• 13 جولائی, 2025

سعداللہ لدھیانوی کی ہلاکت کا نشان اور مزید وضاحت

روزنامہ الفضل لندن آن لائن ایڈیشن مؤرخہ 22 مئی 2020 میں ایک مضمون بعنوان

’’نمونیہ پلیگ سے سعداللہ لدھیانوی کی ہلاکت‘‘ شائع ہوا ہے بلاشبہ مضمون مذکور عمدہ اور معلوماتی ہے لیکن مضمون کے ایک فقرہ میں ایک سنجیدہ ابہام پایا جاتا ہے جس کاازالہ اور وضاحت ضروری ہے۔

مضمون نگار لکھتے ہیں۔
’’ان تحریروں کی اشاعت کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں تین لڑکے پیدا ہوئے مگر سعداللہ لدھیانوی کے گھر میں لڑکا پیدا نہ ہوا اور جو اولاد اس کے ہاں پیدا ہوچکی تھی وہ پہلے ہی مرچکی تھی۔‘‘

اس پیراگراف کے آخری فقرہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پیشگوئی کی اشاعت کے وقت سعداللہ کی تمام اولاد مرچکی تھی اور اس کی اولاد میں سے اس وقت کوئی ایک بھی باقی نہ تھا جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ پیشگوئی کی اشاعت کے وقت سعداللہ کا ایک بیٹا زندہ موجود تھا اور وہ بیٹا جس کا نام محمود تھا سعداللہ کی وفات کے وقت بھی زندہ موجود تھا اس بیٹے کی پیشگوئی کی اشاعت کے وقت زندہ ہونے کا واضح اشارہ ان اشعار میں بھی موجود ہے جوحسرت ویاس کی حالت میں دعا کے رنگ میں سعداللہ نے کہے اور مضمون نگار نے اسی مضمون میں درج بھی کئے ہیں اور ترجمہ ان اشعار کا یوں لکھا ہے۔

’’اے بے نیاز! تونے مجھے اولاد دی تھی مگر ان میں سے بعض کو تونے واپس لے لیا۔‘‘

اس سے صاف عیاں ہے کہ سعداللہ تمام اولاد کے واپس لے لئے جانے کی بات نہیں کرتا بلکہ ان میں سے بعض کے وفات پاجانے کا رونا روتا ہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا پیشگوئی کی اشاعت کے وقت اورسعداللہ کی وفات کے بعد اس کے ایک بیٹے کے زندہ ہونے سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کی عظمت میں کوئی کمی آجاتی ہے تو صاف جواب ہے کہ ہرگز نہیں بلکہ اس بیٹے کا بوقت اشاعت پیشگوئی اور بعد وفات سعداللہ زندہ رہنے سے اس پیشگوئی کی عظمت میں نہ صرف کوئی کمی نہیں آتی بلکہ اس سے پیشگوئی کی عظمت مزید دوبالا ہوجاتی ہے اور اسے چارچاند لگ جاتے ہیں چنانچہ پیشگوئی کی اشاعت کے بعد اور سعداللہ کی وفات سے پہلے اس کی مزید وضاحت میں حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ الفاظ بھی تحریر فرمائے۔

’’اگر سعداللہ کا پہلا لڑکا نامرد نہیں ہے جوالہام انّ شانئک ھوالابتر سے پہلے پیدا ہوچکا تھا جس کی عمر تخمیناً 30 برس کی ہے تو کیا وجہ کہ باوجود اس قدر عمر گزرنے اور استطاعت کے اب تک اس کی شادی نہیں ہوئی اور نہ اس کی شادی کا کچھ فکر ہے اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے سعداللہ پر فرض ہے کہ اس پیشگوئی کی تکذیب کے لئے یا تو اپنے گھر میں اولاد پیداکرکے دکھلادے اور یا پہلے لڑکے کی شادی کرکے اور اولاد حاصل کراکر اس کی مردمی ثابت کرے اور یاد رکھے کہ ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات اس کو ہرگز حاصل نہیں ہوگی کیوں کہ خدا کے کلام نے اس کا نام ابتر رکھا ہے اور ممکن نہیں کہ خدا کا کلام باطل ہو یقیناً وہ ابتر ہی مرے گا جیسا کہ آثار نے بھی ظاہر کردیا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 حاشیہ صفحہ 378)

مذکورہ بالا الفاظ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے سعداللہ کے لئے مزید آسانی پیدا کردی تھی کہ پیشگوئی کی تکذیب کے لئے ضروری نہیں کہ سعداللہ کے ہاں براہ راست اپنے ہی گھر میں پیشگوئی کے بعد کوئی اولاد ہو بلکہ اگر اس کے اس وقت موجود بیٹے کے ہاں بھی اولاد پیدا ہوجائے تب بھی پیشگوئی کو غلط تسلیم کیا جائے گا لیکن بمطابق ایں حقیقت کہ

جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

حضرت اقدس علیہ السلام کے مذکورہ بالا الفاظ تحریر فرمانے کے چند روز بعد سعداللہ لدھیانوی حسرت ویاس کی تصویر بن کر پیشگوئی کے مطابق ذلت ورسوائی اور نامرادی کے ساتھ نمونیہ پلیگ کے نتیجہ میں ہلاک ہو کر نشان عبرت بن گیا اور ایک مرتبہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات آپ کے حق میں پوری ہوئی

جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زارونزار

سعداللہ کی وفات کے بعد اس کا بیٹا محمود نامی زندہ تھا اس کی شادی ہوئی لیکن کوئی اولاد نہ ہوئی۔ مولوی ثناء اللہ امرتسری وغیرہ نے اس پر زور دے کر اس کی دوسری شادی کروائی مگر اس سے بھی کوئی اولاد پیدا نہ ہوسکی اور تمام عمر لاولد رہنے کے بعد بالآخر 12 جولائی 1926 کو موضع کرم کلاں میں معاندین احمدیت کی آخری امید پر بھی پانی پھیرتا ہوا اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا

(حوالہ کے لئے دیکھیں تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 482 و احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک مصنفہ قاضی محمد نذیر لائلپوری صفحہ 195)

سعداللہ کی وفات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کے پورا ہوجانے پر آپ علیہ السلام نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس مضمون کو اپنی کتاب حقیقۃ الوحی مندرج روحانی خزائن جلد 22 کے صفحہ435 تا 456 میں بیان فرمایا ہے۔

حضور ؑفرماتے ہیں ۔
’’پیشگوئی کے بعد تخمیناً بارہ سال تک سعداللہ زندہ رہا اور جَورو رکھتا تھا مگر پھر بھی اولاد کا ہونا ایسا رک گیا جیسا کہ ایک سیلاب کے آگے بندھ لگایا جاتا ہے اور لڑکا جو پیشگوئی سے پہلے بعمر پندرہ سال موجود تھا وہ بھی تیس سال تک پہنچ گیا اور شادی تک نوبت نہ آئی اور سعداللہ ایک جوان مضبوط تھا اور اس لائق تھاکہ پیشگوئی کے بعد کئی لڑکے اس کے گھر میں پیدا ہوجاتے لیکن پیشگوئی کے بعد موت کے دن تک اس کے گھر میں کوئی زندہ رہنے والا لڑکا پیدا نہیں ہوا اور نہ اس کے لڑکے کے گھر میں کچھ اولاد ہوئی بلکہ اب تک وہ شادی سے محروم ہے اور سناگیا ہے کہ اس کی عمر تیس برس یا اس سے زائد ہے پس پیشگوئی نے اپنی سچائی کو ظاہر کردیا کہ پیشگوئی کے بعد خداتعالیٰ نے سعداللہ کے گھر میں نسل کا پیدا کرنا روک دیا ہر ایک شخص جو کچھ حیا اور شرم کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ پیشگوئی کے ساتھ ہی آئندہ بارہ برس تک سلسلہ اولاد کا قطع ہوجانا اور اسی حالت میں سعداللہ کا مرجانا یہ ایسا امر نہیں ہے کہ نظرانداز کیا جائے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ 443)

کیا ہی خوب فرمایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے۔

پیشگوئی کا جب انجام ہویدا ہوگا
قدرت حق کا عجب ایک تماشا ہوگا
جھوٹ اور سچ میں جو ہے فرق وہ پیدا ہوگا
کوئی پا جائے گا عزت کوئی رسوا ہوگا

(محمد عثمان شاہد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 مئی 2020

اگلا پڑھیں

01 جون 2020ء Covid-19 Update