• 12 جولائی, 2025

لبِ خاموش کی خاطر لَب کھولتا ہے وہ

آج سے تقریباً 15برس قبل ایک دن عصر کی نماز کے بعد جب ہم حسب معمول صحن میں چارپائیاں بچھائے بیٹھے تھے اچانک آسمان کی رنگت سرخ ہونا شروع ہو گئی اور تیز ہوا چلنے لگی۔ امی جان نے پریشانی کی حالت میں ہمیں کہا کہ فوراً سب چیزیں سمیٹو اور ساری کھڑکیاں دروازے بند کر دو اور سب لوگ اندر کمروں میں چلے جاؤ۔ آندھی اتنی تیز اور خوفناک آواز کے ساتھ چل رہی تھی کہ میرا دل دہل گیا ۔یوں لگتا تھا کہ ابھی آن کی آن میں ہواسب کچھ اڑا کے لے جائے گی۔ خير دل بہلانے کو امی جان سے باتیں کرنے لگی۔ میری امی نے مجھے بتایا کہ پرانے وقتوں میں جب کسی بے گناہ کا قتل ہوتا یا کسی معصوم کے ساتھ زیادتی ہوتی تھی تو ایسی ہی سرخ آندھی چلتی تھی ایسی خوفناک تیز ہوا ہوتی کہ سب لوگ ڈر جاتے اور سمجھتے کہ یہ طوفان کسی معصوم کی آہ کا نتیجہ ہے اور توبہ کرنے لگتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بچپن میں بھی گاؤں کے ایک بہت شریف آدمی کو قتل کر کے، اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے قاتل نے ایک کمرے میں دفنا دئیے تھے جو کہ بعد میں پولیس نے نکالے اور اس دن بھی سرخ طوفان آیا تھا ۔ وہ بتانے لگیں کہ ہماری دادی جان ایسے وقتوں میں زور زور سے یا رحيما رحم کر اور یا کریما کرم کر کا ورد کرتی تھیں۔ اور ہم بچوں کو بھی ایسا کرنے کو کہتیں۔ امی کی بات سن کر میں ہنسنے لگی کہ پرانے وقتوں کے لوگ کتنے معصوم تھے اور کہا کہ امی اگر ہوائیں مظلوموں کی آہ پر چلتیں تو آج جتنا ظلم ہو رہا ہے اس کے مطابق تو پھر ہر وقت ہر ملک میں ہوائیں ہی چلتی رہتیں۔ امی نے میری اس بیوقوفانہ بات کا صرف اتنا ہی جواب دیا اور پھر خاموش ہو گئیں کہ بیٹا ’’ظالم کی رسی داراز ہوتی ہے اور خدا کی لاٹھی بے آواز‘‘امی کی اس خاموشی کے بعد میں گہری سوچ میں پڑ گئی کہ کیا واقعتاً ایسا ہوتا ہے؟ اور سوچتے سوچتے میں اس آگ تک پہنچی جس سے ایک معصوم حضرت ابراهیم ؑ کو بچانے کے لیے اسے ٹھنڈا کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ تب بھی پرندے اپنی چونچ میں پانی بھر بھر کے لاتے تھے اور آگ پر گراتے تھے جس سے آگ ٹھنڈی ہو گئی۔ پھر پرندوں سے میرے ذہن میں ابابیل آئے اور ان کے پھینکے ہوئے وہ کنکر جنہوں نے ایک ظالم طاقتور لشکر کو دیکھتے دیکھتے ڈھیر کر ڈالا اور پھر بے شمار واقعات بشمول نوح کے وقت کے طوفان اور جنگ بدر کی بارش۔ گویا خدا ہمیشہ معصوموں اور بے گناہوں کی آواز بن کر کئی رنگ میں اپنے نشان دکھلاتا ہے اور یوں اپنے بندوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور ظالموں، متكبروں کے لیے توبہ کے دروازے کھولتا رہتا ہے۔لیکن اس کے بعد کئی واقعات ایسے بھی ہوئے کے جب مجھے لگا کہ اگر خدا معصوموں کی آہ سن کر ان کی خاموشی پر اپنے لب کھولتا تو آج ضرور قیامت برپا ہو جاتی۔ مثلاً آئے روز گھر سے اپنے بچوں کے لیے کھانا اور کھلونے خریدنے کے لیے نکلنے والے ہزاروں والدین کا دہشتگردی کے واقعات میں شہید ہو جانا اور ان بچوں کی خالی آنکھیں، معصوم چہرے اورخاموش لب۔ بہت سی عبادت گاہوں بشمول لاہور کی احمدیہ مساجد کا درجنوں نہتے نیک عبادت میں مشغول بندوں کے خون سے رنگے جانا اور اس پر لواحقین کا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ(البقرۃ:157) کہہ کر خدا پر نظر جما لینا۔ اے پی ایس پشاور کے انتہائی معصوم بچوں کی سسکیاں پکاریں اور ان کی ماؤں کی آہیں یہ سب اس قدر مظلوم اور بے بس تھے کہ ہر واقعہ کے بعد مجھے لگتا تھا کہ اب تو ضرور کوئی طوفان آئے گا مگر افسوس کوئی آندھی نہ چلی اور ظالم مزید ظلم میں بڑھتے گئے۔ یہ تو صرف ایک ملک کا حال تھا جو خود کو اسلام کا علمبردار سمجھتا تھا مگر عالمی دنیا بھی ان مظالم اور مظلوموں کی آہوں سے خالی نہ تھی۔ ہمسایہ ممالک کی طرف دیکھو تو بھارت میں کئی برسوں سے کشمیریوں کے خون سے کھیلی جانے والی ہولی، چین میں ایک مخصوص طبقہ پر کئےجانے والے ظلم، ایران، افغانستان، فلسطین اور شام کے ہزاروں لوگوں کی آہیں، جن کے پیاروں کو ان کی آنکھوں کے سامنے مار دیا گیا ۔ان کے گھر ان سے چھین لیے گئے ان کے ہنستے بستے شہر اجاڑ دئیے گئے۔ روشنیاں بجھا کر آبادیوں کو کھنڈرات میں بدل دیا گیا۔ کتنے ہی معصوم بچوں کی خون آلود شکلیں سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہیں اور خود کو انسان کہنے والوں کی بے حسی کو بڑھاتی رہیں۔ ان سب واقعات پر انسانیت کے علمبردار متحدہ ممالک نہ صرف یہ کہ چپ رہے بلکہ برابر ظالم کا ساتھ دیتے اور اسے سلامیاں پیش کرتے رہے کہ کہیں مظلوم کے حق میں بولنے سے ان کو ملنے والی امدادیں بند نہ ہو جائیں اور معیشت تباہ نہ ہو جائے۔ اور سب لوگ ہر سطح پر انسانیت کی آواز بننے کی بجائے خود سے طاقتور اور ظالم کو خدا سمجھنے لگے اور اسی کی پوجا میں لگ گئے۔ اور بظاہر دیکھا جائے تو اس کا فائدہ بھی بہت ہوا۔وہ یہ کہ دنیا بہت ترقی کر گئی، نت نئی ایجادات کر لی گئیں ۔زمیں پر بسنے والوں کی تباہی کے اتنے طاقتور ہتھیار تیار کر لیے گئے کہ ایک سیکنڈ میں ساری زمیں سائیں سائیں کرنے لگے ۔ گویااپنے گھر کو برباد کرنے کے سارے لوازمات پورے کر کے آسمان کی طرف جانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ ایسے میں اچانک دنیا کے ایک کونے سے خبر آتی ہے کہ ایک ان دیکھے انجانے بظاہر آنکھ سے نظر نہ آنے والے چھوٹے سےجراثیم نے انسانوں پر حملہ کر دیا ہے اور روز بروز سینکڑوں لوگوں کی موت کا سبب بن رہا ہے۔ پہلے پہل تو عادت سے مجبور اقوام نے اس کو خود کی طرح ایک نسل پرست جراثیم جانتے ہوئے اس کا اور اس قوم کا خوب مذاق اڑایا اور بجائے جراثیم کو تباہ کرنے کے اس ملک کی معیشت کو تباہ کرنے کے سب اقدام اٹھائے۔ مگر یہ جراثیم انسانوں کی طرح نسل پرست ثابت نہ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر نسل میں پھیل گیا۔ ہر رنگ کا آدمی اس سے متاثر ہونے لگا۔ تب کہیں جا کے ان بظاہر متحدہ ممالک کا ماتھا ٹھنکا اور لگے تدبیریں کرنے۔ مگر اب جن بوتل سے باہر آچکا تھا اور اس کو قابو کرنے کا کوئی انتظام موجود نہ تھا۔ اور ہوتا بھی کیسے ؟ وہ سارا وقت (سمجھیں تو مہلت) ، عقل، علم اور دولت جو خدا نے انسان کو انس، محبت، ہمدردی بڑھانے کے لئے عطا کیا تھا اسے تو انسان نے خود سے کمزوروں کو تباہ کرنے میں صرف کر دیا تھا۔ پیچھے مڑ کے دیکھا تو کسی کے پاس انسان کو بچانے کی کوئی ویکسین نہیں تھی ۔ ہاں مگر سب انسانوں کو تباہ کرنے کا مواد وافر مقدار میں موجود تھا مگر اب وہ بھی کسی کام کا نہ رہا تھا کیونکہ جو کام ان سے لیا جاتا تھا وہ تو ایک چھوٹا سا جراثیم بہت تیزی سے کئے جا رہا تھا یعنی انسانوں کو ختم کرنا اور بستیوں کو اجاڑنا۔ معلوم نہیں کہ اس وائرس کے بننے اور پھیلنے کی وجہ کیا بنی۔ مگر یہ خدا کی طرف سے ایک سرخ آندھی ضرور معلوم ہوتا ہے اور بہت سے صاحب عقل اس کا علاج صرف دعا اور توبہ و استغفار ہی بتا رہے ہیں۔ ہر طاقت اس جراثیم کے سامنے ہے بس کھڑی ہے اور اپنی اوقات کی حدود کا نظارہ کر کے سخت شرمسار نظر آتی ہے۔ اب دیکھنا یہ نہیں کہ کب پروردگار اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتے ہوئے انکی طرف فضل سے متوجہ ہوتا ہے اور وہ علم عطا کرتا ہے کہ جس سے اس جراثیم کو شکست دی جا سکے بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ انسان اس سے کیا سبق سیکھتے ہیں اور اس وائرس کے بعد اپنے مستقبل کا کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ورنہ مستقبل میں بات ایک وقتی سرخ آندھی سے بڑھ کر طوفان نوح تک بھی پہنچ سکتی ہے۔

(طیّبہ سعدیہ۔ہالینڈ)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر28 ، 14 ۔مئی 2020ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مئی 2020