو تمام پیٹھ پر ایسے سفید داغ نظر آئے جیسے کہ برص کے داغ ہوتے ہیں۔پھر حضرت مصلح موعود ؓ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک ابتدائی نو مسلم غلام خبابؓ کی پیٹھ ننگی ہوئی تو اُن کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اُن کی پیٹھ کا چمڑہ انسانوں جیسا نہیں ہے جانوروں جیسا ہے۔ وہ گھبرا گئے اور اُن سے دریافت کیا کہ آپ کو یہ کیا بیماری ہے؟ وہ ہنسے اور کہا کہ بیماری نہیں یہ یادگار ہے اس وقت کی جب ہم نومسلم غلاموں کو عرب کے لوگ مکہ کی گلیوں میں سخت اور کھردرے پتھروں پر گھسیٹا کرتے تھے اور متواتر یہ ظلم ہم پر روا رکھے جاتے تھے اسی کے نتیجہ میں میری پیٹھ کا چمڑا یہ شکل اختیار کر گیا ہے۔ ان ابتدائی مسلمانوں کو جو غریب بھی تھے اور اکثر غلام بھی تھے اور اسلام قبول کرنے کے بعد جن تکالیف میں سے اُنہیں گزرنا پڑا کہ کبھی آگ پہ لٹا دیا جاتا کبھی پتھروں پہ گھسیٹا جاتا اُن کوبعد میں، یہ تکلیفیں تو برداشت کر لیں اور جب اسلام کی ترقی ہوئی تو اُس وقت اللہ تعالیٰ نے کس طرح نوازااور اُن کا دُنیاوی مقام بھی کس طرح قائم فرمایا حضورانور نے حضرت مصلح موعود ؓ کا ایک حوالہ پیش کر کے اس کا تفصیلی ذکر فرمایا۔

حضور انور نے فرمایا : جب حضرت خبابؓ اور حضرت مقداد بن عمروؓ نے مدینہ ہجرت کی تو یہ دونوں حضرت کلثوم بن الہدمؓ کے ہاں ٹھہرے اور حضرت کلثومؓ کی وفات تک اُنہی کے گھر ٹھہرے رہے۔ حضرت کلثومؓ کی وفات آنحضرت ﷺ کے بدر کی طرف نکلنے سے کچھ عرصہ پہلے ہوئی تھی پھر وہ حضرت سعدؓ بن عبادة کی طرف چلے گئے یہاں تک کہ پانچ ہجری میں بنو قریظہ کو فتح کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خبابؓ اور حضرت خراش بن سمہؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت تمیمؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ حضرت خبابؓ غزوہ بدر ،اُحد اور خندق سمیت دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک رہے۔

فرمایا۔ابوخالد بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت خبابؓ آئے اور خاموشی سے بیٹھ گئے۔ لوگوں نے اُن سے کہا کہ آپؓ کے دوست آپ کے پاس اکٹھے ہوئے ہیں تا کہ آپؓ ان سے کچھ بیان کریں یا اُنہیں کچھ حکم دیں۔ حضرت خبابؓ نے کہا مَیں انہیں کس بات کا حکم دوں ایسا نہ ہو کہ مَیں اُنہیں کسی ایسی بات کا حکم دوں جو مَیں خود نہیں کرتا۔فرمایا : اللہ تعالیٰ کے خوف اور تقویٰ کا یہ معیار تھا ان لوگوں کا۔طارق سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحابؓ کی ایک جماعت نے حضرت خبابؓ کی عیادت کی۔ اُن لوگوں نے کہا کہ اے ابو عبداللہ ! خوش ہو جاؤ کہ تم اپنے بھائیوں کے پاس حوضِ کوثر پر جاتے ہو۔ حضرت خبابؓ نے کہا کہ تم نے میرے سامنے اُن بھائیوں کا ذکر کیا ہے جو گزر گئے ہیں اور اُنہوں نے اپنے اجروں میں سے کچھ نہ پایا اور ہم اُن کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ ہمیں دُنیا سے وہ کچھ حاصل ہو گیا جس کے متعلق ہم ڈرتے ہیں کہ شاید یہ ہمارے گزشتہ کئے گئے اعمال کا ثواب ہے۔جو دُنیا ہمیں مل گئی یہیں ثواب مل گیا دُنیا میں۔ حضرت خبابؓ بہت شدید اور طویل مرض میں مبتلا رہے۔

فرمایا۔حارثہ بن مضرب سے مروی ہے کہ مَیں حضرت خبابؓ کے پاس اُن کی عیادت کے لئے آیا۔ وہ سات جگہ سے علاج کی خاطر داغ دئیے گئے تھے مَیں نے اُنہیں کہتے سنا کہ اگر مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ موت کی تمنا کرے تو مَیں اس کی تمنا کرتا یعنی اتنی تکلیف میں تھے۔ اُن کا کفن لایا گیا جو قباطی کپڑے کا تھا یا باریک کپڑا جو مصر میں تیار ہوتا تھا تو وہ رونے لگے۔ پھر اُنہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ کو ایک چادر کا کفن دیا گیا جو اُن کے پاس پاؤں پر کھینچی جاتی تو سر کی جانب سے سکڑ جاتی اور جب سر کی طرف کھینچی جاتی تو پاؤں کی طرف سے سکڑ جاتی یہاں تک کہ اُن پر اَذخر گھاس ڈالی گئی۔ مَیں نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس حال میں دیکھا کہ مَیں ایک دینار کا مالک تھا نہ ایک درہم کا۔ آپؓ نے فرمایا کہ اب میرے مکان کے کونے میں صندوق میں پورے چالیس ہزار درہم ہیں اور مَیں ڈرتا ہوں کہ ہماری طیب چیزیں ہمیں اس زندگی میں نہ دے دی گئی ہوں۔حضرت خبابؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہجرت کی۔ ہم اللہ تعالیٰ ہی کی رضا چاہتے تھے اور ہمارا اجر اللہ کے ذمّہ ہو گیا۔ہم میں سے ایسے بھی تھے جو وفات پا گئے اور اُنہوں نے اپنے اجر سے کچھ نہیں کھایا، اُن میں سے حضرت مصعب بن عمیرؓ بھی ہیں اور ہم میں سے ایسے بھی ہیں جن کا پھل پک گیا اور وہ اس پھل کو چن رہے ہیں۔ حضرت مصعبؓ اُحد کےدن شہید ہوئے تھے اور ہمیں صرف ایک ہی چادر ملی تھی کہ جس سے ہم اُن کو کفناتے۔ جب ہم اُس سے اُن کا سر ڈھانپتے تو اُن کے پاؤں نکل جاتے اور اگر اُن کے پاؤں ڈھانپتے تو اُن کا سر نکل جاتا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہم اُن کا سر ڈھانپ دیں اور اُن کے پاؤں پر اَذخر گھاس ڈال دیں۔

حضور انور نے فرمایا: زید بن وھب نے بیان کیا کہ ہم حضرت علیؓ کے ساتھ آ رہے تھے جب وہ صفین سے لوٹ رہے تھے جنگ کے بعد، یہاں تک کہ جب آپؓ کوفہ کے دروازے پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے داہنی طرف سات قبریں ہیں ۔ حضرت علیؓ نے پوچھا کہ یہ قبریں کیسی ہیں۔ لوگوں نے کہاکہ اے امیر المؤمنین ! آپؓ کے صفین کے لئے نکلنے کے بعد خبابؓ کی وفات ہو گئی۔ اُنہوں نے وصیت کی کہ کوفہ سے باہر دفن کیا جائے۔ وہاں لوگوں کا دستور تھا کہ اپنے مردوں کو اپنے صحنوں میں اور اپنے گھروں کے دروازوں کے ساتھ دفن کیا کرتے تھے مگر جب اُنہوں نے حضرت خبابؓ کو دیکھا کہ اُنہوں نے باہر دفن کرنے کی وصیت کی تو لوگ بھی دفن کرنے لگے۔ حضرت علیؓ نے کہا اللہ خباب پر رحم کرے، وہ اپنی خوشی سے اسلام لائے اور اُنہوں نے اطاعت کرتے ہوئے ہجرت کی اور ایک مجاہد کے طور پر زندگی گزاری اور جسمانی طور پر وہ آزمائے گئے اور جو شخص نیک کام کرے اللہ اُس کا اجر ضائع نہیں کرتا یعنی جسمانی تکلیفیں بیماریاں بہت لمبی چلی اُن کی۔ پھرحضرت علیؓ اُن قبروں کے نزدیک گئے اور کہاتم پر سلامتی ہو اے رہنے والو جو مؤمن اور مسلمان ہو! تم آگے جا کر ہمارے لئے سامان کرنے والے ہو اور ہم تمہارے پیچھے پیچھے عنقریب تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ! ہمیں اور انہیں بخش دے اور اپنے عفو کے ذریعہ ہم سے اور ان سے درگزر کر۔ خوشخبری ہو اُس شخص کو جو آخرت کو یاد کرے اور حساب کے لئے عمل کرے اور جو اس کی ضرورت کو پوری کرنے والی چیزہو وہ اس پر قناعت کرے اور اللہ عزّوجلّ کو راضی رکھے۔حضرت خبابؓ کی وفات 37 ہجری میں 73 برس کی عمر میں ہوئی تھی۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 11۔مئی2020ء