اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کی ہدایت کے لیے ہر زمانہ میں ہزاروں اولیا ء اللہ اور ہر صدی میں کئی کئی مجدددین بھیجے ہیں جنہوں نے کروڑوں انسانوں کو اپنے علم و عمل وقرآنی علوم سے مستفیض کیا ۔اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ایک بزرگ تھے جن کے پاس کچھ طلباء بھی رہتے تھے جو ان سے دین کا علم سیکھتے تھے۔ چنانچہ دن کے مختلف اوقات میں عوام الناس اس نافع وجود سے مستفیض ہونے کے لیے آتے رہتے اور اپنی حاجات کے لئےدعائیں کرواتے تھے۔ ایک دن وہ اپنے طلباء کے ساتھ مسند پر بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے درخواست کی کہ میں بہت گناہگار ہوں ۔میں نے ساری زندگی گناہ کئے ہیں میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے گناہ معاف کردے ۔چنانچہ ان بزرگ نے اسے نصیحت کی کہ کثرت سے استغفار کیا کرو۔چنانچہ وہ چلا گیا۔اس کے بعد ایک اور شخص آیا جس نے شکایت کی کہ ایک لمبے عرصہ سے بارش نہیں ہوئی جس کی وجہ سے ہماری فصلیں تباہ ہورہی ہیں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت ہم پر برسائے تاکہ فصلیں تباہ ہونے سے بچ جائیں اور ہماری خوراک کا بندوبست ہوسکے۔ آپ نے فرمایا کثرت سے استغفار کرو ۔اسی طرح تیسرا شخص آیا اور اس نے دعا کے لیے درخواست کی کہ میں بہت غریب انسان ہوں میرے لیے دعا کریں اللہ تعالیٰ میرے رزق میں فراوانی عطاء کرے اور میری مالی مشکلات آسان کرے۔ ان بزرگ نے پھر وہی کہا کہ کثرت سے استغفار کیا کرو ۔ کچھ دیرکے بعد ایک اور شخص اپنی عرضی لیے کر ان بزرگ کے سامنے حاضرہوا اور عرض کی کہ میری شادی کو ایک لمبا عرصہ ہوگیا ہے اور ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اولاد عطاء کرے۔ ان بزرگ نے پھر اس شخص کو بھی یہی نصیحت کی کہ کثرت سے استغفار کیا کرو۔اس پر وہ شخص بھی چلا گیا۔
یہ سب ماجرا بزرگ کے طلباء دیکھ رہے تھے اور حیران تھے کہ اتنے سوالی آئے اور انہوں نے اپنی مختلف مشکلات کا ذکر کیاہر بار بزرگ نے ایک ہی جواب دیا کہ کثرت سے استغفار کرو تو اللہ تمہاری مشکل حل کردے گا۔چنانچہ ان میں سے ایک طالب علم نے بزرگ سے اس بارہ میں پوچھ لیا کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ ہر سوال پر آپ نے ایک ہی جواب دیا کہ کثرت سے استغفار کیا کرو۔
اس پر بزرگ نے فرمایا کہ میں نے اپنی طرف سے تو کوئی بات نہیں کی بلکہ جو قرآن کریم نے فرمایا ہے اسی کا ذکر کیا ہے۔ بزرگ نے سورۃ نوح کی مندرجہ ذیل آیات پڑھیں۔ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارً (نوح:11-13) پس میں نے کہا اپنے رب سے بخشش طلب کرو یقیناً وہ بہت بخشنے والاہے۔ وہ تم پر لگاتار برسنے والا بادل بھیجے گا۔ اور وہ اموال اور اولاد کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لئے باغات بنائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرے گا۔
حضرت غلام رسول راجیکی ؓ فرماتے ہیں کہ ’’قادیان مقدس میں جب میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعتِ راشدہ سے مشرّف ہوا تو حضور اقدس علیہ السلام نے ازراہِ نصیحت فرمایا کہ نمازوں کو سنوار کر پڑھنا چاہئےاور مسنونہ دعاؤں کے علاوہ اپنی مادری زبان میں بھی دعا کرنی چاہئے….. اس کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام نے ہمیں کثرت سے درود شریف اور استغفار پڑھنے کا ارشاد فرمایا۔ مجھے ایک عرصہ تک درودواستغفار کی کثرت کے متعلق خلجان رہا کہ کثرت سے نہ معلوم کتنی تعداد مراد ہے۔ تب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے بحالت کشفی ملے اور میری بیعت لی اور فرمایا کہو اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ رَبِّىْ مِنْ كُلِّ ذَنْۢبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ۔ مِائۃُ مَرَّۃ۔یعنی سومرتبہ استغفار پڑھو۔ اس سے مجھے معلوم ہو گیا کہ کثرت سے مراد عام حالات میں کم از کم سو مرتبہ استغفار کا وِرد ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب‘‘
(حیات قدسی صفحہ63)
ایک روایت ڈاکٹر عبدالستار شاہ ؓمرحوم نے بیان کیا کہ ’’ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ یہ جو اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَ تُوْبُ اِلَیْہ پڑھنے کا کثرت سے حکم آیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انسانی کمزوریوں اور غلطیوں کی وجہ سے انسان کو گویا ایک دُنب یعنی دُم لگ جاتی ہے جو کہ حیوانی عضو ہے۔ اور یہ انسان کے لئے بدنما اور اس کی خوبصورتی کے لئے ناموزوں ہے۔ اس واسطے حکم ہے کہ انسان بار بار یہ دُعا مانگے اور استغفار کرے تاکہ اس حیوانی دُم سے بچ کر اپنی انسانی خوبصورتی کو قائم رکھ سکے اور ایک مکرم انسان بنا رہے۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ508)
ایک اور روایت میں قاضی محمد یوسف پشاوریؓ نے بیان کیا کہ ’’1906ء کی بات ہے کہ ایک سائل نے جو اپنے آپ کو نوشہرہ ضلع پشاور کا بتاتا تھا اور مہمان خانہ قادیان میں مقیم تھا۔حضرت صاحب کو خط لکھا کہ میری مدد کی جائے۔ مجھ پر قرضہ ہے۔ آپ نے جواب لکھا کہ قرض کے واسطے ہم دعا کریں گے اور آپ بہت استغفار کریں۔ اور اس وقت ہمارے پاس ایک روپیہ ہے جو ارسال ہے۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ735)
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک شخص نے قرض کے واسطے دعا کیے لیے عرض کی ۔فرمایا ’’استغفار بہت پڑھا کرو۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ449)
ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ مجھ پر بہت قرض ہے دعا کیجئے۔فرمایا۔ ’’توبہ استغفار کرتے رہو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو استغفار کرتا ہے اسے رزق میں کشائش دیتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 434)
اسی طرح ایک شخص نے عرض کی کہ حضورؑ میرے لیے دعا کریں کہ میرے اولاد ہوجائے آپ ؑ نے فرمایا ’’استغفار بہت کرو ۔اس سے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں اللہ تعالیٰ اولاد بھی دے دیتا ہے ۔یاد رکھو یقین بڑی چیز ہے ۔جو شخص یقین میں کامل ہوتا ہے خدا تعالیٰ خود اس کی دستگیری کرتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 444)
’’تمام انبیاء کرام کا اجماعی مسئلہ ہے کہ صدقہ واستغفار سے رد بلا ہوتا ہے۔بلا کیا چیز ہے یعنی وہ تکلیف دہ امر جو خدا کے ارادہ میں مقدر ہوچکا ہے۔‘‘
(تفسیر حضرت مسیح موعود جلددوم صفحہ 231)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اور صحابہ کے واقعات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بیماریوں اور وباؤں کے زمانہ میں کثرت سے توبہ و استغفار کرنے سے اللہ تعالیٰ اپنے حفظ و امان میں رکھتا ہے۔چنانچہ حضرت غلام رسول راجیکیؓ کی بعض انتہائی دلچسپ روایات پڑھنے کا موقع ملا جو استفادہ کے لیے پیش خدمت ہیں۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ اوپر کی منزل میں طاعون کے جراثیموں کے انبار لگے ہوئے ہیں جو شکل میں بال کی طرح سیاہ اور کسی قدر لمبے ہیں میرے خوفزدہ ہونے پر ان جراثیم نے مجھے کہا جو شخص استغفار پڑھے ہم اسے کچھ نہیں کہتے۔ چنانچہ جب میں نے استغفار پڑھنا شروع کیا تو وہ کہنے لگے دیکھا اب ہم کچھ نہیں کہتے۔ اس کے بعد جب میں بیدار ہوا تو صبح کے وقت تمام احمدی دوستوں کو یہ رؤیا سنائی اور استغفار پڑھنے کی تلقین کی۔ خدا کا فضل ہے کہ اس دعا کی برکت سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نشان کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے شہر گجرات کی تمام جماعت احمدیہ کو اس عذاب شدید سے کلّی طور پر محفوظ رکھا۔ الحمد لِلّٰہ علیٰ ذالک‘‘
(حیات قدسی صفحہ 97۔98)
حضرت غلام رسول راجیکی ؓ کی ایک روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ’’گجرات شہر کے قیام کے بعد ایک دفعہ ضلع گوجرانوالہ میں جبکہ میں اپنے سسرال موضع پیرکوٹ میں تھا میری بیوی کے بھائی میاں عبداللہ خان صاحب کو ایک طاعون والے گاؤں میں سے گزرنے سے طاعون ہو گئی۔ جب غیر احمدی لوگوں کو معلوم ہوا تو کہنے لگے مرزائی تو کہا کرتے ہیں کہ طاعون کا عذاب مرزا صاحب کی مخالفت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اب بتائیں کہ پہلے ان کے ہی گھر میں طاعون کیوں پھوٹ پڑی۔ میں نے جب ان کی ہنسی اور تمسخر کو دیکھا اور شماتت اعداء کا خیال کیا تو بہت دعا کی۔ چنانچہ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے مکان کے صحن میں طاعون کے جراثیم بھرے پڑے ہیں مگر ان کی شکل گجرات والے جراثیم سے مختلف ہے یعنی ان کا رنگ بھورا اور شکل دو نقطوں کی طرح ہے۔ اس وقت مجھے گجرات والے جراثیم کی بات یاد آ گئی کہ جو شخص استغفار کرے ہم اسے کچھ نہیں کہتے چنانچہ میں نے ان کے سامنے بھی استغفار پڑھنا شروع کر دیا۔ اس پر یہ جراثیم مجھے کہنے لگے کہ ہماری قسم بہت سخت ہے اس لئے ہم سے استغفار کرنے والے بھی نہیں بچ سکتے۔ تب میں نے حیران ہو کر دریافت کیا کہ پھر آپ سے بچنے کی کیا صورت ہے تو انہوں نے کہا ہمیں حکم ہے کہ جو شخص لَاحَوْلَ وَلَا قُوََّۃَ اِلّا بِاللّٰہِ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ پڑھے اسے ہم کچھ نہ کہیں گے۔ اس خواب سے بیدار ہو کرصبح میں نے تمام رشتہ داروں اور دیگر احمدیوں کو یہ خواب سنایا اور لَاحَوْلَ پڑھنے کی تلقین کی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی برکت سے میاں عبداللہ خاں صاحب کو بھی شفا دی۔ اور دوسرے احمدیوں کو بھی محفوظ رکھا مگر غیر احمدیوں میں کثیر التعداد لوگ اس عذاب کا شکار ہو گئے۔‘‘
(حیات قدسی صفحہ99,98)
استغفار کا مطلب اور اس کی حقیقت
حضرت مسیح موعود ؑ استغفار کا مطلب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’غفر ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں۔ استغفار سے انسان ان جذبات اور خیالات کو ڈھانپنے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ پس استغفار کے یہی معنی ہیں کہ زہریلے مواد جو حملہ کرکے انسان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں ۔ان پر غالب آوے اور خداتعالیٰ کے احکام آوری کی راہ کی روکوں سے بچ کر انہیں عملی رنگ میں دکھائے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 348)
حضرت مسیح موعود ؑ استغفار کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’گناہ ایک ایسا کیڑاہے جو انسان کے خون میں ملا ہوا ہے مگر اس کا علاج استغفار سے ہی ہوسکتا ہے ۔استغفا کیا ہے ؟یہی کہ جو گناہ صادر ہوچکے ہیں ان کے بد ثمرات سے خدا تعالیٰ محفو ظ رکھے اور جو ابھی صادر نہیں ہوئے اور جو بالقوہ انسان میں موجود ہیں ان کے صدور کا وقت ہی نہ آوے اور اندر ہی اندر وہ جل بھن کر راکھ ہوجاویں۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ218)
فرمایا ’’استغفار کے اصل معنی تویہ ہیں کہ یہ خواہش کرنا کہ مجھ سے کوئی گناہ نہ ہو یعنی میں معصوم رہوں اور دوسرے معنے جو اس کے نیچے درجے پر ہیں کہ میرے گناہ کے بد نتائج جو مجھے ملنے ہیں میں ان سے محفوظ رہوں۔‘‘
(تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد اول صفحہ 303)
فرمایا ’’وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ (ھود:4) یاد رکھو کہ یہ دو چیزیں اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں۔ ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے، دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لیے ۔قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں…استغفار اور توبہ دو چیزیں ہیں۔ ایک وجہ سے استغفار کو توبہ پر تقدم ہے کیونکہ استغفار مدد اور قوت ہے جو خدا سے حاصل کی جاتی ہے اور توبہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے۔ عادۃ اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے تو خداتعالیٰ ایک قوت دے گا اور پھر اس قوت کے بعد انسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجاوے گا اور نیکیوں کے کرنے کے لیے اس میں ایک قوت پیدا ہوجاوے گی جس کانام تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 349)
توبہ کی شرائط
’’پہلی شرائط جسے عربی زبان میں اقلاع کہتے ہیں ۔یعنی ان خیالات فاسدہ کو دور کردیا جاوے جو ان خصائل ردیہ کے محرک ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ تصورات کا بڑا بھاری اثر پڑتا ہے کیونکہ حیطۃ عمل میں آنے سے پیشتر ایک فعل ایک تصور ی صورت رکھتا ہے۔ پس توبہ کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ان خیا لات فاسدہ و تصورات بد کو چھوڑدے….
دوسری شرط ندم ہے یعنی پشیمانی اور ندامت ظاہر کرنا ۔ہر ایک انسان کا کانشنس اپنے اندریہ قوت رکھتا ہے کہ وہ اس کو ہر برائی پر متنبہ کرتا ہے، مگر بدبخت انسان اس کو معطل چھوڑ دیتا ہے ۔پس گناہ اور بدی کے ارتکاب پرپشیمانی ظاہر کرے اور یہ خیال کرے کہ یہ لذات عارضی اور چندہ روزہ ہیں اور پھر یہ بھی سوچے کہ ہر مرتبہ اس لذت اور حظ میں کمی ہوتی جاتی ہے۔یہاں تک کہ بڑھاپے میں آکر جبکہ قویٰ بیکار اور کمزور ہوجائیں گے۔آخر ان سب لذات دنیا کو چھوڑنا ہوگا۔
تیسری شرط عزم ہے۔یعنی آئندہ کے لیے مصمم ارادہ کرلے کہ پھر ان برائیوں کی طرف رجوع نہ کرے گا اور جب وہ مداومت کرے گا تو خداتعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق عطاء کرے گا ۔یہاں تک کہ وہ سیئات اس سے قطعاً زائل ہوکر اخلاق حسنہ اور افعال حمیدہ اس کی جگہ لے لیں گی اور یہ فتح ہے اخلاق پر۔اس پر قوت اور طاقت بخشا اللہ کا کام ہے کیونکہ تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 87۔88)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ بعض وظائف
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جب بعض لوگ بیعت کرنے آتے تو آپ ان کو مختلف وظائف بتاتے چنانچہ بعض روایات سے ان وظائف کا ہمیں پتہ چلتا ہے۔حضرت غلام رسول راجیکی ؓ فرماتے ہیں۔ ’’ایک دفعہ میری موجودگی میں ایک شخص نے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ سے دریافت کیا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے مریدوں کو کون سے وظائف اور اذکار بتایا کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح اولؓ نے جواباً فرمایا کہ حضرت اقدس علیہ السلام عام طور پر درود شریف، استغفار، لاحول، سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کی تلاوت کا ارشاد فرمایا کرتے تھے۔‘‘
(حیات قدسی صفحہ 223)
سیرت المہدی میں ذکر ہے کہ ’’بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کرنے کے بعد سوال کیا کرتے تھے۔ کہ حضور کسی وظیفہ وغیرہ کا ارشاد فرما ویں۔ اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر یوں فرمایا کرتے تھے۔ کہ نماز سنوار کر پڑھا کریں۔ اور نماز میں اپنی زبان میں دعا کیا کریں۔ اور قرآن شریف بہت پڑھا کریں۔ نیز آپ وظائف کے متعلق اکثر فرمایا کرتے تھے۔ کہ استغفار کیا کریں۔ سورۃ فاتحہ پڑھا کریں۔ درود شریف پر مداومت کریں۔ اسی طرح لاحول اور سبحان اللہ پر مواظبت کریں۔ اور فرماتے تھے کہ بس ہمارے وظائف تو یہی ہیں۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ 507)
ایک روایت میاں خیر الدین سیکھوانیؓ کی ہے کہ ’’ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے ایک شخص کے بار بار بہ تکرار سوال پر استغفار اور لاحول گیارہ گیارہ دفعہ پڑھنے کا بطور وظیفہ فرمایا تھا (سائل کا سوال تعداد معینہ کا تھا) مجھے ٹھیک یاد نہیں رہا۔ شاید درود شریف بھی گیارہ دفعہ پڑھنے کا ساتھ ہی فرمایا تھا۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلددوم صفحہ115)
(مبارک احمد منیر ۔برکینا فاسو)