• 30 اپریل, 2024

محراب

میں ایک محراب ہوں۔ 6جنوری 1920ء کو خیالوں اور سوچوں کے تانے بانے میں بنی گئی یہ اس زمانے کی بات ہے۔ جب اس سوچ کو حقیقت کا روپ دھارنے میں کئی مشکلات کا سامنا تھا ۔ مگر چونکہ اس سوچ کے پیچھے الہٰی ’’ہستیاں‘‘ اور بلند عزم و ہمت تھی جس کی وجہ سے میں ایک معمولی ذرے سے بہت خاص ہو گئی ۔ 19جنوری 1924ء کا دن میری زندگی کا بہت خاص دن ہے۔ جب لندن کی ٹھٹھرتی سرد شام میں اینٹ گارے سے میری بنیاد رکھی گئی۔ اُس وقت کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آنے والے دنوں میں یہ برفیلی بنیادیں کتنے زمانوں کو ایمان کی حلاوت سے گرم کریں گی۔ یہ میری خوش نصیبی کہ امامِ وقت نے قرآن پاک کی تلاوت کے بعد میرا سنگِ بنیاد رکھا، لمبی دعا کروائی اور عصر کی نماز ادا کی۔ میں تو اسی وقت اینٹ گارے سے خاص الخاص ہوگئی۔ جب میری پیشانی پر پہلا سجدہ امام الزمان نے کیا۔ میرا نام ’’مسجد فضل‘‘ تجویز ہوا۔

دنیاوی لحاظ سے اس سوچ کو مکمل کرنا بہت مشکل تھا مگر میں نے الہٰی جماعت میں قربانی کا وہ جذبہ دیکھا جو اپنی مثال آپ تھا۔ مرد تو مرد، عورتوں نے بھی قربانی کے ایسے معیار قائم کئے جو چشمِ فلک نے کہیں اور نہ دیکھے ہوں گے۔ میری تعمیر میں قریباً دو سال لگے اور 3۔اکتوبر 1926ء کو میری تکمیل ہو گئی۔
پھر 3۔اکتوبر 1926ء باقاعدہ مسجد کا افتتاح ہوا، مبلغین آئے اور مسجد آباد تو پہلے دن سے ہی ہوگئی تھی لیکن باری باری مختلف معزز مبلغ آتے اور اُن کے آنسوؤں سے میرا ماتھا تر ہوتا رہتا ۔ بہت مبارک وجود آئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی آئے جن کا میں نے ماتھا چوما اور اُن کے آنسو میں نے پیئے، اور یہ سلسلہ چلتا رہا، میں خوش نصیب محراب ہوں مجھے حضرت چودھری محمدظفر اللہ خان صاحب کے آنسو بھی ملے، میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے بہتے ہوئے آنسوؤں کا بھی مزا چکھا پھر مکرم مولانا شیخ مبارک احمد، مکرم مولانا بشیر احمد رفیق اور اسی طرح بہت سارے مبلغین کے آنسوؤں کی نمکینی میرے اندر اُتری ۔ اسی طرح مکرم مولانا عطاء المجیب راشد کی سسکیوں کی بھی میں گواہ ہوں ۔

میری قسمت کے بھاگ کھل گئے جب 1984ء میں خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے لندن کو یہ اعزاز بخشا کہ وہ یہاں اپنا مستقل قیام فر مائیں گے اور پٹنی لندن مسجد فضل کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی رہائش گاہ میں بسیرا کریں گے اور صبح شام اللہ کے گھر یعنی مسجد فضل میں پانچوں نہیں بلکہ جمعہ اور مزید سجدوں کے لئے بھی یہی مسجد فضل کی محراب ہوگی اور میں خوش نصیب محراب اب ہر وقت اُن کے ماتھے کو بوسہ دونگی اور ایک بے چین اور اپنی جماعت کے لئے ہر وقت آنسوؤں سے تر ماتھا اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اس محراب پر رکھ کر اپنے دل کی پکار اپنے اللہ تک پہنچائے گا ۔ میں نےحضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی بے قراری سے تڑپتی ہوئی سسکیاں سُنیں، بہتی ہوئی آنکھوں سے اتنے آنسو دیکھے ہیں کہ جن سے سمندر بھی بھر جائے۔ اُن کی تڑپ ،بے چینی اُن کی التجائیں سب میرے اندر بچھی جائے نماز ہی جذب کرتی تھی اور اس تڑپ سے مانگی ہوئی دعاؤں کے نتیجے بھی نکلتے دیکھے جو وہ اپنے رب سے مانگتے تھے وہ پورے ہوتے ہوئے بھی میں نے دیکھا ہے۔ کیونکہ شکرانے کے آنسو بھی میرا ہی نصیب تھے مجھے اُن کے آنسوؤں کی اتنی عادت ہوگئی تھی کہ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار رہتاکہ کب خلیفہ کا سجدہ مجھے ملے گا۔ مجھ پر یہ بھی گزری کہ خلیفہء وقت کی بیماری میں کمزور پڑتی ہوئی آہیں اور آ نسو اپنے سینے میں جذب کئے۔

میں نے 18 سال تک پیارے خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے سجدوں کا مزا لیا ۔اُن کی بے چینیاں، اُن کے لمبے لمبے سجدے، اُن کی آہ و زاریاں، اُن کی بھیگی دعائیں اور ان کی بےقرار گریہ و زاری سب میں نے سُنے اور وہ سب اللہ تعالیٰ کے دربار تک پہنچتے ہوئے دیکھے۔پھر وہ وقت بھی میرے دیکھنے میں آیا جب بہت لمبی بیماری کے بعد 2003ء میں پیارے خلیفۃ المسیح الرابع ؒ سے میری جدائی کا دن آ گیا بہت اُداس دن تھے مجھ محراب کا ماتھا تو کبھی خالی نہیں ہوا ۔الحمد للہ پانچوں وقت نماز کے لئے کوئی نہ کوئی اس محراب میں سجدہ ریز ہوتا ہی ہے مگر خلیفہ کا سر جب جھکتا ہے تو مزا کچھ اور ہی ہوتا ہے۔

اللہ نے میری بھی دعاؤں کی جھولی خالی نہیں رہنے دی۔ ایک اور اللہ کا چنیدہ میرا دامن بھرنے آگیا ۔اللہ نے پھر میرے نصیب میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے سجدے لکھ دیئے وہ خلافت کے ابتدائی دن، وہ پسیجا ہوا دل، وہ آنکھوں سے بہتا ہوا دل کا گدازپن، وہی تڑپ اور آہ وزاریاں ۔بڑا مزا آیا۔میرامقدر سنور گیا میں یہ سب مال و متاع سمیٹ کے بہت پیار سے اپنے رب کے حضور پہنچاتی رہی اور اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کی بارشیں برستی بھی دیکھیں۔ الحمدللہ، اللہ نے کبھی ان سسکیوں کو ضائع نہیں کیا بلکہ بہت بھاگ لگائے، بہت نوازا، ہماری جماعت کو فیض یاب کیا، دنیا میں جہاں جماعت پھیلتی جارہی ہے میرے جیسے منبرو محراب بنتے جارہے ہیں جو ہمہ وقت سجدوں سے مزین رہتے ہیں جن پر اللہ کے پیار کی نگاہیں پڑتی رہتی ہیں اور شان کریمی ان موتیوں کو چُن کر ساری زمیں میں بیجوں کی طرح بکھیر دیتی ہے۔ الحمدللہ

میں ’’مسجد فضل‘‘ کی محراب قریباً 18 سال ان بارشوں میں بھیگتی رہی ان ہواؤں اور فضاؤں کی عادی ہوگئی۔ اپنی جھولی میں خلیفۂ وقت کی دعاؤں کو سمیٹتی رہی۔ بڑے مزے چکھے۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ پیارے خلیفہ نے اللہ تعالیٰ کی رضا سے اپنا قیام اپنی مسجد یہاں سے اسلام آباد (ٹیلفورڈ) منتقل کرلی مجھے چھوڑ دیا۔ ساری خوش نصیبی مسجد مبارک کے حصے میں آگئی اور اس کی محراب مالا مال ہوگئی۔میں بہت اداس ہوں گو کہ اللہ کے فضل سے میں ویسے ہی آباد ہوں مجھے بہت پیارے اپنے آنسوؤں سے سیراب کرتے رہتے ہیں مگر خلیفہ کے آنسوؤں کا جس کو چسکا لگ جائے پھر باقیوں سے وہ مزا نہیں ملتا۔ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد مبارک کے لئے بہت خوش ہوں اُس محراب کو مبارک باد دیتی ہوں مگر اپنے پیارے محبوب، ہزاروں دلوں کی دھڑکن، پیارے آقا سے دلی گزارش ہے۔

کبھی تو پھیرا لگا جایا کریں۔۔۔ ہمارے کوچے میں۔۔۔ کوئی آپ کے بغیر بہت اداس ہے ۔ ۔۔آپ کے سجدے کی انتظار میں ہے ۔۔۔ وہی مزا لینے اور آنسو پینے کو بے قرار ہے ۔۔۔ فضا اداس ہے ۔۔۔آپ کے ہمسائے اداس ہیں۔۔۔ یہاں کی چڑیاں کبوتر بھی اداس ہیں ۔۔۔ گلی کوچے والے اداس ہیں ۔۔۔ دو بوند پھر سے برسا جائیں میرے خشک سینے پر ۔۔۔۔۔

والسلام
دعاگو
بہت اداس
آپ کی جدائی میں بے قرار
آپ کی محراب

(صفیہ بشیر سامی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ30۔مئی2020ء