• 28 اپریل, 2024

تعارف سورۃ المائدہ (پانچویں سورۃ) (مدنی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 121 آیات ہیں) ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن ملک غلام فرید صاحب ایڈیشن 2003ء

وقت ِنزول

قرآن کریم کے مفسروں کے مطابق یہ سورۃ مدنی دور میں نازل ہوئی۔ حاکم اور امام احمد کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہےکہ آنحضرت ﷺ پر نازل ہونے والی یہ آخری سورۃ تھی۔ جملہ مہیا مواد پر نظرِ عمیق دوڑانے سے ان حقائق سے پردہ اٹھتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کے اخیر پر یہ سورۃ نازل ہوئی تھی۔ اگرچہ امام احمد حضرت اسماء بنت یزید کی روایت پر بناء رکھتے ہیں کہ یہ سورۃ اکٹھی نازل ہوئی تھی کیونکہ اس کا ایک بڑا حصہ ایک ہی وقت میں نازل ہوا تھا۔ اس لئے اس مکمل سورۃ کو اکٹھی نازل شدہ سورۃ خیال کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ راڈویل(مستشرق) نے اسی لئے نزول وحی کے اعتبار سے اس سورۃ کو سب سے اخیر پر رکھا ہے۔

مضامین کا خلاصہ

یہ سورۃ، سورۃ اٰل عمران اور سورۃ النساء کی طرح زیادہ تر عیسائی عقائد پر روشنی ڈالتی ہے اور خاص طور پر اس عقیدہ کا بطلان کرتی ہے کہ شریعت ایک لعنت ہے۔ اس سورۃ کا آغاز اس حکم سے ہوتا ہے کہ ہر طرح کے معاہدہ جات کی پابندی کرنی ضروری ہے اور یہ بھی ایک ضروری امر ہےکہ قوانین مقرر کئے جائیں جو حلال اور حرام کی وضاحت کریں۔ یہ سورۃ مزید بتاتی ہے کہ قرآن کریم نے انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے ایک مکمل ضابطہ اخلاق بیان فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ بنی نوع انسان کے لئے قرآن کریم آخری اور غیر مبدل الہٰی نوشتہ ہے۔ یہ دعویٰ اس سورۃ کی چوتھی آیت میں پیش کیا گیا ہے جس میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ شریعت انسان کی روحانی اور اخلاقی ترقی کے لئے نہایت ضروری ہے اس لئے اس کو لعنت خیال کرنا سراسر غلط ہے۔

یہ سورۃ مزید بتاتی ہےکہ معبودان باطلہ کو پیش کئے گئےگوشت کا کھانا، خون اور دم گھٹ کر مرنے والا جانور عیسائیت میں حرام قرار دیا گیا ہے اور یہ حکم عیسائی شریعت میں شامل ہے (اعمال باب 15 آیات 20 تا 29)۔ لہٰذا عیسائی شریعت سے مستثنیٰ نہیں ہیں اور اسے لعنت قرار نہیں دے سکتے۔ بعد ازاں اس سورہ میں کھانے پینے کی اشیاء کی حرمت کے حوالہ سے اسلامی احکامات بیان کئے گئے ہیں اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ کون سی چیزیں حلال ہیں یعنی شریعت کے مطابق حلال اور طیب ہوں یعنی ان کا استعمال کسی طرح بھی طبی لحاظ سے مضر نہ ہو اور حفظان صحت کے خلاف نہ ہوں۔ جملہ مذاہب میں سے صرف اسلام ایسا مذہب ہے جس نے حلال اور حرام کے متعلق شرعی احکامات کے نزول کے وقت حلال اشیاء کا ذکر تے ہوئے حلال اور طیب کی بھی تمیز رکھی ہے۔

بعد ازاں بتایا گیا ہےکہ یہودیوں اور عیسائیوں نے خدا سے باندھے ہوئے عہد کو توڑا اور خدائی احکامات کی توہین کی اور تذلیل کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے وہ اخلاقی اور روحانی طور پر تباہ ہو گئے اور ذلت اور رسوائی ان کا مقدر بنی۔ ان کو توجہ دلائی گئی ہےکہ اب وہ آنحضرت ﷺ کو قبول کرکے خدا کے فضلوں کے وارث بن سکتے ہیں ۔ عیسائیوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ الوہیت مسیح کا عقیدہ اپنانے کی وجہ سے وہ خدا کے غضب کے مورد ہوئے ہیں اور اب جبکہ وہ آنحضرت ﷺ سے حسد کر رہے ہیں محض اس لئے کہ خدا نے آپؐ کو اپنے فضلوں کے لئے چُن لیا ہے۔ ان کا یہ حاسدانہ رویہ آنحضرت ﷺ کے مقابل پر ویسے ہی ہے جیسے قابیل کا ہابیل کے مقابل پر تھا۔

یہ سورۃ اس امر پر مزید روشنی ڈالتی ہے کہ یہودی اور عیسائی اسلام کی مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور وہ اس قدر گمراہ ہو چکے ہیں کہ اپنے مذاہب کی کتابوں پر عمل نہیں کرتے اور تیزی سے اپنی مذہبی تعلیمات کے بارے میں جہالت میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ انہیں بتایا گیاہےکہ اگر وہ اسلام قبول کرنے سے قاصر ہیں تو انہیں کم از کم اپنے صحف مقدسہ کے مطابق تو عمل کرنا چاہئے اور اپنی شریعت کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے۔ لیکن اسلام کی سیاسی بالادستی کی صورت میں اگر انہیں کبھی اسلامی حکومت سے فیصلہ کروانے کی ضرورت پیش آئی تو ایسا فیصلہ لازماً قرآنی تعلیمات کے مطابق کیا جائے گا۔

پھر مسلمانوں کو یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ ان کے سیاسی حالات میں ایک غیرمعمولی فرق نمایاں ہے اور کفار کی طاقت ٹوٹ چکی ہےاب ان کا سامنا عیسائیوں سے ہوگا اور یہودی، عیسائیوں سے دشمنی رکھنے کے باوجود انہی کا ساتھ دیں گے۔ لہٰذا مسلمانوں کو ان دونوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ پھر اسلام کے دشمنوں کی طرف سے مسلمانوں کو ان کے ایمان سے ہٹانے کے لئے جو چالیں اور فتنہ پردازیاں اختیار کی گئی ہیں ان پر روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ ان کا بودہ پَن ظاہر کیا جائے۔

بعد ازاں اسلام کی تبلیغ کی اہمیت کو مسلمانوں پر اجاگر کیا گیاہے۔ ان کو بتایا گیاہے کہ یہود و نصاریٰ کی حاسدانہ کارروائیوں سے نمٹنے کے لئے ایک بہترین طریق ان کو اسلام کی تبلیغ کرنا ہے اور ان کی کتابوں کے دلائل سے اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنا ہے۔ ان پر یہ بات واضح کردینا بھی ضروری ہے کہ اب ان کی نجات اسلام کو ماننے میں ہےاور مشرکانہ عقائد بالخصوص مسیح کے ابن اللہ ہونے کا عقیدہ سب باطل ہیں۔ اسی طرح یہود کا ذکر کیا گیاہے کہ جنہوں نے دو عظیم نبیوں یعنی حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت مسیح علیہ السلام کی مخالفت اور ظلم و تعدی کی وجہ سے خدا کے غضب کو دعوت دی۔ انہیں ان کی ماضی کی غلطیوں اور ناکامیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور یہود کے مقابل پر عیسائیوں کے اسلام کو ماننے کے زیادہ امکانات کا اظہار کیا گیاہے۔ اس لئے ایسے احکامات بیان کئے گئے ہیں جو عیسائیوں سے متعلق ہیں جن میں حلال اور حرام کے متعلق شرعی احکامات شامل ہیں۔ حلف کے بارے میں احکامات، شراب، جوئے۔ شکار کے علاوہ ایسے احکامات اور قوانین بھی شامل ہیں جو مذہبی رسوم اور تقاریب کے متعلق ہیں نیز گواہی کے بارے میں بھی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

سورۃ المائدہ کے آخر پر حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت کے بارے میں تفصیلی حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ بتایا گیاہےکہ آپؑ کے حالات گزشتہ ابنیاء کے حالات سے بہت ملتے جلتے ہیں لہٰذا آپ کو خدائی کا درجہ دینا یا الوہیت کے مقام تک پہنچانا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا اور یہ کہ عیسائی دنیا کی تمام تر ترقی آپ علیہ السلام کی دعاکے نتیجہ میں ہے۔ مگر ان عیسائیوں نے اپنی ظاہری ترقی اور کامیابیوں کا غلط استعمال کیا ہے اور مشرکانہ عقائد اور عادات کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ پھر قیامت کے دن کا ذکر کرکے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان اور الفاظ میں عیسائیوں کو ان کے قصور (عقیدہ الوہیت مسیح) پر شرمندہ کیا گیاہے (جب بروزِ قیامت حضرت مسیح علیہ السلام اس عقیدہ سے بیزاری اختیار کریں گے)۔
اس سورۃ کا اختتام اس مضمون پر کیا گیاہےکہ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہےاور وہ ہر چیز پر قادر ہے، یہاں ان صفات باری تعالیٰ کے اظہار کا مقصد عیسائیوں کے اس بے بنیاد عقیدہ کا بطلان ہےکہ خدا کی بادشاہی صرف آسمان پرہے۔


(وقار احمد بھٹی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ14۔مئی2020ء