• 28 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات اقدس پر ہونے والے اعتراضات آپؑ کی صداقت کا ثبوت ہیں

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔

مَا یُقَالُ لَکَ اِ لاَّ مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ

(حٓمٰ سجدہ:44)

ترجمہ: تجھے کچھ نہیں کہا جاتا مگر وہی جو تجھ سے پہلے رسولوں سے کہا گیا۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرما رہا ہے کہ تجھ سے قبل بھی انبیاء صادقہ اور رسولوں پر اُن کے مکذبین اور مخالفین کی جانب سے الزامات اور اعتراضات کئے گئے ہیں۔جس طرح یہ الزامات اوراعتراضات پہلے غلط تھے، اسی طرح آج بھی غلط ہیں۔ غرضیکہ قرآن کریم نے اُن تمام اعتراضات کو باطل قراردیا ہے جوگزشتہ انبیاء پر اُن کے مخالفین کی جانب سے لگائے گئے۔ مقام حیرت ہے کہ قرآن کریم پڑھنے والوں نے مذکورہ بالاآیت کی موجودگی میں خاتم الانبیاء حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے خلاف بھی انہی اعتراضات کو دہرایا ہے جو گزشتہ انبیاء پر اُن کے مخالفین اور مکذبین کی طرف سے لگائے جاتے رہے ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’کوئی شخص واقعی طور پر میرے پر کوئی الزام نہیں لگا سکتا اورنہ میرے نشانوں پرکوئی جرح کرسکتا ہے۔ کیونکہ وہ مجھ پر کوئی ایسی نقطہ چینی نہیں کرسکتا اورنہ میرے بعض آسمانی نشانوں پر کوئی ایسی حرف گیری کرسکتا ہے جووہی حرف گیری انبیاء گزشتہ پر اُن کے بعض نشانوں پردشمنوں نے نہیں کی۔‘‘

(روحانی خزائن جلد17صفحہ348)

مگر یہ بات قطعی ہے کہ ان اعتراضات کاجواب دینا انتہائی ضروری ہے تاکہ ان باطل اعتراضات کے نتیجہ میں کسی شخص کو ٹھوکر نہ لگے۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’خدا کے رسولوں اور ماموروں پر جو یہ اندھی دنیاطرح طرح کے الزام لگاتی ہے اگر ان کو دفع نہ کیا جائے تو اس سے دعوت اور انذار کاکام سست ہوجاتاہے بلکہ رُک جاتا ہے اور ان کی باتیں دلوں پراثر نہیں کرتیں اور معمولی رنگ کے جواب اچھی طرح دلوں کے زنگ دور نہیں کرسکتے۔ پس اس سے اندیشہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنی بدگمانیوں سے ہلاک نہ ہوجائیں اورہیزم دوزخ نہ بن جائیں۔‘‘

(روحانی خزائن جلد21صفحہ 102)

حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا فقط یہی ایک دعویٰ آپؑ کے دعویٰ نبوت پر مہر تصدیق ثبت کرنے کیلئے کافی ہے۔

اک نشاں کافی ہے گردل میں ہے خوف کردگار

لہٰذا دیگر انبیاء کے مخالفین اورمکذبین کی راہ پر چلتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے مخالفین اور مکذبین نے بھی آپؑ پروہی اعتراضات کئے ہیں جوگزشتہ انبیائے صادقہ پر کئے گئے۔ ان اعتراضات میں سے ایک اعتراض وہ ہے جو ملاّں اپنی تقریراور تحریر میں انتہائی تمسخرکے انداز میں بیان کرتا ہے۔ یعنی یہ کہ مرزا صاحب نے حکیم محمد حسین قریشی مرحوم کی معرفت ٹانک وائین منگوائی۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹانک وائین شراب کی کوئی قسم نہیں ہے بلکہ یہ ایک دوائی کانام ہے جو مختلف امراض میں کام آتی ہے اور خصوصاً بچہ کی پیدائش کے بعد بہت مفید ہے۔ چنانچہ طب کی مشہور کتاب Materia Medica of Pharmaceutical Combination & Specialities جوعلم الاجزاء وخواص الادویہ کی کتاب ہے اس میں ’’ٹانک وائین‘‘ کے متعلق درج ذیل عبارت لکھی ہے۔

“Restorative after child birth prophylatic against malarial fever, anaemia, anorexia (page 197)”

کہ ٹانک وائین بچہ کی ولادت کے بعد زچہ کی بحالی صحت کے لئے مفید ہے۔ نیز ملیریا کے زہرکو زائل کرنے اورکمی خون اور بھوک نہ لگنے کیلئے بھی مفید ہے۔

جب ہم حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا خط جس میں ٹانک وائین کا ذکر ہوا ہے پڑھتے ہیں تو اس میں کسی جگہ بھی حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ نہیں لکھا کہ مَیں نے اسے استعمال کرنا ہے۔ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام خاندانی حکیم بھی تھے اور اکثر محض للہ، غریب بیماروں کو بعض اوقات اپنی گرہ سے نہایت قیمتی ادویہ دیا کرتے تھے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ٹانک وائین کسی شراب کی دکان پرفروخت نہیں کی جاتی بلکہ یہ صرف میڈیکل سٹورز پردستیاب ہوتی ہے۔پھر اس خط سے، جس کا حوالہ دیا جاتا ہے، یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے گھر میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی ولادت کاذکر کرتے ہوئے بعض ادویات طلب فرمائی تھیں۔ لہٰذا محض دوائی منگوانے سے یہ نتیجہ اخذ کرلینا یہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خود اپنے استعمال کیلئے منگوائی تھی،سوائے بغض وعنادکے اورکچھ بھی نہیں۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ذات بابرکات ایک اور دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آپ کی وفات بیت الخلاء میں ہوئی۔ قرآن کریم کاارشاد ہے ہے ’’هَاتُواْ بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ‘‘ کہ اگر تم سچے ہوتو اس کی دلیل پیش کرو۔ اور اگر ملاّں ایسا نہ کرسکیں تو پھر ہمارا جواب قرآنی الفاظ میں یہی ہے کہ ’’لَعْنَتَ اللّہ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ‘‘ تاہم بدنیتی سے ایسے الزام لگانے والے ہر سچائی کا خون کرنے پرتُلے ہوتے ہیں۔ واقعہ وفات کے وقت موقع پر موجودہ اصحابؓ کی متفقہ گواہی یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی وفات بستر علالت پرہوئی اور یہ گواہی روزِازل سے شائع شدہ اور مشہور ہے۔ اس کے برعکس معترضین میں سے کوئی بھی وہاں موجود نہیں تھا۔ اس پس منظر میں اُن کا گھر بیٹھے یہ اعتراض کرنا سراسر افتراء نہیں تواور کیا ہے۔اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی نبی پر اس قسم کے اعتراضات کرنے سے اُس کی نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ نبوت کاسچا دعویٰ کرنے والوں کی جو نشانیاں قرآن وحدیث میں بیان کی گئی ہیں اُن کی رُو سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک سچے نبی ہیں۔ اسی طرح قرآن وحدیث میں نبوت کاسچا دعویٰ کرنے والوں کے مخالفین اور مکذبین کی جو نشانیاں بیان کی گئی ہیں وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مخالفین اور مکذبین میں پوری طرح جلوہ گر ہیں۔

دراصل بعینہٖ یہی اعتراضات تمام نبیوں کے سردار حضرت خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر بھی آپؐ کے مخالفین ومکذبین کی طرف سے کئے گئے ہیں۔ چنانچہ بعض عیسائی مصنفین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے متعلق جو زہر افشانی کی ہے اُس کو بیان کرتے ہوئے مشہور مؤرخ محمدحسنین ہیکل اپنی کتاب ’’حیات محمد صلی اللہ وسلم‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ

’’چیرونوچن نوجوان نسبتاً زیادہ سنجیدہ ہے۔لکھتاہےحضرت محمد ﷺ نے شراب کی مستی میں جان دی اور اس کی لاش میلے کے ڈھیر سے ملی۔‘‘ (نعوذباللہ)

(حیات محمدصلی اللہ علیہ وسلم مصنفہ محمد حسنین ہیکل۔ترجمہ محمد مسعود عبدہُ صفحہ نمبر17۔الفیصل ناشران و تاجران کتب غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور)

قارئین کرام غور فرمائیںکہ کیا ملاؤں کی طرف سےحضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر کئے جانے والے اعتراضات وہی نہیں ہیں جو عیسائیوں نے آنحضرت ﷺ کی ذات بابرکات پر بھی لگائے گئے ہیں۔ کیا یہ وہی ذہنی پستگی اور اخلاقی گراوٹ کا نمونہ نہیں جو عیسائی مصنفین نے اپنے بغض اور عناد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر لگائے۔

پس لازم تھا کہ جس قسم کے اعتراضات حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی ﷺ پر آپ کے دشمنوں کی طرف سے لگائے گئے وہی اعتراضات آپ کے روحانی فرزند سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر بھی آپ کے دشمنوں کی طرف سے آپ کی طرف لگائے جاتے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ آپ نے نعوذباللہ،مالخولیا یا جنون کی وجہ سے مسیح ہونے کا دعویٰ کردیا۔ اس اعتراض کاجواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’یوں تو مَیں کسی کے مجنون کہنے یادیوانہ نام رکھنے سے ناراض نہیں ہوسکتا بلکہ خوش ہوں۔ کیونکہ ہمیشہ سے ناسمجھ لوگ ہر نبی اوررسول کابھی اُن کے زمانہ میں یہی نام رکھتے آئے ہیں اورقدیم سے ربانی مصلحوں کوقوم کی طرف سے یہی خطاب ملتا رہاہے۔‘‘

(روحانی خزائن جلد3 صفحہ212)

چنانچہ قرآن کریم اسی الزام کو جو حضرت اقدس محمد ﷺ پر اُن کے مکذبین اورمکفرین کی جانب سے لگایا گیاہے یوں ذکر فرماتا ہے۔

وَاِنْ یَّکَادُالَّذِیْنَ کَفَرُوْالَیُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِھَمْ لَمَّاسَمِعُوالذِّکْرَوَیَقُوْلُوْنَ اِنّہُ لَمَجْنُوْن

(القلم:52)

یعنی یقیناً کفار سے بعید نہیں کہ جب وہ ذکر سنتے ہیں تو وہ تجھے اپنی نظروں (کے قہر) کے ذریعہ گرانے کی کوشش کریں۔اوروہ کہتے ہیں یہ تو یقینًا دیوانہ ہے۔

پس ازل سے یہی روایت نظر آتی ہے کہ کوئی بھی نبی جو کہ درحقیقت اپنے وقت میں سچائی کا سب بڑاعلمبردار،راستی اور صداقت کاسرچشمہ ہوتا ہے اور لوگوں کی نیک امیدوں کامرکز ہوتاہے،وہ جیسے ہی اپنی ماموریت کا اعلان کرتا ہے تواس کے مخالف اسے جھوٹا، دھوکہ بازاورکذاب قراردیتے ہیں اور اسے دنیا کاسب سے بدترین وجودثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی حال موجودہ زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکرین کا ہے۔ جب تک آپ نے مسیح ومہدی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا آپ کی شخصیت اور اسلامی خدمات کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے جو اہل حدیث کے سردار سمجھے جاتے ہیں ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت پر ان الفاظ پر آپ کو خراج تحسین پیش کیاکہ۔’’اب ہم اپنی رائے نہایت مختصر اور بے مغالغہ الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں۔ ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں۔ لعلّ اللّہ یحدث بعدذٰلک امرا اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی وجانی وقلمی ولسانی وحالی وقالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے۔‘‘

(اشاعۃ السنہ جلد7 صفحہ169)

لیکن جونہی آپ نے ماموریت کااعلان فرمایا، تو مولوی محمدحسین بٹالوی بھی سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین اور مکفرین کی سنت کی اتباع کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین ومکفرین کی صف اوّل میں جا بیٹھے اور حضور علیہ السلام کے خلاف عرب وعجم کے علماء کے فتاویٰ تکفیر جمع کرنے کے لئے سرگرم ہوگئے۔اور اس طرح انہوں نے چودہ سوسال پہلے والے اسلام کے اوّلین زمانہ کو آخرین کے ساتھ ملاتے ہوئے، اُن کفار مکہ کی یادتازہ کردی جوپہلے آنحضور ﷺ کو صادق اور امین کہتے نہ تھکتے تھے۔ لیکن آپؐ کے دعویٰ نبوت کے بعد وہی آپ کو جھوٹا اور کذاب قرار دینے لگے۔ قرآن کریم ان حالات کا ذکر یوں محفوظ کرتا ہے:

وَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ ھَذَاساحِرٌ کَذَّاب

(ص:5)

اور کافروں نے کہا یہ سخت جادوگر ہے (اور) سخت جھوٹا ہے۔

پس یہ اعتراضات اور الزامات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات بابرکات پر لگائے گئے ہیں وہی آپؑ کی صداقت کی ایک عظیم الشان دلیل بن گئے ہیں۔ آپؑ نے کیا خوب فرمایا ہے:

ہے کوئی کاذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظیر
میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں باربار

(فہیم احمد ناگی۔لندن)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر39، 25 مئی 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مئی 2020