• 30 اپریل, 2024

وصیت کا نظام خلافت سے تعلق اور خلافت کے زیر سایہ نظام وصیت کا فروغ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب خدا تعالیٰ نے مسلسل وحی کے ذریعہ آپؑ کی وفات کی اطلاع دی تو ساتھ ہی ساتھ آپؑ کے ذریعہ قائم کردہ جماعت کی دائمی بقاء کیلئے قدرت ثانیہ یعنی نظام خلافت کے ظہور کی خوشخبریوں سے بھی نوازا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1905ء میں خدا تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت سے ایک رسالہ ’’الوصیت‘‘ تحریر فرمایا اور اس رسالہ کے اوّل حصہ میں نظام خلافت کے اجراء کی پیشگوئی فرمائی اور دوسرے حصہ میں جماعت احمدیہ کی عالمگیر ترقیات کے لئے مالی ضرورت کے پیش نظر آسمانی بشارتوں کے تحت ’’وصیت‘‘ کا نظام جاری فرمایا۔ چنانچہ نظام خلافت کے حوالہ سے آپ فرماتے ہیں۔

’’سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سُنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دِکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنّت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ تم پر میری جُدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اُس نے وعدہ فرمایا اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرورت ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسّم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کے مظہر ہوں گے سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دُعا کرتے رہو اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دُعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دِکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے ۔ اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آ جائے گی۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ305)

نظامِ خلافت اور نظامِ وصیت کا آپس میں گہرا تعلق

ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نظام خلافت اور نظام وصیت کے درمیان پائے جانے والے گہرے تعلق کے بارہ میں متعدد مواقع پر احباب جماعت کی رہنمائی فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔

’’نظامِ خلافت اور نظامِ وصیت کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ نظامِ خلافت کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں اور اس کے لئے قربانیاں بھی دیتے چلے جائیں۔‘‘

پھر فرمایا: ’’جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے رسالہ الوصیت میں دو باتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ایک تو یہ ہے کہ آپؑ کی وفات کے بعد نظام خلافت کا اجراء اور دوسرے اپنی وفات پر آپؑ کو یہ فکر پیدا ہونا کہ ایسا نظام جاری کیا جائے جس سے افراد جماعت میں تقویٰ بھی پیدا ہو اور اس میں ترقی بھی ہو اور دوسرے مالی قربانی کا بھی ایسا نظام جاری ہو جائے جس سے کھرے اور کھوٹے میں تمیز ہو جائے اور جماعت کی مالی ضروریات بھی باحسن پوری ہو سکیں۔ اس لئے وصیت کا نظام جاری فرمایا تھا۔ تو اس لحاظ سے میرے نزدیک میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ نظام خلافت اور نظام وصیت کا بڑا گہرا تعلق ہے ۔‘‘

(خطبہ جمعہ 6۔اگست 2004ء)

پھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام دُنیا کے احمدیوں کے نام اپنے خصوصی پیغام 21جولائی 2005ء میں فرمایا۔

’’پس رسالہ الوصیت میں نظام خلافت کی پیشگوئی فرمانا یہ ثابت کرتاہے کہ ان دو نظاموں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور جس طرح نظام وصیت میں شامل ہو کر انسان تقویٰ کے اعلیٰ معیار اپنے اندر پیدا کرسکتا ہے اسی طرح خلافتِ احمدیہ کی اطاعت کا جُؤا گردن پر رکھنے سے اس کی روحانی زندگی کی بقا ممکن ہے۔ مالی قربانی کا نظام بھی خلافت کے بابرکت سائے میں ہی مضبوط ہو سکتا ہے۔ پس جب تک خلافت قائم رہے گی جماعت کی مالی قربانیوں کے معیار بڑھتے رہیں گے اور دین بھی ترقی کرتا چلا جائےگا۔

پس میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان دونوں نظاموں سے وابستہ رکھے جو ابھی تک نظام وصیت میں شامل نہیں ہوئے اللہ تعالیٰ اُن کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس میں حصہ لے کر دینی اور دُنیوی برکات سے مالا مال ہو سکیں اور اللہ کرے کہ ہر احمدی ہمیشہ نظام خلافت سے اخلاص اور وفا کا تعلق قائم رکھے اور خلافت کی بقا کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے اور اپنی تمام تر ترقیات کے لئے خلافت کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھے اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور اُن کو پورا کرنے کی توفیق دے اور سب کو اپنی رضا کی راہوں پر چلاتے ہوئے ہم سب کا انجام بالخیر فرمائے۔ (آمین)‘‘

خلفاء کرام اور نظام وصیت

حضرت مسیح موعودؑ نے رسالہ الوصیت تحریر فرمانے کےمعاً بعد صدر انجمن احمدیہ قادیان کا قیام فرمایا اور حضرت حکیم مولوی نور الدین ؓ کو اس کا پرییڈنٹ مقرر فرمایا اور آپ کی ہی صدارت میں مؤرخہ 29 جنوری 1906ء کو مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ قادیان کا اجلاس اوّل منعقد ہوا جس میں مسوّدہ وصیت ریکارڈ کیا گیا اور وصیت سے متعلق انتظامی اُمور طے پائے۔

خلافت ثانیہ میں نظام وصیت

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جلسہ سالانہ قادیان 1942ء کے آخری روز ایک معرکۃ الآرا خطاب فرمایا جس میں آپ نے دُنیا میں رائج مختلف اقتصادی نظاموں کا تقابلی جائزہ فرمایا اور ان سب نظاموں میں پائی جانی والی خامیوں کی نشاندہی فرمائی اور ثابت فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی مشیّت کے تحت قائم ہونے والا نظام وصیت ہی صرف ان خامیوں سے پاک ہے اور یہی وہ نظام ہے جس نے بالآخر ساری دُنیا کے معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنا ہے۔ یہ تقریر “نظام نو” کے نام سے شائع شدہ ہے۔ نظام وصیت کے بارہ میں حقیقی شعور حاصل کرنے کے لئے تمام احباب جماعت بالخصوص تمام موصیان کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے۔

آپؓ فرماتے ہیں۔ ’’عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جب دُنیا چلاّ چلاّ کر کہے گی کہ ہمیں ایک نئے نظام کی ضرورت ہے تب چاروں طرف سے آوازیں اُٹھنی شروع ہو جائیں گی کہ آؤ ہم تمہارے سامنے ایک نیا نظام پیش کرتے ہیں ۔ روس کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں ۔ ہندوستان کہے گا کہ آؤ میں تم کو ایک نیا نظام دیتا ہوں،جرمنی اور اٹلی کہے گا آؤ میں تم کو ایک نیا نظام دیتا ہوں امریکہ کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں اس وقت میرا قائم مقام قادیان سے کہے گا کہ نیا نظام الوصیت میں موجود ہے اگر دُنیا فلاح و بہبود کے رستہ پر چلنا چاہتی ہے تو اس کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ الوصیت کے پیش کردہ نظام کو دُنیا میں جاری کیا جائے۔‘‘

(نظامِ نو صفحہ117)

’’غرض نظام نو کی بنیاد 1910ء میں روس میں نہیں رکھی گئی نہ وہ آئندہ کسی سال میں موجودہ جنگ (یعنی جنگ عظیم دوم) کے بعد یورپ میں رکھی جائے گی بلکہ دُنیا کو آرام دینے والے۔ ہر فرد بشر کی زندگی کو آسودہ بنانے والے اور ساتھ ہی دین کی حفاظت کرنے والے نظام نو کی بنیاد 1905ء میں قادیان میں رکھی جاچکی ہے۔ اب دُنیا کو کسی نظام نو کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

(نظام ِنو صفحہ125)

’’تحریک جدید کے ذریعہ ملکوں میں تبلیغ ہو گی۔ تبلیغ کے ذریعہ ملکوں کے لوگ احمدیت قبول کریں گے، احمدیت قبول کرنے کے بعد وہ وصیت کریں گے اور ملک ملک میں وصیت کا نظام جاری ہو گا اور اس نظام کے جاری ہونے کے ساتھ احمدیت کو غیر معمولی تقویت اور غلبہ نصیب ہو گا۔ ان اموال کے ذریعہ جہاں اسلام کی اشاعت ہو گی، نیکی اور صالحیت ترقی کرے گی وہاں یتامیٰ اور مساکین کی خبر گیری اور بہبود انسانیت کا کام بھی وصیت کے اموال سے انجام پائے گا ان شاء اللہ۔‘‘

’’جب وصیت کا نظام مکمل ہو گا تو صرف تبلیغ ہی اس سے نہ ہو گی بلکہ اسلام کے منشاء کے ماتحت ہر فرد بشر کی ضرورت کو اس سے پورا کیا جائے گا اور دُکھ اور تنگی کو دُنیا سے مٹا دیا جائے گا ان شاء اللہ۔ یتیم بھیک نہ مانگے گا، بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گی،بےسامان پریشان نہ پھرے گا کیونکہ وصیت بچوں کی ماں ہو گی، جوانوں کی باپ ہو گی ، عورتوں کا سہاگ ہو گی اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اس کے ذریعہ سے مدد کرے گا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہو گا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائے گا۔ نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب۔ نہ قوم قوم سے لڑے گی بلکہ اس کا احسان سب دُنیا پر وسیع ہو گا۔‘‘

(نظام نو صفحہ131۔132)

خلافت ثالثہ میں نظام وصیت

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا۔
’’نظامِ وصیت جس کی ہم باتیں کررہے ہیں۔ اس کے ذریعہ ایک عظیم بیج بو دیا گیا…………نظامِ وصیت سے صر ف نظامِ خلافت پورا فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔آپ گھروں میں جاکر الوصیت کو پھر پڑھیں آپ کو پتہ لگے گا۔جس مقصد کے لئے نظامِ وصیت کو قائم کیا گیا۔جس مقصد کو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی ایک تقریر میں صرف ایک پہلو سے بڑا نمایاں کرکے اور بڑے حسین رنگ میں بیان کیا تھا کہ اقتصادی ضروریات کے سلسلہ میں اس کا کیا کردارہے جو اس نے ادا کرنا ہے اور ہزاروں اس کی برکتیں ہیں۔صرف نظامِ خلافت ان برکات سے حصہ دار بنانے کا انتظام کرسکتاہے۔ یہ دونوں Parallel یعنی پہلو بہ پہلو آگے چل رہے ہیں۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1976ء صفحہ182)

خلافت ثالثہ میں ایک بہت بڑا کام مجالس موصیان کا قیام اور ان مجالس کے ذریعہ قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے نیز اس کی تعلیمات پر عمل کروانے کا انتظام کرنا اور اس غرض سے وقف عارضی کی سکیم کو منظم اور فعال کیا جانا تھا۔

آپؒ نے فرمایا۔ ’’آج میں موصی صاحبان کی تنظیم (یعنی مجلس موصیان) کا، خدا کے نام کے ساتھ اور اس کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے اجراء کرتا ہوں۔ تمام ایسی جماعتوں میں جہاں موصی صاحبان پائے جاتے ہیں اُن کی ایک مجلس (یعنی مجلس موصیان) قائم ہونی چاہئے۔ یہ مجلس باہمی مشورے کے ساتھ اپنے صدر کا انتخاب کرے۔ منتخب صدر جماعتی نظام میں سیکرٹری وصایا ہوگا………تمام خیر چونکہ قرآن میں ہی ہے اس لئے وہ قرآن کریم کے نور سے پورا حصہ لینے کی کوشش کریں اور ان کو بتایا جائے کہ قرآن کریم کے انوار کی اشاعت کرنا ہر موصی کا بحیثیت فرد اور اب موصیوں کی مجلس کا بحیثیت مجلس پہلا اور آخری فرض ہے اور اس بات کی نگرانی کرنا کہ وقفِ عارضی کی سکیم کے ماتحت زیادہ سے زیادہ موصی اصحاب اور ان کی تحریک پر وہ لوگ حصہ لیں جنہوں نے ابھی تک وصیت نہیں کی اور ان پر یہ فرض ہے کہ پہلے وہ اپنے گھر سے یہ کام شروع کریں حتیٰ کہ ان کے گھر میں کوئی مرد، کوئی عورت، کوئی بچہ یا کوئی دیگر فرد جو اُن کے اثر کے نیچے ہو یا ان کے پاس رہتا ہو ایسا نہ رہے کہ جسے قرآن نہ آتا ہو۔ پہلے ناظرہ پڑھنا سکھانا ہے پھر ترجمہ سکھانا ہے۔ پھر قرآن کریم کے معانی پھر اس کے علوم اور اس کی حکمتوں سے آگاہ کرنا ہے۔‘‘

(خطبہ فرمودہ 5 اگست 1966ء)

ویسے تو برصغیر (انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش) سے باہر کی تمام وصایا کے معاملات خلافت ثانیہ کے زمانہ سے وکالت مال ثانی تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان کے توسط سے جاری تھے۔ تاہم مجالس مشاورت پاکستان 1976ء۔1977ء کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے بیرونی وصایا کے حسابات و دیگر اُمور وغیرہ کے لئے وکالت مال ثانی میں وصایا بیرون کا باقاعدہ ایک سیل قائم فرمایا اور اس کے لئے الگ ایک نائب وکیل مقرر کرنے کی منظوری مرحمت فرمائی۔ چنانچہ مکرم میاں غلام مصطفیٰ صادق مرحوم کا اس آسامی پر پہلا تقرر ہوا۔

خلافت رابعہ میں نظام وصیت

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اپنے دَور خلافت میں نظام وصیت کے مقاصد میں سے ایک مقصد تقوٰی میں ترقی کے ساتھ جو غیرمعمولی مالی قربانی کی روح ہے، اس پہلو کے بارے میں مجلس کار پرداز کے نام مختلف مواقع پر اپنی تفصیلی ہدایات اور متعدد موصیان کے نام تفصیلی خطوط میں روشنی ڈالی۔

آپؒ نے فرمایا۔ ’’وصیت کی بنیاد وہ روح ہے جس کے پیش نظر حضرت مسیح موعودؑ نے نظامِ وصیت جاری فرمایا اور وہ روح یہ ہے کہ وہی شخص موصی کہلائے گا جو دینی عمل اور اعتقادات کے لحاظ سے بھی صف اول پر ہو اور مالی قربانی میں بھی ایسی شاندار قربانی پیش کرنے والا ہو کہ آئندہ نسلیں اس کی قربانی کا حال دیکھ کر اس کے لئے دُعائیں کریں۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1983ء صفحہ142,141)

عمر کے آخری حصہ میں وصیت کرنے والوں کے متعلق آپؒ نے فرمایا۔
’’جو شخص ساری عمر کی کمائیاں کھانے، جائیدادیں بنانے اور اُنہیں آگے تقسیم کرنے اور زندگی کی رونقوں سے لُطف اندوز ہونے کے بعد ایسی لمبی عمر میں جا کر وصیت کرے اس کا یہ عمل وصیت کرنے کی روح کے ہی خلاف ہے۔ اس لئے ایسی وصیتیں شروع میں ہی قبول نہیں کرنی چاہیں۔‘‘

(رجسٹر ارشادات حضور ایدہ اللہ رجسٹر نمبر 3 ارشاد نمبر258)

ایک مجلس عاملہ کی رپورٹ پیش ہونے پر آپؒ نے فرمایا۔
’’آپ نے جو صورت حال بیان کی ہے یہ نظامِ وصیت کی بنیادی روح کو نظر انداز کردینے سے پیدا ہوئی ہے۔نظامِ وصیت کے قیام کا ایک بڑا مقصد عالمگیر غلبۂ اسلام کی خاطر غیر معمولی قربانی کی صورت میں سلسلہ حقہ کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مالی مدد کرنا بھی تھا۔معلوم ہوتا ہے کہ جن موصیوں کے حوالہ سے آپ نے معاملہ اُٹھایا ہے اُنہیں وصیت کرنے سے پہلے یہ بات بتائی نہیں گئی۔لیکن اب میں اس بارہ میں سختی سے عمل کروارہا ہوں اور جو وصیتیں نظامِ وصیت کی بنیادی روح کو نظر انداز رکھنے کے نتیجہ میں منظور ہو چکی ہیں ان پر نظر ثانی کرنے کی ہدایت بھی کر چکا ہوں۔پس جن کو عام قربانی سے بڑھ کر غیر معمولی قربانی کی توفیق نہیں ہے اور وہ اگر اس وجہ سے نظامِ وصیت میں نہ رہ سکیں تو اُن کا کوئی قصور نہیں ہوگا۔ غربت کی وجہ سے اگر کوئی اس نظام میں شامل ہونے کی توفیق نہیں پا سکتا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ جزاء سزااللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہ دلوں کے حال خوب جانتا ہے اس لئے فکر نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔‘‘

(رجسٹر ارشادات حضور ایدہ اللہ رجسٹر نمبر3ارشاد نمبر 300)

نظام وصیت جو غیر معمولی مالی قربانی کا متقاضی ہے اس کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے مختلف ممالک کے معاشی حالات کے مدنظر منظوری وصیت کے لئے آمدنی کے کم از کم معیار نیز خانہ دار خواتین کی طرف سے حصہ آمد کی ادائیگی کے لئے کم از کم معیار خورو نوش مقرر فرمائے۔

خلافت خامسہ میں نظام وصیت کا سبک خرام ارتقاء

ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا منصبِ خلافت پر متمکن ہونے سے قبل بھی نظام وصیت کے انتظامی اُمور سے لمبا عرصہ خاص تعلق رہا ہے۔ افریقہ میں8سال خدمات بجا لانے کے بعد جب حضور انور پاکستان واپس تشریف لائے تو آپ کا پہلا تقرر بطور نائب وکیل المال ثانی (شعبہ وصایا بیرون) ہوا۔جس پر آپ کو9سال خدمات کی توفیق ملی۔ بعدہ آپ کو ناظرتعلیم اور پھر ناظر اعلیٰ کی اہم ذمہ داری کے ساتھ ساتھ بحیثیت صدر مجلس کار پرداز 1997ء تا 2003ء (6سال) خدمات کی توفیق عطا ہوئی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مسند خلافت پر متمکن ہوتے ہی نظام وصیت کو ایسی سبک خرام ترقی ملی کہ گویا اس نظام کا تواحیاء ِنو ہو گیا اور یہ سلسلہ گزشتہ 16 سال سے متواتر بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔ الحمد للہ

جلسہ سالانہ یوکے 2004ء کے اختتامی اجلاس کے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک معرکۃ الآرا اور تاریخ ساز خطاب فرمایا اور عالمگیر جماعت احمدیہ کو 2005ء میں نظام وصیت کے 100 سال پورے ہونے پر موصیان کی تعداد 50ہزار اور خلافت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی 2008ء تک کمانے والے افراد کے 50فیصد کو نظام وصیت میں شامل کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔

چنانچہ حضور انور نے فرمایا ۔جس رفتار سے جماعت کے افراد کو اس نظام میں شامل ہونا چاہئے تھا نہیں ہورہے ۔ جس سے مجھے فکر بھی پیدا ہوئی اور میں نے سوچا ہے کہ آپ کے سامنے اعداد و شمار بھی رکھوں تو آپ بھی پریشان ہو جائیں گے۔ وہ اعدادو شمار یہ ہیں کہ آج ننانوے سال پور ے ہونے کے بعد بھی تقریباً 1905ء سے لے کر آج تک صرف اڑتیس ہزار کے قریب احمدیوں نے وصیت کی ہے۔ اگلے سال ان شاء اللہ تعالیٰ وصیت کے نظام کے قائم ہوئے سَو سال ہو جائیں گے۔ میری یہ خواہش ہے اور میں یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ آسمانی نظام میں اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے اپنی نسلوں کی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے شامل ہوں۔ آگے آئیں اور اس ایک سال میں کم ازکم پندرہ ہزار نئی وصایا ہو جائیں تاکہ کم از کم پچاس ہزار وصایا تو ایسی ہوں کہ جو ہم کہہ سکیں کہ سو سال میں ہوئیں …….میری یہ خواہش ہے کہ 2008ء میں جو خلافت کو قائم ہوئے ان شاء اللہ تعالیٰ سَو سال ہو جائیں گے تو دُنیا کے ہر ملک میں، ہر جماعت میں کمانے والے افراد ہیں، جو چندہ دہند ہیں اُن میں سے کم از کم پچاس فیصد تو ایسے ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس عظیم الشان نظام میں شامل ہو چکے ہوں اور یہ بھی جماعت کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک حقیر سا نذرانہ ہو گا جو جماعت خلافت کے سَو سال پورے ہونے پر شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہی ہو گی۔

(اختتامی خطاب جلسہ یوکے یکم اگست2004ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام دُنیا کے احمدیوں کے نام اپنے خصوصی پیغام محررہ 21 جولائی 2005ء میں پھر یاددہانی کرواتے ہوئے احباب جماعت کو فرمایا۔

’’میں اپنی اس خواہش کا اظہار پہلے بھی ایک موقع پر کر چکا ہوں کہ 2008ء میں جب خلافتِ احمدیہ کو قائم ہوئے ان شاء اللہ 100 سال پورے ہو جائیں گے تو دُنیا کے ہر ملک میں، ہر جماعت میں جو کمانے والے افراد ہیں اُن میں سے کم از کم 50فیصد ایسے ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس عظیم الشان نظام میں شامل ہو چکے ہوں۔‘‘

ہمارے پیارے آقا سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت احمدیہ عالمگیر کو صرف مذکورہ بالا ٹارگٹ ہی نہیں دیئے بلکہ ان ٹارگٹس کے حصول کے لئے اپنے خطبات، خطابات اور ممالک کی مجالس عاملہ کے ساتھ میٹنگز میں متواتر اور بڑی تفصیل کے ساتھ رہنمائی فرماتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر سطح کے سو فیصد جماعتی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیداران نظام وصیت کا حصہ بنیں۔

’’سب سے پہلے مَیں یہاں کہوں گا کہ تمام عہدیداران جو ہیں ان کو اس نظام میں شامل ہونا چاہئے، نیشنل عاملہ سے لیکر نچلی سے نچلی سطح تک جو بھی عاملہ ہے اس کے لیول تک ہر عاملہ کا ممبر اس نظام میں شامل ہو، تبھی وہ تلقین کرنے کے قابل بھی ہو گا۔‘‘

(سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ یوکے 26 ستمبر2004ء)

’’پہلے اپنی مجلس عاملہ سے شروع کریں۔ جب تک عہدیدار خود وصیت نہیں کریں گے تو دوسروں کو کس طرح کہیں گے۔‘‘

(میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ فرانس29دسمبر 2004ء)

’’سب سے پہلے عہدیداران اپنا جائزہ لیں اور امیر صاحب بھی اس بات کا جائزہ لیں کہ 100 فیصد جماعتی عہدیداران اس نظام میں شامل ہوں، چاہے وہ مرکزی عہدیداران ہوں یا مرکزی ذیلی تنظیموں کے عہدیداران ہوں یا مقامی جماعتوں کے عہدیداران ہوں یا مقامی ذیلی تنظیموں کے عہدیداران ہوں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 14۔اپریل 2006ء بمقام سڈنی آسٹریلیا)

’’آپ عہدیداران کو وصیت کی تحریک ضرور کریں۔ ٹھیک ہے وہ پابند نہیں ہے کہ ضرور وصیت کرے لیکن پھر آپ بھی پابند نہیں ہیں کہ اُسے عہدیدار بنائیں۔اس لئے کہ اُس نے گریجوایشن کی ہوئی ہے اور وہ عقل کی باتیں کر لیتی ہے۔ اس کی بجائے اُسے عہدیدار بنائیں جو اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کے بعد آپ کے جاری کردہ نظام و صیت میں بھی شامل ہے تو گو وہ کچھ کم پڑھی ہوئی ہے اُسے عہدیدار بنائیں۔‘‘

(میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ جرمنی 25 دسمبر 2006ء)

’’اپنی عاملہ کے ممبران کو توجہ دلائیں اور یاددہانی کروائیں کہ ہر ممبر وصیت کے نظام میں شامل ہو لیکن اس کے لئے آپ نے فورس (Force) نہیں کرنا۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ میں اس لئے وصیت نہیں کرتا کہ میں شرائط وصیت کو پورا نہیں کر سکتا تو اس سے پوچھیں کیا جو دس شرائط بیعت ہیں وہ تم پوری کر رہے ہو۔ اس طرح تو پھر پورا نہ کرنے کے نتیجہ میں احمدی بھی نہیں رہتا۔ بہرحال ان شرائط پر عمل پیرا ہونے کی ایک کوشش ہوتی ہے اور وہ کوشش کرتے رہنا چاہئے۔‘‘

(میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ نیوزی لینڈ یکم نومبر2013ء)

’’نیشنل عاملہ کے ممبران، صدران جماعت، ذیلی تنظیموں کے صدران اور اُن کی عاملہ کے ممبران پھر لوکل جماعتوں اور مجالس کی عاملہ سب کو تحریک کریں اور تحریک کرتے چلے جائیں۔ یہ مستقل کام تسلسل کے ساتھ ہونا چاہئے۔‘‘

(میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ ناروے3۔اکتوبر 2011ء)

تمام مربیان ،مبلغین نظام وصیت میں شامل ہوں

’’جن مربیان کی وصیت نہیں ہے وہ سارے وصیت کریں۔ چونکہ مربّی نے وصیت کی طرف دوست احباب کو راغب کرنا ہوتا ہے اس لئے وصیت ہو گی تو لوگوں کو وصیت کے نظام سے منسلک ہونے کی تلقین کر سکتا ہے۔‘‘

(ملاقات مربیان 3۔اگست 2005ء)

لجنہ اماء اللہ کو نظام وصیت میں شامل کرنے کے حوالہ سے خصوصی ارشاد

وصیّتوں کا جائزہ لیتے ہوئے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ
’’عموماً یہاں پر لجنات نہیں کماتیں۔ جو کام کرتی ہیں اور اُن کا کام بھی مناسب ہے اُنہیں وصیت کی تحریک کریں۔ اگر کوئی میکڈونلڈ میں سؤر کے برگر بناتی ہو ایسی عورتوں کو تحریک کرنے کی ضرورت نہیں۔ فرمایا: جو پڑھی لکھی لڑکیاں ہیں اُن میں وصیّت کرنے کی روح پیدا کریں۔ 15 ،16 سال کی عمر میں وصیت ہو سکتی ہے پھر 18سال کی عمر میں وہ اُسے renew کر سکتی ہیں۔‘‘

(میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ جرمنی9جون 2006ء)

ایک اور موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ۔
’’جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے اس لئے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ صف دوم جو ہے اور لجنہ اماء اللہ کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔ کیونکہ 75،70 سال کی عمر میں پہنچ کر جب قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہوں تو اُس وقت وصیّت تو بچا کھچا ہی ہے جو پیش کیا جاتا ہے۔ اُمید ہے کہ احمدی نوجوان بھی اور خواتین بھی اس میں بھر پور کوشش کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کو خاص طور پر مَیں کہہ رہا ہوں کہ اپنے ساتھ اپنے خاوندوں اور بچوں کو بھی اس عظیم انقلابی نظام میں شامل کرنے کی کوشش کریں۔‘‘

(اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یوکے یکم اگست 2004ء)

نئی وصایا کے حوالہ سے ٹھوس کام کریں

’’تینوں ذیلی تنظیموں کو Push کریں اور صرف Youngster کے پیچھے نہ پڑے رہیں۔ تاکہ زیادہ سے موصی حاصل ہو سکیں اور یہ بھی کوشش کریں کہ اکثر وصیّت کرنے والے کمانے والے لوگ ہوں بجائے اس کے کہ خانہ دار خواتین اور طالب علم وغیرہ اس میں شامل ہوں۔ ان سے کہیں کہ وہ Easy Target نہ بنائیں بلکہ ایسا منظّم کام کریں جس سے ٹھوس کوشش نظر آتی ہو۔‘‘

(روزنامہ الفضل 13مارچ 2008ء)

چنانچہ جہاں تمام جماعتی عہدیداران نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیان فرمودہ ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اپنی کوششوں کو بڑھایا وہاں احباب جماعت بھی اپنے پیارے آقا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آسمانی منشاء کے مطابق قائم کردہ اس عظیم روحانی نظام میں جوق در جوق شامل ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ اب سیلِ رواں کی شکل اختیار کر چکا ہے۔الحمد للہ

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تحریک کے بعد سے اب تک بیرون از برصغیر ( انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش) ہونے والی نئی وصایا کا سال وار گوشوارہ حسب ذیل ہے۔

سن /سال نئی وصایا سال نئی وصایا
2004-05 ء 3,034 2012-13ء 1,529
2005-06 ء 4,765 2013-14ء 1,443
2006-07ء 4,016 2014-15ء 1,628
2007-08ء 4,569 2015-16ء 3,826
2008-09ء 2,539 2016-17ء 4,471
2009-10ء 1,605 2017-18ء 4,369
2010-11ء 1,543 2018-19ء 6,423
2011-12ء 1,272 کل میزان 47,032

حضور انور کا نئی وصایا کے سلسلہ میں خاکسار کو دورہ افریقہ کی ہدایت

جلسہ سالانہ یوکے 2017ء کے بعد تمام امراء ممالک، نیشنل صدران اور مبلّغین کرام کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے اس ادنیٰ خادم راقم الحروف کو برّاعظم افریقہ کا دورہ کرنے کی ہدایت فرمائی۔

حضور انور کا ارشاد سُنتے ہی ایک دفعہ تو خاکسار سکتہ میں آگیا کیونکہ اوّل نہ تو خاکسار کو تقریر کرنا آتی تھی اور دوسرا کسی کو وصیت جیسی غیرمعمولی مالی قربانی کے لئے قائل کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ صرف یہ سوچ کر اپنے آپ کی ڈھارس بندھائی کہ یہ تو خدا تعالیٰ کے خلیفہ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں وہ خود ہی ان میں برکت عطا فرمائے گا اور دوسرا یہ خیال کہ مَیں نے صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، خلفاء احمدیت اور پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات پڑھ کر سنا دینے ہیں ، باقی آگے اللہ تعالیٰ اُن میں خود برکت عطا فرما دے گا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے اس نا لائق بندہ کی اس سوچ کو اپنے بے پایاں فضل سے اس طرح یقین میں بدل دیا کہ خاکسار کا دَورہ افریقہ بینن سے شروع ہوا۔ وہاں پہنچتے ہی اگلے دن جلسہ سالانہ بینن کا آغاز تھا اور جلسہ کے دو سیشنز کے درمیانی وقفہ میں نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ میٹنگ ہو گئی۔ دوران میٹنگ جب مَیں حضور انور کے ارشادات پیش کر رہا تھا تو ایک معزّز ممبر بار بار اُونگھ رہے تھے۔ بشری تقاضا کے تحت چند لمحوں کے لئے میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ خلیفہ وقت نے مرکز سے نمائندہ بھیجا ہے جو اُنہیں کے ارشادات پڑھ کر سنا رہا ہے اور یہ صاحب ہیں کہ اُونگھ رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا کرنا یہ ہوا کہ میٹنگ کے اختتام پر جب خاکسار نے یہ عرض کی کہ آپ کے سامنے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات پیش کئے گئے ہیں جو دوست لبیک کہتے ہوئے نظام وصیت میں شامل ہونا چاہتے ہیں، وہ اپنا ہاتھ کھڑا کر لیں۔ تو سب سے پہلا ہاتھ مذکورہ موصوف نے ہی کھڑا کیا اور کہا کہ میری دس جائیدادیں ہیں اور مَیں اُن میں سے ایک جائیداد وصیت میں پیش کرتا ہوں۔ اس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے اس عاجز کے پہلے دورہ کے پہلے ملک کی پہلی میٹنگ میں ہی میری پہلی سوچ کی تائید کر دی اور ساتھ ہی اس رنگ میں تربیت بھی کر دی کہ یاد رکھنا کہ تمہاری کوشش سے کچھ نہیں ہونا۔ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام، خلفائے کرام کے ارشادات اور دَورہ کے لئے خلیفۃ المسیح کی دُعاؤں نے نتائج پیدا کرنے ہیں اور پھر سارے دَوروں میں بار بار خدا تعالیٰ کی تائید کے نظاروں کا مشاہدہ اور تجربہ کر کے دل خدا کی حمد و ثناء سے سرشار ہوتارہا۔

حضور انور کے ارشاد پر افریقی احمدی بھائیوں کا والہانہ لبیک

مکرم امیر صاحب گیمبیا اطلاع دیتے ہیں کہ مبلغ سلسلہ Lower River Region بیان کرتے ہیں کہ وہ اکتوبر 2005ء میں گیمبیا آئے تھےاور تب سے ہی احباب جماعت کو وصیت کے بابرکت نظام میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن وہ ہر مرتبہ کوئی بہانہ کر دیتے تھے۔ جولائی 2018ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے نمائندہ کے وصیت کے حوالہ سے دَورہ کے بعد جب احباب سے دوبارہ رابطہ کر کے بتایا گیا کہ اب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے نمائندہ کو بھجوایا ہے تاکہ احباب وصیت کے بابرکت نظام میں شامل ہوں تو اس کے بعد سے اب تک ایک بہت بڑی تعداد اپنی غربت اور تعلیم کی کمی کے باوجود صرف حضورانور کے ارشاد پر سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کہتے ہوئے نظام وصیت میں شامل ہو چکی ہے۔ اس ریجن میں ہی اب تک 1180 نئی وصیتیں ہو چکی ہیں۔ الحمدللہ

امیر صاحب بینن نے پاراکو بینن کے اجلاس کے بعد نظام وصیت میں شمولیت کا وعدہ کرنے والے ایک مخلص خادم مکرم ابوبکر ہادی کے حوالہ سے اطلاع دی کہ دَورہ کے ایک ماہ بعد موصوف نے اچانک صبح صبح لوکل مبلغ صاحب کو فون کیا کہ وہ ضروری ملنا چاہتے ہیں۔ آتے ہی موصوف نے بہت سارے سیفا فرانک چندہ ادا کر دیا کہ جس دن سے میں نے وصیت کا وعدہ کیا ہے اس دن سے روزانہ کی آمد کا دسواں حصہ الگ رکھتا رہا ہوں (اجلاس میں خاکسار نے روزانہ آمدنی والوں کو چندہ ادا کرنے میں آسانی کے لئے یہ طریق عرض کیا تھا)۔ آج ایک مہینہ ہو گیا ہے یہ میرا چندہ وصیت ہے، گن لیں۔ جب گنے تو وہ 14235 سیفا فرانک تھے جبکہ اس سے پہلے موصوف صرف 1000سیفافرانک ماہوار ادا کرتے تھے اور بعض اوقات آمدن نہ ہونے کی وجہ سے 2 ماہ بعد چندہ ادا کیا کرتے تھے۔ موصوف خوشی سے آنسو بھری مسکراہٹ میں کہتے جاتے تھے، مجھے وصیت کی برکت سے بہت منافع ہوا۔

مالی کے امیر Kenekon کے دور دراز گاؤں کے ایک ممبر مکرم Bakroba کے حوالہ سے اطلاع دیتے ہیں کہ موصوف باقاعدگی سے جماعت کا ریڈیو سننے کے عادی ہیں۔ مذکورہ گاؤں دور ہونے اور راستہ خراب ہونے کی وجہ سے مرکزی مبلغ کافی دیر بعد جب وہاں کے دَورہ کے لئے گئے تو موصوف نے بتایا کہ مکرم وکیل المال ثانی صاحب کا پروگرام اُنہوں نے ریڈیو پر سنا تھا ۔وہ وصیت فارم تو پُر نہیں کر سکتے تھے تاہم اُسی دن سے اُنہوں نے وصیت کی شرح سے چندہ جمع کرنا شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ موصوف نے مرکزی مبلغ صاحب کو اپنا چندہ جمع کروایا اور پھر اُن کا وصیت فارم پُر کروایا گیا۔ اس بات پر وہ اتنے خوش تھے کہ اُن کی خوشی ناقابل بیان تھی۔ اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور بار بار یہ کہتے کہ اگر خلافت نہ ہوتی تو آج وہ اس برکت سے محروم رہ جاتے۔ بعد میں موصوف گھر گئے اور علیحدہ سے 5000 سیفا فرانک لا کر دیئے کہ میری طرف سے خلیفہ وقت کو یہ حقیر تحفہ پیش کر دیا جائے۔

مکرم امیر صاحب گیمبیا تحریر فرماتے ہیں کہ مکرم Malleh Dibba، جو گاؤں Samba Yassin کے چیف اور جماعت کے صدر بھی ہیں، بتاتے ہیں کہ میں جماعت کی مختلف مالی تحریکات میں تھوڑی رقم دیتا رہا ہوں اور اپنے فیملی ممبران کو بھی اس کی تلقین کرتارہا ہوں۔ لیکن جب سے میں نظام وصیت میں شامل ہوا ہوں، مَیں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وہ نظارے دیکھے ہیں جو پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔موصی بننے کے بعد سے مجھے ایسے ایسے لوگوں نے ٹھیکےدیئے ہیں جو کہ مجھے جانتے تک نہ تھے۔ پہلے میری اور میرے مرحوم بھائی کی فیملی ایک چھوٹے سے کچے مکان میں رہتی تھی، لیکن اب خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے ایک پختہ اور کشادہ مکان تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرما دی ہے۔ الحمدللہ

اپنے افریقی بھائیوں خاص طور پر نو مبائعین کو مالی قربانی اور نظام وصیت کی برکات سے پورے طور پر آگاہ نہ کر سکنے کی بلاشبہ ہماری طرف سے ہی کمی ہے۔ جہاں تک افریقی بھائیوں میں اخلاص اور خلافت سے محبت اور اطاعت کا تعلق ہے تو وہ کسی طور پر بھی دوسرے احمدیوں سے کم نہیں ہے۔ جس کا جیتا جاگتا ثبوت بلا استثناء تمام افریقی ممالک کی طرف سے حضور انور کے ارشادات پر والہانہ لبیک کہنا ہے۔ دَورہ کے دوران بلاشبہ تمام 17ممالک کی نیشنل مجالس عاملہ اور تینوں ذیلی تنظیموں کی نیشنل مجالس عاملہ کے تمام کے تمام 100 فیصدغیر موصی ممبران نے نظام وصیت میں شمولیت کا وعدہ کیا۔ اسی طرح اجلاسات کے دوران غیر موصی حاضرین میں سے قریباً 40 فیصداحباب نے موقع پر نظام وصیت میں شمولیت کے وعدے کئے۔ محض خدا تعالیٰ کے فضل اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دُعاؤں کے طفیل اب تک وعدہ کنندگان سے دو گناہ تعداد وصیت فارم پُر بھی کر چکی ہے الحمد للہ۔ ان افریقی ممالک میں دورہ سے قبل موصیان کی تعداد 5917 تھی جس میں پچھلے ڈیڑھ سال میں 6756 کا اضافہ ہو کر کل تعداد 12,673 ہو چکی ہے اور یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے ۔الحمد للہ۔

افریقی ممالک میں نئی وصایا کا گوشوارہ ذیل میں پیش ہے۔

پہلا دورہ مغربی افریقہ (21دسمبر 2017ء تا 25جنوری 2018ء)

نام ملک تاریخ دورہ دورہ سے قبل تعداد موصیان دورہ کے بعد سے اب تک نئی وصایا کل موصیان
بینن 21 تا 3 دسمبر 76 114 190
ٹوگو 31 دسمبر تا 3 جنوری 31 56 87
گھانا 3 تا 15جنوری 3,960 1,538 5,498
برکینافاسو 15 تا 21 جنوری 153 384 537
نائیجر 22 تا 25 جنوری 37 31 68
  میزان 4,257 2,123 6,380

دوسرا دورہ مشرقی افریقہ (4اپریل تا 14مئی 2018ء)

نام ملک تاریخ دورہ دورہ سے قبل تعداد موصیان دورہ کے بعد سے اب تک نئی وصایا کل موصیان
کینیا 4 تا 11 اپریل 100 130 230
یوگینڈا 12 تا 19 اپریل 190 363 553
تنزانیہ 20 اپریل تا 3 مئی 325 374 699
ماریشس 3 تا 14 مئی 262 90 352
  میزان 877 957 1,834

تیسرا دورہ مغربی افریقہ (19 جون تا 16 جولائی 2018ء)

نام ملک تاریخ دورہ دورہ سے قبل تعداد موصیان دورہ کے بعد سے اب تک نئی وصایا کل موصیان
آئیوری کوسٹ 19 تا 25 جون 72 515 587
لائبیریا 25 تا 29 جون 52 101 153
سیرالیون 29 جون تا6 جولائی 305 436 741
مالی 6 تا 12 جولائی 59 202 261
سینیگال 12 تا 16 جولائی 21 220 241
گیمبیا 16 تا 19 جولائی 221 1,634 1,855
گنی بساؤ 19 تا 22 جولائی 20 371 391
گنی کناکرے 22 تا 28 جولائی 33 197 230
  میزان 783 3,676 4,459
  کُل میزان 5,917 6,756 12,673

دوران سفر معجزانہ حفاظت

دورہ جات کے دوران خاکسار کا یہ معمول رہا کہ ایک ملک کا دورہ مکمل کر کے روانگی سے قبل حضور انور کی خدمت میں دعا کے لئے فیکس کر دیتا رہا۔ لیکن گھانا سے برکینا فاسو جاتے ہوئے آخری دو دن سفر کی وجہ سے دُعا کے لئے فیکس نہ کر سکا۔ دل میں شدید اضطراب تھا کہ حضور انور کی خدمت میں فیکس کر کے اطلاع نہیں دے سکا۔ بذریعہ فون پیغام نوٹ کروانے پر دل نہیں مانتا تھا۔ جب بالکل بارڈر کے پاس پہنچ گئے اور فیکس لکھنے اور بھجوانے کی بظاہر کوئی صورت باقی نہ رہی تو بامر مجبوری محترم منیر احمد جاوید کی خدمت میں بذریعہ Message درخواست کی کہ حضور انورکی خدمت میں دَورہ غانا کی بخیریت تکمیل اور برکینا فاسو میں داخل ہونے کیلئے دُعا کی درخواست پیش فرما دیں۔ تھوڑی دیر بعد ہی دعائیہ جواب موصول ہو گیا۔ بارڈر سے دارالحکومت واگا ڈوگو جاتے ہوئے راستہ میں خاکسار کو اونگھ آ گئی۔ گاڑی کی رفتار بھی غالباً تیز تھی کہ اچانک میری طرف والا فرنٹ ٹائر زبردست دھماکے کے ساتھ برسٹ ہو گیا۔ خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ اس وقت سڑک بھی خالی تھی اور ڈرائیور بھی گاڑی کو کنٹرول کر نے میں کامیاب ہو گیا۔ اس طرح حضور انور کی دُعاؤں کے طفیل خدا تعالیٰ نے کسی بڑے نقصان سے بال بال بچا لیا۔ الحمد للہ

قبولیت دُعا کا ایک واقعہ

مالی کے دارالخلافہ Bamako میں ہیومینٹی فرسٹ کے ہسپتال کا محترم امیر صاحب، ڈاکٹر صاحب اور چند اصحاب کی معیت میں وزٹ کر کے جب باہر نکلنے لگے تو اچانک ایک خاتون جسے صبح سے زچگی کی دردیں ہو رہی تھیں، سامنے آ گئی اور اپنے لئے دعا کروانے کے لئے کہا۔ خاکسار کو تو زندگی میں اس سے قبل کبھی ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑا تھا۔ چنانچہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی کہ اے اللہ میں تو تیرا گناہگار، ناکارہ بندہ ہوں لیکن یہ یقین ضرور رکھتا ہوں کہ تیرے مسیح موعود سچے ہیں اور یہ کہ اس وقت میں تیرے خلیفہ کے حکم پر یہاں کھڑا ہوں، اُنہیں کے صدقے اس عورت کی مشکل آسان فرما دے۔ دعا کروانے کے بعد کچھ دیر ہم سب ہسپتال کے باہر کھڑے باتیں کرتے رہے اور پھر وہاں سے الوداع ہو گئے۔ اگلے دن جب ڈاکٹر صاحب میٹنگ کے لئے مشن ہاؤس تشریف لائے تو انہوں نے بتایا کہ جب وہ ہمیں الوداع کہہ کر اندر تشریف لائے تو انہیں وارڈ میں سے بچے کے رونے کی آوازیں آئیں تو انہوں نے نرس سے دریافت کیا یہ کون سا بچہ ہے۔ نرس نے بتایا کہ جس عورت نے ابھی دعا کے لئے کہا تھا اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے اور ماں، بچہ دونوں ٹھیک ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور خلیفۃ المسیح کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید کا یہ زندہ نشان دورہ کی برکت سے دیکھنا نصیب ہوا۔ الحمد للہ

دَورہ انڈونیشیا و ملائیشیا

دَورہ افریقہ سے قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت اس عاجز راقم الحروف کو 2016ء میں انڈونیشیا اور 2017ء میں ملائیشیا کا دَورہ کرنے کا ارشاد فرمایا تھا۔ ہر دو جماعتیں بھی نہایت مخلص اور پیارے آقا کے ارشادات پر لبیک کہنے والی ہیں۔ الحمد للہ

انڈونیشیا میں موصیان کی تعداد ستمبر 2016ء میں 5783 تھی۔ جس کے بعد محض خداتعالیٰ کے فضل سے تین سالوں میں قریباً 2500 افراد جماعت نے نظام وصیت میں شمولیت کی توفیق پائی ہے، الحمد للہ۔ اسی طرح ملائیشیا میں موصیان کی تعداد دسمبر2017ء میں 834 تھی جو محض خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھ کراب 1060 ہو گئی ہے۔ الحمد للہ

وصیت خدا تعالیٰ کا قائم کردہ نظام ہے جس نے نظام خلافت کے زیر سایہ پھولنا، پھلنا اور بالآخر ساری دُنیا کو اپنے فیض سے بہرہ ور کرنا ہے۔

حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا تھا کہ ’’بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ نظام نہ معلوم کب قائم ہو گا جماعت کی ترقی تو نہایت آہستہ آہستہ ہو رہی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمائی جاتی جو عمارت بے بنیاد ہو وہ بہت جلد گِر جاتی ہے یہ جلد بنائے جانے والے نظام جلد گِر جائیں گے نظام وہی قائم ہو گا جو ہر کس و ناکس کی دلی خوشنودی کے ساتھ قائم کیا جائے گا۔ گھاس آج نکلتا اور کل سوکھ جاتا ہے لیکن پھل دار درخت دیر میں تیار ہوتا اور پھر صدیوں کھڑا رہتا ہے۔ پس آئندہ جوں جوں ہماری جماعت بڑھتی چلی جائے گی وصیت کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے دُنیا میں جس نظام کو قائم کیا ہے وہ بھی بڑھتا چلا جائے گا۔‘‘

(نظام نو صفحہ127)

پھر فرمایا ؟پس جوں جوں تبلیغ ہو گی اور لوگ احمدی ہوں گے وصیت کا نظام وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا اور کثرت سے اموال جمع ہونے شروع ہو جائیں گے۔ قاعدہ ہے کہ شروع میں ریل آہستہ آہستہ چلتی ہے مگر پھر بہت ہی تیز ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر خود دوڑنے لگو تو شروع کی رفتار اور بعد کی رفتار میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ پس وصیت کے ذریعہ اس وقت جو اموال جمع ہو رہے ہیں ان کی رفتاربے شک تیز نہیں مگر جب کثرت سے احمدیت پھیل گئی اور جوق در جوق لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے شروع ہو گئے اس وقت اموال خاص طور پر جمع ہونے شروع ہو جائیں گے۔ اور قدرتی طور پر جائیدادوں کا ایک جتّھا دوسری جائیدادوں کو کھینچنا شروع کر دے گا اور جوں جوں وصیت وسیع ہو گی نظامِ نَو کا دن ان شاء اللہ قریب سے قریب تر آجائے گا۔‘‘

(نظام نو صفحہ130۔131)

خلافت خامسہ کے آغاز میں برصغیر (انڈیا، پاکستان ،بنگلہ دیشں) سے باہر موصیان کی تعداد6ہزار سے بھی کم تھی جو حضور انور کی تحریک کے بعد اب بڑھ کر 60ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ اسی طرح کل موصیان کی تعداد 38 ہزار سے بڑھ کر قریباً ڈیڑھ لاکھ ہو چکی ہے اور زندہ موصیان بشمول زیر کارروائی ایک لاکھ دس ہزار ہیں،الحمد للہ۔ جرمنی جماعت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ 12650 موصیان کے ساتھ بیرونی ممالک میں اوّل نمبر ہے۔ نیز بڑی جماعتوں میں سے جرمنی وہ پہلی جماعت ہے جس میں کمانے والوں کے 50فیصد نے نظام وصیت میں شامل ہو کر حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کی خواہش کو پورا کرنے کا بھی اعزاز پایا ہے۔لا محالہ ہر دو اعزاز حاصل کرنے میں شعبہ وصایا جرمنی کی انتھک محنت شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مرکز کے ساتھ تعاون میں بھی شعبہ وصایا جرمنی صف اوّل میں شامل ہے۔الحمد للہ

اب جبکہ خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں نظام وصیت خدا تعالیٰ کے فضل سے تیزی اختیار کر گیا ہے اب وہ دن دُور نہیں جب حضرت مصلح موعودؓ کی پیشگوئی کے مطابق ان شاء اللہ یہ سلسلہ بہت ہی تیز ہو جائے گا۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم حضور انور کے حسب ذیل ارشاد پر عمل کرتے ہوئے اپنی سستیاں دُور کر لیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کا سلطان نصیر بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

’’پس غور کریں، فکر کریں۔ جو سستیاں، کوتاہیاں ہو چکی ہیں اُن پر استغفار کرتے ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جلد از جلد اس نظام میں شامل ہو جائیں اور اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنی نسلوں کو بھی بچائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھی حصہ پائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین‘‘

(اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یوکے 2004ء)

(رفیق مبارک میر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مئی 2020

اگلا پڑھیں

حضرتِ مسرورکے ہمراہ رہتا ہے خدا