خداتعالی ٰ نے سچی خلافت کے ساتھ خوف کو امن و آشتی میں تبدیل کرنے کو لازم قرار دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا یعنی نظام ِخلافت کے ذریعہ ہر قسم کا خوف و ڈر نہ صرف جاتا رہےگابلکہ اِس کی جگہ پیارو محبت کی ہوا چلے گی۔امن و آشتی کا راج ہو گا۔خلافت کے سایہ کے نیچے آنے والے مطیع اِس طرح زندگی گزاریں گے کہ جس کو دیکھنے والے کہنے پر مجبور ہو جا ئیں گے کہ اگر کسی نے امن دیکھنا ہو تو وہاں جا کر دیکھو۔ اگر پیار و محبت کرنے والوں کےگروہ کادیدار کرنا مقصودہو تو وہاں جا کرکرو۔ ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کا عملی نظارہ کرنا ہو تو وہاں جاکر کرو۔ ایسے بےشمار لوگ ہیں جنہوں نے برملااظہار کیا اور آج بھی کرتےہیں کہ محبت بانٹی جاِسکتی ہےتواس نظام کے ذریعہ۔ لوگوں کے خوف کو امن میں تبدیل کیا جا سکتاہےتواس خدائی نظام کے تابع ۔اِن مدبّرانہ اور حکیمانہ سوچ رکھنے والوں کے خیالات کی لسٹ طویل ہےلیکن چند ایک کا یہاں پر ذکرکرنا مقصودہے جنہوں نے جماعت کے پروگراموں اور جلسوں میں شامل ہوکراعلانیہ ان باتوں کا اظہار کیاہے کہ خلافتِ احمدیہ امن و آشتی کی ضامن اور آئینہ دارہے۔ ان کے تاثرات و مشاہدات کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبات میں بھی اکثر بیان کرتے ہیں۔
چنانچہ 5 ستمبر 2014ء کے خطبہ جمعہ میں غیر ازجماعت مہمانوں کے تاثرات جو اُنہوں نےخلافتِ احمدیہ کی امن و آشتی کی کاوشوں کے سلسلہ میں کہے اور آپ نےبیان فرمائے پیش کئے جاتے ہیں۔
کوسٹا ریکا سے ایک خاتون کے تاثرات
کوسٹا ریکا سے ایک خاتون ڈیانا نعیمہ (Diana Naima) صاحبہ کہتی ہیں۔ جلسے میں شمولیت ایک انوکھا تجربہ تھا۔ دُنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے مختلف اقوام و نسل کے لوگوں کے باہمی پیار و محبت نے میرے دل پر گہرا اثر کیا ہے۔ اس فضا نے مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ یاد کروا دیا۔ مجھے یقین ہے کہ جماعت احمدیہ ترقی کرے گی اور اس کے ذریعے اسلام کا محبت بھرا پیغام بھی پھیلتا چلا جائے گا۔
کانگو کنشاسا سے سپیکر صوبائی اسمبلی کا بیان
کانگو کنشاسا سے سپیکر صوبائی اسمبلی باندوندو بونیفا این تَوَابَوشِیْوا (Boniface Ntwa Boshie Wa) پہلی بار جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے۔ یہ کہتے ہیں یہاں ہر کوئی ایسے مل رہا ہے جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتا ہو۔ ہر کوئی سلام کر رہا ہے۔ یہی حقیقی محبت ہے۔ یہی حقیقی مذہب اور دین ہے۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ ہم نے صوبائی سطح پر ایک پروگرام منعقد کرنا تھا جس میں پہلے دن ہی بدانتظامی کی وجہ سے 26 افراد کی موت ہو گئی۔ چنانچہ پروگرام کینسل کرنا پڑا۔ لیکن مَیں حیران ہوں کہ جلسے میں ہزاروں افراد کے مجمع میں کوئی چھوٹی سی بدنظمی نہیں ہوئی۔ کئی دھکم پیل اور فسادنہیں ہوا۔ کسی کی موت ہونا تو دُور کی بات ہے کسی نے اُونچی آواز سے بات تک نہیں کی۔ چھوٹے بچوں کو ڈیوٹی دیتا دیکھ کر بڑے جذباتی تھے۔ کہتے ہیں یہ ننھے بچے پانی یا کوئی اور کھانے کی چیز اس پیار اور محبت سے پیش کرتے ہیں کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود ان بچوں کو انکار کرنے کا دل نہیں کرتا۔
بینن کے وزیر داخلہ کے مشاہدات
بینن کے وزیر داخلہ فرانسس ہوسو (Francis Houessou) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔مَیں نے دُنیا دیکھی ہے۔ امریکہ جیسے سپر پاور کے انتظامات بھی دیکھے ہیں مگر بڑی بڑی طاقتوں کو بھی اس طرح کے منظّم اور پُر امن انتظام کرتے نہیں دیکھا۔ یہاں تو بالکل چھوٹی عمر کے بچے بھی رضاکارانہ ڈیوٹیاں دیتے ہیں اور جو ہدایات اُنہیں ملتی ہیں بڑے شوق سے اُن کی پابندی کرتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں جماعت کی عالمی طاقت کا راز یہی ہے کہ جماعت کو ایک خلیفہ ملا ہوا ہے۔ مَیں برملا اس بات کا اظہار کرتا ہوں کہ آج جماعت احمدیہ ہی ہے جو دنیا میں امن کے قیام کے لئے کام کر رہی ہے۔ آج زمین پر صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جو بھائی چارے کی تعلیم دیتی ہے، صبر کی تلقین کرتی ہے اور امن کے قیام کی علمبردار ہے۔
یونان سے آنے والے ایک مہمان کے جذبات
یونان سے آنے والوں مہمانوں میں انٹی گونی (Antigoni) اور پَانَاگی یُوتِس (Panagiotis)، بہرحال جو بھی ان کا نام ہے شامل تھے۔ اس میں پَانَاگی یُوتِس (Panagiotis) صاحب کو جماعتی لٹریچر کا گریک ترجمہ کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ جلسے سے واپس جا کر اُنہوں نے ایک ای میل بھجوائی جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں اس قدر پُر امن مجمع کو جو ایک دوسرے کو پیار اور محبت دینے کے لئے اور دعائیں کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے، دیکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
نائیجیریا سے آنے والے وفد میں ایک ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر یوں کہتے ہیں
نائیجیریا سے آنے والے وفد میں ایک ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر اسحاق صاحب تھے۔ کہتے ہیں جلسہ سالانہ کے تمام انتظامات انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے تھے۔جلسہ سالانہ کے اجلاسات میں جب خلیفۃ المسیح موجود ہوتے تھے تو یہ نظارہ بہت روح پرور اور جذباتی ہوتا یہاں تک کہ مَیں اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکا اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے کہ کس طرح ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے امام کے سامنے سر تسلیم خم کئے بیٹھے ہیں۔ ایسا نظارہ مَیں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ جو پیار و محبت احباب جماعت نے اس جلسے کے دوران اور بعد میں دیا وہ مَیں واپس جا کر بتاؤں گا کہ تمام امّت مُسلمہ کو اسی بہترین نمونے کو اپنانا چاہئے۔
بیلجیئم کے ایک شہر کستارلی (Kasterlee) کے میئر جو فلیمش پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں وہ کہتے ہیں۔
بیلجیئم کے ایک شہر کستارلی (Kasterlee) کے میئر جو فلیمش پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں، وہ آئے ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں لوگوں کے آپس میں پیار اور محبت نے مجھے بہت متاثر کیا۔ مَیں نے جماعت کے لوگوں کو صرف لوکل سطح پر دیکھا تھا لیکن جلسہ میں شامل ہو کر عالمی سطح پر بھی جماعت کے لوگوں کو دیکھا ہے اور مشاہدہ کیا ہے کہ جماعت جو کہتی ہے اس پر عمل بھی کرتی ہے۔ مَیں یہاں سے اپنے ساتھ پیار اور محبت لے کر واپس جا رہا ہوں۔ آپ لوگوں نے مجھے حقیقی اسلام کی تعلیم بتائی ہے۔ مَیں ہیومینٹی فرسٹ اور انجینیرز ایسوسی ایشن کے سٹالوں پر بھی گیا ہوں۔ وہاں جا کر مجھے پتا چلا کہ جماعت انسانیت کی کس قدر خدمت کر رہی ہے۔
بیلجیم کے شہر ٹرن ہاؤٹ کے وائس میئر کی اہلیہ اپنے جذبات یوں بیان کرتی ہیں۔
بیلجیم کے شہر ٹرن ہاؤٹ کے وائس میئر کی اہلیہ کہتی ہیں۔ مَیں عورتوں کے جلسے میں بھی گئی۔ وہاں مجھے جو پیار اور محبت ملا اس کی مثال میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ جب خلیفۃ المسیح عورتوں کے جلسہ گاہ میں آئے تو ایک عجیب ماحول تھا۔ اتنی کثیر تعداد میں عورتیں وہاں موجود تھیں لیکن ہر طرف خاموشی تھی۔ پھر جب خلیفۃ المسیح نے خطاب فرمایا تو ہزاروں کی تعداد میں موجود عورتوں نے مکمل خاموشی کے ساتھ خطاب سنا۔ عورتوں کے بارے میں اسلامی تعلیم کے حوالے سے جو سوالات میرے ذہن میں تھے خلیفۃ المسیح کے خطاب سے ان سوالوں کے جوابات مل گئے۔ پھر کہتی ہیں کہ مَیں شروع میں جب عورتوں کے جلسہ گاہ میں گئی تھی تو میرے دل میں ایک خوف سا تھا لیکن جب خلیفۃ المسیح کا خطاب سننا شروع کیا تو میرا سارا خوف دُور ہو گیا۔
فرنچ گیانا کے ایک عیسائی کا بیان
فرنچ گیانا سے بھی احمدی اور غیر احمدی مہمان جلسے میں آئے تھے۔ ان مہمانوں میں ایک غیر احمدی مہمان مسٹر تھیری ایٹی کوٹ (Mr. Thierry Atticot) تھے جو کہ تاریخ کے پروفیسر ہیں اور عقیدے کے لحاظ سے عیسائی ہیں۔ کہتے ہیں جب مجھے جلسہ میں شامل ہونے کی دعوت ملی تو مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مجھے یہ لوگ کیوں دعوت دے رہے ہیں۔ بعض ویڈیوز بھی مجھے دکھائی گئیں۔ سمجھایا بھی گیا لیکن پھر بھی جلسے کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا۔ لیکن اب خود جلسے پر آکر مجھے سمجھ آگئی ہے کہ اس جلسے کی جماعت میں کیا حیثیت ہے بلکہ پوری دُنیا کے لئے یہ جلسہ کتنا اہم ہے۔ دُنیا کو ایسے جلسوں کی ضرورت ہے جس میں ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ نعرہ ہو۔
ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگوکے منسٹر آف لیگل افیئرز کے خیالات
ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگوکے منسٹر آف لیگل افیئرز مسٹر پرکاش رمادار (Mr. Prakash Ramadhar) بھی شامل ہوئے۔ کہتے ہیں کہ کمیونٹی کے ممبرز کا خلیفۃ المسیح کے لئے جو پیار تھا انسان اس کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ جماعت کسی انسان کی بنائی ہوئی جماعت نہیں ہے بلکہ اس جماعت کے پیچھے خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے۔ کہتے ہیں مَیں جلسے میں شامل ہو کر اندر سے ہل گیا ہوں۔ میرے لئے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایمانداری، انکساری اور اخلاص کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق دے۔
(الفضل انٹرنیشل26 ستمبرتا2۔اکتوبر2014ء)
حضورِاقدس نے اکتوبر اور نومبر2018 میں امریکہ اور گوئٹےمالا کابابرکت دَورہ کیا۔ واپس تشریف لا کر 16نومبر 2018 ءکےخطبہ جمعہ میں آپ نے غیر ازجماعت مہمانوں کے تاثرات بیان فرمائے جن میں غیر از جماعت مہمانوں سے برملا اظہارکیا کہ خلافتِ احمدیہ ہی صحیح طور پر امن کی ضامن ہے۔ چند ایک درج ذیل ہیں۔
ایک پروگرام میں ایک جج ہیری شوارٹز (Harry Schwartz) شامل ہوئےوہ اپنے خیالات یوں بیان کرتے ہیں۔
جج ہیری شوارٹز (Harry Schwartz) صاحب کہتے ہیں کہ مَیں اس جماعت سے 25 سال سے واقف ہوں اوریہاں کے صدر صاحب سے کئی مرتبہ ڈنر پر مختلف مسائل پر بات ہوئی ہے۔ پھر میرے ایڈریس کے بعد اُنہوں نے کہا کہ یہ پیغام جو ہے محبت اور ہم آہنگی اور مل بیٹھنے کا پیغام ہے۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے تو میرے خیال میں ہم سب بہتر حالات میں ہوں۔
ایک مسجد کے افتتاح کے موقع پر ریسپشن میں لوکل کونسلر کی شمولیت اور اس کے تاثرات
ایک لوکل کونسلر مسجد کے افتتاح پہ ریسپشن میں شامل ہوئے وہ کہتے ہیں کہ آپ کا امن کا پیغام بہت ہی ضروری تھا۔ خاص کر موجودہ حالات کے تناظر میں یہ پیغام اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ میرے لئے یہاں آنا بہت اعزاز کی بات ہے۔ مَیں نے اس مسجد کو اپنے سامنے تعمیر ہوتے دیکھا ہے۔ یہاں اس مسجد کا قیام اس علاقے کے لئے بہت ہی برکت کا باعث ہے۔ جو پیغام آپ نے دیا ہے کہ آپ لوگ ہمسایوں کی ضرورت میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے میرے خیال میں صرف یہاں فلاڈلفیا میں ہی نہیں تمام امریکہ میں اس پیغام کی ضرورت ہے۔
پریسبیٹیرین چرچ (Presbyterian Church) کی منسٹر کے مشاہدات مشعل (Michelle) ہیں پریسبیٹیرین چرچ (Presbyterian Church) میں منسٹر ہیں کہتی ہیں کہ
بڑا اچھا پیغام تھا۔ آپ نے باہمی اتحاد یگانگت پر زور دیا۔ خوف ختم کر کے محبت قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ یہ پیغام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مسجد کے قیام کے جو مقاصد آپ نے بیان کئے یہ بہت اچھے ہیں۔ پھر ہمسایوں سے حسن سلوک کی تعلیم کا بھی ذکر کیا۔ میرے لئے یہ نئی چیزیں ہیں۔ مجھے آج معلوم ہوا ہے کہ عیسائیت میں جو پیار محبت کی تعلیم دی گئی ہے یہ تو وہی باتیں ہیں جبکہ میڈیا اسلام کے بارے میں ایک الگ چیز پیش کرتا ہے۔‘‘
کوری سٹورٹ (Corey Stewart) کہتے ہیں۔
کوری سٹورٹ (Corey Stewart)جو کہ یو ایس ریپبلکن کے سینیٹ (Senate)کے اُمیدوار ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو مَیں نے خطاب سنا یہ دلکش اور حکمت سے پُر تھا۔ امریکہ کو اور ساری دُنیا کو محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کا پیغام غور سے سننا چاہئے اور اس پر عمل کرنا چاہئے خاص طور پر جب دنیا کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ مذہبی آزادی کا پرچار کریں۔
مائٹ واٹرز (Matt Waters) جو ورجینیا کے سینیٹ کینڈیڈیٹ (Senate Candidate) ہیں بیان کرتے ہیں۔
ایک مہمان مائٹ واٹرز(Matt Waters) جو ورجینیا کے سینیٹ کینڈیڈیٹ(Senate Candidate) ہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ مَیں نے خطاب سنا۔ اب مَیں مزید پڑھوں گا اور انٹرنیٹ سے معلومات لوں گا اور مزید اسلام سیکھنے کے لئے آپ کی مسجد میں آنا چاہوں گا،یہ پیغام موجودہ حالات کے عین مطابق تھا۔ بہت ضروری تھا۔ ہم نے امن کا پیغام سنا میں بہت ہی متاثر تھا اور حیران تھا۔
ڈاکٹر کمبرلے (Kimberly) جو کریمینالوجسٹ (Criminologist) ہیں اور مصنفہ بھی ہیں کہتی ہیں۔
ایک خاتون ڈاکٹر کمبرلے (Kimberly)جو کریمینالوجسٹ (Criminologist)ہیں اور مصنفہ بھی ہیں اور انہوں نے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ کہتی ہیں کہ آج کے خطاب میں امن اور انصاف کے حوالے سے بہت گہرے پیغامات سننے کو ملے اور رنگ و نسل میں امتیاز کے بغیر ہر ایک کو اس پیغام کے مطابق اتّحاد کی فضا قائم کرنی ہو گی۔ آج کے خطاب میں آپ نے اسلام کی حقیقی شکل سامنے لا کر رکھی اور اس کا خلاصہ امن و انصاف اور مساوات کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ پھر موصوفہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے جذباتی بھی ہو گئی تھیں اور آنسوؤں میں لبریز کہہ رہی تھیں کہ آجکل جو لوگ ظلم و بربریت کے مظاہرے دکھا رہے ہیں اور مذہب کے نام پر ہماری کمیونیٹیز اور ملک میں فسادات پھیلا رہے ہیں ان کا مذہب سے کوئی واسطہ نہیں اور یہ جاننا ہر انسان کے لئے بہت ضروری ہے۔
رابرٹ کینو (Robert Cano) صاحب جو پیراگوئے میں وائس منسٹر آف ایجوکیشن ہیں اپنے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں۔
رابرٹ کینو (Robert Cano)صاحب جو پیراگوئے میں وائس منسٹر آف ایجوکیشن ہیں انہوں نے اس موقع پہ افتتاح میں شامل ہو کر کہا کہ بڑا اچھا ایونٹ تھا۔ میں کافی حیران ہوں ایک ایسی جماعت ہے کہ اس کے افراد نے باہم مل کر اس کو تکمیل تک پہنچایا ہے اور ضرورت مندوں کی مدد کے لئے یہ سب کچھ کیا ہے اور انسانوں سے عملی طور پر پیار کا اظہار ہے یہ اور پھر کہتے ہیں کہ انسانیت یہی پیار کا راستہ اپنائے گی تو پھر دنیا میں امن قائم ہو گا اور اسلامی مذہب اور کلچر کو بہت قریب سے جاننے کا میرے لئے اچھا تجربہ تھا۔ جماعت احمدیہ کے بارے میں بہت سے میرے سوال تھے جن کے جوابات مجھے یہاں آ کر مل گئے۔
(الفضل انٹر نیشل 7 تا 13 دسمبر2018ء)
حضورپُرنور نے 2018 کے جرمنی اوربیلجیم کے جلسہ سالانہ میں شمولیت فرمائی ۔ بہت سے غیر از جماعت مہمانوں کے تاثرات آپ نے خطبہ جمعہ بیان فرمودہ21 ستمبر2018 میں بیان فرمائے ۔ جن میں مہمانوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ محبت و پیار کا سرچشمہ خلافتِ احمدیہ ہے۔ چند ایک درج ذیل ہیں۔
کوسووو سے ایک وکیل صاحب اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
کوسووو سے ایک وکیل صاحب اپنے تاثرات بیان کرتے ہیں کہ جلسہ کے نظام کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہر کوئی خلافت کی اطاعت میں سرگرداں اپنا کام کر رہا ہے۔ یہ تمام اطاعت اس وجود کی محبت تھی جو خلیفہ وقت کی شکل میں جماعت احمدیہ کو نصیب ہے اور مجھے کہتے ہیں خلیفہ وقت سے ملاقات کا موقع ملا۔ جماعت کا ہر فرد ایک لڑی میں پرویا ہوا ہے۔
جارجیا کی مسجد کے امام صاحب بیان کرتے ہیں۔
غیر احمدی مسجد کے امام جمبول(Jambul) صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں جارجیا کی مسجد کا امام ہوں اور میں احمدیہ جماعت کی دعوت پر جرمنی آیا ہوں ۔ میں نے اسلام کے بارے میں بہت سی نئی باتیں سیکھی ہیں جو میں پہلے نہیں جانتا تھا اور پھر میرے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کا ایک جملہ مجھے یاد رہے گا کہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم انسانیت کی مدد کریں ۔ اسلام کا مذہب صرف اور صرف امن کا مذہب ہے۔ یہاں آ کر ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیم معلوم ہوئی۔
سینیگال کے شہر امبور کے میئر کہتے ہیں۔
سینیگال کے ایک بڑے شہر امبور کے میئر بھی آئے تھے جو کہ سینیگال کے بڑے فرقہ ’مرید‘ کے خلیفہ کے نمائندے کی حیثیت سے جلسہ میں شامل ہوئے تھے وہاں اُنہوں نے سٹیج پہ مجھےایک تحفہ بھی دیا تھا۔ یہ کہتے ہیں کہ مَیں نے اپنے خلیفہ کی بھی بیعت کی ہے لیکن یہاں پر بیعت کا جو نظارہ دیکھا ہے وہ مَیں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ وہ جب یہ بات بیان کر رہے تھے تو بڑے جذباتی ہوگئے۔ اُن کی آنکھوں سے آنسو آنے لگے۔ کہنے لگے کہ ہمارا بھی ایک خلیفہ ہے مگر خلافت سے اتنی محبت میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ ایسا نظارہ نہ کبھی پہلے دیکھا ہے اور نہ کبھی ایسے خلافت کی محبت دیکھی ہے۔ آج مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ کس طرح صحابہؓ جان فدا کرتے تھے۔ جو مَیں نے لوگوں کے دلوں کا جذبہ دیکھا ہے جو محبت دیکھی ہے مجھے یوں لگا کہ ایک ہی اشارہ اگر خلیفہ کریں تو کوئی ایسا بندہ نہیں ہو گا جو کام سے پیچھے ہٹے۔ اتنی محبت اور اطاعت میں نے دیکھی ہے۔
(الفضل انٹر نیشل5 تا11اکتوبر2018ء)
حضورِاقدس نے 2016میں کینیڈا کا کامیاب دورہ فرمایا۔ 18نومبر 2016ء کےخطبہ جمعہ میں آپ نے غیر ازجماعت مہمانوں کے تاثرات بیان فرمائے ۔جن میں غیر از جماعت مہمانوں نے خلافتِ احمدیہ کے ذریعہ دُنیا میں جو امن کی کاوشیں ہو رہی ہیں اُن کا اپنے اپنے انداز میں ذکر کیا ۔ چند ایک پیش ہیں۔
پارلیمنٹ کے ایک ممبر ماجد جواہری یوں اپنے خیالات بیاں کرتے ہیں۔
پارلیمنٹ کے ایک ممبر ماجد جواہری ہیں۔ غالباً کسی عرب ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے آج پیغام میں سنا کہ دنیا میں قیام امن کس طرح ہو سکتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور اس کو ہم نے مل جل کر حل کرنا ہے اور بھی بہت سے چیلنج ہیں جیسے معاشی بحران، دہشتگردی۔ ان سب کے لئے ہمیں سخت محنت اور مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ممبر پارلیمنٹ نکولا ڈی اور یو (Nicola Di Iorio) نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
ممبر پارلیمنٹ نکولا ڈی اور یو (Nicola Di Iorio) نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم برداشت جیسی ایک صفت کو ہی اختیار کر لیں تو ہم ایک بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ امام جماعت احمدیہ یہاں آئیں گے اور رسمی قسم کی باتیں کر کے چند الفاظ شکر گزاری کے ادا کر کے بیٹھ جائیں گے۔ لیکن جو خطاب ہوا تو کہتے ہیں کہ شاید ہی میں نے اس سے بہتر کوئی ایڈریس سنا ہو۔ انہوں نے تمام مسائل پر روشنی ڈالی جن کا تمام دنیا کو سامنا ہے۔ جیسے آب و ہوا میں تبدیلی، اقتصادی مسائل، خانہ جنگی۔ بنیادی وجہ ناانصافی بھی بیان کیا۔ دور حاضر کے مسائل کے حل بھی بیان کئے اور یہ بھی کہا کہ مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ یہ بھی کہا کہ اسلحے کی خرید و فروخت نہیں ہونی چاہئے جو مغربی ممالک کرتے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے اس پروگرام میں شامل ہو کر بیحد خوشی ہوئی کہ کسی امن پہ بات کرنے والے کو سنا۔ کہتے ہیں یہ جس طرح تمام دُنیا کو اسلام سے متعارف کرا رہے ہیں یہی اصل طریقہ ہے۔‘‘
presbyterian church کے پادری پیس سمپوزیم سن کے کہتے ہیں۔
presbyterian church کے پادری پیس سمپوزیم سن کے کہتے ہیں کہ آج امام جماعت کے خطاب سے مجھے بڑا اثر ہوا کیونکہ یہ پیغام امن، محبت اور امید کا پیغام تھا جس کا رنگ ونسل، شرق و غرب یا کسی خاص وقت یا جگہ سے تعلق نہیں بلکہ تمام دُنیا کے لئے تھا۔ اس خطاب کی اہمیت یہ بھی ہے کہ دُنیا میں بہت سی غلط فہمیاں اور خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ لیکن آج کے پیغام میں یہ بات واضح تھی کہ ہمارے درمیان مشترک چیزیں زیادہ ہیں اور اختلاف کی باتیں کم۔یہ ایک بہت بڑی خوشخبری ہے جسے لوگوں کو سننے کی ضرورت ہے۔
محمد الحلاواجی (Muhammad al halawaji) صاحب جو پارلیمنٹ میں تھے اور نائل ایسوسی ایشن کے صدر ہیں کہتے ہیں۔
محمد الحلاواجی (Muhammad al halawaji) صاحب جو پارلیمنٹ میں تھے اور نائل ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ آج کا پیغام نہایت واضح تھا کہ ہم سب کو محبت کے ساتھ رہنا چاہئے اور ہمیں کسی سے نفرت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہیں گے تو امن قائم نہیں ہو سکتا۔ کہتے ہیں کہ جب میں نے پارلیمنٹ میں امام جماعت کا خطاب سنا تو مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ پارلیمنٹ میں اس طریق پر کوئی مسلمان رہنما اس طرح خطاب کر سکتا ہے۔ خوف کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی اور نہایت نڈر طریق پر اپنی تقریر کی اور لوگوں کو یقین ہو گیا کہ یہی اسلام کا صحیح اور سچا پیغام ہے۔ جو جنگیں ہو رہی ہیں ان کے پیچھے کچھ لوگ ہیں جو اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں آج کے خطاب میں بھی ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کے حوالے سے بات کی اور یہی ہمارا لائحہ عمل ہونا چاہئے اور یہی سچ ہے۔
مذاہبِ عالم کے ایک پروفیسر صاحب خلافتِ احمدیہ کے پیغام کے بارے میں یوں تبصرہ کرتے ہیں۔
مذاہب عالم کے ایک پروفیسر صاحب رجائنا کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر ایڈریس سننے کے بعد کہتے ہیں کہ نہایت پُرمعارف اور دلکش خطاب تھا۔ ان تمام خطابات میں سے نمایاں تھا جو میں نے مذاہب عالم کے پروفیسر کے طور پر سنے ہیں۔ امام جماعت کی جو بات مجھے بہت اچھی لگی وہ آپ کا واضح اور قابل عمل پیغام تھا کہ اگر دنیا میں سب امن چاہتے ہیں تو یہ ان غریبوں کو نظر انداز کر کے نہیں حاصل ہو سکتا جو تکالیف میں مبتلا ہیں۔ میرے خیال میں یہ پیغام بہت ہی واضح تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ میرے خیال میں موجودہ حالات کے پیش نظر جبکہ دُنیا کے مسائل کے اسلامی حل پر لوگ کچھ غلط فہمیوں میں اُلجھے ہوئے ہیں، ان کا پیغام بہت ضروری ہے یعنی جو مَیں نے کہا۔ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے اُن خدشات کو دُور کرنے کا ذمّہ لیا اور اُن کا پیغام ہمارے اس ملٹی کلچرل اور ملٹی ریلیجس سوسائٹی میں باہمی تعاون، اتفاق اور احترام کو ترویج دینے کے لئے بہت اہم تھا۔‘‘
سابق منسٹر برائے امیگریشن اینڈ ڈیفینس Jason Kenney خلافتِ احمدیہ کے پیغام کو امن کا ضامن قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
سابق منسٹر برائے امیگریشن اینڈ ڈیفینس Jason Kenney ان کے ہمارے پُرانے تعلقات ہیں۔ جماعت سے اور مجھ سے بھی ذاتی طور پر ان کا کافی تعلق ہے۔ وہ بھی وہاں آئے ہوئے تھے اور کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ ایک چھوٹی جماعت ہے لیکن بہت بڑھ چڑھ کر کام کرتی ہے اور اسلام کا روشن چہرہ دُنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے۔ اس وقت جو دُنیا کے حالات ہیں اور انتہا پسندی کے بارے میں غلط تصورات ہیں کہ اسلام انتہا پسندی کی اجازت دیتا ہے ایسی صورتحال میں جماعت احمدیہ ایک اکسیر کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ وہ اسلام ہے جو کینیڈا کی تہذیب کے عین مطابق ہے اور امن کا ضامن ہے اور کہتے ہیں میرے خیال میں مسجد کا افتتاح اور امام جماعت احمدیہ کا دورہ اس پورے علاقے کے لئے علم میں اضافے کا باعث ہو گا اور لوگوں کے سامنے اسلام کا خوبصورت چہرہ پیش کیا جائے گا۔
کینیڈا کے سابق وزیر اعظم سٹیفن ہارپر (Stephen Harper) نےا پنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
کینیڈا کے سابق وزیر اعظم سٹیفن ہارپر (Stephen Harper) نے یہاں اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے امام جماعت احمدیہ کو متعدد مقامات پر خطاب کرتے ہوئے سنا ہے اور انہوں نے ہمیشہ اسلام کا پُر امن پیغام دنیا تک پہنچایا ہے اور پھر خطاب کے بعد اپنا تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج شام بھی یہی کیا۔ یہ ایک عظیم الشان پیغام ہے جو اُن کی جماعت کے تمام ممبران کا عکس بھی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ میرے خیال میں امام جماعت کے ریمارکس بہت ہی ضروری اور اہم ہیں اور ہر ایک کو اُن کو سننے کی ضرورت ہے کیونکہ آج کے دَور میں انتہا پسند عناصر اسلام کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ یہی اصل اسلام ہےاور پھر کہتے ہیں خلیفۃ المسیح نے یہ کہا کہ اسلام کا مطلب ہی امن ہے۔ اسلام کا مطلب اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق سے محبت ہے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشل9 تا 15 دسمبر2016ء)
(جاویداقبال ناصر ۔جرمنی)