آج وہ روز سعید ہے کہ نہیں جس کی مثال
افق مغرب پہ نظر آیا ہے رمضان کا ہلال
یہ وہ ماہ ہے کہ ہوا اس میں نزول قرآن
جس میں جلوہ فگن اس ذات کا حسن و جمال
یہ وہ ماہ ہے کہ دعا ہوتی ہے فوراً قبول
کوئی بھی رد نہیں ہوتا ہے بندے کا سوال
سبھی دھل جاتے ہیں واللہ گناہ اک دم میں
عرق چشم رواں کر دے اگر بد اعمال
مل نہیں سکتا بجز تزکیہ نفس خدا
ماہ رمضان کا یہ مقصد ہے کہ ہوں نیک خصال
دن کو ہے حکم الہٰی کہ نہ کھاؤ نہ پیو
نظر بد سے بچو اور زباں رکھو سنبھال
نیک اعمال سے ہو کام تمہیں ہر لحظہ
ذکر الہٰی کے سوا کوئی نہ ہو قیل و قال
خشک منہ سے مہک آتی ہے خدا کو یارو
قول مذکور ہے یہ دیکھو کتاب اقوال
اجر ہے اس کا بڑا پیش خدائے اکبر
گرچہ انساں بہت ہوتا ہے روزہ سے نڈھال
غرض اس ماہ کے فضائل کا نہیں حد بیان
علم اللہ کو ہے بندہ کو نہیں اس میں مجال
ہر گھڑی پر سعادت ہے نہ ہو گر غفلت
فیض سے اس کے نہیں کوئی بھی خالی حد وسال
خیر سے جب یہ مہینہ کہ گزر جائے گا
سانس باقی ہیں تو پائیں گے بشر ماہ شوال
ذوالمنن! جاؤں میں صد جاں سے تیرے قربان
کس قدر ماہ مبارک کا مبارک ہے مآل
رستے سب جنت فردوس کے کھل جاتے ہیں
نار دوزخ کا ہے انساں پہ اثر کرنا محال
اے خدا تو کہ ہے لا ریب مجیب الدعواۃ
تیری درگاہ میں منظور ہو میرا یہ سوال
رب کعبہ مری مشکل کو تو آساں کر دے
کوئی بھی بات نہیں تیرے لئے تو ہے محال
بخش دے بسمل عاصی کی خطائیں اور کر
اپنی رحمت سے غریب اور مسافر کو نہال
(میاں فضل الرحمان بسمل مرحوم)