• 12 جولائی, 2025

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صبر اور عفو و درگزر

عفو و درگزر اُن صفاتِ حسنہ میں سے ہے جو انسان کے کردار کی عظمت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ عام طور پر ان صفات کے حامل انسان کو کمزور اور انتقام لینے والے شخص کو طاقتور سمجھا جاتا ہے ۔حالانکہ موقع و حالات کے مطابق اور بدلہ لینے کی طاقت کے باوجود عفو و درگزر کرنے والا انسان حقیقت میں بہت بہادر ، اُولوالعزم اور اندر سے بہت مضبوط ہوتا ہے کیونکہ صبرکی بناء پر ہی یہ اَوصاف پیدا ہوتے ہیں اورخدا کے انبیاء و مرسلین اور خدا کے برگزیدہ بندوں میں یہ اَوصاف بدرجۂ اَتم پائے جاتے ہیں۔ یہانتک کہ وہ صرف اپنے قریبی لوگوں کی خطاؤں سے ہی صبر کے ساتھ عفو و درگزر کا سلوک نہیں کرتے بلکہ اُن کے دشمن اور خون کے پیاسے بھی اُن کے اِس وصف سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں متّقیوں کی شان میں فرماتا ہے۔

اَلَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ۔

(آلِ عمران :135)

ترجمہ : وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اورغصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

پھر فرماتا ہے۔

وَلَا يَأْتَلِ أُوْلُواالْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ َ اَن يُّؤْتُوْا اُوْلِی الْقُرْبیٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِی سَبِيلِ اللّٰهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَن يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ وَاللّٰهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔

(النور: 23)

ترجمہ : اور تم میں سے صاحبِ فضیلت اور صاحبِ توفیق اپنے قریبیوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھائیں۔پس چاہئے کہ وہ معاف کر دیں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دےاور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

پھرفرماتا ہے۔

وَجَزَاءُ سَیِّئۃٍ سَیِّئۃٌ مِّثْلُھَا ج فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِیْنَ………وَلَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۔

(الشوریٰ: 41۔44)

اور بدی کا بدلہ،کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے۔پس جو کوئی معاف کرے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والا ہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے۔یقیناً وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا………اور جو صبر کرے اور بخش دے تو یقیناً یہ او لوالعزم باتوں میں سے ہے۔

آج کے دَور میں جبکہ یہ صفاتِ حسنہ ناپید ہو رہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ایک عاشقِ صادق کو آپؐ کی سنت کی احیاء کے لئے مبعوث فرمایا۔ تا جو زندگی کے خواہاں ہیں اُن کو وہی مَے پلا دی جائے اور اُن میں صحابہ ؓ رسولﷺکے رنگ ڈھنگ پیدا کر دیئے جائیں۔آیئے دیکھیں آپ ﷺ کے ظلِّ کامل ،مسیحِ محمدیؑ نے اِن اخلاقِ محمدی کا کیسے احیاءِ نَو کیا۔

صبراور عفو و درگزر کے لئے اَپنوں، غیروں ،دوستوں دُشمنوں،رشتہ داروں شریکہ برادری ، ہم مذہبوں ، غیر مذہبوں ، محِبّوں اور جانثاروں سے آپؑ کا کیا سلوک ہوتا تھا ؟اسی سے پتہ چل سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپؑ کو کیسا بنایا تھا؟ اور اخلاقِ محمدی ﷺ کا پَرتَو کیسا کامل آپؑ پر پڑا تھا اور اُس سراجِ منیر سے روشنی کا اکتساب کیسے کامل طور پر کیا کہ خود بھی بدرِ کامل بن گئے۔

اِس مضمون میں حضرت مسیحِ موعودعلیہ السلام کی پاکیزہ سیرت سے صبر اور عفوو درگزر کے واقعات کی صورت میں کچھ بیان کرنا مقصود ہے جو نہ صرف آپؑ کے اعلیٰ اخلاق پر فائز ہونے پرشا ہدِ ناطق ہیں بلکہ آپؑ کی سچائی پر بھی دلالت کرتے ہیں ۔

اَپنوں کی غلطی پر درگزر

حضرت حامد علی ؓ حضورؑ کے پرانے خادموں میں سے تھے۔آپؓ فرماتے ہیں۔ ’’مجھے ساری عمر میں کبھی حضرت مسیح موعود ؑ نے نہ جھڑکا اور نہ سختی سے خطاب کیا بلکہ میں بڑا ہی سُست تھا اور اکثر آپ کے ارشادات کی تعمیل میں دیر بھی کر دیا کرتا تھا۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ تحریر فرماتے ہیں۔
’’حافظ حامد علی ؓکے ساتھ اس قسم کا برتاؤ اور معاملہ کرتے تھے جیسا کسی عزیز سے کیا جاتا ہےاور یہ بات حافظ حامد علیؓ ہی پر موقوف نہ تھی ۔حضرت کا ہر ایک خادم اپنی نسبت یہی سمجھتا تھا کہ مجھ سے زیادہ اور کوئی عزیز آپ کو نہیں۔بہرحال حافظ حامد علیؓ کو ایک دفعہ کچھ لفافے اور کارڈ آپ نے دیئے کہ ڈاک خانہ میں ڈال آؤ۔ حافظ حامد علیؓ کا حافظہ کچھ ایسا ہی تھا۔پس وہ کسی اور کام میں مصروف ہو گئے اور اپنے مفوّض کو بھول گئے۔ ایک ہفتہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ (جو اُن دنوں میں میاں محمود اور ہنوز بچہ ہی تھے) کچھ لفافے اور کارڈ لئے دوڑتے ہوئے آئے کہ ابّا ہم نے کوڑے کے ڈھیر سے خط نکالے ہیں۔ آپؑ نے دیکھا تو وہی خطوط تھے جن میں سے بعض رجسٹرڈ خط بھی تھے اور آپؑ اُن کے جواب کے منتظر تھے۔ حامد علیؓ کو بلوایا اور خط دکھا کر بڑی نرمی سے صرف اتنا کہا۔ ’’حامد علی! تمہیں نسیان بہت ہو گیا ہے ذرا فکر سے کام کیا کرو۔‘‘

ضروری اور بہت ضروری خطوط جن کے جواب کا انتظار مگر خادم کی غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں اور بجائے ڈاک میں جانے کے وہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں سے جا ملتے ہیں اس پر کوئی باز پُرس کوئی سزا اور کوئی تنبیہ نہیں کی جاتی۔

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 109)

حضرت مولوی عبدالکریم ؓ اخبار الحکم میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’محمود (حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ) چار ایک برس کا تھا۔ حضرت معمولاً اندر بیٹھے لکھ رہے تھے۔ میاں محمود دِیا سلائی لے کر وہاں تشریف لائے اور آپ کے ساتھ بچوں کا ایک غول بھی تھا۔ پہلے کچھ دیر آپس میں کھیلتے جھگڑتے رہے پھر جوکچھ دل میں آئی اُن مسوّدات کو آگ لگا دی اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیاں بجانے اور حضرت لکھنے میں مشغول ہیں۔ سر اُٹھا کر دیکھتے ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔اتنے میں آگ بجھ گئی اور قیمتی مسودے راکھ کا ڈھیر ہو گئے اور بچوں کو کسی اور مشغلہ نے اپنی طرف کھینچ لیا۔حضرت کو سیاق و سباق عبارت کے ملانے کے لئے کسی گزشتہ کاغذ کے دیکھنے کی ضرورت پیش آئی۔اِس سے پوچھتے ہیں خاموش ! ا ُس سے پوچھتے ہیں دَبکا جاتا ہے۔ آخر ایک بچہ بول اُٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دیئے۔عورتیں،بچے اور گھر کے سب لوگ حیران اور اُنگشت بدنداں کہ اب کیا ہو گااور دَرحقیقت عادتاً بُری حالت اور مکروہ نظارہ کے پیش آنے کا گمان اور انتظار تھا اور ہونا بھی چاہئے تھا ۔مگر حضرت مسکرا کر فرماتے ہیں“خوب ہوا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہو گی اور اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اِس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھا دے۔‘‘

(سیرت مسیح موعودؑ ازعرفانی صاحب)

حضرت مولوی عبدالکریم ؓ مزید فرماتے ہیں۔
’’ایک دفعہ اتفاق ہوا کہ جن دنوں حضرت صاحب ’’تبلیغ‘‘ لکھا کرتے تھے مولوی نورالدین صاحب تشریف لائے۔ حضرت صاحب نے ایک بڑا دو ورقہ مضمون لکھا اور اس کی فصاحت و بلاغتِ خدا داد پرحضرت صاحب کو ناز تھا اور وہ فارسی ترجمہ کے لئے مجھے دینا تھا مگر یاد نہ رہا اور جیب میں رکھ لیا اور باہر سیر کو چل دیئے۔ مولوی صاحب اور جماعت بھی ساتھ تھی۔ واپسی پر کہ ہنوز راستہ میں ہی تھے۔ مولوی صاحب کے ہاتھ میں کاغذ دے دیا کہ وہ پڑھ کر عاجز راقم کو دے دیں۔مولوی صاحب کے ہاتھ سے مضمون گر گیا۔ واپس ڈیرہ میں آئے اور بیٹھ گئے۔حضرت صاحب معمولاً اندر چلے گئے۔میں نے کسی سے کہا کہ آج حضرت صاحب نے مضمون نہیں بھیجا اور کاتب سر پر کھڑا ہے اور ابھی مجھے ترجمہ بھی کرنا ہے۔مولوی صاحب کو دیکھتا ہوں تو رنگ فق ہورہا ہے۔حضرت صاحب کو خبر ہوئی ، معمول ہشاش بشاش چہرہ،تبسّم زیرِلب تشریف لائے اور بڑا عذر کیا کہ مولوی صاحب کو کاغذ کے گم ہونے سے بڑی تشویش ہوئی۔مجھے افسوس ہے کہ اس کی جستجو میں اتنی تگا پو کیوں کیا گیا۔میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بہتر عطا فرمائے گا۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 260)

مکرم قاضی یار محمد ایک بڑے مخلص احمدی تھے۔ان کے دماغ میں کچھ خلل تھا۔وہ حضور ؑکے جسم مبارک سے برکت حاصل کرنے کا ایک یہ طریقہ نکالتے تھے کہ جب حضورؑ نماز کی نیت باندھتے تو وہ نماز ہی میں حضورؑ کے جسم پر اپنی دانست میں برکت حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پھیرنا شروع کر دیتے اور ان کے ہاتھ پھیرنے کا طریق بھی یہ ہوتا تھا کہ گویا جسم کو ٹٹول رہے ہیں۔اس سے لازمی بات ہے کہ حضورؑ کو بڑی کوفت ہوتی تھی۔حضورؑ چاہتے تو سختی سے اس دیوانہ شخص کو روکا جا سکتا تھا۔مگر آپؑ کا طرزِعمل یہ تھا کہ آپؑ نماز کے دوران اِس مشکل سے بچنے کے لئے کوٹھڑی میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ تاکہ وہ دیوانہ وہاں نہ آسکے۔اُس دیوانہ کو کوئی ادنیٰ سی تکلیف پہنچانے یا سختی کرنے یا ڈانٹنے کا بھی ذکر نہیں۔

ایک ملازمہ کے بارہ میں گھر میں شور ہوا ،حضرت مسیحِ موعودؑ کو جب معلوم ہوا کہ اُس نے چاول چُرائے ہیں اور لے کر جاتے ہوئے پکڑی گئی ہے تو آپؑ نے اُس سے نہ صرف دَرگزر کرنے کی تلقین فرمائی بلکہ احسان کا سلوک فرمایا۔

دُ شمنوں سے سلوک

میرٹھ سے احمد حسین شوکت نامی ایک شخص نے ایک اخبار شحنہ ہند جاری کیا ہوا تھا۔ یہ شخص اپنے آپ کو مجدد السنہ مشرقیہ کہا کرتا تھا۔حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت میں اس نے اپنے اخبار کا ایک ضمیمہ جاری کیا۔جس میں ہر قسم کے گندے مضامین مخالفت میں شائع کرتااور اس طرح جماعت کی دِلآزاری کرتا میرٹھ کی جماعت کو اس سے خصوصیت سے تکلیف ہوتی۔ 12۔اکتوبر1902ء کا واقعہ ہے کہ میرٹھ کی جماعت کے پریزیڈنٹ جناب شیخ عبدالرشید جو ایک معزّز زمین دار اور تاجر تھے قادیان آئے اور حضرت اقدسؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ ضمیمہ شحنہ ہند کے توہین آمیز مضامین پر عدالت میں نالش کر دوں۔حضرت اقدسؑ نے فرمایا۔ ’’ہمارے لئے خدا کی عدالت کافی ہے۔ یہ گناہ میں داخل ہو گا اگر ہم خدا کی تجویز پر تقدّم کریں۔اس لئے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیں۔‘‘

جو لوگ اس گندے لٹریچر سے واقف نہیں وہ اِس فیصلہ کی اہمیت سمجھ نہیں سکتے ۔مگر جنہوں نے اس کو دیکھا ہے وہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس شخص سے عدالت کے ذریعے انتقام لیا جاتا تو عقلاً، عرفاً، اخلاقاً جائز ہوتا۔ مگر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے ہرگز پسند نہ فرمایا ۔یہ پہلا موقع نہ تھا کہ حضرت اقدسؑ نے اپنے دُشمن کو اس طرح پر معاف کر دیا۔ بلکہ اسی قوم کا ایک واقعہ اس سے پہلے بھی گزرا۔

فساد کرنے والے سِکھّوں کی رہائی

حضرت محمد خان ؓ ساکن گِل منج کی روایت ہے کہ ایک بار جبکہ کثرت سے لوگ قادیان آنا شروع ہو گئے تھے بہت سے لوگ قادیان آئے، اُن میں لاہور کے لوگ بھی شامل تھے۔حضورؑ یہ ذکر فرما رہے تھے کہ دُور دراز سے لوگوں نے آ کر مجھے قبول کیا لیکن قادیان کے لوگوں نے یہ کہا ……… اتنے میں حاضرین میں سے دو سِکھّوں نے جن میں سے ایک اندھا تھا اُٹھ کر گڑ بڑ کرنی شروع کی۔ اندھا سِکھ بولا: بھائیو ! پیارو مترو!میری اِک عرض وا ……… اس کا انداز یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ حضورؑ کی تقریر میں رخنہ ڈال کر اپنے مذہب کے متعلق کچھ پَرچار کرنا چاہتا ہے جس پر قریب کے لوگوں نے اُسے روک دیا کہ بولو نہیں وعظ ہو رہا ہے۔ دو منٹ کے بعد پھر اُس اندھے نے پہلے کی طرح الفاظ کہے۔پھر لوگوں نے اُسے روک دیا۔اُس اندھے کے ساتھ نوجوان سِکھ نے گالیاں دینی شروع کر دیں۔اُس وقت پولیس کا انتظام تھا اور محمد بخش تھانیدار بھی آیا ہوا تھا۔ لوگوں نے تھانیدار کو کہا کہ دو سِکھ مسجد میں گالیاں نکال رہے ہیں۔ تھانیدار اُس وقت مرزانظام الدین کے دیوان خانہ میں کھڑا تھا اور دو سپاہی اس کے ساتھ تھے۔وہ گئے اور ان سِکھّوں کو پکڑ کر دیوان خانہ میں لے گئے۔ حضرت صاحب کے تقریر ختم کرنے کے دو گھنٹہ بعد کسی شخص نے آکر بتایا کہ تھانیدار نے ان سِکھّوں کو مارا ہے۔ حضرت صاحب نے اُسی وقت تھانیدار کو فرمایا کہ وہ ان کو چھوڑ دے۔ اس پر اُس تھانیدار نے اُن سِکھّوں کو چھوڑ دیا۔ حضورؑ کی نرمی اور عفو کی یہ ایک عام مثال ہے۔ جب بھی حضورؑ کے سامنے کسی نے ایسی بدتمیزی کی ،حضور نے خود اُس کی حفاظت فرمائی حالانکہ عام دُنیاوی نظریہ یہی ہے کہ ایسے لوگوں کی تھوڑی بہت گوشمالی ہوتی رہے تو دوسرے شر پسندوں کو عبرت حاصل ہوتی رہے۔ مگر حضور کا وسیع ظرف ،طبیعت کی بے انتہانرمی اور عفو و درگزر کی صفات اپنی مثال آپ تھیں۔

قادیان میں ایک شخص نہال چند(نہالا) بہاروراج ایک برہمن تھا۔ اپنی جوانی کے ایّام میں وہ ایک مشہور مقدمہ باز تھا۔ آخر عمر تک قریباً اُس کی ایسی حالت رہی۔ وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو حضرت اقدسؑ کے خاندان کے ساتھ عموماً مقابلہ اور شرارتیں کرتے رہتے تھے۔ پھر سلسلہ کے دُشمنوں کے ساتھ بھی رہتا ۔اَخیر عمر میں اُس کی مالی حالت نہایت خراب ہو گئی ۔یہاں تک کہ بعض اَوقات اُس کو اپنی روزانہ ضروریات کے لئے بھی مشکلات پیش آتی تھیں۔ اُس نے ایک مرتبہ حضرت اقدسؑ کے دروازے پر آ کر ملاقات کی خواہش کی اور اطلاع کرائی۔ حضرت صاحب فوراً تشریف لے آئے۔ اُس نے سلام کر کے اپنا قصہ کہنا شروع کیا۔ حضرت اقدسؑ نے نہ صرف تسلی دی بلکہ پچیس روپے کی رقم لا کر اُس کے ہاتھ میں دے دی اور فرمایا کہ فی الحال اس سے کام چلاؤپھر جب ضرورت ہو مجھے اطلاع دینا۔ چنانچہ اُس کے بعد اُس شخص کا معمول ہو گیا کہ وہ مہینے دو مہینے کے بعد آتا اور ایک معقول رقم آپ سے اپنی ضروریات کے لئے لے جاتا۔

(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ صفحہ299)

حضرت مسیح موعودؑ 20 فروری 1892ء کو لاہور تشریف لے گئے اور منشی میراں بخش ؓ کی کوٹھی واقع چونا منڈی میں قیام فرمایا لیکن لوگوں کی بکثرت آمدورفت اور دن بھر کے ہجوم کو دیکھ کر محبوب رائیوں کی ایک وسیع اور فراخ کوٹھی میں منتقل ہو گئے۔ یہاں ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس نے حضرت اقدسؑ کی بردباری اور تحمل کا پورا نقشہ پیش کر دیا۔حضرت اقدسؑ مجلس میں تشریف فرما تھے اور منشی شمس الدین مرحوم جنرل سیکریٹری کو آپ نے ’’آسمانی فیصلہ‘‘ دیا کہ اسے پڑھ کر حاضرین کو سنائیں ……… اس مجلس میں بابوموز مدار جو برہمو سماج کے ان دنوں منسٹر تھے اور ایگزیمنر آفس میں بڑے آفیسر تھے اور اپنی نیکی اور خوش اخلاقی کی وجہ سےمعروف تھے۔سوشل کاموں میں آگے آگے رہتے تھے ،وہ اس جلسہ میں موجود تھے۔ ایک شخص جو مسلمان کہلاتا تھا آیا اور اُس نے اپنے غیض و غضب کا اظہار نہایت نا سزاوار الفاظ اور گالیوں کی صورت میں کیا۔ حضرت اپنی پگڑی کا شملہ منہ پر رکھے سنتے رہے اور بالکل خاموش تھے۔ آپؑ کے چہرہ پر کسی قسم کی کوئی علامت نفرت یا غصہ کی ظاہر نہیں ہوئی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپؑ کچھ سنتے ہی نہیں۔ آخر وہ تھک کر آپ ہی خاموش ہو گیا اور چلتا بنا۔ حاضرین میں سے اکثر کو غصہ آتا تھا مگر کسی کو یہ جرأت حضرتؑ کے اَدب کی وجہ سے نہ تھی کہ اُسے روکتا۔ جب وہ چلا گیا تو بابو موزمدار نے کہا: ’’ہم نے مسیح کی بُردباری کے متعلق بہت کچھ پڑھا اور سنا ہے۔ مگر یہ کمال تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔‘‘ انہوں نے اس سلسلہ میں بہت کچھ کہا اور چونکہ اُن کے دفتر میں ہماری جماعت کے اکثر احباب تھے اور وہ اُن سب کا احترام کرتے تھے اور حضرت منشی نبی بخشؓ پر تو اُن کی خاص نظرِ عنایت تھی۔وہ اکثر اس واقعہ کو بیان کرتے اور حضرت ؑکے کمال ضبط کی تعریف کرتے تھے۔

(حیاتِ طیّبہ از شیخ عبدالقادر صفحہ107)

حضرت مولوی شیر علیؓ کا ایک بیان فرمودہ واقعہ جو سیرت المہدی میں درج ہے وہ کچھ یوں ہے ۔
’’ایک دفعہ ایک ہندوستانی مولوی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود ؑ کے پاس حاضر ہو کر کہنے لگا کہ مَیں ایک جماعت کی طرف سے نمائندہ ہو کر آپ کے دعویٰ کی تحقیق کے لئے آیا ہوں اور پھر اُس نے اختلافی مسائل کے متعلق گفتگو شروع کر دی اور بڑے تکلّف سے خوب بنا بنا کر موٹے موٹے الفاظ استعمال کرتا تھا۔ اس کے جواب میں حضرت صاحب نے کچھ تقریر فرمائی تو وہ آپ کی بات کاٹ کر کہنے لگا کہ آپ کو مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ ہے مگر آپ الفاظ کا تلفّظ بھی اچھی طرح نہیں ادا کر سکتے۔اس وقت مولوی عبداللطیف شہیدؓ بھی مجلس میں حضرت صاحب کے پاس بیٹھے تھے، اُن کو بہت غصہ آ گیا اور انہوں نے اسی جوش میں اُس مولوی کے ساتھ فارسی میں گفتگو شروع کر دی۔ حضرت اقدسؑ نے مولوی عبداللطیف صاحب کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا اور کسی دوسرے وقت جبکہ مولوی صاحب مجلس میں موجود نہ تھے فرمانے لگے کہ اُس وقت مولوی صاحب کو بہت غصہ آ گیا تھا۔چنانچہ مَیں نے اس ڈر سے کہ کہیں وہ اس غصہ میں اُس مولوی کو کچھ مار ہی نہ بیٹھیں،مولوی صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا تھا۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 52)

حضرت مرزا بشیر احمد ؓ تحریر فرماتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے حافظ روشن علی ؓ نے کہ جب منارۃ المسیح بننے کی تیاری ہوئی تو قادیان کے لوگوں نے افسران گورنمنٹ کے پاس شکایتیں کیں کہ اِس مینارہ کے بننے سے ہمارے مکانوں کی پَردہ دری ہو گی۔ چنانچہ گورنمنٹ کی طرف سے ایک ڈپٹی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعودؑ کو مسجد مبارک کے ساتھ والے حجرہ میں ملا۔ اس وقت قادیان کے بعض لوگ جو شکایات کرنے والے تھے وہ بھی اس کے ساتھ تھے۔ حضرت صاحب سے ڈپٹی کی باتیں ہوتی رہیں اور اس گفتگو میں حضرت صاحب نے ڈپٹی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’یہ بڈھا مَل بیٹھا ہے آپ اس سے پوچھ لیں کہ بچپن سے لے کر آج تک کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اسے فائدہ پہنچانے کا مجھے موقع ملا ہو اورمَیں نے فائدہ پہنچانے میں کوئی کمی کی ہو اور پھراس سے پوچھ لیں کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے تکلیف دینے کا اسے کوئی موقع ملا ہو تو اس نے مجھے تکلیف پہنچانے میں کوئی کسر چھوڑی ہو۔‘‘ حافظ صاحب نے بیان کیا کہ مَیں اس وقت بڈھا مَل کی طرف دیکھ رہا تھا ۔اُس نے شرم کے مارے اپنا سر نیچے اپنے زانوؤں میں دیا ہوا تھااور اس کے چہرہ کا رنگ سپید پڑ گیا تھااور ایک لفظ بھی منہ سے نہیں بول سکا۔

(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 138)

ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک جو امرتسر کے میڈیکل مشن کے مشنری تھے اور مباحثہ آتھم میں عیسائیوں کی جانب سے پریزیڈنٹ تھے ایک دن خود بھی مناظررہے۔ انہوں نے 1897ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف ایک مقدمہ اقدام قتل کا دائر کیا۔ یہ مقدمہ کچھ عرصہ تک چلتا رہا اور بالآخر محض جھوٹا اور بناوٹی پایا گیااور حضرت اقدسؑ عزت کے ساتھ اس مقدمہ میں بَری ہوئے ۔

حضرت یعقوب علی عرفانیؓ بیان فرماتے ہیں۔
’’مَیں جو اس مقدمہ کو شائع کرنے والا ہوں ایک عینی شاہد ہوں اُس وقت عدالت میں موجود تھا۔ جب کپتان ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور نے حضرت اقدسؑ کومخاطب کر کے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر مقدمہ چلائیں اگر آپ چاہتے ہیں تو آپ کو حق ہے۔حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: ’’میں کوئی مقدمہ کرنا نہیں چاہتا ۔ میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے۔‘‘

اس موقع پر اگر کوئی دوسرا آدمی ہوتا۔ جس پر قتل کے اقدام کا مقدمہ ہو۔ وہ اپنے دشمن سے ہر ممکن انتقام لینے کی کوشش کرتا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دشمنوں کو معاف کر کے تعلیم پر صحیح عمل کرکے دکھایا۔ ایک وقت تھا کہ مارٹن کلارک نے مباحثہ اَمرتسر میں حضرت اقدسؑ کو اور آپؑ کی جماعت موجودہ کو چائے کی دعوت دی مگر آپؑ نے غیرت اسلامی کی بناء پر اُس دعوت کو مسترد کیا کہ یہ شخص نبی کریم ﷺ کوگالیاں دیتا ہے اور آپؐ کی تکذیب پر زور دیتا اور مسلمانوں کو برگشتہ کرنے کے لئے پورا زور لگاتا ہے اور مجھے دعوت دیتا ہے۔ میری غیرت اس کو قبول نہیں کر سکتی کہ مَیں آنحضرت ﷺ کے دُشمن کے ہاں چائے پیئوں۔ اس حیثیت کا دُشمن ہو اور پھر ذاتی طور پر اُس نے حضرت مسیح موعودؑ کو خطرناک سازش کا نشانہ بنانا چاہا ہو۔ اُس میں وہ بَری ہو کر اپنے اور نبی کریم ﷺ کے دُشمن سے جائز طور پر انتقام لے سکتے تھے مگر آپؑ نے ایک منٹ کے لئے بھی اس کوگوارا نہ فرمایا اور کوئی مقدمہ کرنا نہ چاہا۔یہ عفو اور درگزر اگر ایسی حالت میں ہوتا کہ آپؑ کو قدرت نہ ہوتی تو اس کی کچھ قدر و قیمت نہ ہوتی لیکن یہ ایسے موقع پر آپؑ نے دکھایا کہ آپ کو حق تھا اور قانونی طور پر آپؑ سزا دلا سکتے تھے۔ مگر آپؑ نے پسند نہ فرمایا اور معاف کر دیا۔

یہ واقعہ ممکن ہے کہ کسی شخص کو شُبہ میں ڈالے کہ شاید فریق مخالف کی طاقت اور رسوخ کے باعث ایسا نہ کیا گیا ہو لیکن یہ شُبہ محض لغو اور بے اصل ہو گا۔ اس لئے کہ اسی با رُسوخ اور طاقتور فریق سے مقدمہ تو پہلے ہی ہو چکا تھا اور انہوں نے اپنے تمام رُسوخ اورقوت سے کام لے لیا تھا۔ بلکہ بعض بڑے پادریوں نے بھی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو کہا اور سفارش کی۔ مگر مجسٹریٹ کا جواب یہ تھا کہ مجھ سے ایسی بدذاتی نہیں ہو سکتی کہ مَیں انصاف کو ہاتھ سے چھوڑوں۔تو شُبہ محض بے اصل ہے۔ جس چیز نے حضرت اقدسؑ کو روکا وہ ایک ہی چیز تھی کہ آپؑ اپنے دشمنوں سے انتقام نہیں لینا چاہتے تھے اور اپنے عمل سے درگزر اور عفو کا سبق دینا چاہتے تھے۔

ڈاکٹر مارٹن کلارک کی ذات سے آپؑ کو کوئی دُشمنی نہ تھی بلکہ آپؑ کو اس کے عقائد باطلہ اور اُس کے اُس طریقِ عمل سے نفرت تھی جو وہ اسلام کے متعلق رکھتا تھا۔ اس لئے اگر آپ بذریعہ عدالت اس کو سزا دلاتے تو اس غیرت مذہبی اور اَخْلَاص فِی الدَّارَیْن کے خلاف ہوتا۔ جو اللہ تعالیٰ نے فطرتاً آپؑ کو دیا تھااور اس میں نفسانیت کے کسی شائبہ کا شُبہ بھی گزر سکتا تھا۔ گو انصاف اور عقل کے نزدیک یہ انتقام صحیح ہوتا اس لئے کہ ڈاکٹر کلارک نے آپؑ کی عزت و آبرو اور آپؑ کی جان پر حملہ کیا تھا۔ مگر آپؑ کو جب موقع دیا گیا تو آپؑ نے پسند نہیں کیا کہ اس سے وہی سلوک کیا جائے۔ جس کا اُس نے خود ارتکاب کیا۔ گو وہ اس کا خود مستحق تھا اور یہ پہلی مثال نہ تھی، آپؑ کی زندگی میں اس کی بہت کثرت سے مثالیں ملتی ہیں ۔

اسی مقدمہ ڈاکٹر کلارک میں مولوی محمدحسین بٹالوی ایک گواہ کی حیثیت سے حضرت مسیح موعودؑکے خلاف پیش ہوئے۔ مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ بٹالہ کے رہنے والے تھے ۔ابتداء میں انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی پہلی تصنیف براہین احمدیہ پر ایک زبردست ریویو لکھااور حضر تؑ کا اکرام و احترام بہت کرتے تھے۔ مگر بعد میں کسی مخفی شامتِ اعمال کی وجہ سے وہ مخالف ہوئے اور خطرناک مخالفت کا رنگ انہوں نے اختیار کیا۔ یہ مقام ان کی مخالفت کی نوعیت اور اس بارہ میں اس کی تفاصیل اور تذکرہ کا نہیں۔ اتنا تلخ دُشمن تھا کہ کفر وقتل کے فتوے اُسی نے شائع کرائے اور بالآخر وہ اس مقدمہ اقدام ِ قتل میں عیسائیوں کا گواہ ہو کر آیا اور وہ یہ ثابت کرنے کے لئے آیا تھا کہ فی الحقیقت جو الزام لگایا گیا ہے وہ گویا (نعوذبااللہ) درست ہے۔

اس مقدمہ میں مولوی محمد حسین کی یہ پوزیشن تھی کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف گواہ تھا۔ روزانہ عدالتوں میں دیکھا جاتا ہے کہ ہر ایک فریق اپنے مخالف گواہوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ ان کی عزت و قار پر واقعاتِ حقّہ سے قطع نظر ایسے حملے ہوتے ہیں کہ وہ عاجز ہو جاتے ہیں۔ مولوی محمد حسین جب حضرتؑ کے خلاف دل کھول کر گواہی دے چکےتو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان پر جرح کا موقع دیا گیا۔ حضرتؑ کی طرف سے مولوی فضل الدین پلیڈر لاہور وکیل تھے جو اِس سلسلہ میں داخل نہیں ہیں، انہوں نے مولوی محمد حسین پر کچھ ایسے سوالات کرنے چاہے جو اُن کی عزت و آبرو کو خاک میں ملا دیتے۔اُس نے حضرت مسیح موعود ؑسے کہا کہ مَیں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں۔ مگر حضرت صاحب نے اُس کو روک دیا اور باصرار و بزور روکا۔ مولوی فضل الدین اپنے فرض منصبی کو دیانتداری سے ادا کرنے کے لئے اور اپنے مؤکل کی صفائی اور بے گناہی ثابت کرنے کے لئے ایسے تلخ دُشمن اور معاند گواہ کو اصلی صورت میں دِکھادینا چاہتے تھے اور اگر وہ سوالات ہو جاتے تو خدا جانے مولوی محمد حسین اس مقام پر کھڑے رہ سکتے یا گر جاتے۔ مگر حضرت نے قطعاً اجازت نہ دی۔بلکہ ایک بار ان کو کسی قدر سختی سے روک دیا کہ مَیں ہرگز اجازت نہیں دیتا۔یہ ایسی بات ہے کہ اس کے اپنے اختیار سے باہر ہے اور مَیں اس کی عزت کو برباد نہیں کرنا چاہتا۔ آخر مولوی فضل الدین بھی رُک گئے۔

مولوی فضل الدین احمدی نہیں مگر اس بلندہمتی نے انہیں ہمیشہ آپؑ کا مداح رکھا ہے۔ خیال کرو کہ مولوی محمد حسین تو جان تک کا دُشمن ہے اور آپ کو ایک قاتل ثابت کرنا چاہتا ہے اور آپ کی یہ شانِ رحم و درگزر ہے کہ ایک امرِواقعہ کے متعلق بھی اپنے وکیل کو اجازت نہیں دیتے کہ اس سے پوچھا جاوے محض اس لئے کہ وہ ذلیل نہ کیا جاوے۔

اس تمام خطرناک نتیجہ کے لئے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال دیتے ہیں مگر دُشمن کو اس عمل سے بچالیتے ہیں۔ اس درگزر و علوِہمتی کی نظیر تلاش کرو نہیں ملے گی۔

(سیرت مسیح موعودؑ از عرفانیؓ)

یہی مولوی محمد حسین بٹالوی جنہوں نے مخالفت اور دُشمنی میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھا، اپنے اخبار میں گالیاں دیں، آپؑ کے خلاف کفر کا فتویٰ تیار کیا اور تمام ہندوستان کے مولویوں سے اس پر دستخط کروائے، گورنمنٹ میں آپ کے خلاف جھوٹی مخبریاں کیں اور آپؑ کے خلاف مقدمات میں جھوٹی گواہیاں دیں۔ لیکن آخیر میں جب ان کا اخبار اشاعۃ السنّہ بند ہو گیا اور ان کی حالت ایسی تباہ و زار ہو گئی کہ وہ اپنا مضمون لئے پھرتے تھے اور کوئی مولوی یا ایڈیٹر اخبار اُسے چھاپتا نہ تھا توحضرت اقدسؑ نے مولوی صاحب سے کہلا بھیجا کہ ’’آپ ہمارے پاس قادیان آجائیں ہم آپ کے مضمون کی کتابت بھی کروا دیتے ہیں اور چھپوا بھی دیتے ہیں۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کے ابتدائی ایّام میں ہماری یہ حالت تھی کہ قادیان کی زمین باوجود فراخی کے ہم پر تنگ تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان کے مالکوں میں سے تھے۔ لیکن باوجود اس کے بھی آپ کی غریب اور قلیل جماعت کو سخت تکلیف دی جاتی تھی ۔بعض اوقات باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کے دامن میں قادیان کے شریر اور خبیث مخالفوں نے پاخانہ ڈلوادیااور ایک ٹوکری مٹی کی بھی غریب مہاجرین کو اُٹھانی مشکل ہو جاتی تھی اور کوئی دن ہم پر ایسا نہ گزرتا تھا کہ ہماری کہیاں اور ٹوکریاں قادیان کے ظالم طبع دُشمن نہیں لے جاتے۔ اس کی وجہ دراصل یہ تھی کہ چونکہ خود حضرت اقدسؑ کے اقارب اور عمّ زاد بھائی (جن کا سردار مرزا امام الدین تھا) دُشمن تھے۔ اس لئے ان کی حمایت اور شہ سے ایسا ہوتا تھا۔ سید احمد نور مہاجر جب اپنے ملک سے ہجرت کر کے قادیان آگئے تو انہوں نے ڈھاب میں ایک موقع پر حضرت اقدسؑ کی اجازت سے اپنا مکان بنانا چاہا ۔ چنانچہ جب انہوں نے تعمیر مکان شروع کی تو قادیان کے سِکھّوں اور بعض برہمنوں نے اس پر حملہ کر دیا اور اس کو اور اس کے بھائی کو مارا۔ اس کشاکش میں ایک برہمن کو بھی چوٹ لگی اور اس کی پیشانی میں خون نکل آیا۔ سید احمد نور بھی لہو لہان ہو گیا۔ اس واقعہ کو دیکھ کر مَیں (راقم) مرزا نظام الدین اور دفعداد چوکیدار ان کے پاس گیا اور اُن کو موقع پر لا کر دکھایا کہ سِکھّوں کی بہت بڑی تعداد اس موقعہ پر حملہ آوروں کی صورت میں موجود ہے۔ مرزا نظام الدین ان کو وہاں سے ہٹا لائے اور سمجھایا۔ حضرت صاحب کو مَیں اور مفتی فضل الرحمان نے اطلاع کی اور واقعات کا اظہار کیا۔ آپ نے فرمایا۔’’باہم صلح اور سمجھوتہ کرا دینا چاہئے جس طرح بھی ہو‘‘چنانچہ مَیں نے اور مفتی صاحب نے ہر چند کوشش کی۔ ہماری موجودگی میں تو یہ سب لوگ یہی کہتے تھے کہ ہاں صلح ہو جانی چاہئے عدالت میں نہیں جانا چاہئے مگر دراصل اس شخص کو جس کی پیشانی سے خون نکلا اور اس کا نام پالا رام تھا کہا کہ جا کر نالش کرو چنانچہ اس نے جا کر حضرت مولوی نورالدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور سید احمد نور پر نالش کر دی یہ مقدمہ سردار غلام حیدر خاں مزاری کے اجلاس میں تھا۔

حضرت مسیح موعودؑ کا منشا ءیہی تھا کہ مقدمہ نہ ہو اور ہم ہر طرح صلح کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن جب کامیابی نہ ہوئی اور فریق مخالف نالش کرنے کے لئے چلا گیا تو چونکہ یہ بَلوہ تھا اس لئے پولیس کو اطلاع دی گئی۔ پولیس نے اپنی تفتیش سے جرم ثابت پا کر سولہ آدمیوں کا چالان کر دیا اور یہ مقدمہ بھی سردار غلام حیدر کے اجلاس میں تھا۔ قادیان کے آریوں نے انتہائی کوشش کی کہ ہمارے خلاف مقدمہ خطرناک طور پر ثابت ہو مگر چونکہ اس کی بنا ءمحض جھوٹ پر تھی اس لئے وہ پہلی ہی پیشی میں خارج ہو گیا اور دوسرے مقدمہ میں جو پولیس نے چالان کیا تھا ملزموں پر فردِ جرم لگائی گئی۔ آخر شہادت صفائی بھی گزر گئی اور اب صرف آخری مرحلہ تھایعنی صرف فیصلہ ۔اس کے متعلق یقینی تھا کہ ملزم سزا یاب ہونگے کیونکہ روئداد مقدمہ میں جرم ان پر ثابت ہو چکا تھا۔ اس مرحلہ پر ملزمان لالہ شرمپت رائے اور لالہ ملاوامل اور بعض دوسرے لوگوں کو لےکر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت اقدسؑ ان لوگوں سے اُس مکان میں ملے جو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کا حضرت مرزا بشیر احمدؓ کے مکان کے اوپر بنا ہوا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے بڑی معذرت کی اور یہ بھی کہا کہ آپ کے بزرگ ہمیشہ ہم سے سلوک کرتے آئے ہیں اور یہ بھی بڑے موثق وعدوں کے ساتھ کہا کہ آئندہ ایسی حرکت سرزدنہ ہوگی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن کی عرضداشت کو سُن کر معاف کر دیا اور مجھ کو حکم دیا کہ مَیں عدالت سردارغلام حیدر میں جاکر حضرت صاحب کی طرف سے کہوں کہ حضرت صاحب نے ان لوگوں کو معاف کر دیا ہے اور ہم نے مقدمہ چھوڑ دیا ہے۔مَیں نے واقعات کی صورت بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ یہ مقدمہ پولیس نے چالان کیا ہے اس میں سرکاری مدعی ہے ۔ سولہ ملزم ہیں ،پولیس سولہ ملزموں کا رہا ہو جانا کبھی پسند نہیں کرے گی اور ہمارے اختیار سے باہر ہے کہ ہم یہ مقدمہ بطور راضی نامہ ختم کر دیں۔ کیونکہ ہم مدعی نہیں پھر مقدمہ ایسے مرحلے پر ہے کہ صرف حکم باقی ہے۔ اس پر آپؑ نے فرمایا کہ ’’ہمارے اختیار میں جو کچھ ہے وہ کر لینا چاہئے ۔مَیں نے معاف کر دیا ہے۔میری طرف سے جاکر کہہ دیا جاوے کہ انہوں نے معاف کر دیا ہے۔ ہم کو اس سے کچھ غرض نہیں ہم نے چھوڑ دیا ہے۔اگر عدالت منظور نہ کرے تو اس میں ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے فوراً چلے جاؤ۔‘‘

دوسرے دن تاریخ تھی مَیں اور مفتی فضل الرحمان گئے اور عدالت میں جا کرحضرت اقدس کافیصلہ سنادیا۔ وہی تاریخ حکم سنانےکےلئے مقررتھی۔ پولیس کو قدرتی طور پر جو افسوس ہونا چاہئے تھا وہ ظاہر ہے۔ مجسٹریٹ صاحب نے کہا کہ اب کیا ہو سکتا ہے؟ آپ کا کیااختیار ہے؟ سرکار مدعی ہے۔تمام روئداد مقدمہ ختم ہو چکی ہے صرف حکم باقی ہے۔مَیں نے عرض کیا کہ کچھ بھی ہو حضرت صاحب نے معاف کر دیا ہے۔ آپ کو جو اختیار ہے آپ کریں ہم کو یہی حکم ہے اور آپ تک پہنچا دیا۔ اس پر مجسٹریٹ صاحب بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ جب حضرت صاحب نے معاف کر دیا تو مَیں بھی معاف ہی کرتا ہوں اور ملزموں کو مخاطب کرکے اس نے کہا ایسا مہربان انسان کم دیکھا گیا ہے جو دُشمنوں کو اس وقت بھی معاف کر دےجبکہ وہ اپنی سزا بھگتنے والے ہوں اور بہت ملامت کی کہ ایسے بزرگ کی جماعت کو تم تکلیف دیتے ہو، بڑے شرم کی بات ہے، آج تم سب سزا پاتے مگر یہ مرزا صاحب کا رحم ہے کہ تم کوجیل خانے سے بچا دیا۔

یہ واقعہ کوئی ایسا واقعہ نہیں کہ قادیان میں کسی کو معلوم نہ ہو۔ یہ وہ دُشمن تھے جنہوں نے حضرت صاحبؑ کے مہمانوں کے دامنوں میں پاخانہ ڈلوایا اور ایسا ذلیل فعل کیا ……… لیکن دیکھو کہ آخری وقت میں جب کہ وہ سزا کا حکم سننے کو تیار تھے معاف کر دیا۔عفو اور درگزر کی ایسی مثال کم ملے گی۔
اسی کے ضمن میں مجھے ایک اور واقعہ کا اظہار بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ

اسی مقدمہ کے دوران ایک شخص سنتا سنگھ بانگرو بھی ملزم تھا۔اس کا ایک چچا نہال سنگھ بانگرو تھا۔ ادھر اس نے فریق مخالف کو مقدمہ دائر کرنے پر آریوں کے ساتھ مل کر اُ کسایا تھا۔ چند ہی روز بعد اُسے مشک کی ضرورت پڑی اور یہ ظاہر بات ہے کہ نہایت قیمتی چیز ہے۔ مَیں اس وقت موجود تھا جبکہ وہ حضرت اقدسؑ کے دروازہ پر گیا اور دَستک دی۔ حضرت صاحب باہر تشریف لائے، اس نے کہا کہ مزرا صاحب مشک کی ضرورت ہے کسی جگہ سے ملتی نہیں آپ کچھ مشک دیں۔ حضرت صاحب کو علم تھا کہ یہ اس فتنہ میں ایک لیڈر کی طرح حصّہ لیتا ہے حضرت صاحب نے بجز اس کے کچھ جواب نہیں دیا کہ ٹھہرو مَیں لاتا ہوں ۔ چنانچہ آپؑ اندر تشریف لے گئے اور قریباً نصف تو لہ مشک اس کے حوالہ کر دی۔ یہ ہے عفوو عطا کی اک عدیم المثل نظیر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کیریکٹر میں پائی جاتی ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کے چچا زاد بھائیوں میں سے مرزا امام الدین کو حضرت صاحب اور سلسلہ کے ساتھ عداوت اور عناد تھا اور وہ کوئی دقیقہ تکلیف دہی کا اُٹھانہ رکھتے۔ ایک مرتبہ اس نے اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر اس راستہ کو جوبازار اور مسجد مبارک کا تھا ایک دیوار کے ذریعہ بند کر دیا۔ دیوار ہماری آنکھوں کے سامنے بن رہی تھی اور ہم کچھ نہیں کر سکے، اس کی یہ وجہ نہ تھی کہ ہم کچھ نہ سکتے تھے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم تھی کہ شرکا مقابلہ شر سے نہ کرو۔ ورنہ اگرچہ جماعت اس وقت بہت قلیل تھی اور قادیان میں بہت ہی تھوڑے آدمی تھے لیکن اگر اجازت ہوتی تو وہ دیوار ہرگز نہ بن سکتی۔ چنانچہ ایک دوسرے موقع پر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت سے حضرت کی ذاتی زمیں پر ایک مکان بنانے کا ارادہ کیا گیا اور فریق مخالف نے روکنے کا ارادہ کیا تھا تو ایک ہی دن میں وہ پورا مکان بن گیا۔

وہ ایّام عجیب تھے۔ ابتلاؤں پر ابتلا آتے تھے اور جماعت ان ابتلاؤں کے اندر ایک لذیذ ایمان کے ساتھ اپنی ترقی کی منزلیں طے کرتی تھی۔ غرض وہ دیوار چن دی گئی اور اس طرح ہم سب کے سب پانچ وقت کی نمازوں کے لئے مسجد مبارک میں جانے سے روک دئیے گئےاورمسجد مبارک کے لئے حضرت صاحب کے مکانات کا چکر کاٹ کر آنا پڑتاتھا۔ یعنی اس کوچہ میں سے گزرنا پڑتا تھا جو حضرت مولوی نورالدین خلیفہ اوّل ؓ کے مکان کے آگے سے جاتا ہے اور پھر منور بلڈنگ کے پاس سے بازار کی طرف کو حضرت مرزا بشیر احمد ؓکے مکان کی طرف چلا جاتا ہے۔ جماعت میں بعض کمزور اور ضعیف العمر انسان بھی تھے۔ بعض نابینا تھے اور بارشوں کے دن تھے۔ راستہ میں کیچٹر ہوتا تھا اور بعض بھائی اپنے مولیٰ حقیقی کے حضور نماز کے لئے جاتے ہوئے گر پڑتے تھے اور ان کے کپڑے گارے کیچٹر میں لت پت ہو جاتے تھے۔ اُن تکلیفوں کا تصور بھی آج مشکل ہے جبکہ احمدیہ چوک میں پکے فرش پر سے احباب گزرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنے خدام کی ان تکالیف کو دیکھ کر بہت تکلیف محسوس کرتے تھے۔ مگر کچھ چارہ سوائے اس کے نہ تھا کہ حضرت ربّ العزت کے سامنے گڑگڑائیں۔

غرض وہ دیوار ہو گئی، راستہ بند ہو گیا اور پانی تک بند کر دیا گیاآخر مجبوراً عدالت میں جانا پڑا اور عدالت کے فیصلہ کے موافق خود دیوار بنانے والوں کو اپنے ہی ہاتھ سے دیوار ڈھانی پڑی جو بجائے خود ایک نشان تھا اور اس کی تفصیل انہیں دنوں میں الحکم میں چھپ چکی ہے۔

(دیکھو الحکم 24اگست 1901ء)

عدالت نے نہ صرف دیوار گرانے کا حکم دیا بلکہ ہرجانہ اور خرچہ کی ڈگری بھی فریق ثانی پر کر دی۔
حضرت اقدسؑ نے کبھی اس خرچہ اورہرجانہ کی ڈگری کا اجر اءپسند نہ فرمایا۔ یہاں تک کہ اس کی میعاد گزرنے کو آگئی ۔ جب گورداسپور میں مقدمات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیاتو خواجہ کمال الدین صاحب نے محض اس خیال سے کہ اس کی میعاد نہ گزر جائے اس کے اجرا کی کارروائی کی اور اس میں حسب ضابطہ نوٹس مرزانظام الدین صاحب کے نام ہوا کہ اس وقت فریق ثانی میں سے وہی زندہ تھے۔ مرزا امام الدین فوت ہو چکے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس واقعہ کی کچھ خبر نہ تھی۔مرزا نظام الدین صاحب کو نوٹس ملا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خط لکھا۔مَیں اس وقت قادیان میں موجود تھا۔مرزا نظام الدین صاحب نے مجھ کو وہ خط سنایا۔ اس کا مضمون یہ تھا کہ دیوار کے مقدمہ کے خرچ وغیرہ کی ڈگری کے اجرا کا نوٹس میرے نام آیا ہے اور میری حالت آپ کو معلوم ہے۔ اگرچہ میں قانونی طور پر اس روپیہ کے ادا کرنے کا پاپند ہوں اور آپ کو بھی حق ہے کہ آپ ہر طرح وصول کریں۔ مجھ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ہماری طرف سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی تکلیف آپ کو پہنچتی رہی ہے ۔ مگر یہ بھائی صاحب کی وجہ سے ہوتا تھا۔ مجھ کو بھی شریک ہونا پڑتا ہے۔ آپ رحم کر کے معاف فرما دیں تو آپ اس قابل ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ اس خط کا مفہوم تھا اور یہ بھی چاہا گیاتھا کہ اگر معاف نہ کریں تو بالاقساط وصول کرلیں۔

حضرت اقدسؑ اس وقت گورداسپور میں مقیم تھے اور یہ بھی بارشوں کے ایّام تھے۔ حضرت اقدسؑ کے پاس جس وقت خط پہنچا آپؑ نے سخت رنج کا اظہار کیاکہ کیوں اجرا کرائی گئی ہے، مجھ سے کیوں دریافت نہیں کیا گیا۔ اس وقت خواجہ صاحب نے یہ عذر کیا کہ ’’محض میعاد کو محفوظ کرنے کے لئے ایسا کیا گیا وَاللہ اجرا مقصودنہ تھا۔‘‘

حضرت اقدسؑ نے اس عذر کو بھی پسند نہ فرمایا اور فرمایا کہ آئندہ کبھی اس ڈگری کو اجرا نہ کرایا جاوے۔ ہم کو دُنیا داروں کی طرح مقدمہ بازی اور تکلیف دہی سے کچھ کام نہیں۔ انہوں نے اگر تکلیف دینے کے لئے یہ کام کیا تو ہمارا یہ کام نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ نے مجھے اس غرض کے لئے دُنیا میں نہیں بھیجا۔

اور اسی وقت ایک مکتوب مرزا نظام الدین کے نام لکھا اور مولوی یار محمد صاحب کو دیا کہ وہ جہاں ہوں ان کو جا کر فوراً پہنچا ئیں۔

چنانچہ مولوی یار محمد صاحب اُسے لے کر قادیان پہنچے اور قادیان میں اُنہیں نہ پاکر اور یہ معلوم کر کے مرزا نظام الدین موضع مسانیاں گئے ہوئے ہیں مسانیاں پہنچے اور وہاں جا کر وہ خط اُن کو دیا گیا جس میں نہایت ہمدردی کا اظہار تھا اور اُن کو اس ڈگری کے کبھی اجراء نہ کرنے کے متعلق یقین دلایا گیا تھا اور سب کچھ معاف کر دیاتھا۔

مرزا نظام الدین صاحب پر اس خط کا جو اثر ہوا وہ اُن کی زندگی کے باقی ایّام سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہوں نے عملاً مخالفت کو ترک کر دیاتھا۔

یہ عفو و درگزر کا نمونہ اور دُشمنوں کو معاف کرنے کی تعلیم کا عملی سبق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو دیا۔

اسی سلسلہ میں مجھے ایک اور واقعہ کا اضافہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس سے یہ ثابت ہے کہ صرف معاف ہی نہیں کر دیا بلکہ مزید احسان اور لطف فرمایا ۔ ہمارے ایک نہایت ہی دوست اورحضرت کی راہ میں فدا شدہ بھائی حضرت حکیم فضل الدینؓ کے ساتھ قادیان کے ایک جو لاہا نے ایک زمین کے متعلق …………مقدمہ بازی شروع کر دی ۔ وہ جگہ دراصل حضرتؑ ہی کی تھی،حکیم فضل الدین صاحب کو دے دی گئی سو اس جولاہا نے حکیم صاحب مرحوم کے خلاف ایک مقدمہ دائر کر دیا ۔ چونکہ حضرت اقدسؑ پسند نہ فرماتے تھے کہ شرارتوں کا مقابلہ کیا جاوے، آپ نے حکیم فضل الدین صاحب کو حکم دیا کہ جوابدہی چھوڑ دو۔ زمینوں کی پروا نہیں خدا تعالیٰ چاہے گا تو آپ ہی دے دے گا، زمین خدا کی ہے۔مرزا نظام الدین صاحب کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے کہلابھیجا کہ آپ اپنے حق کو تو چھوڑ تے ہیں ،مجھے ہی زمین دے دیں اور میں قیمت بھی دے دوں گا۔

چنانچہ انہوں نے ایک پرامیسری نوٹ بھی لکھ کر بھیج دیا۔ حضرتؑ نے فرمایا کہ مرزا نظام الدین صاحب ہی کو یہ ٹکڑا زمین کا دے دیا جاوے۔ چنانچہ وہ قطعہ زمین کا دے دیا گیا۔جو بعد میں مرزاصاحب موصوف نے ایک معقول قیمت پر حضرت کے ایک خادم کے ہاتھ فروخت کردیا۔ مگر حضرت نے کبھی اس زمین کی قیمت یا پرامیسری نوٹ کی رقم کا مطالبہ نہ فرمایا۔ اس لئے کہ آپ کی فطرت میں ہی وہ احسان و مروّت رکھی گئی تھی۔

یہ واقعہ ایسے وقت کا ہے کہ اس مقدمہ کی کل کارروائی ختم چکی تھی ۔حضرت مسیح موعودؑ کوبھی فریق ثانی نے بطور شہادت طلب کرایا تھا اور اس طرح پر آپ کو اور آپ کی جماعت کو تکلیف رسانی میں کمی نہ کی تھی۔ مقدمہ کی حالت یہ تھی کہ اس میں اب حکم سنانا باقی تھا اور وہ ہمارے حق میں تھا۔ مگر آپ نے ایسے وقت میں اس زمین کو مرزا نظام الدین صاحب کے عرض کرنے پر ان کو دے دیا۔

امر واقعہ کے طور پر یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ سلسلہ کے ابتدائی ایّام میں مرزا نظام الدین صاحب اور اُن کے زیر اثر لوگوں کی وجہ سے ہماری جماعت کو ایسی تکالیف پہنچ چکی تھیں کہ قدرتی طور پر کوئی دُنیا دار اُن کے مقابلہ میں ہوتا تو اُن کی تکلیف اور ایذاءر سانی کے لئے منتقمانہ طور پر جو چاہتا کرتا مگر نہیں حضرت مسیح موعودؑ کو جب موقع ملا اور اُن پر ایک اقتدار حاصل ہوا تو آپ نے اس طرح لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کہہ دیا ۔جس طرح پر سیدالرسل ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرما یا تھا۔

(سیرت حضرت مسیحِ موعودؑاز عرفانی صاحبؓ)

حضرت مرزا بشیر احمدؓ اپنی تصنیف ’’سلسلہ احمدیہ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں۔
’’حضرت مسیحِ موعودعلیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسا دل عطا کیا تھا جو محبت اور وفاداری کے جذبات سے معمور تھا۔آپ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کسی کی محبت کی عمارت کو کھڑا کر کے پھر اُس کو گرانے میں کبھی پہل نہیں کی۔ایک صاحب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آپ کے بچپن کے دوست اور ہم مجلس تھے مگر آپ کے دعویٰ مسیحیت پر آ کر اُن کو ٹھوکر لگ گئی اور انہوں نے نہ صرف دوستی کے رشتہ کو توڑ دیا بلکہ حضرت مسیحِ موعود ؑ کے اشد ترین مخالفوں میں سے ہوگئے اور آپ کے خلاف کفر کا فتویٰ لگانے میں سب سے پہل کی۔ مگر حضرت مسیحِ موعود ؑکے دل میں آخر وقت تک اُن کی دوستی کی یاد زندہ رہی اور گو آپ نے خدا کی خاطر اُن سے قطع تعلق کر لیا اور اُن فتنہ انگیزیوں کے ازالہ کے لئے اُن کے اعتراضوں کے جواب میں زور دار مضامین بھی لکھے مگر اُن کی دوستی کے زمانہ کو کبھی نہیں بھولے اور اُن کے ساتھ قطع تعلق ہو جانے کو تلخی کے ساتھ یاد رکھا۔چنانچہ اپنے آخری زمانہ کے اشعار میں مولوی محمد حسین صاحب کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں۔

قَطَعْتَ وَدَادًا قَدْ غَرَسْنَاہُ فِی الصَّبَا
وَلَیْسَ فُؤَادِیْ فِی الْوَدَادِ یُقَصَّرُ

یعنی تُو نے تو اُس محبت کے درخت کو کاٹ دیا جو ہم دونوں نے مل کر بچپن میں لگایا تھا مگر میرا دل محبت کے معاملہ میں کوتاہی کرنے والا نہیں۔‘‘

(سلسلہ احمدیہ صفحہ 214)

نیز فرمایا: ’’خدا کی قسم میں اُس تعلق کے زمانہ کو بھولتا نہیں اور میرا دل سنگلاخ زمین کی طرح نہیں۔‘‘

حضرت مسیح موعودؑ کے ایک دیرینہ تعلق رکھنے والے میر عباس علی لدھیانوی تھے اُن کو بھی مولوی محمد حسین بٹالوی کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کی اشاعت کے وقت ابتلاء آ گیا۔میر صاحب نے مخالفت کا اعلان کیا اور اس مخالفت میں حدِّادب اور رعایتِ اخلاق سے بھی وہ نکل گئے مگرحضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اپنی کسی تحریر یا کسی تقریر میں اُن کے تعلق کے عہد کوفرموش نہ کیا۔ حضرت مولوی عبدالکریم ؓبیان فرماتے ہیں۔ ’’جالندھر کے مقام پر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام میر صاحب کو سمجھا رہے تھے اور اس فروتنی اور انکسار کے ساتھ کہ سنگدل اور خشونت طبع انسان بھی اگر قبول نہ کرے تو کم از کم اس کے کلام میں نرمی اور متانت ضرور آجانی چاہئے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام جب بھی اس سے خطاب کرتے تو ’’میر صاحب‘‘ ’’جناب میر صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے اور فرماتے کہ آپ میرے ساتھ چلیں، میرے ساتھ کچھ عرصہ رہیں۔ خدا تعالیٰ قادر ہے کہ آپ پر حقیقت کھول دے۔مگر میر صاحب کی طبیعت میں باوجود صوفی ہونے کے خشونت اور تیزی آجاتی اور ادب اور اخلاق کے مقام سے الگ ہو کر حضرت سے کلام کرتے تھے۔ مگر بایں حضرت صاحب نے اپنے طرزِ خطاب کو نہ بدلا۔ ’’آسمانی فیصلہ‘‘ کے آخیر میں میر صاحب کے متعلق ایک مبسوط تحریر موجود ہے اُس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کس محبت اور دلسوزی سے آپ نے خطاب کیا ہے۔

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از عرفانی صاحبؓ)

حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹیؓ فرماتے ہیں۔ ’’اتنے عرصہ دراز میں مَیں نے کبھی نہیں سنا کہ اندر تکرار ہو رہی ہے اور کسی شخص سے لین دین کے متعلق باز پُرس ہو رہی ہے۔سبحان اللہ کیا سکوں فزا دل اور پاک فطرت ہے جس میں سوء ِظن کا شیطان نشیمن نہیں بنا سکا اور کیا ہی قابلِ رشک بہشتی دل ہے جسے یہ آرام بخشا گیا ہے۔‘‘

(سیرت مسیح موعودؑ مؤلفہ مولوی عبدالکریم ؓ)

غریبوں سے ہمدردی

ایک دفعہ جبکہ آپؑ کی عمرپچیس تیس برس کے قریب قریب تھی۔ آپؑ کے والد بزرگوار کا اپنے موروثیوں سے درخت کاٹنے پر ایک تنازعہ ہو گیا۔ آپؑ کے والدبزرگوار کا نظریہ یہ تھا کہ زمین کے مالک ہونے کی حیثیت سے درخت بھی ہماری ملکیت ہیں۔ اس لئے انہوں نے موروثیوں پر دعویٰ دائر کر دیا اور حضورؑ کو مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور بھیجا۔ آپؑ کے ہمراہ دو گواہ بھی تھے۔آپؑ جب نہر سے گزر کر ایک گاؤں پتھنانوالہ پہنچے تو راستہ میں ذرا سستانے کے لئے بیٹھ گئے اور ساتھیوں کو مخاطب کر کے فرمایا۔ ’’والد صاحب یونہی فکر کرتے ہیں۔ درخت کھیتی کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ غریب لوگ ہیں اگرکاٹ لیا کریں تو کیا حرج ہے ۔بہر حال مَیں تو عدالت میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مطلقاً یہ ہمارے ہی ہیں۔ ہاں ہمارا حصہ ہو سکتے ہیں۔‘‘ موروثیوں کو بھی آپؑ پر بےحد اعتماد تھا۔چنانچہ مجسٹریٹ نے موروثیوں سے اصل معاملہ پوچھا تو انہوں نے بلا تأ مل جواب دیا کہ خود مرزا صاحب سے دریافت کر لیں۔ چنانچہ مجسٹریٹ کے پوچھنے پر آپؑ نے فرمایا کہ ’’میرے نزدیک تو درخت کھیتی کی طرح ہیں جس طرح کھیتی میں ہمارا حصہ ہے ویسے ہی درختوں میں بھی ہے۔چنانچہ آپؑ کے اس بیان پر مجسٹریٹ نے موروثیوں کے حق میں فیصلہ دیدیا۔ واپسی پر جب آپؑ کے والد صاحب کو اِس واقعہ کا علم ہوا تو وہ ناراض ہوئے۔

(حیات طیّبہ صفحہ 15)

حضرت مسیحِ موعودؑ نے اپنے سلسلۂ بیعت میں داخل ہونے کے لئے جو دس شرائط تحریر فرمائیں ہیں اُن میں مندرجہ ذیل تین شرائط ہمارے مضمون سے متعلق ہیں۔

چہارم ۔ یہ کہ خلق اللہ کو عموماًاور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔

ہفتم ۔ یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلّی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خُلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا۔

نہم۔ یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائے گا۔

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 189۔190)

فرمایا۔ ’’یقیناً یاد رکھو کہ مومن متقی کے دل میں شر نہیں ہوتا۔مومن جس قدر متقی ہوتا جاتا ہے اسی قدر وہ کسی کی نسبت سزا اور ایذاء کو پسند نہیں کرتا۔مسلمان کبھی کینہ پرور نہیں ہو سکتا۔ہاں دوسری قومیں ایسی کینہ پرور ہوتی ہیں کہ اُن کے دل سے دوسرے کی بات کینہ کی کبھی نہیں جاتی اور بدلہ لینے کے لئے ہمیشہ کوشش میں لگے رہتے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مخالفوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے۔کوئی دُکھ اور تکلیف جو وہ پہنچا سکتے تھے اُنہوں نے پہنچایا ہے۔لیکن پھر بھی اُن کی ہزاروں خطائیں بخشنے کو ہم اب بھی تیار ہیں۔پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو یاد رکھو کہ ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ہمدردی کرو اور بلا تمیز مذہب و قوم ہر ایک سے نیکی کرو۔‘‘

(تقریریں صفحہ29)

نیز فرمایا ’’اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحتاً کہتا ہوں کہ جو ………محض دل دُکھانے اور توہین کی نیت سے نبی کریم ﷺ کی نسبت اعتراضات کے پیرایہ میں سخت الفاظ لکھے ہیں یا میری نسبت مال خور اور ٹھگ اور کاذب اور نمک حرام کے لفظ کو استعمال میں لائے ہیں اور مجھے لوگوں کا دغابازی سے مال کھانے والا قرار دیا ہے اور یا جو خود میری جماعت کی نسبت سؤر اور کتےّ اور مُردار خور اور گدھے اور بندر وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور ملیچھ ان کا نام رکھا۔ ان تمام دُکھ دینے والے الفاظ پر وہ صبر کریں اور مَیں اس جوش اور اشتعال طبع کو خوب جانتا ہوں کہ جو انسان کو اس حالت میں پیدا کرتا ہے کہ جب کہ نہ صرف اس کو گالیاں دی جاتی ہیں بلکہ اس کے رسول اور پیشوا اور امام کو توہین اور تحقیر کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہےاور سخت غضب پیدا کرنے والے الفاظ سنائے جاتے ہیں لیکن مَیں کہتا ہوں کہ اگر تم اُن گالیوں اور بدزبانیوں پر صبر نہ کرو تو پھر تم میں اور دوسرے لوگوں میں کیا فرق ہوگا؟اور یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ تمہارے ساتھ ہوئی اور پہلے کسی سے نہیں ہوئی۔ہر ایک سچا سلسلہ جو دُنیا میں قائم ہوا ضرور دُنیا نے اس سے دشمنی کی ہے۔سو چونکہ تم سچائی کے وارث ہو ضرور ہے کہ تم سے بھی دشمنی کریں۔ سو خبردار رہو۔ نفسانیت تم پر غالب نہ آوے۔ہر ایک سختی کو برداشت کرو۔ہر ایک گالی کانرمی سے جواب دو تا کہ آسمان پر تمہارے لئے اجر لکھا جاوے۔‘‘

(نسیمِ دعوت، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 364)

نیز فرمایا۔ ’’اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو۔ آسمان پر تم اُس وقت میری جماعت شمارکئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے………زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے………اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو۔تم خدا کی آخری جماعت ہو سو وہ نیک عمل دکھلاؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو۔‘‘

(کشتی نوح ،روحانی خزائن جلد 19صفحہ15)

مخلوقِ خدا کے لئے گریہ و زاری

حضرت یعقوب علی عرفانی ؓ تحریر فرماتے ہیں۔
’’حضرت مولانا مولوی عبدالکریم نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ بیت الدُّعا کے اُوپر میرا حجرہ تھا اور مَیں اُسے بطرزِ بیت الدُعا استعمال کیا کرتا تھا۔اِس میں سے حضرت مسیح موعود کی حالت دُعا میں گریہ و زاری کو سنتا تھا۔ آپ کی آواز میں اس قدر دَرد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پِتّہ پانی ہوتا تھااور آپ اس طرح پر آستانۂ الہٰی پر گریہ و زاری کرتے تھے جیسے کوئی عورت دردِزِہ سے بیقرار ہو۔وہ فرماتے تھے کہ مَیں نے غور سے سنا تو آپ مخلوقِ الہٰی کے لئے طاعون کے عذاب سے نجات کے لئے دُعا کرتے تھے کہ الہٰی اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو جائیں گے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔ یہ خلاصہ اور مفہوم حضرت مولانا سیالکوٹی صاحبؓ کی روایت کا ہے۔اِس سے پایا جاتا ہے کہ باوجودیکہ طاعون کا عذاب حضرت مسیح موعود کی تکذیب اور انکار ہی کے باعث آیا مگر آپ مخلوق کی ہدایت اور ہمدردی کے لئے اِس قدر حریص تھے کہ اِس عذاب کے اُٹھائے جانے کے لئے باوجودیکہ دُشمنوں اور مخالفوں کی ایک جماعت موجود تھی۔ رات کی سُنسان اور تاریک گہرائیوں میں رو رو کر دُعائیں کرتے تھے۔ ایسے وقت میں جبکہ مخلوق اپنے آرام میں سوئی ہے یہ جاگتے تھے اور روتے تھے۔ القصہ آپ کی یہ ہمدردی اور شفقت علیٰ خلق اللہ اپنے رنگ میں بے نظیر تھی۔

(سیرۃ مسیحِ موعود صفحہ 428)

اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہم سب کو آپس میں صبر کے ساتھ عفو و درگزر کا سلوک کرنے کی توفیق دے اور مخالفین احمدیت کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق کے ساتھ پیش آنے کی توفیق دے۔ آمین۔

(ابو المنصور احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 12۔مئی2020ء