• 27 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کے سفر لاہور کی روائیداد

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام 27؍اپریل 1908ء کو اپنی زوجہ محترمہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ المعروف اماں جان کے علاج کے لئے لاہور تشریف لے گئے۔ مگر آپ کا یہ سفر آپ کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا اور آپ لاہور میں ہی کچھ عرصہ بیمار رہ کر آج سے 112سال قبل آج ہی کے روز 26مئی 1908ء کو اپنے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

آپ کا جسد خاکی قادیان (انڈیا) لے جایا گیا جہاں حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیفۃ المسیح الاولؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سفر لاہور میں خواجہ کمال الدین صاحب کے گھر میںقیام پذیر ہوئے۔ جہاں آپ کو اَلرَّحِیۡلُ ثُمَّ الرَّحِیۡلُ یعنی دنیا سے کوچ کرنے کےبارہ میں الہامات ہوئے۔ وصال کی گھڑی کے قریب آجانے کے واضح اشارات کے باوجود آپ نہایت استقلال کے ساتھ اپنے دینی وتبلیغی کاموں میں مصروف رہے۔ ظاہری طور پر اس الہام کو پورا کرنے کے لئے آپ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے گھر میں منتقل ہو گئے اور فرمایا یہ بھی ایک قسم کا کوچ ہے۔

اس آخری سفر میںحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن جگہوں میں قیام فرمایا۔ محافل عرفان منعقد کیں ان تمام کا تعلق احمدیہ بلڈنگز 15برانڈرتھ روڈ حال نشتر روڈ سے تھا۔ اس بلڈنگز کے مشرقی جانب ایک گلی گزرتی ہے جس میںخواجہ کمال الدین صاحب کا گھر ہوا کرتا تھا جو اب اصل حالت میں موجود نہیں اور گلی کی دوسری جانب ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب کا گھر تھا جہاں اب احمدیہ بلڈنگز (جو اب محمدیہ بلڈنگز کہلاتی ہے) تعمیر ہوئی۔ اسی میں وہ جگہ بھی ہے جہاں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا۔ اس جگہ کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔ خاکسار نے وہ کمرہ اور پلنگ وغیرہ دیکھا ہوا ہے جس پرآپ کی وفات ہوئی۔ یہ مارکیٹ اب انجمن اشاعت اسلام ( لاہوری گروپ) کے پاس ہے اس بلڈنگ کے پشت پر ایک خوبصورت مسجدتعمیر ہو چکی ہے۔ جو لاہوری گروپ کے پاس ہے۔

حضرت مولانا ابوالعطاءجالندھری نے 1912ء میں اس جگہ کو اصلی حالت میں دیکھا اور وہ کمرہ بھی دیکھا جہاں حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات ہوئی۔ اس کا ذکر آپ نے روزنامہ الفضل پاکستان میں ’’حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کا مقام‘‘ کے عنوان کے تحت یوں فرمایا۔ ’’حضرت مسیح موعود علیہ اللام کے وصال کی تاریخ 26مئی 1908ء ہے۔ اس طرح مورخہ 25مئی 1962ء کو آپ کی وفات پر 54برس بیت گئے ہیں۔ حسن اتفاق سے کل خاکسار اور عزیزم مولوی دوست محمد صاحب شاہد لاہور گئے تھے۔ ہم احمدیہ بلڈنگس میں اس مکان کو بھی دیکھنے گئے جہاں 54سال پیشتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تھا۔ محترم جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی اور احمدیہ بلڈنگس سے جناب شیخ غلام قادر صاحب ہمارے ہمراہ ہوئے۔ جناب شیخ غلام قادر صاحب نے برانڈرتھ روڈ کی دکانیں دکھائیں جو پہلے ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب مرحوم کا مکان تھا اور جہاں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زندگی کے آخری لمحات بسر فرمائے تھے اب اس مکان کی شکل بھی بدل چکی ہے جو کھلا کمرہ اور ہال تھا اور جہاں جمعہ وغیرہ کی نمازیں اس وقت پڑھی جاتی تھیں۔ وہ سب دکانیں ہیں بڑے کمرہ میں دیواریں حائل ہیں۔ جناب شیخ غلام قادر صاحب نے بتایا کہ یہ سب تبدیلی 1914ء کے بعد ہی ہوئی ہے۔ کتنا رقت انگیز یہ منظر تھا کہ گلی میںکھڑے جب شیخ صاحب موصوف بتا رہے تھے کہ اس گلی کے اوپر دونوں مکانوں کو ملانے کے لئے ایک پل ہوتا تھا جہاں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے کمرہ سے نماز کے لئے آتے تھے تو اس ذکر پر ان کی آواز بھرا گئی اور آنکھوں میںآنسو بھر آئے ہم سب بھی خاص طورپر متاثر تھے۔

ان مقامات کو دیکھنے سے دل میںایک درد اٹھتا ہے اور دعانکلتی ہےکہ اللہ تعالیٰ جلد وہ وقت لائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن پوری شان سے کامیاب ہو۔ آمین مجھے محسوس ہوا کہ ہمارے اس طرح جانے سے غیرمبائع احباب میں بھی اس امانت کی یادگاری اہمیت زیادہ محسوس ہونے لگی ہے‘‘؟

(لاہور کا آخری سفر اور احمدیہ بلڈنگز صفحہ 118۔119)

دعا کی قبولیت اور نشان نمائی میںمقابلہ کی دعوت حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے عرصے قیام لاہور میںجو تبلیغی امور سرنجام دئیےان میںسے ایک دعا کی قبولیت اور نشان نمائی میںمقابلہ کی دعوت ہے۔ آپ نے 15مئی 1908ء کو منکرین و مخالفین کو ایک نشان نمائی کی ایک دعوت عام یوں دی کہ میرے مقابل پر 10مولویوں اور 10رؤساء کی طرف سے منتخب شدہ ایک مولوی صاحب اور دو سخت بیماروں کو لایا جائے۔ قرعہ اندازی سے ایک مریض میرے سپرد ہو اور دوسرا مولوی صاحب کے۔ جو اپنے مریض کو خدا تعالیٰ سے شفا دلا دے وہ سچا ہو گا اور میں ابھی سے خبر دیتا ہوں کہ میرے حصہ میںآنے والا مریض شفایاب ہو گا۔اللہ اس کی عمر بڑھائے گا۔ یہ احیاء موتیٰ کے رنگ میں ایک نشان ہوگا۔

(حیات طیبہ صفحہ 254۔255)

رؤسائے لاہور کو دعوت طعام 17مئی کو اسی مکان کے صحن میں آپ نے رؤسائے لاہور کو ایک دعوت طعام دی اور احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ ایک گھنٹہ کی گفتگو کے بعد آپؑ نے رؤساء لاہور سے پوچھا کہ اب کھانے کا وقت گزرا جاتا ہے۔ میںتقریر بند کرتا ہوں تاکہ کھانا کھا لیا جائے وہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ اکثر حاضرین نے یک زبان ہو کر بآواز بلند کہا کہ یہ مادی کھانا تو ہم روز ہی کھاتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ روحانی غذا ہر روز کہاں نصیب ہوتی ہے۔ آپ تقریر جاری رکھیں چنانچہ آپؑ نے ایک بجے تک اپنے کلام کو جاری رکھا۔

حضرت ملک خدا بخش صحابی حضرت مسیح موعود ؑ سابق جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ لاہور اس دعوت کا آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کرتے ہیں کہ

’’تقریر فرماتے وقت حضورؑ کا وجود ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے گویا ایک تصویر ہے جو بول رہی ہے آنکھیں نیم وا معلوم ہوتی تھیں اور کوئی حرکت ہاتھ پاؤں سے نہیںفرماتے تھے حضورؑ کے ہاتھ میں سونٹی بھی تھی۔

تقریر کے اختتام پرحضورؑ کی خدمت میں دودھ کا ایک گلاس پیش کیا گیا ہم تبرک کی خواہش میں گتھم گتھا بھی ہوئے چنانچہ کچھ دودھ جو فرش پر گر گیا تھا اسے بھی ہم نے اپنی زبانوں سے اٹھا لیا۔‘‘

(لاہور کا آخری سفر اور احمدیہ بلڈنگز صفحہ121)

پیغام صلح کی تصنیف چونکہ دعوت طعام میںعمائدین کی تعداد محدود تھی اسی لئے دعوت عام کے لئے پبلک لیکچر کی تجویز زیر غورآئی اور آپؐ نے اس کے لئے ایک کتاب بصورت پیغام تصنیف فرمائی۔ جس میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان مذہبی صلح کی اہمیت پر چند تجاویزدیں۔ مگر آپؑ کی زندگی نے وفا نہ کیا اور یہ لیکچر آپؑ کی وفات کے بعد 21جون 1908ء کو خواجہ کمال الدین صاحب نے یونیورسٹی کے ہال میں پڑھا۔ جسے ہر قوم وملت کے لوگوں نے نہایت پسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ مشہور انگریزی برطانوی رسالے ’’ریویو آف ریویوز‘‘ نے اس مضمون کو مسلمانوں اور ہندوؤں میںایک سنہری پل قرار دیا۔

وفات مسیح پر لیکچر خواجہ کمال الدین صاحب کے گھر میں آپؑ نے وفات مسیح پر ایک مختصرسی تقریر فرمائی اور فرمایا۔’’عیسیٰ ؑ کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی حیات ہے۔ ایسا ہی عیسیٰ موسوی کی بجائے عیسیٰ محمدی کو آنے دو کہ اس میں اسلام کی عظمت ہے۔‘‘

(لاہور کا آخری سفر احمدیہ بلڈنگز صفحہ 124)

پروفیسر کلیمنٹ ریگ کی ملاقات برطانیہ کے مشہور سیاح اور ہیت دان پروفیسر کلیمنٹ ریگ اپنی اہلیہ کے ہمراہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملنے کے لئے تشریف لائے۔ آپ نے کچھ سوال حضرت مسیح موعودؑ سے پوچھے۔ تسلی بخش جواب پر کر کہنے لگے۔

’’مجھے اپنے سوالات کا جواب کافی اور تسلی بخش ملنے سے بہت خوشی ہوئی اور مجھے ہر طرح سے اطمینان کامل حاصل ہو گیا اور یہ اطمینان دلانا خدا کے نبی کے سوا کسی میں نہیں۔‘‘

(لاہور کا آخری سفر اور احمدیہ بلڈنگز صفحہ 126)

سر میاں فضل حسین بیرسٹر کی ملاقات آپ کے سوال اگر تم غیر احمدیوں کو کافر کہا جائے تو پھر اسلام میں کچھ باقی نہیں رہتا کے جواب میں آپؑ نے فرمایا۔ ’’ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے جب تک کہ وہ ہمیںکافر کہہ کر خود کافر نہ بن جائے۔ آپ کو شاید معلوم نہ ہو۔ جب میں نے مامور ہونے کا دعویٰ کیا تو اس کے بعد بٹالہ کے محمد حسین مولوی ابو سعید صاحب نے بڑی محنت سے ایک فتویٰ تیار کیا جس میں لکھا تھا کہ یہ شخص کافر ہے ’دجال‘ ہے ضال ہے اس کا جنازہ نہ پڑھا جائے۔ جو ان سے السلام علیکم کرے یا مصافحہ کرے یا انہیں مسلمان کہے وہ بھی کافر۔اب سنو! یہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جو مومن کو کافر کہے وہ کافر ہوتا ہے۔ پس اس مسئلہ سے ہم کس طرح انکار کر سکتے ہیں۔ آپ لوگ خود ہی کہہ دیں کہ ان حالات کے ماتحت ہمارے لئے کیا راہ ہے؟ ہم نے ان پر کوئی فتویٰ نہیں دیا۔ اب جو انہیںکافر کہا جاتا ہے تو یہ انہیں کے کافر بنانے کا نتیجہ ہے۔ایک شخص نے ہم سے مباہلہ کی درخواست کی ہم نے کہا دو مسلمانوں میںمباہلہ جائز نہیں۔ اس نے جواب میں لکھا کہ ہم تو تجھے پکا کافر سمجھتے ہیں۔

(لاہور کے آخری سفر اور احمدیہ بلڈنگز صفحہ127)

ان کے علاوہ بہت سے مشہور و معروف گرامی نے آپ سے ملاقات کر کے آپ سے فیض پایا۔ جن میںجناب محمد علی جعفری وائس پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور، ڈاکٹرمحمد سعید وغیرہ شامل تھے۔

ایمان افروز واقعہ نوجوانوں نے مشورہ کیا کہ حضورؑ کی گاڑی (رتھ) کو ہم کھینچے یہ دیکھ کر حضور نے فرمایا۔ گھوڑے جوتو! ہم انسان کو حیوان بنانے کے لئے دنیا میں نہیںآئے ہم تو حیوان کو انسان بنانے کے لئے آئے ہیں۔

جماعت کو نصیحت آپ نے فرمایا۔‘‘جماعت احمدیہ کے لئے بہت فکر کا مقام ہے کیونکہ ایک طرف تو لاکھوں آدمی انہیں کافر کہتے ہیں دوسری طرف اگر یہ بھی خدا تعالیٰ کی نظر میںمومن نہ بنے تو ان کے لئے دوہرا گھاٹا ہے۔‘‘

(لاہور کا آخری سفر اور احمدیہ بلڈنگز صفحہ128)

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے روز مندرجہ بالا الفاظ کو سامنے رکھ کر عہد کریں کہ ہم حقیقی سچے مسلمان بننے کی کوشش کریں۔ جنہیں دیکھ کر دوسروں کو خدا یاد آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی تصویر اُجاگر ہو۔ نیز چلتا پھرتا قرآن کریم کا عکس ہو۔

(نوٹ:یہ تمام ’’لاہور کی روحانی قدریں‘‘ سے خلاصۃً لیا گیا ہے)

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر39، 25 مئی 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مئی 2020