قسط دوم آخر
ہندوستان کی غیر مسلم اقوام میں تبلیغ
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نےاپریل 1922ء میں اچھوت اقوام میں تبلیغ کےلئے خاص عملہ مقررفرمایا اور ان اقوام میں اشاعت اسلام کا ارشاد فرمایا ۔ چنانچہ کچھ عرصہ میں ہی بہت سےمٍذہبی سکھ بالیکی اور دوسرے اچھوت اسلام احمدیت میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ ابتدائی طور پراشاعت اسلام کا یہ کام شیخ عبد الخالق نو مسلم کے ذریعہ مرکز احمدیت قادیان سے شروع ہواپھر دو اڑھائی سال میں جو اچھوت مسلمان ہوئے۔ ان کے ذریعہ اردگرد علاقوں میں تبلیغ ہوئی اور پھر پورے ملک میں یہ تحریک پھیل گئی۔ گیانی واحد حسین صاحب اچھوت اقوام کے طلباء کے مدرس مقرر ہوئے ۔مکرم مہاشہ فضل حسین صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیحؓ کی ہدایات کےتحت لٹریچرتیار کیا جس سے اچھوت اقوام میں بیداری پیدا ہوئی۔
1923ء میں مرکز احمدیت سےتحریک شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان ہوا اورصیغہ ‘‘انسداد ارتداد ملکانہ’’ کے نام سے دفتر کھولا گیا۔ متاثرہ علاقوں میں تبلیغ کرنے والوں کو واپسی پر خلیفہ وقت سے سند خوشنودی عطا ہوئی اور پھر حضور انور نے ان علاقوں میں مستقل مبلغین کا بھی تقرر فرمایا۔اس ضمن میں مرکز احمدیت سے جو کارہانئے نمایاں ہوئے اس کو غیروں نے بھی تسلیم کیا۔
چنانچہ اخبار مشرق نے لکھا۔
’’جماعت احمدیہ نے خصوصیت کے ساتھ آریہ خیالات پر بہت بڑی ضرب لگائی ہے اور جماعت احمدیہ جس ایثار اور درد سے تبلیغ و اشاعت اسلام کی کوشش کرتی ہے وہ اس زمانہ میں دوسری جماعتوں میں نظر نہیں آتی۔‘‘
(مشرق 15 مارچ 1923ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ43)
فنڈز کا قیام
مرکز احمدیت میں اشاعت اسلام و احمدیت اور سلسلہ کی ضروریات کے پیش نظر ایک مستقل فنڈ کی ضرورت تھی چنانچہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد میں اشاعت اسلام کے لئے جائیدادوں کو وقف کرنے کی طرح حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے بھی 1932ء میں ریزرو فنڈ کی مستقل بنیاد رکھی اور سندھ میں زمینیں خریدی گئیں۔
مرکز احمدیت میں ادارہ جات کا قیام
اشاعت اسلام کے کام کا منظم طریق پر جاری رکھنے کے لئےآپؓ نے 1919ء میں صدر انجمن کا ادارہ قائم فرمایا اور ابتداءً ناظراعلیٰ، ناظر تالیف و اشاعت، ناظر تعلیم و تربیت ،ناظر اُمور عامہ اور ناظر بیت المال مقرر فرمائے۔ ناظر تالیف و اشاعت مولوی شیر علی صاحب کو بنایا۔ 1915ء میں مزید نظارتیں عمل میں آئیں جن میں نظارت دعوت و تبلیغ بھی تھی۔جس کے پہلےناظر چوہدری فتح محمد سیال مقرر ہوئے۔ اسی طرح اپریل 1922ء کو مستقل طور پرمجلس شوریٰ کی بنیاد رکھی۔
حضور انورؓ کاسفر یورپ
1924ء کا سال تبلیغ و اشاعت اسلام کے حوالہ سے اہم تھا کیونکہ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےیورپ کا پہلا سفرفرمایاجس کے نتیجہ میں مغربی ممالک میں اشاعت اسلام کےنیا دَور کا آغاز ہوا۔ سفر یورپ کا ایک مقصد تو یہ تھا جس کا حضور انور نے خود بھی اپنے مکتوب میں ذکر فرمایا کہ مہینہ ڈیڑھ مہینہ رہ کر نہ صرف مذہبی کانفرنس میں شامل ہوں بلکہ اس سے پہلے اور بعد انگلستان اور دوسرے ممالک کے لوگوں کو ملاقات کا موقع دے کر سلسلہ کی طرف ان کی توجہ کوکھینچیں…….دوسرا یہ کہ جماعت احمدیہ مغربی ممالک میں مشن قائم کررہی ہے تو امام جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان ممالک کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ان کے حالات کا مطالعہ کرے تا تبلیغ کی مکمل سکیم تیار ہوسکے اور مرکز اور مبلغین کا تعلق زیادہ مضبوط ہوجائے۔
(مکتوب حضور انور 14مئی 1924ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد4 ص424)
نیز آپؓ نے رؤیا میں دیکھا کہ آپؓ لنڈن میں ہیں اور ایک جلسہ میں آپؓ شامل ہیں۔ مسٹر لائڈ جارج (سابق برطانوی وزیر اعظم) اس جلسہ میں تقریر کررہے ہیں کہ یکدم ان کی حالت بدل گئی اور اُنہوں نے دہشت زدہ ہوکر کہا کہ مجھے ابھی خبر آئی ہے کہ مرزا محمود امام جماعت احمدیہ کی فوجیں عیسائی لشکر کو دباتی چلی آتی ہیں اور مسیحی لشکر شکست کھا رہا ہے۔‘‘
(ملخص از الفضل 24 جون 1924ء)
چنانچہ 23 ستمبر 1924ء کے سنہری روز حضرت مصلح موعودؓ کا ویمبلے کانفرنس میں بے مثل مضمون پڑھاگیا جس سے جہاں ایک طرف حضرت مسیح موعودؑ کا لندن میں تقریر کرنے والی رؤیا پوری ہوئی وہاں اسلام کی فتح کے جھنڈے لہرائے۔ سفر یورپ کے دوران حضور انور نے تبلیغی لیکچرز دئیے اور یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ ریویو آف ریلیجنز کا انگریزی ایڈیشن آئندہ لندن سے شائع ہوا کرے۔ پھر 19۔اکتوبر 1924ء کے بابرکت اور یاددگار دن کو مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔
غیر مسلموں کا قبول اسلام
13۔اپریل 1914ء کو پشاور مشن کے ایک فاضل مسیحی شیخ عبد الخالق نےحضورانورسےتبادلہ خیالات کے بعد قبول اسلام کرلیا۔بعد میں رد عیسائیت اور تائید اسلام میں خوب کام کیا۔ پروفیسر ریگ کلیمنٹ نے خلافت ثانیہ میں احمدیت قبول کی۔1942ء میں روسی ترجمان نےاسلام احمدیت کوقبول کیا۔اسی طرح دو ہسپانوی باشندوں نے قبول اسلام احمدیت کی سعات پائی۔غرضیکہ کہ خلافت ثانیہ میں تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں پوری دنیا میں اشاعت اسلام ہوئی جس کے نتیجہ میں ہزاروں سعید روحوں نے قبول احمدیت کی توفیق پائی۔
خلافت ثانیہ میں جماعت احمدیہ کا پیغام دُنیا کے کئی ممالک میں پہنچ چکا تھا جس نے محققین کو دعوت تحقیق دی۔ چنانچہ ڈنمارک کی دو خواتین سلسلہ احمدیہ کی تحقیق کے لئے قادیان آئیں۔ اسی طرح ایک عرب سیاح محمد سعد الدین قادیان میں آیا۔ مسٹر عبد اللہ سکاٹ 9مئی 1931ء کو قادیان میں مرکز احمدیت کی برکات سےمستفیض ہوئے۔ ایک افغانی سیاح قادیان میں 30مئی 1931ء کو آیا۔
خلافت ثانیہ میں مرکز احمدیت قادیان میں دیگر تبلیغی مساعی
یکم مارچ1925ء کو اشاعت دین کی غرض سےانجمن احمدیہ خدام الاسلام کا قیام عمل میں آیا۔جس نے کثیر تعداد میں تبلیغی ٹریکٹ شائع کئے۔ 29جنوری 1926ء کے جلسہ سالانہ میں چوبیس زبانوں میں تقریریں ہوئیں۔ 22مئی 1926ء کے اہم دن قصر خلافت کی بنیاد رکھی گئی۔
آریہ مصنفین کی طرف سے جب اسلام اور بانیٔ اسلام پر اعتراضات کئے گئے اورآریہ سماجی راجپال نے رنگیلا رسول کتاب شائع کی اورامرتسر کے ہندو رسالہ ورتمان نے بھی مئی1927ء میں اسلام کے خلاف دلآزار مضمون لکھا تواس کے جواب میں حضور انورنے پوسٹر بعنوان ’’رسول کریمؐ کی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہونگے‘‘ شائع کروایا۔ پھر ملک بھر میں سیرت النبیؐ کے جلسے منعقد کروائے۔ جس کے لئے 1400 مقررین کے نام پیش ہوئے۔ مرکز احمدیت قادیان میں بھی جلسہ سیرت النبیؐ کا انعقاد ہوا جس میں تمام مذاہب کے لوگوں نے شرکت کی۔
15۔اپریل 1928ء کو مدرسہ احمدیہ کو جامعہ احمدیہ میں تبدیل کردیا گیا جس کا افتتاح20 مئی 1928ء کو ہوا۔
مرکز احمدیت سے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے ہمیشہ آواز اُٹھی۔ نہرو رپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح کے نام سے رسالہ شائع ہوا۔ جماعت احمدیہ نےمسلم لیگ کا ہر قدم پر ساتھ دیا اور کشمیر کمیٹی میں نمایاں خدمات کیں۔ قیام پاکستان میں مرکز احمدیت کا کردار بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔
قادیان کی توسیع و ترقی
احمدیت کی ترقی کے ساتھ مرکز احمدیت کی ترقی و توسیع کی طرف بھی توجہ کی ضرورت تھی۔چنانچہ جلسہ سالانہ 1931ء کے موقع پر تحریک کی کہ قادیان میں مکان بنائیں تاکہ وسعت پیدا ہو۔ اس تحریک پر احباب نےلبیک کہا اور قادیان کے مشرق میں 4۔اپریل 1932ء کو محلہ دارالانوار کا قیام ہوا۔ 25۔اپریل کو وہاں کوٹھی دارالحمد کی بنیاد رکھی گئی۔اسی طرح بیت النصرت، بیت الظفر، گیسٹ ہاؤس اور دفتر خدام الاحمدیہ مرکزیہ بھی وہیں تعمیر ہوئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 27نومبر 1914ء کے خطبہ میں منارۃ المسیح کی تکمیل کی تحریک فرمائی۔ دسمبر 1915ء میں منارة المسیح کی تعمیر مکمل ہوئی۔ 21جون 1917ء کو نُور ہسپتال کی بنیاد رکھی۔ قادیان میں فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا 11 مئی 1944ء کو قیام ہوا۔ مجلس انصارسلطان القلم قائم ہوئی۔ 1936ء میں ہی حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور یوں جماعت کو ایک اورجید عالم میسر آئے۔
قادیان میں گیسٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد 27 ستمبر1937ء کورکھا گیا۔ 1928ء میں ریل کی آمد سےقادیان کے مرکز احمدیت کوپورے ملک ہندوستان سے ملا دیا گیا۔ 1921ء میں قادیان کی 4400 آبادی میں سے 2300 احمدی تھے جبکہ 1931ء میں احمدیوں کی تعداد 5195 ہوگئی۔
نیا مرکز احمدیت اور اشاعت اسلام (1947ء سے 1965ء)
14اگست 1947ء کوقیام پاکستان کے بعدخدائی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے جماعت احمدیہ کے ایک نئے مرکز ربوہ کی ابراہیمی دُعاؤں کے ساتھ بنیاد رکھی۔ اس نئے مرکز توحید کی بنیاد رکھتے ہوئے چاروں کونوں پر ایک ایک بکرے کی قربانی کرکے پانچواں بکرا اس علاقہ کے وسط میں قربان کیا گیا۔ بکروں کی قربانیوں کے بعد ایک ترک نوجوان نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی، جو نئے مرکز احمدیت کا پہلا پھل تھا۔حضرت مصلح موعودؓ نے نئے مرکز احمدیت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
’’ربوہ کی بنیاد کی غرض یہ تھی کہ یہاں زیادہ سے زیادہ نیکی اختیار کرنے والوں کو اس غرض سے بسنا چاہئے کہ وہ یہاں رہ کر دین کی اشاعت میں دوسروں سے زیادہ حصہ لیں گے۔ ہم نے اس مقام کو اس لئے بنایا ہے کہ تا اشاعت دین میں حصہ لینے والے لوگ یہاں جمع ہوں اور دین کی اشاعت کریں اور اس کی خاطر قربانی کریں۔ پس تم یہاں رہ کر نیک نمونہ دکھاؤ اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو۔ تم خداتعالیٰ سے تعلق قائم کرلو۔ اگر تم اس کی رضا کو حاصل کرلو تو ساری مصیبتیں اور کوفتیں دُور ہوجائیں اور راحت کے سامان پیدا ہو جائیں۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد13 ص172)
نئے مرکز ربوہ میں اشاعت اسلام کا کام پہلے سے بڑھ کر ہوا۔خلافت ثانیہ کے ہر سال میں کئی کئی مبلغین بیرون ملک میں اشاعت اسلام کے لئے تشریف لے جاتے۔ مرکز احمدیت ربوہ سے سیلون، لبنان، حلب، سیرالیون، لندن، گولڈ کوسٹ وغیرہ مبلغ بھجوائے گئے۔ اس کے علاوہ ربوہ مرکز بننے کے بعد اردن مشن کا قیام ہوا اور جرمن مشن کا احیاء ہوا اورمسجد فرانکفرٹ جرمنی کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ 1962ء میں مسجد محمود سوئٹزرلینڈ کی بنیاد رکھی گئی جس کا افتتاح 1963ء میں ہوا۔ مجلس مشاورت 1950ء میں مختلف ممالک سے 13 نمائندگان نے شرکت کی۔ اس مجلس شوریٰ میں تبلیغ اسلام کے لئے جدید لٹریچر تیار کرنے کی تحریک ہوئی۔ نیز حضور انور کی تحریک پرپورے پاکستان میں جلسہ ہائے سیرت النبی کا انعقاد ہوا۔ مارچ 1950ء میں لائبریری چنیوٹ سے ربوہ منتقل ہوئی۔ ربوہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول، قصر خلافت، دفاتر تحریک جدید، دفاتر صدر انجمن احمدیہ، دفاتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مسجد مبارک ربوہ کا سنگ بنیاد رکھا۔
1954ء میں رسالہ ’’مصباح‘‘ ضیاء الاسلام پریس میں چھپنے لگا۔ یہ پہلا رسالہ تھاجو ربوہ سے شائع ہوا۔ نیزاخبار ’’الرحمت‘‘ جاری ہوا۔ 1951ء میں ربوہ سے رسالہ ’’التبلیغ‘‘ کا اجراء ہوا۔ 1951ء سے ’’البدر‘‘ قادیان سے دوبارہ جاری ہوا۔ 1949ء میں سوئٹزرلینڈ سے رسالہ الاسلام کا اجراء ہوا جو بہت مقبول ہوا۔ 1957ء میں رسالہ تشحیذالاذہان کا دوبارہ اجراء ہوا۔ ربوہ سے رسالہ ’’البشریٰ‘‘ کا اجراء اکتوبر 1957ء میں ہوا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے 1952ء کی مجلس مشاورت میں اُردو اور غیر ملکی زبانوں میں اشاعت لٹریچر کے لئے دوکمپنیوں کے قیام کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ 1953ء میں الشرکۃ الاسلامیۃ لمیٹڈ اور دی اورینٹل ریلیجس پبلشنگ کارپوریشن لمیٹڈ کے نام سے دو اہم اشاعتی اداروں کا قیام عمل میں آیا جنہوں نے مختلف کتب، قرآن مجید اور دیگر اسلامی کتب کی طباعت و اشاعت کا کام خاص طور پرکیا۔ الشرکۃ الاسلامیۃ کی طرف سے روحانی خزائن، ملفوظات، مجموعہ اشتہارات، کتب حضرت خلیفہ المسیح الاولؓ، کتب حضرت مصلح موعودؓ، کتب حضرت مرزا بشیر احمدؓ، کلام حضرت نواب مبارکہ بیگمؓ، کتب مصنّفین سلسلہ، بچوں کے لئے کتب شائع ہوئیں۔ دی اورینٹل ریلیجس پبلشنگ کارپوریشن لمیٹڈکی طرف سے قرآن مجید انگریزی ترجمہ اور تفسیر، جرمن اور ڈچ ترجمہ وغیرہ شائع ہوئے۔ 1953ء میں سواحیلی میں قرآن کریم کا ترجمہ ہوا جس سے افریقہ میں اشاعت اسلام میں کافی تیزی آئی حتیٰ کہ جیل کے قیدیوں نے بھی اسلام قبول کیا۔
7 جولائی 1954ء کو ضیاء الاسلام پریس کا افتتاح ہوا۔ آپؓ نے قرآن، اس کے ترجمہ و تفسیر، حدیث، تاریخ احمدیت اور اسلامی لٹریچر کی وسیع اشاعت کے لئے 28نومبر1957ء کو ادارة المصنفین کا قیام فرمایا۔ جس نے تفسیر صغیر، تبویب مسند احمد بن حنبل، ہدایۃ المقتصد اردو ترجمہ وغیرہ شائع کئے۔ نیز مرکزی لائبریری قائم ہوئی۔
25 جون 1953ء کوحضور انورؓ نے فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ربوہ کا افتتاح فرمایا۔ جولائی 1955ء کو لندن میں حضور کا سب سے اہم کارنامہ عظیم الشان تبلیغی کانفرنس ہے جو تاریخ اسلام میں ایک انقلاب انگیز سنگ میل کی حیثیت سے کبھی فراموش نہیں کی جاسکے گی اور جس کے نتیجہ میں غیر اسلامی دُنیا میں تبلیغ کا ایک نیا دَور شروع ہوا۔ لندن میں مالٹا کے ایک انجنئیر نےحضور انور کے دستِ مبارک پر قبول اسلام کیا جس سے مالٹا میں جماعت احمدیہ کی بنیاد پڑی۔ اسی طرح سوئس دوست مسٹر سٹیوڈر کی بیعت ہوئی۔ حضور انورؓ نے مبلغین اسلام کی کانفرنس میں مفید مشورے دئیے اور تبلیغ اسلام کے لئے لائحہ عمل تجویز فرمایا۔
27 مئی 1957ء کو مرکز احمدیت ربوہ سمیت دُنیا بھر میں پہلا یوم خلافت منایا گیا۔ ستمبر 1957ء میں ربوہ میں سفیر انڈونیشا کی آمدہوئی۔ خلافت ثانیہ میں امریکہ میں واشنگٹن، جرمنی میں ہیمبرگ اور فرینکفرٹ، سوئٹزرلینڈ میں زیورک، ہالینڈ میں ہیگ، کینیا میں نیروبی کے علاوہ کئی ممالک میں 311 شاندار مساجد کی تعمیر ہوئی۔ آپؓ کے دَور خلافت میں قریباً 311 مساجد کی تعمیرو توسیع ہوئی۔
خلافتِ ثالثہ میں مرکز احمدیت ربوہ سے اشاعتِ اسلام (1965ء سے1982ء)
خلافتِ ثانیہ کی طرح خلافتِ ثالثہ میں بھی اشاعت اسلام میں مرکز احمدیت نے خوب کردار ادا کیا۔چنانچہ خلافت ثالثہ میں سپین مشن کا دوبارہ احیاء ہوا اورپہلےسے بڑھ کر وہاں تبلیغ ہونے لگی۔ سربراہ مملکت سپین جنرل فرانکو کے نام تبلیغی خط لکھا گیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 1970ء میں مغربی افریقہ کے بعد دَورہ سپین کیا ۔سپین کے دارالحکومت میڈرڈ پھر قرطبہ، غرناطہ، طلیطلہ وغیرہ میں تشریف لے گئےاور شوکت اسلام کے لئے پُر سوز دعائیں کیں۔ آپؓ نے سپین کی نسبت پیشگوئی فرمائی کہ ’’ہم مسلمان سپین میں تلوار کے ذریعہ داخل ہوئے اور اس کا جو حشر ہوا وہ ظاہرہے۔ اب ہم وہاں قرآن لے کر داخل ہوئے ہیں اور قرآن کی فتوحات کو کوئی طاقت زائل نہیں کرسکتی۔‘‘
(الفضل 7 جولائی 1970ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد11 صفحہ71)
6مئی 1966ء کو کوپن ہیگن ڈنمارک میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد نصرت جہاں کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔جس کا افتتاح 21جولائی 1967ء کو ہوا۔ قرآن کریم کا مکمل ڈینش ترجمہ1967ء میں ہی ڈنمارک کے مشہور پبلشر Borgen نے شائع کیا۔ 28۔اکتوبر 1966ء کو مسجد اقصیٰ ربوہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ جس کا افتتاح 1972ء میں حضور انور نے فرمایا۔
1967ء میں مرکز احمدیہ ربوہ میں علمی تقاریر کے اجلاس ہوتے تھے۔ حضور انور نے اس مجلس کا نام مجلس ارشاد مرکزیہ رکھا اور ہر جماعت میں مجلس ارشاد کے قیام کا ارشادفرمایا۔
جنوری 1968ء میں جماعت احمدیہ کینیڈا کا باقاعدہ قیام ہوا۔ مئی1969ء میں آئس لینڈ میں پہلی دفعہ اشاعت اسلام کے لئے مبلغ گئے۔
18جنوری 1970ء کو خلافت لائبریری کاسنگ بنیاد رکھا۔جس کا افتتاح اکتوبر1971ء کو فرمایا۔ 8مارچ 1970ء کو جامعہ نصرت اور سائنس بلاک کا سنگ بنیاد رکھا۔ 1970ء میں حدیقۃ المبشرین کا قیام فرمایا۔ 24 جون 1970ء کو مجلس نصرت جہاں قائم فرمائی۔اسی روز تعلیم الاسلام کالج کی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔
1970ء میں ہی حضور انور نے دَورہ یورپ اور مغربی افریقہ فرمایا جس کے دوران مسجد محمود زیورک اور محمودہال لندن کا افتتاح فرمایا۔ مغربی افریقہ کے دَورہ مختلف ممالک کے صدور سے ملاقات کرکے اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ جن میں صدر نائیجیریا، صدرغانا، صدر لائبیریا، صدر گیمبیا، صدر سیرالیون وغیرہ شامل ہیں۔
خلافت ثالثہ میں مبلغین کی بیرون ممالک میں آمد و روانگی کا سلسلہ جاری رہا۔ صرف 1970ء میں 14 مبلغین اشاعتِ اسلام کا فرض ادا کر کے ربوہ واپس آئے اور 11 مبلغین بیرون ملک اشاعت اسلام کے لئے روانہ ہوئے۔
1974ء میں یوگنڈا کی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر شائع ہوئی۔27ستمبر 1975ء کوسویڈن کی پہلی مسجد ناصر گوٹن برگ کا سنگ بنیادرکھا۔ جس کا افتتاح 20۔اگست1976ء کو ہوا۔ 1976ء میں یوروبا زبان میں نائیجیریا سے قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہوا۔ 1979ء میں غانا سے انگریزی ترجمہ کی اشاعت ہوئی۔ 1980ء میں بیت النور اوسلو ناروے کا افتتاح فرمایا۔ نیز مانچسٹر، ہڈرزفیلڈ اور بریڈ فورڈ میں احمدیہ مشن ہاؤسز کاافتتاح فرمایا۔ 9۔اکتوبر1980ء کو سپین میں مسجد بشارت کا سنگ بنیار رکھاگیا۔ جون 1982ء میں افریقہ کے ملک ٹوگو میں پہلی مسجد کی تعمیر ہوئی۔ 1981ء میں ٹوکیوجاپان میں مشن ہاؤس کا فتتاح ہوا۔
خلافت رابعہ میں مرکز احمدیت ربوہ سے اشاعت اسلام (1982ء تا 1984ء)
خلافت ثالثہ کے بعد 10جون 1982ء کو خلافت رابعہ کے قیام کے بعد بھی مرکز احمدیت سے اشاعت اسلام میں نمایاں ترقی ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آغاز خلافت میں 28جولائی 1982ء کو دَورہ یورپ کیا اور ناروے، سویڈن، ڈنمارک، مغربی جرمنی، آسٹریا، سوئٹزر لینڈ، فرانس، لکسمبرگ، ہالینڈ، سپین، برطانیہ اور سکاٹ لینڈ تشریف لے گئے۔ اسی دَورہ میں آپؒ نے 10ستمبر 1982ء کو 700 سو سال بعد بننے والی بیت بشارت پیدرو آباد سپین کا افتتاح فرمایا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نےاشاعت اسلام اوردعوت الی اللہ کے لئے خدام اور انصار کو غیر ملکی زبانیں سیکھنے کی تحریک فرمائی اور اس سلسلہ میں مرکز ربوہ میں ایک ادارہ کے قیام کا بھی اعلان فرمایا۔ پھر 2دسمبر 1982ء کو دُنیا کےتمام اہل علم احمدیوں کو اسلام پر جدید علوم کےذریعہ ہونیوالے حملوں کے دفاع کے لئےعلمی جہاد کی تلقین فرمائی۔
15دسمبر 1982ء کو امریکہ میں پانچ نئے مشن ہاؤسز اور مساجد کے قیام کی تحریک فرمائی۔ 1983ء میں آپؒ نے تحریک دعوت الیٰ اللہ فرمائی۔ پھر اگست تا اکتوبر 1983ء دَورہ مشرق بعید اور دَورہ آسٹریلیا فرمایا اور بیت الہدیٰ آسٹریلیا کاسنگ بنیاد رکھا۔ خلافت رابعہ کے آغاز میں مرکز احمدیت ربوہ سےحضور انور اور دیگر علماء کےدَورہ جات اور تحریر و تقریر سے اشاعت اسلام ہوئی جس کے نتیجہ میں احمدیت کا کئی علاقوں میں نفوذ ہوا۔
نئے مرکز احمدیت لندن کا قیام اور اشاعت اسلام (1984ء تا 2003ء)
پاکستان میں جماعت احمدیہ پراینٹی احمدیہ آرڈیننس کے نتیجہ میں بے جا مذہبی پابندیوں اور ناانصافیوں کے باعث 29 اپریل 1984ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ربوہ سے لندن ہجرت فرمائی اور 37 سال بعد جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے تیسرا مرکز لندن عطا فرمایا۔ جس کے نتیجہ میں اشاعت اسلام اور تبلیغ احمدیت کا دائرہ نہایت وسیع ہوگیا اور ترقی احمدیت کا ایک اورنیا دَور شروع ہوا۔
8 مئی 1984ء کو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اشاعت اسلام کے کام کو وسیع کرنے کے لئےایک پروگرام کا اعلان فرمایا اور اس غرض سے انگلستان اور جرمنی میں دو نئے یورپین مراکزقائم ہوئے۔ خلافت رابعہ میں فرانس، پرتگال، آئرلینڈ، بیلجیئم، پولینڈ، ترکی، البانیہ، بلغاریہ، کوسووو، بوسنیا وغیرہ میں پہلی دفعہ مشن ہاؤسز اورمساجد قائم ہوئیں۔ خلافت رابعہ کے آغاز پر یورپ میں مشن ہاؤسز کی تعداد 16 تھی لیکن خلافت رابعہ کے آخر تک مشن ہاؤسز اور مساجد کی تعداد148 تک پہنچ گئی۔
20 ستمبر 1986ء کو بیت السلام کینیڈا کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔3 اپریل 1987ء کو اشاعت اسلام کے لئے وقفِ نو کی انقلاب انگیز تحریک کو قائم فرمایا۔یکم اگست 1987ء کو نائیجیریا کے دو بادشاہوں کو حضرت مسیح موعودؑ کے کپڑوں کا تبرک عطا کیا گیا۔جنوری 1988ء میں حضور انور نے مغربی افریقہ کا پہلا دَورہ فرمایا۔1989ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جرمنی میں 100 مساجد بنانے کی تحریک فرمائی۔ اسی سال 19۔اکتوبر1989ء کو حضور انورنے بیت الفتوح کا سنگ بنیاد رکھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنے خطبہ جمعہ بمقام لاس اینجلس امریکہ فرمودہ 7 جولائی 1989ء میں واشنگٹن میں مرکزی مسجد کی تعمیر میں احباب جماعت کو حصہ لینے کی تحریک فرمائی۔ بیلجیئم، مسی ساگا، قطب شمالی مساجد کی تعمیر کی تحریک فرمائی۔ دسمبر 1991ء میں حضور انور نے مرکز احمدیت لندن سے احمدیت کےمرکز اول قادیان کا سفر فرمایا اور جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت فرمائی۔17اکتوبر1992 بیت الذکر ٹورانٹو کا افتتاح ہوا۔ 31 جولائی 1993ء کو پہلی عالمی بیعت ہوئی جس میں 2 لاکھ احباب جماعت نے شرکت کی۔خلافت رابعہ کے آخر 2002ء میں یہ تعداداللہ تعالیٰ کے فضل سے 2 کروڑ تک جا پہنچی۔ 7جنوری 1994ء کو ایم ٹی اے کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ جس سے اسلام احمدیت کا پیغام پوری دُنیا میں پہنچا۔ جنوری 1994ء میں بیت الرحمٰن میری لینڈ کا افتتاح ہوا۔ 2000ء میں حضور انور نے انڈونیشیا کا دَورہ فرمایا۔
غرضیکہ نئے مرکز لندن سے اشاعت اسلام کا حق پہلے سے بڑھ کر ادا ہوا۔ہجرت لندن کے بعد مختلف ممالک میں13065 نئی مساجد کا اضافہ ہوا اور 958 مشن ہاؤسز قائم ہوئے۔52 زبانوں میں قرآن کریم کاترجمہ ہوااور ہجرت کے بعد 84 نئے ممالک میں احمدیت کے نفوذ کے ساتھ 35258 جماعتیں قائم ہوئیں۔
خلافت خامسہ میں مرکز احمدیت کا اشاعت اسلام میں کردار (2003ء تا 2019ء)
اپریل2003ء میں ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مسند خلافت پر متمکن ہوئےاورمرکز احمدیت سے اشاعت اسلام کا ایک نیا بابرکت دَور شروع ہوا اور اس میدان میں اس قدر نمایاں ترقیات ہوئیں جن کا اس مضمون میں احاطہ کرنا دریا کو کوزہ میں بند کرنے کے مترادف ہے۔لہٰذا یہاں چند اہم باتوں کا ہی ذکر ہوسکے گا جس سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ خلافت خامسہ میں مرکز احمدیت لندن کے ذریعہ اشاعت اسلام میں کیسی بے مثال ترقی ہوئی۔ اس دَور میں ہونیوالی تبلیغی مساعی نے خلفائے راشدین اور حضرت عمر بن عبد العزیزؓ کے دور کی یاد تازہ کردی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسند خلافت پر متمکن ہوتے ہی جماعت احمدیہ کی ترقی اور احباب جماعت کی تربیت کی طرف خصوصی توجہ فرمائی۔ سب سے پہلے آپ نے دعاؤں کی تحریکات کے بعد تربیتی، روحانی، مالی، خدمت انسانیہ کی تحریکات فرمائیں۔ حضور انور نے اشاعت اسلام اوراحمدیت کا پیغام دینا کے کناروں تک پہنچانے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا۔
’’پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ گزشتہ کوتاہیوں پر خدا تعالیٰ سے معافی مانگیں اور مغفرت طلب کریں اور آئندہ ایک جوش اور ایک ولولے اور جذبے کے ساتھ احمدیت کے پیغام کو دُنیا میں پھیلانے کے لئے آگے بڑھیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ 8۔اکتوبر2004ء از الفضل انٹرنیشنل 7مارچ 2008ء)
آپؓ نےتبلیغ اور اشاعت اسلام کے لئےحضرت مسیح موعودؑ کے علم کلام سے فائدہ اُٹھانے کی تحریک فرمائی۔ (خطبہ جمعہ 11جون 2004ء) احمدیت کا پیغام پوری دنیا میں پہنچانے کے لیےواقفین نو کو زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا۔ ’’اس ضمن میں میں واقفین نو سے بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ واقفین نو جو شعور کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور جن کا زبانیں سیکھنے کی طرف رجحان بھی ہے اور صلاحیت بھی ہے۔ خاص طور پر لڑکیاں۔ وہ انگریزی، عربی، اُردو اور ملکی زبان جو سیکھ رہی ہیں جب سیکھیں تو اس میں اتنا عبور حاصل کر لیں کہ جماعت کی کتب اور لٹریچروغیرہ کا ترجمہ کرنے کے قابل ہوسکیں تبھی ہم ہر جگہ نفوذ کر سکتے ہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ 18جون 2004ء)
دنیاوی حالات کے پیش نظرجرنلزم پڑھنے کی طرف توجہ کی ہدایت فرمائی۔ پھر حضور انورنےقلم کے ذریعہ جہاد کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’حکم اور عدل نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ اس زمانے میں میرے آنے کے ساتھ تیر و تفنگ تلوار بندوق کے ساتھ جہاد بند ہے اور اب جہاد کے لئے تم وہی حربے استعمال کرو جو مخالفین استعمال کررہے ہیں۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل یکم فروری 2008ء)
اسی ضمن میں انگریزی زبان دانوں کو قلمی جہاد میں شامل ہونے کا فرمایا۔پھر جب مغربی ممالک میں رسول اللہؐ کے متعلق مغرب میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت وغیرہ ہوئی تو حضور انور نے اس غلط پروپیگنڈہ کے ردّ کے لئے آپؐ کے محاسن سے آگاہ کرنے اور کثرت سے درود شریف پڑھنے کے ساتھ رسول اللہ ﷺ پر اعتراضات کے جواب دینے کے لیے ٹیمیں تیار کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا۔
’’مجھے خیال آیا کہ ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کو بھی کہوں کہ وہ بھی ان چیزوں پر نظر رکھیں……اس لئے یہاں خدام الاحمدیہ بھی کم از کم 100 ایسے لوگ تلاش کرے جو اچھے پڑھے لکھے ہوں جو دین کا علم رکھتے ہوں اور اسی طرح لجنہ اپنی100نوجوان بچیاں تلاش کرکے ٹیم بنائیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ 18فروری 2005ء)
مذہبی رہنماؤں اور سربراہان مملک کو تبلیغی خطوط
ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اشاعت اسلام کی خاطر اُسوۂ رسولؐ اور سنت خلفائے راشدین کے مطابق مذہبی رہنماؤں اورسربراہان مملکت کو خطوط لکھے جن میں انہیں اشاعت توحیدواسلام اور امن عالم کے قیام کی دعوت دی۔ چنانچہ 10نومبر 2011ء کو پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کے نام، 26فروری 2012ء کواسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نیتن یاہوکو، 7مارچ 2012ء کوایران کے صدر احمدی نژادکے نام، 8مارچ 2012ء کو امریکہ کے صدر بارک اوباما اور کینیڈا کے وزیر اعظم اسٹیون ہارپرکو خطوط تحریر فرمائے۔ 28مارچ 2012ء کو سعودی عرب کے شہنشاہ عبد اللہ بن عبد العزیز السعود کو، 9اپریل 2012ء کوچین کے وزیر اعظم Wen Jiabo کو خطوط لکھے۔ 15اپریل 2012ء کوبرطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اورجرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کو 16مئی 2012ء کوفرانس کے صدر کو 19۔اپریل 2012ء کوبرطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم کو اور 14 مئی2012ء کوایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ سید علی حسینی خامنہ ای کو خطوط تحریر فرمائے۔
بین المذاہب کانفرنسز، امن کانفرنسز اور امن سمپوزیمز کا انعقاد
خلافت خامسہ میں مرکز احمدیت لندن سے دُنیا میں اشاعت اسلام کےلئے ایک اور اہم ذریعہ اختیار کیا گیا جس میں بین المذاہب کانفرنسز،امن کانفرنسز اور امن سمپوزیمز وغیرہ کا انعقاد ہوا۔جن میں اسلام کو امن کا مذہب بیان کرکے اسلامی تعلیمات کو مان کر اس پر عمل کرنے اور اس کے ذریعہ سے امن عالم کے حصول کی کوششوں کی طرف توجہ دلائی۔چنانچہ 25اپریل 2004ء کو نیشنل سالانہ امن سپوزیم کا انعقاد ہوا۔ 29 مارچ 2008ء کو خلافت جوبلی کانفرنس منعقد ہوئی۔ 23مارچ 2013ء کو دسواں نیشنل امن سمپوزیم ہوا۔اس کے علاوہ احمدیہ مسلم امن ایوارڈز اور انعامات بھی تقسیم ہوئے۔
دورہ جات و خطابات
خلافت خامسہ میں مرکز احمدیت سے حضور انور نے اشاعت اسلام کی غرض سے مختلف ممالک میں دورہ جات فرمائے اورپارلیمنٹس میں خطابات فرمائے۔چنانچہ 22اکتوبر 2008ء کوبرطانوی پارلیمنٹ، ہاؤسز آپ پارلیمنٹ میں پُراثرخطاب فرمایا۔ پھر جماعت احمدیہ برطانیہ کے زیر اہتمام طاہر ہال مسجد بیت الفتوح (لندن) میں نویں سالانہ امن سمپوزیم میں حکومتی وزراء اور دیگر حکومتوں کے سفراء، برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران، لندن اور شہر کی معزز شخصیات کوامن عالم کے قیام کے سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نےخطاب فرمایا۔ 20ستمبر 2011ء کو یورپین پارلیمنٹ برسلز (بیلجیئم) میں پہلی دفعہ جماعت احمدیہ کے متعلق پر شوکت تقریب ہوئی۔ 27جون 2012ء کوکیپیٹل ہل واشنگٹن ڈی سی میں اور 4دسمبر 2012ء کو یورپین پارلیمنٹ میں حضور انور کا خطاب ہوا۔
مساجد کی تعمیر
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اشاعت توحیدواسلام کی غرض سے مساجد کی تعمیر کی طرف خصوصی توجہ دلائی۔ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی جرمنی میں 100 مساجد والی تحریک پر تیزی سے کام کرنے کی تلقین کی اور خلافت خامسہ کے دور میں جرمنی کے ہر شہر میں مسجد بنانے کی تحریک فرمائی۔ پھر ہارٹلےپول اور بریڈ فورڈ کی مساجدکے لئے چندہ کی تحریک فرمائی۔ویلینشیا سپین میں مسجد بنانے کی طرف توجہ دلائی۔ہالینڈ میں مساجد کی تعمیر کی تحریکات فرمائیں۔ نیزپرتگال اور برلن میں مسجدکی تحریک فرمائی۔
ان تحریکات کے نتیجہ میں کثیر تعداد میں مساجد کی تعمیر ہوئی۔چنانچہ 3اکتوبر 2003ء کومسجد بیت الفتوح لندن کا افتتاح ہوا۔ پھر مسجد بیت النور کیلگری کینیڈا اور17اکتوبر 2008ء کومسجد خدیجہ برلن جرمنی کا افتتاح ہوا۔ مسجدابوجا نائیجیریاکا افتتاح 29اپریل 2008ء کو ہوا۔ 7نومبر 2008ء کومسجد المہدی بریڈ فورڈ UK اور29مارچ 2013ء کو بیت الرحمان ویلنشیا سپین 29مارچ 2013ء کے افتتاح کی تقریب منعقد ہوئی۔
جامعات احمدیہ کا قیام
خلافت خامسہ کے دور میں جامعہ احمدیہ قادیان حضور انور کی ہدایت پر سرائے طاہر میں منتقل کر دیا گیا اوراشاعت اسلام کے لئے مبلغین کی ضرورت کے پیش نظر جامعہ احمدیہ قادیان اور ربوہ کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی جامعات قائم ہوئے۔ جامعہ احمدیہ کینیڈا کا اجراء 7ستمبر 2003ء کو خلافت خامسہ کے دور میں مسی ساگا کے جماعتی سنٹر بیت الحمد میں ہوا۔ ستمبر 2012ء میں یہ جامعہ ایوان طاہر کی تیسری منزل پر منتقل کر دیا گیا۔
جامعہ احمدیہ برطانیہ کا افتتاح حضور انور نے ستمبر2005ء میں فرمایا۔جامعہ احمدیہ انٹر نیشنل غانا کی عمارت52 ایکڑ رقبہ پر تعمیر ہوئی جس کا افتتاح 26اگست 2012ء کو جناب ڈاکٹر مولوی عبد الوہاب آدم امیر جماعت غانا نے فرمایا۔ جامعۃ المبشرین (احمدیہ مسلم مشنری ٹریننگ کالج) کا اجراء 21 مارچ 1966ء کو سالٹ پانڈ میں ہوا۔ 14مارچ 2004ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نئی عمارت کا افتتاح فرمایا۔ یکم مارچ 2005ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جامعۃ المبشرین میں مدرسۃ الحفظ کا آغاز فرمایا۔ جامعہ احمدیہ جرمنی 7000 مربع فٹ رقبہ پر تعمیر ہوا جس کا افتتاح حضور انور نے17دسمبر 2012ء کو فرمایا۔
عربوں میں تبلیغ احمدیت
خلافت خامسہ میں عربی زبان میں اسلام کے خلاف حملوں کا جواب خودحضورانور نے اپنے خطبات اور خطابات میں دیئے اور اس بارہ میں پروگرام تیار کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اس طرح متعدد پروگرامز کی سیریز شروع کی گئیں جن میں ’’اجوبۃ عن الایمان‘‘ اور ’’الحوار المباشر‘‘ شامل ہیں۔ پھر خلافت خامسہ میں ہی مکمل عربی چینل MTA3 کا اجراء ہوا جس پر 24گھنٹے عربی پروگراموں کی نشریات کا آغاز ہوا۔جس کا عرب دُنیا پر مثبت اثر ہوا۔ ایسے ہی دوسرے کئی لائیو پروگرام شروع ہوئے۔ جس کی وجہ سے عرب ممالک میں بیعتیں ہوئیں اور عرب ممالک میں متعددجماعتیں قائم ہوئیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے عہد خلافت کے شروع میں حضرت مسیح موعودؑ کے پیغام کو وسیع پیمانے پر عربوں میں پہنچانے کے لیے عربی کتب اور لٹریچر کی اشاعت کا ارشاد فرمایا تھا۔ چنانچہ اب تک کثیر تعداد میں جماعتی تصنیفات کے عربی تراجم شائع ہوچکے ہیں۔
خلافت خامسہ میں اشاعت اسلام کی ہونیوالی مساعی اور ان کے نتائج (2018ء تک)
خلافت خامسہ میں مرکز احمدیت سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں اشاعت اسلام میں جو مساعی جلیلہ ہوئیں اُن کے نتیجہ میں دُنیا کے 212ممالک میں احمدیت قائم ہوچکی ہے۔ صرف سال 2018ء میں ہی پاکستان کے علاوہ دُنیا میں 899 باقاعدہ نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور411 نئی مساجد جماعت احمدیہ کو ملیں۔ اب تک 2826 مشن ہاؤسزقائم ہوچکے ہیں۔ 2018ء تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے 75زبانوں میں قرآن کریم کا مکمل ترجمہ طبع ہو چکا ہے۔
سال 2018ء میں مختلف ممالک میں مختلف عناوین پر مشتمل فری لٹریچر، کتب، فولڈرز اور پمفلٹس کے ذریعہ ایک کروڑ 42لاکھ 27ہزار 893 افراد تک احمدیت یعنی حقیقی اسلام کاپیغام پہنچایا گیا اور مختلف ممالک میں قرآن مجید اور جماعتی لٹریچر کی نمائشوں کے ذریعہ 38لاکھ 85ہزار 367افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچا۔ اس کے علاوہ 15ہزار 25بکسٹالز اور بک فیئرز کے ذریعہ 41لاکھ 93ہزار 944افراد تک پیغام پہنچانے کی توفیق ملی۔ اسی طرح عربی، فرنچ، رشین، ٹرکش، ڈیسکز کے تحت کتب اور لٹریچر شائع ہورہا ہے اور خطبات جمعہ کا ان زبانوں میں ترجمہ لوگوں تک لائیو سنایا جارہا ہے۔ خدمت دین کے لئے وقف ہونے والے دُنیا بھر میں واقفین نو کی کل تعداد 66ہزار 525 ہے۔ جس میں سے 39ہزار 814 لڑکے ہیں اور 26ہزار 711 لڑکیاں ہیں۔
جماعتی مرکزی ویب سائیٹ میں قرآن کریم و کتب احادیث وجماعتی لٹریچر موجود ہے جس سے پوری دُنیا کے لوگ استفادہ کررہے ہیں۔ریویو آف ریلجنز اور ہفت روزہ الحکم بھی اشاعت اسلام میں پہلے سے بڑھ کر ممدو معاون ہیں۔ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے ذریعہ سے اشاعت اسلام میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے۔ ایم ٹی اے اولیٰ ، ایم ٹی اے ثانیہ ، ایم ٹی اے العربیہ ، ایم ٹی اے افریقہ 1، ایم ٹی اے افریقہ 2 پر 17مختلف زبانوں میں خطبات جمعہ براہ راست نشر کیاجاتا ہےاوراس کے ذریعہ سے بیعتیں بھی ہورہی ہیں۔مرکز احمدیت سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رہنمائی اور ان تبلیغی ذرائع سے ہر سال لاکھوں افراد احمدیت قبول کرنے کی سعادت پارہے ہیں۔ صرف 2018ء میں ہی 129ممالک سے تقریباً 300 اقوام کے 6لاکھ 47ہزار سے زیادہ لوگوں نے بیعت کی۔
لندن سے اسلام آباد میں مرکز کا منتقل ہونا اور اشاعت توحید و اسلام (15اپریل2019ء تاحال)
15۔اپریل2019ء کےبابرکت دن قریباً35 سال بعدمرکز احمدیت مسجد فضل لندن سے اسلام آباد ٹلفورڈمنتقل ہوا۔یوں خلافت خامسہ میں اشاعت اسلام اور جماعت احمدیہ کی ترقیات کا ایک نیا دَور شروع ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 16 سال احاطہ مسجد فضل لندن میں قیام کے بعد اسلام آباد کو نیامرکز احمدیت قرار دیتے ہوئے فرمایا۔
’’اللہ تعالیٰ اسلام آباد سے اسلام کی تبلیغ کو پہلے سے زیادہ وسعت فرمائے اور ’’وَسِّعْ مَکَانَکَ‘‘ صرف مکانیت کی وسعت کا ذریعہ ہی نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے منصوبوں کی تکمیل میں وسعت کا ذریعہ بنے……اللہ تعالیٰ اس منصوبے کو اور وہاں منتقل ہونے کو ہرلحاظ سے بابرکت فرمائے۔ آمین‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 12اپریل 2019ء)
نئے مرکز احمدیت اسلام آباد میں مسجد مبارک کا باقاعدہ افتتاح رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں مورخہ 17مئی 2019ء بروز جمعۃالمبارک کو ہوا۔ حضور انور نے خطبہ جمعہ میں دیگر نصائح کے ساتھ نئے مرکز احمدیت کے حوالہ سے یہ نصیحت بھی فرمائی کہ
’’توحید سے خالی اور شرک سے بھرےہوئےدُنیا کے اس خطّے میں نئے مرکز کے ذریعے خداتعالیٰ نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ نئے عزم کے ساتھ دُنیامیں توحید کے پھیلانے کا کام کریں۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ17 مئی 2019ء)
ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمورخہ 14 جون 2019ء بروز جمعۃ المبارک مسجد بیت الفتوح میں ’’التقویٰ‘‘ کی ویب سائٹ کا افتتاح فرمایا۔ جس کے بعدحضورِ انورنے الفضل انٹرنیشنل کی جدید ویب سائٹ www.alfazl.com اور موبائل فون اپلیکیشنز کا اجراء فرمایا۔ الفضل انٹرنیشنل خلافت خامسہ میں حضور انور کی رہنمائی میں ہفت روزہ سے سہ روزہ میں بدل چکا ہے جو شروع سے ہی اشاعت اسلام میں ایک اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔
نئے مرکز احمدیت اسلام آباد،ٹلفورڈ سے حضور انور کا پہلابیرون ملک دورہ جرمنی2 جولائی 2019ء کو ہوااور آپ جماعت احمدیہ جرمنی کے مرکزبیت السبوح جرمنی تشریف لےگئے۔اوریوں نئے مرکز احمدیت سےاشاعت توحیداوراسلام کا اہم فریضہ پہلے سے بڑھ کر احسن رنگ میں ادا ہورہا ہے۔
پس مرکز احمدیت سے قادیان جیسی گمنام بستی مرجع خلائق خواص و عام ہوئی، ربوہ جیسا بے آب و گیاہ علاقہ دینی و دُنیاوی لحاظ سےسرسبز و شاداب ہوا، ساؤتھ فیلڈز جیسا لندن کاعام شہر بین الاقوامی سطح پر مشہورومعروف ہوگیا اور اب اسلام آباد ٹلفورڈ کی زمین کو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بابرکت قدموں سے برکت نصیب ہوئی جس کے عظیم الشان اثرات ہر چڑھتے دن کے ساتھ ہم دیکھتے چلے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اس نئے مرکز احمدیت سے اسلام کی تبلیغ کو زیادہ وسعت دے اور ہم سب کو نئے عزم کے ساتھ دُنیا میں توحید کی اشاعت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(باسل احمد بشارت)