• 28 مئی, 2025

مضمون نویسی کی اہمیت اور طریق کار

اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ’’سلطان القلم‘‘ کے آسمانی خطاب سے نوازا ہے۔ آپ نے تحریر وتقریر کے میدان میں ایک فتح نصیب جرنیل کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے مفوضہ ذمہ داریوں کو نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیا اور ایسا بے نظیر لٹریچر مہیا کردیا جو دلائل وبراہین کا بحربےکنار ہے۔ ایک طالب حق علم ومعرفت کے اس سمندر میں جس قدرغوطہ زن ہوتا جاتا ہے وہ اُسی قدرفیض حاصل کرلیتاہے ۔ پس سلطان القلم کے سپاہی ہونے کے ناطے ضروری ہے کہ ہم بھی قلم کا استعمال سیکھیں اور آپ کےجاری کردہ چشمے کی برکات و تاثیرات کو عام کرنے کے لئے مقدور بھر کوشش کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ پیاسی روحوں تک یہ زندگی بخش پیغام پہنچ جائے ۔

محنت کی افادیت سے دنیاکا ہر باشعور انسان واقف ہے ۔ کسی بھی کام کواچھے طریق پرمکمل کرنےکے لئے محنت بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔کوئی انسان جس قدر محنت اور کوشش کرتا ہے اُسی قدر پھل پاتا ہے ۔ تحریر وتقریر میں بھی جس قدر مشق کی جائے اُن میں اُسی قدر نکھار پیدا ہوتا جاتا ہے اور بالآخر یہی مشق انسان کوایک نہ ایک دن ماہر بنادیتی ہے ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بہت معمورالاوقات تھے ۔ آپ نے قلم کے جس جہاد کا آغاز فرمایا تھا اُس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے آپ بے انتہا محنت فرمایاکرتے تھے ۔ آپ فرماتے ہیں“یہ وقت بھی ایک قسم کے جہاد کا ہے۔ میں رات کے تین تین بجے تک جاگتا ہوں اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ اس میں حصہ لے اور دینی ضرورتوں اور دینی کاموں میں دن رات ایک کردے۔”

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 510)

حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام قلمی تائید کرنے والوں کو بہت پسند فرماتے تھے۔ آپ کا ارشاد مبارک ہے۔ ’’اگر کوئی تائیدِ دین کے لیے ایک لفظ نکال کر ہمیں دیدے تو ہمیں موتیوں اور اشرفیوں کی جھولی سے بھی زیادہ بیش قیمت معلوم ہوتا ہے جو شخص چاہے کہ ہم اُس سے پیار کریں اور ہماری دعائیں نیاز مندی اور سوز سے اس کے حق میں آسمان پر جائیں وہ ہمیں اس بات کا یقین دلادے کہ وہ خادم ِدین ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلداوّل صفحہ 311)

نیز فرمایا۔ ’’اِس وقت ہم پر قلم کی تلواریں چلائی جاتی ہیں اور اعتراض کے تیروں کی بوچھاڑ ہو رہی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اپنی قوتوں کو بیکار نہ کریں اور خدا کے پاک دین اور اس کے برگزیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت کے اثبات کے لئے اپنی قلموں کے نیزوں کو تیز کریں۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 150)

اچھا مضمون یا مقالہ لکھنے کے لئے وسیع مطالعہ از حد ضروری ہے ۔جس موضوع پر آپ لکھنا چاہتے ہیں اُس سے متعلق اخبارات ، رسائل اور کتب کا مطالعہ کریں اور اس موضوع کے متعلق واقفیت پیدا کریں ۔ہرتحریر غور سے پڑھیں اور اس تحریر کے نفس مضمون کو اپنے الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کریں ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ’’آخر ہم مضامین لکھتے ہیں تو کیا فرشتے آکر ہمیں نوٹ لکھواتے ہیں ۔ہم بھی دوسری کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان سے مسائل اخذ کرکے مضامین لکھتے ہیں۔‘‘

(مشعل راہ جلد اوّل صفحہ 584)

کسی اچھی بات کو بار بار مختلف پیرائے میں بیان کرنا قرآن کریم کی تعلیم کے عین مطابق ہے ۔ کیا معلوم کس وقت کونسی بات کسی کے دل پر اثر کرجائے اور کوئی انسان ہماری وجہ سے راہ راست پرآجائے ۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ہم جو کتاب کو لمبا کردیتے ہیں اور ایک ہی بات کو مختلف پیرایوں میں بیان کرتے ہیں اس سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ مختلف طبائع مختلف مذاق کے ناظرین کسی نہ کسی طریقے سے سمجھیں اور شاید کسی کو کوئی نکتہ دل لگ جائے اور اس سے ہدایت پالے اوریوں بھی اکثر دل جو طرح طرح کی غفلتوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ اُن کو بیدار کرنے کے لئے ایک بات کا بار بار بیان کرنا ضروری ہوتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 432)

مواد: جس موضوع پر لکھنا چاہتے ہیں اُس کے لئے مواد تلاش کریں ۔مضمون سے متعلق جو موادنظر سے گزرے، بہتر ہوگا کہ کسی کاغذ یا ڈائری میں اُس اخبار،رسالہ یا کتاب کا حوالہ نوٹ کرلیں۔ مثلاً کتاب کا نام، صفحہ نمبر ،اخبار یا رسالہ کی تاریخ اشاعت وغیرہ۔ جماعتی ویب سائیٹ alislam.org سے کتب ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں۔ متعدد جماعتی اخبارات اور رسائل بھی اس ویب سائیٹ پر دستیاب ہیں۔ کسی بھی موضوع سے متعلق مواد تلاش کرنے کے لئے قرآن کریم اور دیگر کتب کے انڈیکس سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔

مضمون یا مقالہ کس طرح لکھا جائے

  • ہر ذیلی عنوان کے آغاز پراُس کی اہمیت واضح کریں۔
  • مضمون کی افادیت بڑھانے کے لئے آیات، احادیث، ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ارشادات خلفاء سلسلہ احمدیہ درج کریں۔
  • بزرگان سلسلہ کی آراء درج کریں یا موضوع کی مناسبت سے اُسے دیگر صاحب علم احباب کی تحریروں سے مزّین کریں ۔
  • مضمون میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے واقعات نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
  • مضمون کے آخر پر اسے سمیٹیں، مضمون کا موزوں نتیجہ نکالیں اور اس کے فوائدبیان کریں۔
  • مناسب مقامات پر سرخیاں اور ذیلی عناوین موٹے الفاظ میں درج کریں گے تو مضمون زیادہ واضح ہوجائے گا اور سمجھنے میں بھی آسانی ہوگی۔
  • مضمون کاغذ کے ایک طرف اور صاف صاف لکھاجائے۔
  • اقتباسات دونوں طرف جگہ چھوڑ کر لکھے جائیں۔
  • عربی عبارت اور اشعار واضح اور صاف لکھیں۔
  • مقالہ یا مضمون مکمل کرنے کے بعد نظر ثانی کرنا نہ بھولیں ۔

اصل ماخذ: اپنے مضمون میں اگر کسی کتاب ، اخبار یا رسالہ کا حوالہ درج کریں تو بہتر ہوگا کہ اُسے اصل کتاب سے چیک کرلیں۔ جماعتی اخبارات اور رسائل میں اس موضوع کی مناسب سے بہت سے مضامین مل سکتے ہیں۔ ان مضامین میں درج قرآن کریم، احادیث، ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کے ارشادات کو اصل کتب میں چیک کرلیں۔ حوالہ جات کسی بھی اچھے مضمون کی زینت ہوتے ہیں۔ اس لئے ہر ممکن کوشش کی جائے کہ اصل ماخذ (Original Source) سے حوالہ جات درج کئے جائیں۔ اصل ماخذ سے مراد وہ کتاب،رسالہ یا اخبار ہے جس میں سے مضمون نگار یا مقالہ نویس نے عبارت اصل حالت میں درج کی ہو۔ اگر اصل کتاب نہ مل سکے تو جس جگہ سے وہ حوالہ درج کیا گیا ہے اُس کتاب، اخبار اور رسالہ کا بھی ساتھ ذکر کریں۔ مثلاً (ملفوظات جلد، صفحہ نمبر، بحوالہ الفضل آن لائن، تاریخ اشاعت، صفحہ نمبر، کالم وغیرہ) بعض مضمون نگار ثانوی ذرائع سے حاصل کئے ہوئے اقتباسات کو اصل ماخذ کے طور پر درج کردیتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے بلکہ یہ تحقیق اور ریسرچ کے اصول کے خلاف ہے کیونکہ ہوسکتا ہے جہاں نے آپ نے حوالہ یا اقتباس درج کیا ہے اُس مضمون نگار نے اقتباس درج کرتے وقت صحیح معیار اور سند کا خیال نہ رکھا ہو ۔ اس لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ حوالہ جات اصل ماخذ سے تلاش کئے جائیں۔

حوالہ درج کرنے کا طریق

قرآن کریم: سورۃ کا نام اور آیت نمبر ۔مثلاً
اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقَ الَّیْلِ

ِ(بنیٓ اسرآئیل:79)

ترجمہ: سورج ڈھلنے سے شروع ہوکر رات کے چھا جانے تک نماز کو قائم کر۔

حدیث: حدیث کی کتاب کانام (صحیح مسلم)، کتاب کا نام (کتاب الایمان)، باب کا نام۔ مثلاً عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ أَوِ الْعَمَلِ الصَّلَاۃُ لِوَقْتِھَا وَبِرُّ الْوَالِدَیْنِ

(صحیح مسلم ،کتاب الایمان ،بَاب بَیَانِ کَوْنِ الْاِیْمَانِ بِاللّٰہِ تَعَالٰی أَفْضَلَ الْأَعْمَاالِ)

ترجمہ: حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایاکہ بہترین اعمال یا عمل یہ ہے کہ نماز اس کے وقت پر ادا کرنا اور والدین سے حسن سلوک کرنا۔

کتب: کتاب کانام،جلدنمبر،صفحہ نمبر،ایڈیشن،مقام اشاعت، ناشر، مصنف کا نام وغیرہ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’اور یہ بھی یاد رکھو کہ یہ جو پانچ وقت نماز کے لیے مقرر ہیں یہ کوئی تحکم اور جبر کے طور پر نہیں بلکہ اگر غور کرو تو یہ دراصل روحانی حالتوں کی ایک عکسی تصویر ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ نمبر95 ۔ایڈیشن 2003ء۔ ناشرنظارت نشرواشاعت قادیان)

رسائل وجرائد واخبارات: جو حوالہ جات رسائل وجرائد اور اخبارات سے درج کریں اُن کا مکمل حوالہ لکھیں۔ رسالہ، جریدہ یا اخبار کانام، مقام اشاعت، جلد نمبر، شمارہ، صفحہ نمبر وغیرہ۔ مثلاً حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’نماز کے پڑھنے کی طرف جب بھی اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے تو اس طرف توجہ دلائی کہ نماز میں باقاعدگی بھی ہو، تمام نمازیں وقت پر ادا ہوں اور باجماعت ادا ہوں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍ستمبر2017ء۔مطبوعہ، ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن جلد نمبر 24۔ 20 تا 26؍اکتوبر 2017ء)

ایک مشورہ: مضمون لکھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کا کچھ خاکہ تیار کر لیا جائے ۔جب بھی مضمون کی مناسبت سے کوئی مفید بات ذہن میں آئے تو اُسے فوراً نوٹ کرلیا جائے ۔ اس طرح آپ کے پاس اُس مضمون کے متعلق ایک خاکہ تیار ہونا شروع ہوجائے گا ۔ بعد میں انہیں نوٹس کو کانٹ چھانٹ کر آپ اپنے مضمون میں نکھار پیدا کرسکتے ہیں ۔انسان کو لکھنے کی مشق کرتے رہنا چاہئے ۔جب اپنے لکھے ہوئے ہوئے کو بار بار پڑھیں گے تو کئی مفید باتیں آپ کے ذہن میں آئیں گی اور اس طرح مشق ایک نہ ایک دن انسان کو ماہر بنا دیتی ہے ۔ مضمون نگاری کے سلسلہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔

’’یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ مضمون کو کئی جگہ دکھانا اچھی بات نہیں۔ اس سے خود اعتمادی کی روح مجروح ہوتی ہے ۔ ہر انسان جداگانہ خیال رکھتا ہے ۔دوسروں کی آراء و ترمیمات کا دخل لازماً اصل مضمون کی ہیئت بدل دیتا ہے اور پھر وہ اپنا مضمون نہیں رہتا بلکہ دوسروں کی خیالات کا مرقع بن جاتا ہے ۔ یہی بات خود اعتمادی کے منافی ہے اس لئے اصولاً اتنا ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ جس موضوع پر مضمون لکھنا ہے وہ حتی الوسع پہلے اچھی طرح سمجھ لیا گیا ہے اور پھر دیانتداری سے قال اللہ وقال الرسول کی روشنی میں اس کو لکھا ہے۔‘‘

(حیات بشیر صفحہ 431۔ مؤلف :شیخ عبدالقادر)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ کو جماعت کی روحانی تربیت،عملی اصلاح اور علمی ترقی کا بہت خیال رہتا تھا۔ آپ کی یہ خواہش تھی کہ افرادِ جماعت ہر میدان میں دوسروں کے لئے نمونہ بنیں۔ 1958ء میں آپ کو ایک رؤیا کے ذریعہ اس طرف توجہ دلائی گئی کہ آپ احمدی نوجوانوں کو تحقیقی مضامین لکھنے اور اسلام احمدیت کی تائید میں علمی لٹریچر تیار کرنے کی طرف توجہ دلائیں۔ چنانچہ آپ نے الفضل میں دو مقالے رقم فرمائے ۔ آپ نے تحریر فرماتے ہیں کہ

’’قلم علم کی اشاعت اور حق کی تبلیغ کا سب سے اہم اور سب سے مؤثر ترین ذریعہ ہے اور زبان کے مقابلہ پر قلم کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس کا حلقہ نہایت وسیع اور اس کا نتیجہ بہت لمبا بلکہ عملاً دائمی ہوتا ہے۔ زبان کی بات عام طورپر منہ سے نکل کر ہوا میں گم ہوجاتی ہے۔ سوائے اس کے کہ اسے قلم کے ذریعہ محفوظ کرلیا جائے۔ مگر قلم دنیا بھر کی وسعت اور ہمیشگی کا پیغام لے کر آتی ہے اور پریس کی ایجاد نے تو قلم کو وہ عالمگیر پھیلاؤ اور وہ دوام عطا کیا ہے جس کی اس زمانہ میں کوئی نظیر نہیں کیونکہ قلم کا لکھا ہو اگویا پتھر کی لکیر ہوتا ہے۔ جسے کوئی چیز مٹا نہیں سکتی … پس اے عزیزو اور میرے دوستو! اپنے فرض کو پہچانو سلطان القلم کی جماعت میں ہوکر اسلام کی قلمی خدمت میں وہ جوہر دکھاؤ کہ اسلاف کی تلواریں تمہاری قلموں پر فخر کریں۔ تمہارے سینوں میں اب بھی سعد بن ابی وقاص اور خالد بن ولید اور عمرو بن عاص اور دیگر صحابہ کرام اور قاسم اور قتیبہ اور طارق اور دوسرے فدایان اسلام کی روحیں باہر آنے کے لئے تڑپ رہی ہیں۔ انہیں رستہ دو کہ جس طرح وہ قرون اولیٰ میں تلوار کے دھنی بنے اور ایک عالم کی آنکھوں کو اپنے کارناموں سے خیرہ کیا۔ اسی طرح اب وہ تمہارے اندر سے ہوکر (کیونکہ خدا اب بھی انہیں قدرتوں کا مالک ہے) قلم کے جوہر دکھائیں اور دنیا کی کایا پلٹ دیں۔‘‘

(حیات بشیر صفحہ 432۔ مؤلف :شیخ عبدالقادر)

پس لکھنے کی مشق جاری رکھئے، لکھئے اور لکھتے جائیے اور اس بات کو بھول جائیے کہ آپ کی تحریر کسی اخبار یا جریدے میں شائع ہوتی ہے یا نہیں۔ اگر آپ ہمت نہیں ہاریں گے تو ان شاء اللہ ایک دن آپ کے قلم سے ایسی تحریر ضرور نکلے گی جو کسی اخبار یا جریدہ کی زینت بن سکے۔ ہمارا کوئی بھی کام دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کی مددواستعانت کے بغیر پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس لئے ہمیں زندگی کے ہر معاملہ میں دعاؤں سے بہت کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہماری مدد اور رہنمائی فرمائے اور ہمیں حضرت اقدس علیہ السلام کے جاری کردہ قلمی جہادکے وسیع میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(ظہیر احمد طاہر۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 مئی 2020

اگلا پڑھیں

01 جون 2020ء Covid-19 Update