• 27 اپریل, 2024

زکوٰۃ

حضرت عبداللہؓ بن ابی اوفی سے روایت ہے کہ جس وقت کوئی قوم نبی کریم کے پاس اپنی ز کوٰ ۃ لاتی تو رسول کریم ﷺ فرماتے “یا الہٰی فلاں کی آل پررحمتیں فرما”

( بخاری ،مسلم)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
جسے اللہ نے مال دیا اور اس نے اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے دن اس کا مال زہریلے سانپ کی شکل اختیار کر لے گا جو اس کے گلے کا طوق ہو گا۔ پھر وہ سانپ اپنے جبڑوں سے اسے پکڑ لے گا اور کہے گا میں تیرا مال اور خزانہ ہوں۔

(بخاری کتاب الزکوة)

زکوٰۃ

زکوٰۃ دین حق کا ایک بنیادی رکن ہے اور دیگر ارکان کی طرح اس کی ادائیگی بھی فرض ہے۔ ادائیگی زکوٰة کے حوالہ سے قرآن کریم ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کے ارشادات پیش ہیں ۔ وہ احمدی احباب و خواتین جن پر زکوٰۃ کی ادائیگی کی شر ائط پوری ہوتی ہوں ان سے درخواست ہے کہ اس فرض چندے کی طرف خصوصی توجہ فرمائیں۔

قرآن کریم

1۔ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور جھکنے والوں کے ساتھ جھک جاؤ۔

(البقرۃ: 3)

2۔ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوة دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا۔ یقیناً اللہ کامل غلبہ والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔

( التوبہ: 3-5)

احادیث

1۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول مقبول ﷺ نے فر مایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پربھی گئی ہے۔ گواہی دینا اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺاللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا، زکوۃ دینا۔حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔(بخاری، مسلم)
2۔ حضرت عمرو بن شعیبؓ اپنے دادا کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ دو عورتیں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ان کے ہاتھوں میں سونے کے دوکنگن تھے آنحضرت ﷺنے دریافت فرمایا “کیا ان کی زکوٰۃ دیتی ہو” انہوں نے جواب دیا “نہیں یا رسولﷺ” اس پر آپ ؐنے فرمایا “کیا تم پسند کرتی ہو کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہیں آگ کے کنگن پہنائے۔” انہوں نے کہا “نہیں” فرمایا “پھر تم ان کی زکوٰۃدیا کرو”

(مشکوٰة)

ارشادات حضرت مسیح موعود ؑ
1۔ “اے وے لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے ۔جب تم سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنےروزوں کو خدا تعالیٰ کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ہر ایک جو زکوٰۃ دینے کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی امر مانع نہیں وہ حج کرے۔”

2۔ “جو زیور پہنا جائے اور کبھی کبھی غریب عورتوں کو استعمال کے لئے دیا جائےبعض کا ان کی نسبت فتویٰ ہے کہ اس کی کچھ زکوٰۃ نہیں۔ اور جو زیور پہنا جائے اور دوسروں کو استعمال کے لئے نہ دیا جائے اس میں زکوٰۃ دینا بہتر ہے کہ وہ اپنے نفس کے لئے مستعمل ہوتا ہے۔ اسی پر ہمارے گھر میں عمل کرتے ہیں اور ہر سال کے بعد اپنی موجودہ زیور پر زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو زیور روپیہ کی طرح جمع رکھا جائے اس کی زکوٰۃ میں کسی کو بھی اختلاف نہیں۔”

ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ

“جس طرح نمازیں فرض ہیں اور مسجد میں جماعت کے ساتھ فرض ہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ فرض ہے۔اور اس کا ایک جگہ جمع کر کے تقسیم کرنا اور ان مصارف پر لگانا جو اس کے لئے قرار دئیے گئے ہیں فرض ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کو اسی طرح ضروری سمجھو جس طرح نماز اور روزہ اور حج کے فرائض کی ادائیگی کو ضروری سمجھتے ہو۔”

ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ

“ زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارہ میں سوال ہوتے ہیں۔یہ بنیادی حکم ہے۔ جن پر زکوٰۃ واجب ہے ان کو ضرور ادا کرنی چاہئےاور اس میں بھی کافی گنجائش ہے۔ بعض لوگوں کی رقمیں کئی کئی سال بینکوں میں پڑی رہتی ہیں اور ایک سال کے بعد بھی رقم جمع ہے۔ تواس پر بھی زکوٰۃ دینی چاہئے۔ پھر عورتوں کے زیورات ہیں ان پے زکوٰۃ ہونی چاہئے۔جو کم از کم شرح ہے اس کے مطابق ان زیورات پر زکوٰۃ ہونی چاہئے۔پھر بعض زمینداروں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ان پر زکوٰۃ ادا کرنی چاہئے تو یہ ایک بنیادی حکم ہے اس پر بہرحال توجہ دینے کی ضرورت ہے۔”

زکوٰۃ کی ادائیگی کے متعلق بعض سوالات اور جوابات

سوال نمبر1۔ زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے؟
جواب۔ زکوٰة کا نصاب درج ذیل ہے۔1۔ . چاندی ساڑھے باون تولے 2 ۔سونا ساڑھےسات تولے.3 ۔نقدی: ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت کے برابر نقدی۔
نوٹ: اگر مقررہ نصاب کے مطابق چاندی ، سونا یا نقد رقم پر ایک سال مکمل ہو جائے تو کل سرمایہ کا اڑھائی فیصد یعنی چالیسواں حصہ سالانہ حساب سے زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہوتی ہے۔
سوال نمبر 2۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہے؟
ج :جماعتی لحاظ سے زکوٰۃ کی تمام رقم کا مرکزی نظام کے تحت جمع ہونا ضروری ہے۔ از خود کوئی بھی احمدی اپنی زکوٰۃ کی رقم کو تقسیم کر سکتا ہے نہ کسی صدقہ یا عطیہ کی صورت میں دے سکتا ہے۔ اگر اس کے علم میں کوئی اس کا ایسا عزیز رشتہ دار یا مستحق ہے ( خواہ ا حمدی ہو یا غیر از جماعت ہو ) خواہ اپنی زکوٰۃ کی رقم سے امداد کا ارادہ رکھتا ہو یا امداد کروانا چاہتا ہو تو اس کے لئے حضور انور کی خدمت میں درخواست براہ راست یا نظارت مال آمد کے ذریعہ بجھوائے۔ بصورت منظوری جماعتی نظام کے تحت امداد کر دی جاتی ہے۔
سوال نمبر 3: کیا بینک میں یا کسی اور طور پرمحفوظ رقم پر زکوٰۃ واجب ہے؟
ج:بینک میں یا کسی اور طور پر محفوظ رقم پر زکوٰۃ واجب ہے۔ اگر بینک میں فکسڈ ڈیپازٹ کے طور پر رقم جمع ہو اور زکوٰۃ کی شرائط پوری ہو جا ئیں تو زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہو جائے گی۔ اگر فکسڈ ڈپیازٹ ایک سال سے زیاد عرصہ تین، پانچ یا دس سال کے لئے ہے تو ہر سال کا حساب کر کے واجب زکوٰہ ہر سال ادا کرنا ہوگی۔ پرائز بانڈز ،کمپنیوں کے شیئر ز،کسی کے پاس امانتاً رکھی ہوئی رقم سب نقدی کے زمرے میں آتے ہیں۔
سوال نمبر 4: کیا حق مہر پرزکوٰۃ واجب ہے؟
ج: مہر کی رقم جب تک عورت کو حاصل نہیں ہوتی اس پر زکوٰۃ واجب نہیں۔ جب حق مہر مل جائے اور وہ نقد یا زیور کی صورت رکھتا ہو اور وہ نصاب کی قدر بن جائے تو ایک سال گزرنے پر زکوٰۃ واجب ہوگی ۔
سوال نمبر5: کیا چند ہ جات زکوٰۃ کے متبادل ہیں؟
ج: چندہ جات زکوٰۃ کے متبادل نہیں ہیں ۔ بلکہ جن پرزکوٰۃ فرض ہے وه زکو ٰۃ ترجیحی بنیادوں پر ادا کریں ۔

بروشر

پچھلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر34 ، 20 مئی 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ