حُلیہ مبارک
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک اعلیٰ درجہ کے مردانہ حُسن کے مالک تھے اور فی الجملہ آپ علیہ السلام کی شکل مبارک ایسی وجیہہ اور دلکش تھی کہ دیکھنے والااس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔ آپ علیہ السلام کا چہرہ کتابی تھا اور رنگ سفیدی مائل گندمی تھا اور خدوخال نہایت متناسب تھے۔ سر کے بال نہایت ملائم اور سیدھے تھے مگر بالوں کے آخری حصہ میں کسی قدر خوبصورت خم پڑتا تھا ۔ڈاڑھی گھنی تھی مگر رخسار بالوں سے پاک تھے۔قد درمیانہ تھا اور جسم خوب سڈول اور متناسب تھا اور ہاتھ پاؤں بھرے بھرے اور ہڈی فراخ اور مضبوط تھی۔
ذاتی خصائل
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بہت تیز چلتے مگر وہ تیزی ناگوار معلوم نہیں ہوتی تھی۔ زبان بہت صاف تھی مگر کسی لفظ میں کبھی کبھی حفیف سی لکنت پائی جاتی تھی جو صرف ایک چوکس آدمی ہی محسوس کر سکتا تھا ۔اخیر عمر تک کمر میں خم نہیں آیا اور نہ ہی رفتار میں فرق پڑا۔ دور کی نظر ابتداء سے کمزور تھی البتہ پڑھنے کی نظر آخر تک اچھی رہی اور یوم وصال تک تصنیف کے کام میں مصروف رہے۔ ابتداء میں جسم ہلکا تھا مگر اخیر عمر میں درمیانہ درجہ کا جسم ہو گیا تھا ۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے یا یونہی بلا ضرورت ادھر ادھر نظر اٹھانے کی عادت بالکل نہیں تھی بلکہ اکثر اوقات آنکھیں نیم بند اور نیچے کی طرف جھکی رہتی تھیں۔ گفتگو کا انداز یہ تھا کہ ابتداء میں آہستہ آہستہ کلام فرماتے مگر حسب تقاضہ وقت آواز بلند ہوتی جاتی تھی۔ چہرے کی جلد نرم تھی اور جذبات کا اثر فوراً ظاہر ہونے لگتا تھا ۔ لباس ہمیشہ پرانی ہندوستانی وضع کا پہنتے تھے یعنی عموماً بند گلے کا کوٹ یا جُبّہ، دیسی کاٹ کرتہ یا قمیض اور معروف شرعی ساخت کا پاجامہ جو آخری عمر میں عموماََ گرم ہوتا تھا ۔ سر پر اکثر سفید ململ کی پگڑی باندھتے تھے جس کے نیچے عموماً نرم قسم کی ٹوپی ہوتی تھی ۔ کھانے میں نہایت درجہ سادہ مزاج تھے اور کسی چیز سے شغف نہیں تھا بلکہ جو چیز میسّر آ جاتی بے تکلّف تناول فرمالیتے اور عموماًسادہ غذا پسند فرماتے اور نہایت کم کھاتے مگر جسم اس طرح تھا کہ ہر قسم کی مشقت برداشت کر سکے۔
آپؑ کا صبر و استقلال و شجاعت
کسی بھی روحانی مصلح کا رستہ پھولوں سے نہیں گزرتا بلکہ انہیں سخت دشوار رستوں اور بے آب و گیاہ صحراؤں اور گہرے سمندروں سے گزرتا ہے بلکہ جتنا کسی مصلح کا رستہ مشکل اور وسیع ہوتا ہے اتنا ہی اس کا مشن وسیع اور زیادہ اہم ہوتا ہے ۔ اسی طرح آپؑ کی ساری زندگی صبرو استقلال اور شجاعت کا شاندار منظر پیش کرتا ہے۔لہٰذا جب آپ ؑ نے دعویٰ کیا تو ہندوستان کی تمام قومیں یک جان ہو کر اُٹھ کھڑی ہوئیں اور یوں نظر آتا تھا کہ ایک چھوٹی سے کشتی جسے ایک کمزور انسان اکیلا بیٹھا ہوا ایک ٹُوٹے چَپُّو کے ساتھ چلا رہا ہے ۔چاروں طرف سے گہرے سمندر کی لہریں اسے گھیرے ہوئے ہیں اور طوفان کا زور اسے یوں اٹھاتا اور گراتا ہے جیسے کسی تیزطوفان کے سامنے ایک کاغذ اڑتا پھر رہا ہے مگر یہ شخص قطعاً ہراساں نہیں ہوتا بلکہ برابر کشتی چلاتا جا رہا ہے اور اس طوفان کو ذرہ بھر بھی حیثیت نہیں دیتا۔یہی وہ منظر تھا جس نے دشمنوں کے دل کو بھی موہ لیا حتّٰی کہ معاندین بھی آفرین بو ل اٹھے۔
محنت اور انہماک
آپ ؑ ہر وقت کسی نہ کسی مفید کام میں لگے رہتے اور کوئی وقت بیکار نہ گزارتے۔ آپ ؑ نے ساری زندگی ایک ایک لمحہ ایسے سپاہی کی طرح گزارا ہے جسے کسی عظیم الشان قومی خطرے کے وقت کسی نہایت نازک مقام پر نگران مقرر کر دیا جائے اور ساری قوم کا انحصار اسی ایک سپاہی پر ہو۔ اکثر اوقات آپ ؑ کام کے انہماک میں کھانا اور سونا تک بھول جاتے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ ؑ نے تصنیف کے سلسلے میں ساری ساری رات خرچ کر دی اور ایک منٹ تک آرام نہیں کیا۔ آپؑ کے متعلق تو خدا تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’أَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِی لَا یُضاعُ وَقْتہُ‘‘ یعنی تُو وہ برگزیدہ مسیح ہے جس کا کوئی وقت بھی ضائع جانے والا نہیں۔
عبادت الٰہی
آپؑ کی عبادت الٰہی کا عالم یہ تھا کہ جوانی کی زندگی جو نفسانی لذات کے زور کا زمانہ ہوتی ہے وہ آپ ؑ نے ایسے رنگ میں گزار دی کہ دیکھنے والوں میں آپؑ کا نام ’’مسیتڑ‘‘ مشہور ہو گیا کیونکہ آپؑ سارا سارا دن مسجد میں یاد الٰہی اور عبادت الٰہی میں گزار دیتے۔تہجد میں ایسے پابند تھے کہ ساری زندگی اوّل وقت میں بیدار ہو کر تہجد ادا کرتے حتّٰی کہ بیماری کے وقت بھی جبکہ اٹھنا محال ہوتا بستر پر ہی تہجد ادا کرتے۔قرآن کریم سے ایسا شغف تھا کہ دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ سارا سارا دن مطالعہ قرآن میں گزاردیتے اور قرآن ہی آپ ؑ کی زندگی کا سہارا تھا حتّٰی کہ خود ہی فرماتے ہیں۔
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآن کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے
راست گفتاری
آپ ؑ کی راست گفتاری نہایت نمایاں اور مسلّم تھی۔ عام حالات میں ہر شخص ہی سچ بولتا ہے مگر بوقت امتحان سچ بولنا ہی تقوٰی کی علامت اور قابل داد ہے اور ایسے وقت میں قابل رشک ہے کہ جب سچ بولنے سےاپنی ذات اور رشتہ داروں اور تعلق داروں اور اپنی قوم کو نقصان پہنچتا ہو۔ آپؑ نے ہر موقع پر خواہ کچھ ہو جائے سچ کا دامن نہیں چھوڑا۔ مثلاً ایک فوجداری مقدمہ میں جو محکمہ ڈاک کی طرف سے آپؑ کے خلاف دائر کیا تھا اور حالات ایسے تھے کہ اگر آپؑ صرف اپنی زبان سے ہی اس کا انکار کردیتے تو بری ہو جاتے مگر آپؑ نے بڑی دلیری کے ساتھ اس فعل کا اعتراف کیا اور ساتھ ہی اس جرم کے عدم علم کا بھی اظہار کر دیا۔ اس پر مجسٹریٹ نے آپؑ کو بری کر دیا ۔تو یہ تھی آپؑ کی راست گفتاری کہ باوجود وکلاء کے زور دینے کے آپؑ نے سچ کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
تکلّفات سے پاک زندگی آپ ؑ بالکل سادہ مزاج اور زندگی کے ہر شعبے میں آپؑ کا طریق سادہ اور ہر قسم کے تکلّفات سے بالا تھا۔ خوراک اور لباس کا تذکرہ آپ ؑ کے ذاتی خصائل میں گزر چکا ہے۔ اگر مجلس کا ذکر کیا جائے تو آپ ؑ دیگر سجادہ نشینوں سے با لکل مختلف تھے اور کبھی مجلس میں علیحدہ اور نمایاں مسند اختیار نہ کرتے بلکہ سب صحابہؓ کے ساتھ مل کر بیٹھ جاتے اور بسا اوقات ایسا ہوتا کہ آپ ؑ پائنتی کی طرف بیٹھ جاتے اور دیگر چارپائی کے دوسرے حصّے پر۔ سفر کے لئے نکلتے تو ایک خادم اور ایک گھوڑا ساتھ ہوتا تو بجائے خود سواری پر بیٹھنے کے خادم کو ہی سوار کر دیتے اور خود پیدل چلتے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ سفر خرچ میں سے کھانے کے لئے خود سے زیادہ خرچ اپنے خادم کو نکال کر دیتے اور خود صرف ایک آنے پر گزارہ کرلیتے۔
گھر کے کام کاج خود ہی کرتے اور کسی قسم کا عار محسوس نہ کرتے اور مہمانوں کے لئے خود ہی برتن لگا دیا کرتے اور صفائی بھی خود ہی کر لیا کرتے تھے۔ غرض آپ ؑ کی مبارک زندگی ہر جہت سے با لکل سادہ اور تکلّفات کی آلائش سے با لکل پاک تھے۔
الغرض حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا وجود ایک مجسم رحمت تھا۔ وہ رحمت تھا اسلام کے لئے، وہ رحمت تھا اہل و عیال کے لئے، وہ رحمت تھا اپنے دوستوں کے لئے ، وہ رحمت تھا اپنے دشمنوں کے لئے بھی۔
(احمد شرجیل)