• 28 جون, 2025

دل آئینہ ہے جس میں خدا دِکھتا ہے

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

صِبۡغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً ۫ وَّ نَحۡنُ لَہٗ عٰبِدُوۡنَ

(البقرہ: 139)

ترجمہ: اللہ کا رنگ پکڑواور رنگ میں اللہ سے بہتراور کون ہو سکتا ہےاور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں۔

اس مضمون کوسیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی معرکہ آراء کتاب حقیقۃ الوحی میں بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وجود کو انسان کے دل پر جو آئینہ کے طور پر ہے حسبِ استطاعت اُتارتا ہے اور اس کے سب سے زیادہ مستحق انبیاء ہوتے ہیں اور ان انبیاء میں سے سب سے بڑھ کر ہمارے بہت ہی پیارے رسول حضرت محمد مصطفے ﷺ ہیں جن پر خدا تعالیٰ پوری شان کے ساتھ آشکار ہوا۔ اس آرٹیکل میں اس حوالہ سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات حقیقۃ الوحی سے دیئے جا رہے ہیں تا حضرت محمد مصطفے ﷺ کی سیرت کو اپنا کرہم سب خدا تعالیٰ کے پیارے بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ 

(آل ِعمران: 32)

ترجمہ: ’’تُو کہہ دےاگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے۔‘‘

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’خدا تعالیٰ ہر ایک کی استعدادِ فطرت کے موافق اپنا چہرہ اُس کو دِکھا دیتا ہے اور فطرتوں کی کمی بیشی کی وجہ سے وہ چہرہ کہیں چھوٹا ہوجاتاہے اور کہیں بڑا جیسے مثلاً ایک بڑا چہرہ ایک آرسی کے شیشہ میں نہایت چھوٹا معلوم ہوتا ہے مگر وہی چہرہ ایک بڑے شیشہ میں بڑا دِکھائی دیتا ہے مگر شیشہ خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا چہرہ کے تمام اعضاء اور نقوش دِکھا دیتا ہے۔ صرف یہ فرق ہے کہ چھوٹا شیشہ پورا مقدار چہرہ کا دِکھلا نہیں سکتا۔ سو جس طرح چھوٹے اور بڑے شیشہ میں یہ کمی بیشی پائی جاتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کی ذات اگرچہ قدیم اور غیر متبدّل ہے مگر انسانی استعداد کے لحاظ سے اِس میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور اس قدر فرق نمودار ہو جاتے ہیں کہ گویا اظہارِ صفات کے لحاظ سے جو زید کا خدا ہے اُس سے بڑھ کر وہ خدا ہے جو بکر کا خدا ہے اور اس سے بڑھ کر وہ جو خالد کا خدا ہے مگر خدا تین نہیں خدا ایک ہی ہے صرف تجلّیاتِ مختلفہ کی وجہ سے اس کی شانیں مختلف طور پر ظاہر ہوتی ہیں جیسا کہ موسیٰ اور عیسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا ایک ہی ہے تین خدا نہیں ہیں مگر مختلف تجلّیات کی رُو سے اُسی ایک خدا میں تین شانیں ظاہر ہو گئیں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ 28)

’’جب ایک انسان سچے دل سے خدا سے محبت کرتا ہے اور تمام دُنیا پر اُس کو اختیار کر لیتا ہے اور غیر اللہ کی عظمت اور وجاہت اُس کے دل میں باقی نہیں رہتی بلکہ سب کو ایک مَرے ہوئے کیڑے سے بھی بدتر سمجھتا ہے۔ تب خدا جو اُس کے دل کو دیکھتا ہے ایک بھاری تجلّی کے ساتھ اُس پر نازل ہوتا ہے اور جس طرح ایک صاف آئینہ میں جو آفتاب کے مقابل پر رکھا گیا ہے آفتاب کا عکس ایسے پورے طور پر پڑتا ہے کہ مجاز اور استعارہ کے رنگ میں کہہ سکتے ہیں کہ وہی آفتاب جو آسمان پر ہے اس آئینہ میں بھی موجود ہے۔ ایسا ہی خدا ایسے دل پر اُترتا ہے اور اُس کے دل کو اپنا عرش بنا لیتا ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ 65)

’’جیسا کہ بیٹا باپ سے پیدا ہوتا ہے ایسا ہی عکس اپنے اصل سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جبکہ ایسے دل میں جو نہایت صافی ہے اور کوئی کدورت اُس میں باقی نہیں رہی تجلّیات الٰہیہ کا انعکاس ہوتا ہے تو وہ عکسی تصویر استعارہ کے رنگ میں اصل کے لئے بطور بیٹے کے ہو جاتی ہے۔ اِسی بناء پر توریت میں کہا گیا ہے کہ یعقوب میرا بیٹا بلکہ میرا پلوٹھا بیٹا ہے اور عیسیٰ ابن مریم کو جو انجیلوں میں بیٹا کہا گیا۔ اگر عیسائی لوگ اِسی حدتک کھڑے رہتے کہ جیسے ابراہیم اور اسحاق اور اسمٰعیل اور یعقوب اور یوسف اور موسیٰ اور داؤد اور سلیمان وغیرہ خدا کی کتابوں میں استعارہ کے رنگ میں خدا کے بیٹے کہلائے ہیں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ 66)

’’پس چونکہ قدیم سے اور جب سے کہ دُنیا پیدا ہوئی ہے خدا کا شناخت کرنا نبی کے شناخت کرنے سے وابستہ ہے اِس لئے یہ خود غیر ممکن اور محال ہے کہ بجز ذریعہ نبی کے توحید مل سکے۔ نبی خدا کی صورت دیکھنے کا آئینہ ہوتا ہے اسی آئینہ کے ذریعہ سے خدا کا چہرہ نظر آتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ اپنے تئیں دُنیا پر ظاہر کرنا چاہتا ہے تو نبی کو جو اُس کی قدرتوں کا مظہر ہے دُنیا میں بھیجتا ہے اور اپنی وحی اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی ربوبیت کی طاقتیں اس کے ذریعہ سے دِکھلاتا ہے۔ تب دُنیا کو پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے۔ پس جن لوگوں کا وجود ضروری طور پر خدا کے قدیم قانونِ ازلی کے رُو سے خد اشناسی کے لئے ذریعہ مقرر ہو چکا ہے اُن پر ایمان لانا توحید کی ایک جزو ہے اور بجز اس ایمان کے توحید کامل نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ بغیر اُن آسمانی نشانوں اور قدرت نما عجائبات کے جو نبی دِکھلاتے ہیں اور معرفت تک پہنچاتے ہیں وہ خالص توحید جو چشمۂ یقین کامل سے پیدا ہوتی ہے میسر آسکے۔ وہی ایک قوم ہے جو خدا نما ہے جن کے ذریعہ سے وہ خدا جس کا وجود دقیق در دقیق اور مخفی در مخفی اور غیب الغیب ہے ظاہر ہوتا ہے اور ہمیشہ سے وہ کنزِ مخفی جس کا نام خدا ہے نبیوں کے ذریعہ سے ہی شناخت کیا گیا ہے۔ ورنہ وہ توحید جو خدا کے نزدیک توحید کہلاتی ہے جس پر عملی رنگ کامل طور پر چڑھا ہوا ہوتا ہے اُس کا حاصل ہونا بغیر ذریعہ نبی کے جیسا کہ خلاف عقل ہے ویسا ہی خلافِ تجارب سالکین ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ115۔116)

’’ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اِسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اِسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نُور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں اِسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے اس آفتابِ ہدایت کی شعاع دُھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اُسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اُس کے مقابل پر کھڑے ہیں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ119)

’’خلاصہ یہ کہ میں اِس بات کو بالکل سمجھ نہیں سکتا کہ ایک شخص خدا تعالیٰ پر ایمان لاوے اور اُس کو واحد لا شریک سمجھے اور خدا اُس کو دوزخ سے تو نجات دے مگر نابینائی سے نجات نہ دے حالانکہ نجات کی جڑھ معرفت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰی وَ اَضَلَّ سَبِیْلًا یعنی جو شخص اِس جہان میں اندھا ہے وہ دُوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا یا اِس سے بھی بدتر۔ یہ بات بالکل سچ ہے کہ جس نے خدا کے رسولوں کو شناخت نہیں کیا اُس نے خدا کو بھی شناخت نہیں کیا۔ خدا کے چہرے کا آئینہ اُس کے رسول ہیں۔ ہر ایک جو خدا کو دیکھتا ہے اسی آئینہ کے ذریعہ سے دیکھتا ہے۔ پس یہ کس قسم کی نجات ہے کہ ایک شخص دُنیا میں تمام عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکذّب اور منکر رہا اور قرآن شریف سے انکاری رہا اور خدا تعالیٰ نے اُس کو آنکھیں نہ بخشیں اور دل نہ دیا اور وہ اندھا ہی رہا اور اندھا ہی مر گیا اور پھر نجات بھی پا گیا۔ یہ عجیب نجات ہے !‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ151)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر47، دو جون 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جون 2020