• 28 مئی, 2025

صدقۃ الفطر، احکام و مسائل

اصطلاحی معنی

فطر کے معنی روزہ کھولنے یا روزہ نہ رکھنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں صدقۃ الفطر اُس خیرات کا نام ہے جو ماہ رمضان کے ختم ہونے پر روزہ کھولنے کی خوشی اور شکریہ کے طور پر ادا کیا جاتا ہے۔ نیز صدقۃ الفطر رمضان المبارک کے دوران سر زد ہونے والی کوتاہیوں اور غلطیوں کا کفارہ بھی بنتا ہے۔ جس کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے پاکیزہ ارشادات میں ملتا ہے۔ ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر یکم رمضان کی صبح طلوع ہوتے ہی صدقۃ الفطر واجب ہو جاتا ہے اور اس کے ادا کرنے کا آخری وقت نماز عید سے پہلے تک ہے۔

نماز عیدالفطر کی ادائیگی سے قبل صدقہ فطر اس واسطے مقرر کیا گیا ہےکہ یہ روزہ داروں کے لئے گناہوں سے معافی کا ذریعہ بنے۔ نیزیہ کہ غرباء بھی اپنے بچوں کے لئے بروقت مناسب لباس اور کھانے پینے کا بندوبست کر سکیں اور عید کی خوشیوں میں اچھے طریق سے شامل ہو سکیں۔

مقدار

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور اُس کے بعد بھی طویل عرصہ تک ناپنے اور تولنے کے لئے کوئی خاص پیمانہ موجود نہیں تھا جو ہر جگہ اور علاقے میں ایک ہی سائز میں مہیا ہو۔ ’’صاع‘‘ بھی ایک پیمانہ ہے جو عموماً بالٹی وغیرہ کی شکل کا ہوتا تھا۔جس میں عام طور پر چار مرتبہ دونوں ہاتھ بھر کر کوئی سامان رکھا جاتا تھا۔ لیکن اُس زمانہ میں یہ پیمانہ کسی فیکڑی میں تیار نہیں ہوتا تھا کہ سب بالکل ایک ہی سائز کے ہوں بلکہ یہ پیمانہ تھوڑا چھوٹا یا بڑا بھی ہوتا تھا۔ اس صاع کے پیمانہ کو موجودہ رائج کلو گرام کے پیمانہ سے مقرر نہ کیا گیا تو علماء و مؤرخین میں اختلاف ہوا اور اختلاف کا ہونا بدیہی بات ہے۔ چنانچہ دورحاضر میں وزن کے لئےرائج میٹرک سسٹم کے مطابق ایک ’’صاع‘‘ 2کلو 750گرام سے 2کلو 830گرام تک بیان کیا جاتا ہے۔

احادیث صحیحہ میں اس بات کا بار بار ذکر ملتا ہے کہ رسول خدا ﷺ کے زمانے میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمٰعین جَو، کھجور، کشمش اورپنیروغیرہ کی صورت میں صدقۃ الفطر ادا کرتے تھے۔ یعنی امت مسلمہ کے لئے یہ رعایت اور آسانی میسر ہے کہ لوگ اپنی سہولت کے مطابق غذائی اجناس یا نقدی کی صورت میں صدقۃالفطر ادا کر سکتے ہیں۔

صدقہ کی حقیقت

حضرت مسیح موعو علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالۡمَنِّ وَ الۡاَذٰی (البقرة:265) یعنی اے احسان کرنے والو! اپنے صدقات کو جن کی صدق پر بنا چاہئے۔ احسان یاد دلانے اور دکھ دینے کے ساتھ برباد مت کرو ۔یعنی صدقہ کا لفظ صدق سے مشتق ہے۔ پس اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا۔ بلکہ ایک ریاکاری کی حرکت ہوجاتی ہے‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10صفحہ 354)

’’تقدیر کو اللہ بدل دیتا ہےاور رونا دھونا اور صدقات فردقرارداد جرم کوبھی ردّی کر دیتے ہیں۔ اُصول خیرات کا اسی سے نکلا ہے۔ یہ طریق اللہ کو راضی کرتے ہیں۔ علم تعبیر الرؤیا میں مال کلیجہ ہوتا ہے۔ اس لئے خیرات کرنا جان دینا ہوتا ہے۔ انسان خیرات کرتے وقت کس قدر صدق و ثبات دکھاتا ہے۔ اور اصل بات تو یہ ہے کہ صرف قیل و قال سے کچھ نہیں بنتا۔ جن تک کہ عملی رنگ میں لاکر کسی بات کو نہ دکھایا جاوے ۔ صدقہ اس کو اسی لئے کہتے ہیں کہ صادقوں پر نشان کر دیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 238)

احادیث رسول ﷺ

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فطر کی زکوٰۃ (صدقہ فطر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دی تھی۔ غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔ آپ ﷺ نےحکم دیا تھا کہ نماز (عید) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کر دیا جائے۔

(صحيح البخاري كِتَاب الزَّكَاة بَابُ فَرْضِ صَدَقَةِ الْفِطْرِ)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک صاع کھجور یا جو بطورفطر کی زکوٰۃ ہر آزاد اور غلام مرد اور عورت غرضیکہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔

(صحيح البخاري كِتَاب الزَّكَاة بَابُ صَدَقَةِ الْفِطْرِ عَلَى الْعَبْدِ وَغَيْرِهِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)

حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی سرح عامری نے بیان کیا کہ انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا۔ آپؐ فرماتے تھے کہ ہم فطرہ کی زکوٰۃ ایک صاع اناج یا گیہوں یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا انجیر) نکالا کرتے تھے۔

(صحيح البخاري كِتَاب الزَّكَاة بَابُ صَدَقَةِ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَام)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیدالفطر کے دن (کھانے کے غلہ سے) ایک صاع نکالتے تھے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمارا کھانا (ان دنوں) جَو، زبیب، پنیر اور کھجور تھا۔

(صحيح البخاري كِتَاب الزَّكَاة بَابُ الصَّدَقَةِ قَبْلَ الْعِيدِ)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لوگوں کو صدقۃ الفطر نماز عید کے لئے جانے سے پہلے ادا کر دینا چاہئے۔

(صحيح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ باب الأَمْرِ بِإِخْرَاجِ زَكَاةِ الْفِطْرِ قَبْلَ الصَّلاَةِ)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے۔ لہٰذا جو اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہو گا اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا‘‘

(سنن ابي داودكِتَاب الزَّكَاةِ باب زَكَاةِ الْفِطْرِ)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماروایت ہیں۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر روزہ دار کو فحش اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنےاور مسکینوں کی خوراک کے لیے فرض قرار دیا لہٰذا جس نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کر دیاتو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے‘‘

(سنن ابن ماجه كتاب الزكاة بَابُ: صَدَقَةِ الْفِطْرِ)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو مکہ کی گلیوں میں منادی کرنےکےلیےبھیجا کہ ’’سنو!صدقہ فطرہر مسلمان مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، چھوٹا ہو یا بڑا، گیہوں سے دو مد اور گیہوں کے علاوہ دوسرے غلوں سے ایک صاع واجب ہے‘‘

(سنن ترمذي كتاب الزكاة عن رسول اللّٰه ؐباب مَا جَاءَ فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ)

ابن ابی بحزان اور علی بن حکم نے صفوان جمال سے روایت کی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ سے فطرہ کے متعلق دریافت کیا آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ چھوٹے بڑے آزاد و غلام ہر انسان پر ایک صاع گندم یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع خشک انگور ہے۔

(من لا یحضرہ الفقیہ جلد 2، صفحہ 123، حدیث نمبر 2061، مترجم سید حسن امداد ممتاز الافضل غازی پوری)

ارشادات خلفاء سلسلہ

حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
’’جنہوں نے روزہ رکھا ہے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ صدقۃالفطر دیں۔ یہ حکم قرآن مجید میں ہے۔ چنانچہ فرمایا: وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡيَةٌطَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ(البقرۃ:185) اور جو لوگ اس فدیہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ طعام مسکین دیں۔ رسول کریم ﷺ نے تین رنگوں میں اس کی تفسیر فرمائی ہے۔ اوّل یہ کہ انسان عید سے پہلے صدقۃ الفطر دے۔ دوم، جو روزہ نہ رکھے وہ بدلے میں طعام مسکین دے۔ دائم المرض ہو یا بہت بوڑھا یا حاملہ یا مرضعہ اِن سب کے لئے یہ حکم ہے‘‘

(خطبات نور صفحہ 411)

ایک اور موقع پر فرمایا ۔
’’مخلوق پر شفقت کرنے کے لئے رمضان کی عید میں صدقۃ الفطر کو لازم ٹھہرایا ۔ یہاں تک کہ نماز میں جب جاوے تو اس کو ادا کر لے اور پھر یہ صدقہ خاص جگہ جمع کرے تاکہ مساکین کو یقین ہو جائے کہ ہمارے حقوق کی حفاظت کی جائے گی‘‘

(خطبات نور صفحہ430)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں۔
’’اُن لوگوں پر جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہوں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دینا واجب ہے ۔ اُن (مفسرین) کے نزدیک اس آیت میں صدقۃ الفطر کی طرف اشارہ ہے جو اسلام میں نماز عید سے پہلے ادا کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ غرباء بھی عید کی خوشی میں شریک ہو سکیں‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 388)


(لئیق احمد مشتاق۔ سرینام)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 11۔مئی2020ء